Ayats Found (6)
Surah 2 : Ayat 97
قُلْ مَن كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيلَ فَإِنَّهُۥ نَزَّلَهُۥ عَلَىٰ قَلْبِكَ بِإِذْنِ ٱللَّهِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَهُدًى وَبُشْرَىٰ لِلْمُؤْمِنِينَ
اِن سے کہو کہ جو کوئی جبریل سے عداوت رکھتا ہو1، اسے معلوم ہونا چاہیے کہ جبریل نے اللہ کے اِذن سے یہ قرآن تمہارے قلب پر نازل کیا ہے2، جو پہلے آئی ہوئی کتابوں کی تصدیق و تائید کرتا ہے3 اور ایمان لانے والوں کے لیے ہدایت اور کامیابی کی بشارت بن کر آیا ہے4
4 | اِ س میں لطیف اشارہ ہے اس مضمون کی طرف کہ نادانو، اصل میں تمہاری ساری ناراضی ہدایت اور راہِ راست کے خلاف ہے۔ تم لڑ رہے ہو اُس صحیح رہنمائی کے خلاف ، جسے اگر سیدھی طرح مان لو، تو تمہارے ہی لیے کامیابی کی بشارت ہو |
3 | مطلب یہ ہے کہ یہ گالیاں تم اسی لیے تو دیتے ہو کہ جبریل یہ قرآن لے کر آیا ہے اور حال یہ ہے کہ یہ قرآن سراسر تورات کی تائید میں ہے۔ لہٰذا تمہاری گالیوں میں تورات بھی حصّے دار ہوئی |
2 | یعنی اس بنا پر تمہاری گالیاں جبریل پر نہیں بلکہ خداوندِ برتر کی ذات پر پڑتی ہیں |
1 | یہُودی صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ پر ایمان لانے والوں ہی کو بُرا نہ کہتے تھے، بلکہ خدا کے برگزیدہ فرشتے جبریل کو بھی گالیاں دیتے تھے اور کہتے تھے کہ وہ ہمارا دشمن ہے۔ وہ رحمت کا نہیں، عذاب کا فرشتہ ہے |
Surah 16 : Ayat 89
وَيَوْمَ نَبْعَثُ فِى كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيدًا عَلَيْهِم مِّنْ أَنفُسِهِمْۖ وَجِئْنَا بِكَ شَهِيدًا عَلَىٰ هَـٰٓؤُلَآءِۚ وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ ٱلْكِتَـٰبَ تِبْيَـٰنًا لِّكُلِّ شَىْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَىٰ لِلْمُسْلِمِينَ
(اے محمدؐ، اِنہیں اُس دن سے خبردار کر دو) جب کہ ہم ہر امت میں خود اُسی کے اندر سے ایک گواہ اٹھا کھڑا کریں گے جو اُس کے مقابلے میں شہادت دے گا، اور اِن لوگوں کے مقابلے میں شہادت دینے کے لیے ہم تمہیں لائیں گے اور (یہ اسی شہادت کی تیاری ہے کہ) ہم نے یہ کتاب تم پر نازل کر دی ہے جو ہر چیز کی صاف صاف وضاحت کرنے والی ہے1 اور ہدایت و رحمت اور بشارت ہے اُن لوگوں کے لیے جنہوں نے سر تسلیم خم کر دیا ہے2
2 | یعنی جولوگ آج اِس کتاب کو مان لیں گے اوراطاعت کی راہ اختیار کر لیں گے ان کو یہ زندگی کے ہر معاملہ میں صحیح رہنمائی دے گی اور اس کی پیروی کی وجہ سے اُن پراللہ کی رحمتیں ہوں گی اور انہیں یہ کتاب خوشخبری دے گی کہ فیصلہ کے دن اللہ کی عدالت سے وہ کامیاب ہو کر نکلیں گے۔ بخلاف اس کے جو لوگ اسے نہ مانیں گے وہ صرف یہی نہیں کہ ہدایت اور رحمت سے محروم رہیں گے، بلکہ قیامت کے روز جب خدا کا پیغمر ان کے مقابلہ میں گواہی دینے کو کھڑا ہو گا تو یہی دستاویز اُن کے خلاف ایک زبردست حجت ہو گی۔ کیونکہ پیغمبرؐ یہ ثابت کر دے گا کہ اس نے وہ چیز انہیں پہنچا دی تھی جس میں حق اور باطل کا فرق کھول کر رکھ دیا گیا تھا۔ |
