Ayats Found (13)
Surah 2 : Ayat 116
وَقَالُواْ ٱتَّخَذَ ٱللَّهُ وَلَدًاۗ سُبْحَـٰنَهُۥۖ بَل لَّهُۥ مَا فِى ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضِۖ كُلٌّ لَّهُۥ قَـٰنِتُونَ
ان کا قول ہے کہ اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا ہے اللہ پاک ہے ان باتوں سے اصل حقیقت یہ ہے کہ زمین اور آسمانوں کی تمام موجودات اس کی ملک ہیں، سب کے سب اس کے مطیع فرمان ہیں
Surah 4 : Ayat 171
يَـٰٓأَهْلَ ٱلْكِتَـٰبِ لَا تَغْلُواْ فِى دِينِكُمْ وَلَا تَقُولُواْ عَلَى ٱللَّهِ إِلَّا ٱلْحَقَّۚ إِنَّمَا ٱلْمَسِيحُ عِيسَى ٱبْنُ مَرْيَمَ رَسُولُ ٱللَّهِ وَكَلِمَتُهُۥٓ أَلْقَـٰهَآ إِلَىٰ مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِّنْهُۖ فَـَٔـامِنُواْ بِٱللَّهِ وَرُسُلِهِۦۖ وَلَا تَقُولُواْ ثَلَـٰثَةٌۚ ٱنتَهُواْ خَيْرًا لَّكُمْۚ إِنَّمَا ٱللَّهُ إِلَـٰهٌ وَٲحِدٌۖ سُبْحَـٰنَهُۥٓ أَن يَكُونَ لَهُۥ وَلَدٌۘ لَّهُۥ مَا فِى ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَمَا فِى ٱلْأَرْضِۗ وَكَفَىٰ بِٱللَّهِ وَكِيلاً
اے اہل کتاب! اپنے دین میں غلو نہ کرو اور اللہ کی طرف حق کے سوا کوئی بات منسوب نہ کرو مسیح عیسیٰ ابن مریم اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ اللہ کا ایک رسول تھا اور ایک فرمان تھا جو اللہ نے مریم کی طرف بھیجا اور ایک روح تھی اللہ کی طرف سے (جس نے مریم کے رحم میں بچہ کی شکل اختیار کی) پس تم اللہ اور اُ س کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور نہ کہو کہ "تین" ہیں باز آ جاؤ، یہ تمہارے ہی لیے بہتر ہے اللہ تو بس ایک ہی خدا ہے وہ بالا تر ہے اس سے کہ کوئی اس کا بیٹا ہو زمین اور آسمانوں کی ساری چیزیں اس کی مِلک ہیں، اور ان کی کفالت و خبر گیری کے لیے بس وہی کافی ہے
Surah 6 : Ayat 100
وَجَعَلُواْ لِلَّهِ شُرَكَآءَ ٱلْجِنَّ وَخَلَقَهُمْۖ وَخَرَقُواْ لَهُۥ بَنِينَ وَبَنَـٰتِۭ بِغَيْرِ عِلْمٍۚ سُبْحَـٰنَهُۥ وَتَعَـٰلَىٰ عَمَّا يَصِفُونَ
اِس پر بھی لوگوں نے جنوں کو اللہ کا شریک ٹھیرا دیا1، حالانکہ وہ اُن کا خالق ہے، اور بے جانے بوجھے اس کے لیے بیٹے اور بیٹیاں تصنیف کر دیں2، حالانکہ وہ پاک اور بالا تر ہے اُن باتوں سے جو یہ لوگ کہتے ہیں
2 | جُہلائے عرب فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہتے تھے۔ اِسی طرح دُنیا کی دُوسری مشرک قوموں نے بھی خدا سے سلسلہ ٔ نسب چلایا ہے اور پھر دیوتاؤں اور دیویوں کی ایک پُوری نسل اپنے وہم سے پیدا کر دی ہے |
1 | یعنی اپنے وہم وگمان سے یہ ٹھیرا لیا کہ کائنات کے انتظام میں اور انسان کی قسمت کے بنانے اور بگاڑنے میں اللہ کے ساتھ دُوسری پوشیدہ ہستیاں بھی شریک ہیں، کوئی بارش کا دیوتا ہے تو کوئی روئیدگی کا، کوئی دولت کی دیوی ہے تو کوئی بیماری کی، وغیرہ ذالکَ مِن الخرافات۔ اس قسم کے لغو اعتقادات دُنیا کی تمام مشرک قوموں میں ارواح اور شیاطین اور راکشسوں اور دیوتاؤں اور دیویوں کے متعلق پائے جاتے رہے ہیں |
Surah 6 : Ayat 101
بَدِيعُ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضِۖ أَنَّىٰ يَكُونُ لَهُۥ وَلَدٌ وَلَمْ تَكُن لَّهُۥ صَـٰحِبَةٌۖ وَخَلَقَ كُلَّ شَىْءٍۖ وَهُوَ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيمٌ
وہ تو آسمانوں اور زمین کا موجد ہے اس کا کوئی بیٹا کیسے ہوسکتا ہے جبکہ کوئی اس کی شریک زندگی ہی نہیں ہے اس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے اور وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے
