Ayats Found (2)
Surah 17 : Ayat 82
وَنُنَزِّلُ مِنَ ٱلْقُرْءَانِ مَا هُوَ شِفَآءٌ وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَۙ وَلَا يَزِيدُ ٱلظَّـٰلِمِينَ إِلَّا خَسَارًا
ہم اِس قرآن کے سلسلہ تنزیل میں وہ کچھ نازل کر رہے ہیں جو ماننے والوں کے لیے تو شفا اور رحمت ہے، مگر ظالموں کے لیے خسارے کے سوا اور کسی چیز میں اضافہ نہیں کرتا1
1 | یعنی جو لوگ اس قرآن کو اپنا رہنما اور اپنے لیے کتاب آئین مان لیں ان کے لیے تو یہ خدا کی رحمت اور ان کے تمامذہنی، نفسانی، اخلاقی اور تمدنی امراض کا علاج ہے۔ مگر جو ظالم اسے رد کر کے اور اس کی رہنمائی سے منہ موڑ کر اپنے اوپر آپ ظلم کریں ان کو یہ قرآن اُس حالت پر بھی نہیں رہنے دیتا جس پر وہ اس کے نزول سے، یا اس کے جاننے سے پہلے تھے،بلکہ یہ انہیں اُلٹا اس سے زیادہ خسارے میں ڈال دیتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب تک قرآن آیا نہ تھا، یا جب تک وہ اس سے واقف نہ ہوئے تھے، ان کا خسارہ محض جہالت کا خسارہ تھا۔ مگر جب قرآن ان کے سامنے آگیا اور اس نے حق اور باطل کا فرق کھول کر رکھ دیا تو ان پر خدا کی حجت تمام ہوگئی۔ اب اگر وہ اسے رد کر کے گمراہی پر اصرار کرتے ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ جاہل نہیں بلکہ ظالم اور باطل پرست اور حق سے نفور ہیں۔ اب ان کی حیثیت وہ ہے جو زہر اور تریاق، دونوں کو دیکھ کر زہر انتخاب کرنے والے کی ہوتی ہے۔ اب اپنی گمراہی کے وہ پورے ذمہ دار، اور ہر گناہ جو اس کے بعد وہ کریں اس کی پوری سزا کے مستحق ہیں۔ یہ خسارہ جہالت کا نہیں بلکہ شرارت کا خسارہ ہے جسے جہالت کے خسارے سے بڑھ کر ہی ہونا چاہیے۔ یہ بات ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نہایت مختصر سے بلیغ جملے میں بیان فرمائی ہے کہ القراٰن حجة لک او علیک یعنی قرآن یا تو تیرے حق میں حجت ہے یا پھر تیرے خلاف حجت۔ |
Surah 29 : Ayat 51
أَوَلَمْ يَكْفِهِمْ أَنَّآ أَنزَلْنَا عَلَيْكَ ٱلْكِتَـٰبَ يُتْلَىٰ عَلَيْهِمْۚ إِنَّ فِى ذَٲلِكَ لَرَحْمَةً وَذِكْرَىٰ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
اور کیا اِن لوگوں کے لیے یہ (نشانی) کافی نہیں ہے کہ ہم نے تم پر کتاب نازل کی جو اِنہیں پڑھ کر سُنائی جاتی ہے؟1 در حقیقت اِس میں رحمت ہے اور نصیحت ہے اُن لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں2
2 | یعنی بلاشبہ اس کتاب کا نزول اللہ تعالٰی کی بہت بڑی مہربانی ہے اور یہ بندوں کے لیے بڑی پندو نصیحت پر مشتمل ہے، مگر اس کا فائدہ صرف وہی لوگ اُٹھا سکتے ہیں جو اس پر ایمان لائیں۔ |