1 | یعنی ہرایسی چیز کی وضاحت جس پرہدایت وضلالت اور فلاح و خسران کا مدارہے،جس کا جاننا راست روی کے لیے ضروری ہے،جس سے حق اور باطل کا فرق نمایاں ہوتاہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔غلطی سے لوگ تُبِیَانًا لِکُلِ شَیءٍ اوراس کی ہم معنی آیات کا مطلب یہ لے لیتے ہیں کہ قرآن میں سب کچھ بیان کردیاگیا ہے۔پھر وہ اسے نباہنے کےلیے قرآن سے سائنس اور فنون کے عجیب عجیب مضامین نکالنے کی کوشش شروع کردیتے ہیں۔ |
Surah 16 : Ayat 102
قُلْ نَزَّلَهُۥ رُوحُ ٱلْقُدُسِ مِن رَّبِّكَ بِٱلْحَقِّ لِيُثَبِّتَ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَهُدًى وَبُشْرَىٰ لِلْمُسْلِمِينَ
اِن سے کہو کہ اِسے تو روح القدس نے ٹھیک ٹھیک میرے رب کی طرف سے بتدریج نازل کیا ہے1 تاکہ ایمان لانے والوں کے ایمان کو پختہ کرے 2اور فرماں برداروں کو زندگی کے معاملات میں سیدھی راہ بتائے3 اور اُنہیں فلاح و سعادت کی خوش خبری دے4
4 | یہ اُس کی تیسری مصلحت ہے۔یعنی یہ کہ فرماں برداروں کو جن مزاحمتوں اورمخالفتوں سے سابقہ پیش آرہا ہےاور جس جس طرح انہیں ستایااور تنگ کیا جارہا ہے،اور دعوتِ اسلامی کے کام میں مشکلات کےجو پہاڑ سدّ راہ ہورہے ہیں،ان کی وجہ سےوہ باربار اس کے محتاج ہوتے ہیں کہ بشارتوں سے ان کی ہمت بندھائی جاتی رہے اور ان کوآخری نتائج کی کامیابی کا یقین دلایا جاتارہے تاکہ وہ پُرامید رہیں اوردل شکستہ نہ ہونے پائیں۔ |
3 | یہ اس تدریج کی دوسری مصلحت ہے۔یعنی یہ کہ جو لوگ ایمان لا کر فرمانبرداری کی راہ چل رہے ہیں ان کو دعوتِ اسلامی کے کام میں اور زندگی کےپیش آمدہ مسائل میں جس موقع پرجس قسم کی ہدایات درکار ہوں وہ بروقت دے دی جائیں۔ظاہر ہےکہ نہ انہیں قبل ازوقت بھیجنا مناسب ہو سکتاہے،اورنہ بیک وقت ساری ہدایات دے دینا مفید ہے۔ |
2 | یعنی اُس کے بتدریج اِس کلام کو لے کر آنے اور بیک وقت سب کچھ نہ لے آنے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ اللہ کے علم و دانش میں کوئی نقص ہے، جیسا کہ تم نے اپنی نادانی سے سمجھا، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کی قوتِ فہم اور قوتِ اخذ میں نقص ہے جس کے سبب سے وہ بیک وقت ساری بات کو نہ سمجھ سکتا ہے اور نہ ایک وقت کی سمجھی ہوئی بات میں پختہ ہو سکتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالٰی کی حکمت اِس بات کی مقتضی ہوئی کہ روح القدس اِس کلام کو تھوڑا تھوڑا کر کے لائے، کبھی اجمال سے کام لے اور کبھی اسی بات کی تفصیل بتائے، کبھی ایک طریقہ سے بات سمجھائے اور کبھی دوسرے طریقے سے، کبھی ایک پیرایۂ بیان اختیار کرے اور کبھی دوسرا، اور ایک ہی بات کو بار بار طریقے طریقے سےذہن نشینن کرنے کی کوشش کرے، تاکہ مختلف قابلیتوں اور استعدادوں کے طالبینِ حق ایمان لا سکیں اور ایمان لانے کے بعد علم و یقین اور فہم و ادراک میں پختہ ہو سکیں۔ |
1 | روح القدس“ کا لفظی ترجمہ ہے”پاک رُوح“ یا ”پاکیزگی“۔ اور اصطلاحًا یہ لقب حضرت جبریلؑ کو دیا گیا ہے۔ یہاں وحی لانے والے فرشتے کا نام لینے کے بجائے اس کا لقب استعمال کرنے سے مقصود سامعین کو اس حقیقت پر متنبہ کرنا ہے کہ اِس کلام کو ایک ایسی روح لے کر آرہی ہے جو بشری کمزوریوں اور نقائص سے پاک ہے۔ وہ نہ خائن ہے کہ اللہ کچھ بھیجے اور وہ اپنی طرف سے کمی بیشی کر کے کچھ اور بنادے۔ نہ کذّاب و مفتری ہے کہ خود کوئی بات گھڑ کے اللہ کے نام سے بیان کر دے۔ نہ بدنیت ہے کہ اپنی کسی نفسانی غرض کی بنا پر دھوکے اور فریب سے کام لے۔ وہ سراسر ایک مقدس و مطہر روح ہے جو اللہ کا کلام پوری امانت کے ساتھ لا کر پہنچاتی ہے۔ |