Surah 10 : Ayat 68
قَالُواْ ٱتَّخَذَ ٱللَّهُ وَلَدًاۗ سُبْحَـٰنَهُۥۖ هُوَ ٱلْغَنِىُّۖ لَهُۥ مَا فِى ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَمَا فِى ٱلْأَرْضِۚ إِنْ عِندَكُم مِّن سُلْطَـٰنِۭ بِهَـٰذَآۚ أَتَقُولُونَ عَلَى ٱللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ
لوگوں نے کہہ دیا کہ اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا ہے1 سبحان اللہ!2 وہ تو بے نیاز ہے، آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اس کی ملک ہے3 تمہارے پاس اس قول کے لیے آخر کیا دلیل ہے؟ کیا تم اللہ کے متعلق وہ باتیں کہتے ہو جو تمہارے علم میں نہیں ہیں؟
3 | یہاں ان کے اس قول کی تردید میں تین باتیں کہی گئی ہیں: ایک یہ کہ اللہ بے عیب ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ بے نیاز ہے۔ تیسرے یہ کہ آسمان و زمین کی ساری موجودات اُس کی ملک ہیں۔ یہ مختصر جوابات تھوڑی سی تشریح سے بآسانی سمجھ میں آسکتے ہیں: ظاہر بات ہے کہ بیٹا یا تو صلبی ہو سکتا ہے یا متبنّٰی۔ اگر یہ لوگ کسی کو خدا کا بیٹا صُلبی معنوں میں قرار دیتے ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ خدا کو اُس حیوان پر قیاس کرتے ہیں جو شخصی حیثیت سے فانی ہوتا ہے اور جس کے وجود کا تسلسل بغیر اس کے قائم نہیں رہ سکتا کہ اس کی جوئی جنس ہو اور اس جنس سے کوئی اس کا جوڑا ہو اور ان دونوں کے صنفی تعلق سے اس کی اولاد ہو جس کے ذریعہ سے اس کا نوعی وجود اور اس کا کام باقی رہے۔ اور اگر یہ لوگ اس معنی میں خدا کا بیٹا قرار دیتے ہیں کہ اس نے کسی کو متبنّٰی بنایا ہے تو یہ دو حال سے خالی نہیں۔ یا تو انہوں نے خدا کو اس انسان پر قیاس کیا ہے جو لاولد ہونے کی وجہ سے اپنی جنس کے کسی فرد کو اس لیے بیٹا بناتا ہے کہ وہ اس کا وارث ہو اور اُس نقصان کی، جو اسے بے اولاد رہ جانے کی وجہ سے پہنچ رہا ہے، برائے نام ہی سہی، کچھ تو تلافی کر دے۔ یا پھران کا گمان یہ ہے کہ خدا بھی انسان کی طرح جذباتی میلانات رکھتا ہے اور اپنے بے شمار بندوں میں سے کسی ایک کےساتھ اس کو کچھ ایسی محبت ہو گئی ہے کہ اس نے اسے بیٹا بنا لیا ہے۔ ان تینوں صورتوں میں سے جو صورت بھی ہو، بہرحال اس عقیدے کے بنیادی تصورات میں خدا پرست بہت سے عیوب، بہت سی کمزوریوں، بہت سے نقائص اور بہت سی احتیاجوں کی تہمت لگی ہوئی ہے۔ اسی بنا پر پہلے فقرے میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالٰی ان تمام عیوب، نقائص اور کمزوریوں سے پاک ہے جو تم اس کی طرف منسوب کررہے ہو۔ دوسرے فقرے میں ارشاد ہوا کہ وہ اُن حاجتوں سے بھی بے نیاز ہے جن کی وجہ سے فانی انسانوں کو اولاد کی یا بیٹا بنانے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اور تیسرے فقرے میں صاف کہہ دیا گیا کہ زمین و آسمان میں سب اللہ کے بندے اور اس کی مملوک ہیں، ان میں سے کسی کے ساتھ بھی اللہ کا ایسا کوئی مخصوص ذاتی تعلق نہیں ہے کہ سب کو چھوڑ کر اسے وہ اپنا بیٹا یا اکلوتا یا ولی عہد قرار دے لے۔ صفا ت کی بنا پر بے شک اللہ بعض بندوں کو بعض کی بہ نسبت زیادہ محبوب رکھتا ہے، مگراس محبت کے یہ معنی نہیں ہیں کہ کسی بندے کو بندگی کے مقام سے اٹھا کر خدائی میں شرکت کا مقام دے دیا جائے۔ زیادہ سے زیادہ اس محبت کا تقاضا بس وہ ہے جو اس سے پہلے کی ایک آیت میں بیان کر دیا گیا ہے کہ ”جو ایمان لائے اور جنہوں نے تقویٰ کا رویہ اختیار کیا ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں، دنیا اور آخرت دونوں میں ان کے لیے بشارت ہی بشارت ہے۔ |