1 | یعنی اُمی ہونے کے باوجود تم پر قرآن جیسی کتاب کا نازل ہونا، کیا یہ بجائے خود اتنا بڑا معجزہ نہیں ہے کہ تمہاری رسالت پر یقین لانے کے لیے یہ کافی ہو؟ اس کے بعد بھی کسی اور معجزے کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟ دوسرے معجزے تو جنہوں نے دیکھے ان کے لیے وہ معجزے تھے۔ مگر یہ معجزہ تو ہر وقت تمہارے سامنے ہے۔ تمہیں آئے دن پڑھ کر سنایا جاتا ہے۔ تم ہر وقت اسے دیکھ سکتے ہو۔ قرآن مجید کےاس بیان و استدلال کے بعد اُن لوگوں کی جسارت حیرت انگیز ہے جو نبی ﷺ کو خواندہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالانکہ یہاں قرآن صاف الفاظ میں حضورﷺ کے ناخواندہ ہونے کو آپ کی نبوت کے حق میں ایک طاقت ور ثبوت کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ جن روایات کا سہارا لے کر یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ حضورﷺ لکھے پڑھے تھے، یا بعد میں آپﷺ نے لکھنا پڑھنا سیکھ لیا تھا وہ اوّل تو پہلی نظر میں رد کر دینے کے لائق ہیں کہ کیونکہ قرآن کے خلاف کوئی روایت بھی قابلِ قبول نہیں ہو سکتی۔ پھر وہ بجائے خود بھی اتنی کمزور ہیں کہ ان پر کسی استدلال کی بنیاد قائم نہیں ہو سکتی۔ ان میں سے ایک، بخاری کی یہ روایت ہے کہ صلح حدیبیہ کا معاہدہ جب لکھا جا رہا تھا تو کفارِ مکہ کے نمائندے نے رسولﷺ کے نام کے ساتھ رسول اللہ لکھے جانے پر اعتراض کیا۔ اس پر حضورﷺ نے کاتب ( یعنی حضرت علیؓ ) کو حکم دیا کہ اچھا رسول اللہ کا لفظ کاٹ کر محمدﷺ بن عبداللہ لکھ دو۔ حضرت علیؓ نے لفظ رسول اللہ کاٹنے سے انکار کر دیا۔ اس پر حضور ﷺ نے ان کے ہاتھ سے قلم لے کر وہ الفاظ خود کاٹ دیے اور محإدﷺ بن عبداللہ لکھ دیا۔ لیکن یہ روایت براء بن عارب سے بخاری میں چار جگہ اور مسلم میں دو جگہ وارد ہوئی ہے اور ہر جگہ الفاظ مختلف ہیں: (۱) بخاری کتاب الصلح میں ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں: قال لعلی احہ فقال علی ما انا بالذی امحاہ فمحاہ رسول اللہ بیدہ۔ حضورﷺ نے حضرت علیؓ سے فرمایا یہ الفاظ کاٹ دو، انہوں نے عرض کیا میں تو نہیں کاٹ سکتا۔ آخر کار حضورﷺ نے اپنے ہاتھ سے انہیں کاٹ دیا۔ (۲) اسی کتاب میں دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں: ثم قال لعلی امح رسول اللہ قال لا واللہ لا امحوک ابدا فا خذ رسول اللہ الکتاب فکتب ھٰذا ماقاضٰی علیہ محمد بن عبداللہ۔ پھر علیؓ سے کہا رسول اللہ کاٹ دو۔ انہوں نے کہا خدا کی قسم میں آپ کا نام کبھی نہ کاٹوں گا۔ آخر حضورﷺ نے تحریر کے کر لکھا یہ وہ معاہدہ ہے جو محمدﷺ بن عبداللہ نے طے کیا۔ (۳) تیسری روایت انہی براء بن عازب سے بخاری کتاب الجزیہ میں یہ ہے: وکان لا یکتب فقال لعلی امح رسول اللہ فقال علی واللہ لا امحاہ ابدًا قال فارنیہ قال فاراہ ایاہ فمحاہ انبی ﷺ بیدہ۔ حضورﷺ خود نہ لکھ ستکے تھے۔ آپ نے حضرت علیؓ سے کہا رسول اللہ کاٹ دو۔ انہوں نے عرض کیا خدا کی قسم میں یہ الفاظ ہرگز نہ کاٹوں گا۔ اس پر حضورﷺ نے فرمایا مجھے وہ جگہ بتاؤ جہاں یہ الفاظ لکھے ہیں۔ انہوں نے آپ کو جگہ بتائی اور آپ نے اپنے ہاتھ سے وہ الفاظ کاٹ دیے۔ (۴) چوتھی روایت بخاری کتاب المغازی میں یہ ہے: فاخذ رسول اللہ ﷺ الکتاب ولیلس یحسن یکتب فکتب ھٰذا ماتا فعٰی محمد بن عبداللہ نے طے کیا۔ (۵) انہی براء بن عازب سے مسلم کتاب الجہاد میں ایک روایت یہ ہے کہ حجرت علیؓ کے انکار کرنے پر حضورﷺ نے اپنے ہاتھ سے رسول اللہ کےالفاظ مٹادیے۔ (۶) دوسری روایت انہی کتاب میں ان سے یہ منقول ہے کہ حضورﷺ نے حضرت علیؓ سے فرمایا مجھے بتاؤ رسول اللہ کا لفط کہاں لکھا ہے، حضرت علیؓ نے آپ کو جگہ بتائی، اور آپ نے اسے مٹا کر ابن عبداللہ لکھ دیا۔ روایات کا یہ اضطراب صاف بتا رہا ہے کہ بیج کے رادیوں نے حضرت براء بن عازب ؓ کے الفاظ جوں کے توں نقل نہیں کیے ہیں، اس لیے ان میں سے کسی ایک کی نقل پر بھی ایسا مکمل اعتماد نہیں کیا جا سکتا کہ یقینی طور پر یہ کہا جا سکے کہ حضورﷺ نے محمد بن عبداللہ کے الفاظ اپنے دستِ مبارک ہی سے لکھے تھے۔ ہو سکتا ہے کہ صحیح صورت واقعہ یہ ہو کہ جب حضرت علیؓ نے رسول اللہ کا لفظ مٹانے سے انکار کر دیا تو آپﷺ نے اس کی جگہ اُن سے پوچھ کر یہ لفظ اپنے ہاتھ سے مٹا دیا ہو اور پھر ان سے یا کسی دوسرے کاتب سے ابن عبداللہ کے الفاظ لکھوا دیے ہوں۔ دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع پر صلح نامہ دو کاتب لکھ رہے تھے۔ ایک حضرت علیؓ، دوسرے محمد مَسکمہَ ( فتح الباری، جلد ۵، ص۲۱۷ )۔ اس لیے یہ امر بعید نہیں ہے کہ جو کام ایک کاتب نے نہ کیا تھا وہ دوسرے کاتب سے لے لیا گیا ہو۔ تاہم اگر واقعہ یہی ہو کہ حضورﷺ نے اپنا نام اپنے ہی دستِ مبارک سے لکھا ہو، تو ایسی مثالیں دنیا میں بکثرت پائی جاتی ہیں کہ ان پڑھ لوگ صرف اپنا نام لکھنا سیکھ لیتے ہیں، باقی کوئی چیز نہ پڑھ سکتے ہیں نہ لکھ سکتے ہیں۔ دوسری روایت جس کی بنا پر نبیﷺ کے خواندہ ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے مجاہد سے ابن ابی شَیَبَہ اور عمر بن شبہ نے نقل کی ہے۔ اس کے الفاط یہ ہیں کہ ما مات رسول اللہ ﷺ حق کتب وراٴ۔ (رسول اللہ ﷺ اپنی وفات سے پہلے لکھنا پڑھنا سیکھ چکے تھے) لیکن اوّل تو یہ سنداً بہت ضعیف روایت ہے جیسا کہ حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں فضعیف لا اصل لہ۔ دوسرے اس کی کمزوری یوں بھی واضح ہے کہ اگر حضورﷺ نے فی الواقع بعد میں لکھنا پڑھنا سیکھا ہوتا تو یہ بات مشہور ہو جاتی، بہت سے صحابہ اس کو روایت کرتے اور یہ بھی معلوم ہو جاتا کہ حضورﷺ نے کس شخص سے یہ تعلیم حاصل کی تھی۔ لیکن سوائے ایک عَون بن عبداللہ کے، جن سے مجاہد نے یہ بات سنی، اور کوئی شخص اسے روایت نہیں کرتا۔ اور یہ عون بھی صحابی نہیں بابعی میں جنہوں نے قطعاً یہ نہیں بتایا کہ انہیں کس صحابی یا کن صحابیوں سے اس واقعہ کا علم حاصل ہوا۔ ظاہر ہے کہ ایسی کمزور روایتوں کی بنیاد پر کوئی ایسی بات قابل تسلیم نہیں ہو سکتی جو مشہور معروف واقعات کی تردید کر تی ہو۔ |