Surah 17 : Ayat 8
عَسَىٰ رَبُّكُمْ أَن يَرْحَمَكُمْۚ وَإِنْ عُدتُّمْ عُدْنَاۘ وَجَعَلْنَا جَهَنَّمَ لِلْكَـٰفِرِينَ حَصِيرًا
ہوسکتا ہے کہ اب تمہارا رب تم پر رحم کرے، لیکن اگر تم نے پھر اپنی سابق روش کا اعادہ کیا تو ہم بھی پر اپنی سزا کا اعادہ کریں گے، اور کا فر نعمت لوگوں کے لیے ہم نے جہنم کو قید خانہ بنا رکھا ہے1
1 | اس سے یہ شبہہ نہ ہونا چاہیے کہ اس پوری تقریر کے مخاطب بنی اسرائیل ہیں۔ مخاطب تو کفار مکہ ہی ہیں، مگر چونکہ اُن کو متنبہ کرنے کے لیے یہاں بنی اسرائیل کی تاریخ کے چند عبرتناک شواہد پیش کیے گئے تھے، اس لیے بطور ایک جملہ معترضہ کے یہ فقرے بنی اسرائیل کو خطاب کر کے فرمادیا گیا تھا کہ اُن اصلاحی تقریروں کے لیے تمہید کا کام دے جن کی نوبت ایک ہی سال بعد مدینے میں آنے والی تھی۔ |
Surah 27 : Ayat 3
ٱلَّذِينَ يُقِيمُونَ ٱلصَّلَوٲةَ وَيُؤْتُونَ ٱلزَّكَوٲةَ وَهُم بِٱلْأَخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ
جو نماز قائم کرتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں1، اور پھر وہ ایسے لوگ ہیں جو آخرت پر پورا یقین رکھتے ہیں2
2 | اگرچہ آخرت کا عقیدہ ایمانیات میں شامل ہے، اوراس بنا پر’’ایمان لانےوالوں‘‘سے مراد ظاہر ہے کہ وہی لوگ ہیں جو توحید اوررسالت کے ساتھ آخرت پر بھی ایمان لائیں، لیکن ایمانیات کے ضمن میں اس کے آپ سے آپ شامل ہونے کےباوجود یہاں اس عقیدےکی اہمیت ظاہرکرنےکےلیےخاص طور پرزور دے کر اسے الگ بیان کیا ہے۔اس سے یہ ذہن نشین کرنا مقصود ہے کہ جو لوگ آخرت کے قائل نہ ہوں ان کےلیے اس قرآن کے بتائے ہوئے راستے پرچلنا بلکہ اس پر قدم رکھنا بھی محال ہے۔ کیونکہ اس طرزفکرکے لوگ طبعاََ اپنامعیارِخیروشرصرف اُنہی نتائج سے متعین کرتے ہیں جو راس دنیا میںظاہرہوتےیاہوسکتے ہیں۔ اوران کےلیےکسی ایسی نصیحت وبدایت کو قبول کرنا ممکن نہیں ہوتاجو اُخروی کو سوددزیاں اور نفع نقصان کامعیارقراردےکرخیروشرکاتعین کرتی ہو۔ ایسےاول توانبیاءعلیہم السلام کی تعلیم پرکان ہی نہیں دھرتے، اگرکسی وجہ سے وہ ایمان لانے والوں کے گروہ میں شامل ہو بھی جائیں توآخرت کایقین نہ ہوناکےباعث ان کےلیےایمان واسلام کےراستےپرایک قدم چلنا بھی ہوتاہے۔ اس راہ میں پہلی ہی آزمائش جب پیش آئےگی، جہاں دُنیوی فائدے اور اُخروی نقصان کےتقاضے انہیں دومختلف سمتوں میں کھینچیں گے تو وہ بے تکلف دنیا کے فائدے کی طرف کھچ جائیں گےاور آخرت کےنقصان کی ذرہ برابر پروانہ کریں گے، خواہ زبان سے وہ ایمان کےکتنے ہی دعوے کرتےرہیں |
