Ayats Found (32)
Surah 2 : Ayat 2
ذَٲلِكَ ٱلْكِتَـٰبُ لَا رَيْبَۛ فِيهِۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ
یہ اللہ کی کتاب ہے، اس میں کوئی شک نہیں1 ہدایت ہے اُن پرہیز گار لوگوں کے لیے2
2 | یعنی یہ کتاب ہے تو سراسر ہدایت و رہنمائی ، مگر اس سے فائدہ اُٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی میں چندصفات پائی جاتی ہوں۔ ان میں سے اوّلین صِفت یہ ہے کہ آدمی ” پرہیزگار“ ہو۔ بَھلائی اور بُرائی میں تمیز کرتا ہو۔ بُرائی سے بچناچاہتا ہو۔ بَھلائی کا طالب ہو اور اس پر عمل کرنے کا خواہش مند ہو۔ رہے وہ لوگ، جو دُنیا میں جانوروں کی طرح جیتے ہوں جنہیں کبھی یہ فکر لاحق نہ ہوتی ہو کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں وہ صحیح بھی ہے یا نہیں ، بس جدھر دنیا چل رہی ہو، یا جدھر خواہشِ نفس دھکیل دے ، یا جدھر قدم اُٹھ جائیں ، اسی طرف چل پڑتے ہوں، تو ایسے لوگوں کے لیے قرآن میں کوئی رہنمائِ نہیں ہے |
1 | اس کا ایک سیدھا سادھا مطلب تو یہ ہے کہ ”بیشک یہ اللہ کی کتاب ہے۔“ مگر ایک مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ ایسی کتاب ہے جس میں شک کی کوئی بات نہیں ہے۔ دُنیا میں جتنی کتابیں اُمورِ مابعد الطبیعت اور حقائق ِ ماوراء ادراک سے بحث کرتی ہیں وہ سب قیاس و گمان پر مبنی ہیں، اس لیے خود ان کے مصنّف بھی اپنے بیانات کے بارے میں شک سےپاک نہیں ہو سکتے خواہ وہ کتنے ہی یقین کا اظہار کریں۔ لیکن یہ ایسی کتاب ہے جو سراسر علمِ حقیقت پر مبنی ہے ، اس کا مصنف وہ ہے جو تمام حقیقتوں کا علم رکھتا ہے، اس لیے فی الواقع اس میں شک کے لیے کوئی جگہ نہیں ، یہ دُوسری بات ہے کہ انسان اپنی نادانی کی بنا پر اس کے بیانات میں شک کریں |
Surah 2 : Ayat 5
أُوْلَـٰٓئِكَ عَلَىٰ هُدًى مِّن رَّبِّهِمْۖ وَأُوْلَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْمُفْلِحُونَ
ایسے لوگ اپنے رب کی طرف سے راہ راست پر ہیں اور وہی فلاح پانے والے ہیں
Surah 2 : Ayat 97
قُلْ مَن كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيلَ فَإِنَّهُۥ نَزَّلَهُۥ عَلَىٰ قَلْبِكَ بِإِذْنِ ٱللَّهِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَهُدًى وَبُشْرَىٰ لِلْمُؤْمِنِينَ
اِن سے کہو کہ جو کوئی جبریل سے عداوت رکھتا ہو1، اسے معلوم ہونا چاہیے کہ جبریل نے اللہ کے اِذن سے یہ قرآن تمہارے قلب پر نازل کیا ہے2، جو پہلے آئی ہوئی کتابوں کی تصدیق و تائید کرتا ہے3 اور ایمان لانے والوں کے لیے ہدایت اور کامیابی کی بشارت بن کر آیا ہے4
4 | اِ س میں لطیف اشارہ ہے اس مضمون کی طرف کہ نادانو، اصل میں تمہاری ساری ناراضی ہدایت اور راہِ راست کے خلاف ہے۔ تم لڑ رہے ہو اُس صحیح رہنمائی کے خلاف ، جسے اگر سیدھی طرح مان لو، تو تمہارے ہی لیے کامیابی کی بشارت ہو |
3 | مطلب یہ ہے کہ یہ گالیاں تم اسی لیے تو دیتے ہو کہ جبریل یہ قرآن لے کر آیا ہے اور حال یہ ہے کہ یہ قرآن سراسر تورات کی تائید میں ہے۔ لہٰذا تمہاری گالیوں میں تورات بھی حصّے دار ہوئی |
2 | یعنی اس بنا پر تمہاری گالیاں جبریل پر نہیں بلکہ خداوندِ برتر کی ذات پر پڑتی ہیں |
1 | یہُودی صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ پر ایمان لانے والوں ہی کو بُرا نہ کہتے تھے، بلکہ خدا کے برگزیدہ فرشتے جبریل کو بھی گالیاں دیتے تھے اور کہتے تھے کہ وہ ہمارا دشمن ہے۔ وہ رحمت کا نہیں، عذاب کا فرشتہ ہے |
Surah 2 : Ayat 185