2 | سبحان اللہ کلمہ تعجب کے طور پر کبھی اظہارِ حیرت کے لیے بھی بولا جاتا ہے، اور کبھی اس کے واقعی معنی ہی مراد ہوتے ہیں، یعنی یہ کہ”اللہ تعالٰی ہر عیب سے منزّہ ہے“۔ یہاں یہ کلمہ دونوں معنی دے رہا ہے۔ لوگوں کے اِس قول پراظہارِ حیرت بھی مقصود ہے اور ان کی بات کے جواب میں یہ کہنا بھی مقصود ہے کہ اللہ تو بے عیب ہے، ا س کی طرف بیٹے کی نسبت کس طرح صحیح ہو سکتی ہے۔ |
1 | اوپر کی آیات میں لوگوں کی اس جاہلیت پر ٹوکا گیا تھا کہ اپنے مذہب کی بنا علم کے بجائے قیاس و گمان پر رکھتے ہیں، اور پھر کسی علمی طریقہ سے یہ تحقیق کرنے کی بھی کوشش نہیں کرتے کہ ہم جس مذہب پر چلے جا رہے ہیں اس کی کوئی دلیل بھی ہے یا نہیں۔ اب اسی سلسلہ میں عیسائیوں اور بعض دوسرے اہلِ مذاہب کی اس نادانی پر ٹوکا گیا ہے کہ انہوں نے محض گمان سے کسی کو خد اکا بیٹا ٹھیرا لیا۔ |
Surah 16 : Ayat 57
وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ ٱلْبَنَـٰتِ سُبْحَـٰنَهُۥۙ وَلَهُم مَّا يَشْتَهُونَ
یہ خدا کے لیے بیٹیاں تجویز کرتے ہیں1 سبحان اللہ! اور اِن کے لیے وہ جو یہ خود چاہیں؟2
1 | مشرکینِ عرب کے معبودوں میں دیوتا کم تھے، دیویاں زیادہ تھیں، اور ان دیویوں کے متعلق ان کا عقیدہ یہ تھا کہ یہ خدا کی بیٹیاں ہیں۔اسی طرح فرشتوں کو بھی وہ خدا کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔ |
Surah 19 : Ayat 35
مَا كَانَ لِلَّهِ أَن يَتَّخِذَ مِن وَلَدٍۖ سُبْحَـٰنَهُۥٓۚ إِذَا قَضَىٰٓ أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُۥ كُن فَيَكُونُ
اللہ کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ کسی کو بیٹا بنائے وہ پاک ذات ہے وہ جب کسی بات کا فیصلہ کرتا ہے تو کہتا ہے کہ ہو جا، اور بس وہ ہو جاتی ہے1
1 | یہاں تک جو بات عیسائیوں کے واضح کی گئی ہے وہ کہ حضرت عیسی ؑ کے متعلق ابن اللہ ہونے کا جو عقیدہ انہوں نے اختیار رکھا ہے وہ باطل ہے۔ جس طرح معجزہ سے حضرت یحیی کی پیدائش نے ان کو خدا کا بیٹا نہیں بنا دیا اسی طرح ایک دوسرے معجزہ حضرت عیسی کی پیدائش بھی کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کی بنا پر انہیں خدا کا بیٹا قرار دے دیا جاۓ۔ عیسائیوں کی اپنی روایات میں بھی یہ بات موجود ہے کہ حضرت یحیی اور حضرت عیسی، دونوں ایک ایک طرح کے معجزہ سے پیدا ہوۓ تھے۔ چنانچہ لوقا کی انجیل میں کیا گیا ہے۔ لیکن یہ عیسائیوں کا غلو معجزے سے پیدا ہونے والے کو اللہ کا بندہ کہتے ہیں اور دوسرے معجزہ سے پیدا ہونے والے کو اللہ کا بیٹا بنا بیٹھے ہیں۔ |
Surah 19 : Ayat 88
وَقَالُواْ ٱتَّخَذَ ٱلرَّحْمَـٰنُ وَلَدًا
وہ کہتے ہیں کہ رحمان نے کسی کو بیٹا بنایا ہے
Surah 19 : Ayat 92
وَمَا يَنۢبَغِى لِلرَّحْمَـٰنِ أَن يَتَّخِذَ وَلَدًا
رحمان کی یہ شان نہیں ہے کہ وہ کسی کو بیٹا بنائے
Surah 21 : Ayat 26
وَقَالُواْ ٱتَّخَذَ ٱلرَّحْمَـٰنُ وَلَدًاۗ سُبْحَـٰنَهُۥۚ بَلْ عِبَادٌ مُّكْرَمُونَ
یہ کہتے ہیں 1"رحمان اولاد رکھتا ہے" سبحان اللہ، وہ تو بندے ہیں جنہیں عزّت دی گئی ہے
1 | یہاں پھر فرشتوں ہی کا ذکر ہے جن کو مشرکین عرب خدا کی بیٹیاں قرار دیتے تھے ۔ بعد کی تقریر سے یہ بات خود ظاہر ہو جاتی ہے |