1 | یعنی قرآن مجید کی یہ آیات رہنمائی بھی صرف اُنہین لوگوں کی کرتی ہیں اورانجام نیک کی خوشخبری بھی صرف انہی لوگوں کو دیتے ہیں جن میں دو خصوصیات پائی جاتی ہوں:ایک یہ کہ وہ ایمان لائیں۔ اور ایمان لانے سے مراد یہ ہے کہ وہ قرآن محمد ﷺ کی دعوت کو قبول کرلیں، خداے واحد کو اپناایک ہی الٰہ اور رب مان لیں، قرآن کوخدا کی کتاب تسلیم کرلیں، محمد ﷺ کو نبی برحق مان کر اپنا پیشوا بنالیں، اور عقیدہ بھی اختیار کرلیں کہ اس زندگی کے بعد ایک دوسری زندگی ہےجس مین ہم کو اپنے اعمال کا حساب دینااور جزائے اعمال سے دوچار ہونا ہے دوسری خصوصیت ان کی یہ ہے کہ وہ ان چیزوں کو محض مان کر نہ رہ جائیں بلکہ عملاََ اتباع واطاعت کےلیے آمادہ ہوں۔ اور اس آمادگی کی اوّلین علامت یہ ہے کہ وہ نماز قائم کریں اور زکٰوۃ دیں۔ یہ دونوں شرطیں جو لوگ پوری کردیں گے انہی کو قرآن کی آیات دنیا میں زندگی کاسیدھا راستہ بتائیں گی اس راستہ کے ہر مرحلے میں ان کو صحیح اورغلط کافرق سمجھائیں گی، اس کےہر موڑ پر انہیں غلط راہوں کی طرف جانے سے بچائیں گی، اور ان کو یہ اطمینان بخشیں گی کہ راست روی کےنتائج دنیا میں خواہ کچھ بھی ہوں، آخرکارابدی اور دائمی فلاح اسی کی بدولت انہیں حاصل ہوگی اوروہ اللہ تعالٰی کی خوشنودی سے سرفراز ہوں گے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے ایک معلم کی تعلیم سے وہی شخص فائدہ اُٹھاسکتا ہے جو اس پر اعتماد کرکےواقعی اس کی فناگردی قبول کرلے اور پھر اس کی ہدایت کے مطابق کام بھی کرے۔ ایک ڈاکٹر سے استفادہ وہی مریض کرسکتا ہے جواسےاپنامعالج بنائے اور دوااورپرہیزوغیرہ کے معاملہ میں اس کی ہدایات پر عمل کرے۔ سی صور ت میں معلم اور ڈاکٹر یہ اطمینان دلاسکتے ہیں کہ آدمی کو نتائج مطلوبہ حاصل ہوں گے بعض لوگوں نے اس آیت میں یوتوں الزکوٰۃ کالفظ جہاں بھی آیا ہے، اس سے مراد وہ زکوٰۃ ادا کرنا ہے جونماز کے ساتھ اسلام کا دوسرا رکن ہے۔ علاوہ بریں زکٰوۃ کےلیے ایتاء کا لفظ استعمال ہوا ہے جو زکٰوۃِمال اداکرنے کےمعنی متعین کردیتاہےکیونکہ عربی زبان میں پاکیزگی اختیار کرنےکےلیے تزکی کا لفظ بولا جاتا ہے نہ کہ ایتاءزکٰوۃ۔ دراصل یہاں جوبات ذہن نشین کرنی مقصود ہے وہ یہ کہ قرآن کی رہنمائی سے فائدہ اُٹھانے کےلیے ایمان کے ساتھ عملاََ اطاعت و اتباع کارویّہ اختیارکرنا بھی ضروری ہے، اور اقامتِ صلٰوۃ وایتاء زکٰوۃ وہ پہلی علامت ہے جویہ ظاہر کرتی ہے کہ آدمی نے واقعی اطاعت قبول کرلی ہے۔ یہ علامت جہاں غائب ہوئی وہاں فوراََ یہ معلوم ل ہوجاتا ہے کہ آدمی سرکش ہے، حاکم کوحاکم چاہیے اس نے مان لیا مگر حکم کی پیروی کےلیے وہ تیار نہیں ہے |
Surah 46 : Ayat 12
وَمِن قَبْلِهِۦ كِتَـٰبُ مُوسَىٰٓ إِمَامًا وَرَحْمَةًۚ وَهَـٰذَا كِتَـٰبٌ مُّصَدِّقٌ لِّسَانًا عَرَبِيًّا لِّيُنذِرَ ٱلَّذِينَ ظَلَمُواْ وَبُشْرَىٰ لِلْمُحْسِنِينَ
حالانکہ اِس سے پہلے موسیٰؑ کی کتاب رہنما اور رحمت بن کر آ چکی ہے، اور یہ کتاب اُس کی تصدیق کرنے والی زبان عربی میں آئی ہے تاکہ ظالموں کو متنبہ کر دے1 اور نیک روش اختیار کرنے والوں کو بشارت دے دے
1 | یعنی ان لوگوں کو انجام بد سے خبردار کر دے جو اللہ سے کفر اور غیر اللہ کی بندگی کر کے اپنے اوپر اور حق و صداقت پر ظلم کر رہے ہیں، اور اپنی اس گمراہی کی وجہ سے اخلاق اور اعمال کی ان کی ان برائیوں میں مبتلا ہیں جن سے انسانی معاشرہ طرح طرح کے مظالم اور بے انصافیوں سے بھر گیا ہے |