شَهْرُ رَمَضَانَ ٱلَّذِىٓ أُنزِلَ فِيهِ ٱلْقُرْءَانُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَـٰتٍ مِّنَ ٱلْهُدَىٰ وَٱلْفُرْقَانِۚ فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ ٱلشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُۖ وَمَن كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَۗ يُرِيدُ ٱللَّهُ بِكُمُ ٱلْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ ٱلْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُواْ ٱلْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُواْ ٱللَّهَ عَلَىٰ مَا هَدَٮٰكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
رمضان وہ مہینہ ہے، جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے، جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں لہٰذا اب سے جو شخص اس مہینے کو پائے، اُس کو لازم ہے کہ اِس پورے مہینے کے روزے رکھے اور جو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو، تو وہ دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرے1 اللہ تمہارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے، سختی کرنا نہیں چاہتا اس لیے یہ طریقہ تمہیں بتایا جا رہا ہے تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کرسکو اور جس ہدایت سے اللہ نے تمہیں سرفراز کیا ہے، اُس پر اللہ کی کبریا ئی کا اظہار و اعتراف کرو اور شکر گزار بنو2
2 | یعنی اللہ نے صرف رمضان ہی کے دنوں کو روزوں کے لیےمخصُوص نہیں کر دیا ہے، بلکہ جو لوگ رمضان میں کسی عذرِ شرعی کی بنا پر روزے نہ رکھ سکیں، اُن کے لیے دُوسرے دنوں میں اُس کی قضا کر لینے کا راستہ بھی کھول دیا ہے تا کہ قرآن کی جو نعمت اُس نے تم کو دی ہے ، اس کا شکر ادا کرنے کے قیمتی موقع سے تم محرُوم نہ رہ جا ؤ ۔ یہاں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ رمضان کے روزوں کو صرف عبادت اور صرف تقویٰ کی تربیت ہی نہیں قرار دیا گیا ہے، بلکہ اُنھیں مزید براں اُس عظیم الشان نعمتِ ہدایت پر اللہ تعالٰی کا شکریہ بھی ٹھیرایا گیا ہے ، جو قرآن کی شکل میں اُس نے ہمیں عطا فرمائی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک دانشمند انسان کے لیے کسی نعمت کی شکر گزاری اور کسی احسان کے اعتراف کی بہترین صُورت اگر ہوسکتی ہے ، تو وہ صرف یہی ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس مقصد کی تکمیل کے لیے زیادہ سے زیادہ تیار کرے، جس کے لیے عطا کرنے والے نے وہ نعمت عطا کی ہو۔ قرآن ہم کو اس لیے عطا فرمایا گیا ہے کہ ہم اللہ تعالٰی کی رضا کا راستہ جان کر خود اس پر چلیں اور دُنیا کو اس پر چلائیں۔ اس مقصد کے لیے ہم کو تیار کرنے کا بہترین ذریعہ روزہ ہے۔ لہٰذا نزُولِ قرآن کے مہینے میں ہماری روزہ داری صرف عبادت ہی نہیں ہے ، اور صرف اخلاقی تربیت بھی نہیں ہے، بلکہ اس کے ساتھ خود اِس نعمتِ قرآن کی بھی صحیح اور موزوں شکر گزاری ہے |
1 | “سفر کی حالت میں روزہ رکھنا یا نہ رکھنا آدمی کے اختیار ِ تمیزی پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو صحابہ ؓ سفر میں جایا کرتے تھے ، اُن میں سے کوئی روزہ رکھتا تھا اور کوئی نہ رکھتا تھا اور دونوں گروہوں میں سے کوئی دُوسرے پر اعتراض نہ کرتا تھا۔ خود آنحضرت ؐ نے بھی کبھی سفر میں روزہ رکھا ہے اور کبھی نہیں رکھا ہے۔ ایک سفر کے موقع پر ایک شخص بد حال ہو کر گِر گیا اور اس کے گِرد لوگ جمع ہو گئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حال دیکھ کر دریافت فرمایا: کیا معاملہ ہے؟ عرض کیا گیا روزے سے ہے۔ فرمایا: یہ نیکی نہیں ہے۔ جنگ کے موقع پر تو آپ حکماً روزے سے روک دیا کرتے تھے تاکہ دشمن سے لڑنے میں کمزوری لاحق نہ ہو۔ حضرت عمر ؓ کی روایت ہے کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دو مرتبہ رمضان میں جنگ پر گئے۔ پہلی مرتبہ جنگِ بدر میں اور آخری مرتبہ فتح مکّہ کے موقی پر، اور دونوں مرتبہ ہم نے روزے چھوڑ دیے۔ ابنِ عمر ؓ کا بیان ہے کہ فتحِ مکّہ کے موقع پر حضُور ؐ نے فرما دیا تھا کہ انہ یوم قتال فا فطر و ا ۔ دُوسری روایات میں یہ الفاظ ہیں کہ انکم قد د نو تم من عد و کم فا فطر و ا ا قو ی لکم۔ یعنی دشمن سے مقابلہ درپیش ہے ، روزے چھوڑ دو تاکہ تمہیں لڑنے کی قوت حاصل ہو۔ عام سفر کے معاملے میں یہ بات کہ کتنی مسافت کے سفر پر روزہ چھوڑا جاسکتا ہے ، حضُور ؐ کے کسی ارشاد سے واضح نہیں ہوتی اور صحابہ ء کرام ؓ کا عمل اس باب میں مختلف ہے۔ صحیح یہ ہے کہ جس مسافت پر عرفِ عام میں سفر کا اطلاق ہوتا ہے اور جس میں مسافرانہ حالت انسان پر طاری ہوتی ہے، وہ افطار کے لیے کافی ہے۔ یہ امر مُتَّفَق علیہ ہے کہ جس روز آدمی سفر کی ابتدا کر رہا ہو، اُس دن کا روزہ افطار کر لینے کا اُس کو اختیار ہے۔ چاہے تو گھر سے کھانا کھا کر چلے، اور چاہے تو گھر سے نکلتے ہی کھا لے۔ دونوں عمل صحابہ ؓ سے ثابت ہیں۔ یہ امر کہ اگر کسی شہر پر دشمن کا حملہ ہو، تو کیا لوگ مقیم ہونے کے باوجُود جہاد کی خاطر روزہ چھوڑ سکتے ہیں، علما کے درمیان مختلف فیہ ہے۔ بعض علما اس کی اجازت نہیں دیتے۔ مگر علّامہ ابن تیمیّہ نے نہایت قوی دلائل کے ساتھ فتویٰ دیا تھا کہ ایسا کرنا بالکل جائز ہے |
Surah 6 : Ayat 157
أَوْ تَقُولُواْ لَوْ أَنَّآ أُنزِلَ عَلَيْنَا ٱلْكِتَـٰبُ لَكُنَّآ أَهْدَىٰ مِنْهُمْۚ فَقَدْ جَآءَكُم بَيِّنَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَهُدًى وَرَحْمَةٌۚ فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن كَذَّبَ بِـَٔـايَـٰتِ ٱللَّهِ وَصَدَفَ عَنْهَاۗ سَنَجْزِى ٱلَّذِينَ يَصْدِفُونَ عَنْ ءَايَـٰتِنَا سُوٓءَ ٱلْعَذَابِ بِمَا كَانُواْ يَصْدِفُونَ
اور اب تم یہ بہانہ بھی نہیں کرسکتے کہ اگر ہم پر کتاب نازل کی گئی ہوتی تو ہم ان سے زیادہ راست رو ثابت ہوتے تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک دلیل روشن اور ہدایت اور رحمت آ گئی ہے، اب اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ کی آیات کو جھٹلائے اور ان سے منہ موڑے1 جو لوگ ہماری آیات سے منہ موڑتے ہیں انہیں اس رو گردانی کی پاداش میں ہم بدترین سزا دے کر رہیں گے
1 | اللہ کی آیات سے مراد اس کے وہ ارشادات بھی ہیں جو قرآن کی صورت میں لوگوں کے سامنے پیش کیے جارہے تھے ، اور وہ نشانیاں بھی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت اور آپ پر ایمان لانے والوں کی پاکیزہ زندگی میں نمایاں نظر آرہی تھیں ، اور وہ آثارِ کائنات بھی جنھیں قرآن اپنی دعوت کی تائید میں شہادت کے طور پر پیش کررہا تھا |
Surah 7 : Ayat 52
وَلَقَدْ جِئْنَـٰهُم بِكِتَـٰبٍ فَصَّلْنَـٰهُ عَلَىٰ عِلْمٍ هُدًى وَرَحْمَةً لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
ہم اِن لوگوں کے پاس ایک ایسی کتاب لے آئے ہیں جس کو ہم نے علم کی بنا پر مفصل بنایا ہے1 اور جو ایمان لانے والوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے2
2 | مطلب یہ ہے کہ اوّل تو اس کتاب کے مضامین اور اس کی تعلیمات ہی بجائے خود اس قدر صاف ہیں کہ آدمی اگر ان پر غور کرے تو اس کے سامنے راہِ حق واضح ہو سکتی ہے۔ پھر اس پر مزید یہ ہے کہ جو لوگ اس کتاب کو مانتےہیں ان کی زندگی میں عملاً بھی اِس حقیقت کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ انسان کی کیسی صحیح رہنمائی کرتی ہے اور کتنی بڑی رحمت ہے کہ اس کا اثر قبول کرتے ہی انسان کی ذہنیت ، اس کے اخلاق اور اس کی سیرت میں بہترین انقلاب شروع ہو جاتا ہے۔ یہ اشارہ ہے اُن حیرت انگیز اثرات کی طرف جو اس کتاب پر ایمان لانے سےصحابہ کرام کی زندگیوں میں ظاہر ہو رہے تھے |
1 | یعنی اس میں پوری تفصیل کے ساتھ بتا دیا گیا ہے کہ حقیقت کیا ہے اور انسان کے لیے دنیا کی زندگی میں کونسا رویّہ درست ہے اور صحیح طرزِ زندگی کے بنیادی اصول کیا ہیں۔ پھر یہ تفصیلات بھی قیاس یا گمان یاد ہم کی بنیاد پر نہیں بلکہ خالص علم کی بنیا د پر ہیں |
Surah 7 : Ayat 203
وَإِذَا لَمْ تَأْتِهِم بِـَٔـايَةٍ قَالُواْ لَوْلَا ٱجْتَبَيْتَهَاۚ قُلْ إِنَّمَآ أَتَّبِعُ مَا يُوحَىٰٓ إِلَىَّ مِن رَّبِّىۚ هَـٰذَا بَصَآئِرُ مِن رَّبِّكُمْ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
اے نبیؐ، جب تم اِن لوگوں کے سامنے کوئی نشانی (یعنی معجزہ) پیش نہیں کرتے تو یہ کہتے ہیں کہ تم نے اپنے لیے کوئی نشانی کیوں نہ انتخاب کر لی؟1 ان سے کہو 2"میں تو صرف اُس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو میرے رب نے میری طرف بھیجی ہے یہ بصیرت کی روشنیاں ہیں تمہارے رب کی طرف سے اور ہدایت اور رحمت ہے اُن لوگوں کے لیے جو اِسے قبول کریں
2 | یعنی میرا منصب یہ نہیں ہے کہ جس چیز کی مانگ ہو یا جس کی میں خود ضرورت محسوس کروں اسے خود ایجاد یا تصنیف کر کے پیش کردوں۔ میں تو ایک رسول ہوں اور میرا منصب صرف یہ ہے کہ جس نے مجھے بھیجا ہے اس کی ہدایت پر عمل کروں۔ معجزے کے بجائے میرے بھیجنے والے نے جو چیز میرے پاس بھیجی ہے وہ یہ قرآن ہے ۔ اس کے اندر بصیرت افروز روشنیاں موجود ہیں اور اس کی نمایاں ترین خوبی یہ ہے کہ جو لوگ اس کو مان لیتے ہیں ان کو زندگی کا سیدھا راستہ مل جاتا ہے اوران کے اخلاقِ حسنہ میں رحمت ِ الہٰی کے آثار صاف ہو یدا ہونے لگتے ہیں |
1 | کفار کےاس سوال میں ایک صریح طعن کا انداز پایا جاتا تھا۔ یعنی ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ میاں جس طرح تم نبی بن بیٹھے ہو اسی طرح کوئی معجزہ بھی چھانٹ کر اپنے لیے بنا لائے ہوتے۔ لیکن آگے ملاحظہ ہو کہ اس طعن کا جواب کس شان سے دیا جاتا ہے |
Surah 10 : Ayat 57
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ قَدْ جَآءَتْكُم مَّوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَشِفَآءٌ لِّمَا فِى ٱلصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ
لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت آ گئی ہے یہ وہ چیز ہے جو دلوں کے امراض کی شفا ہے اور جو اسے قبول کر لیں ان کے لیے رہنمائی اور رحمت ہے
Surah 10 : Ayat 58
قُلْ بِفَضْلِ ٱللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِۦ فَبِذَٲلِكَ فَلْيَفْرَحُواْ هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ
اے نبیؐ، کہو کہ “یہ اللہ کا فضل اور اس کی مہربانی ہے کہ یہ چیز اس نے بھیجی، اس پر تو لوگوں کو خوشی منانی چاہیے، یہ اُن سب چیزوں سے بہتر ہے جنہیں لوگ سمیٹ رہے ہیں"
Surah 12 : Ayat 111
لَقَدْ كَانَ فِى قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِّأُوْلِى ٱلْأَلْبَـٰبِۗ مَا كَانَ حَدِيثًا يُفْتَرَىٰ وَلَـٰكِن تَصْدِيقَ ٱلَّذِى بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَىْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
اگلے لوگوں کے ان قصوں میں عقل و ہوش رکھنے والوں کے لیے عبرت ہے یہ جو کچھ قرآن میں بیان کیا جا رہا ہے یہ بناوٹی باتیں نہیں ہیں بلکہ جو کتابیں اس سے پہلے آئی ہوئی ہیں انہی کی تصدیق ہے اور ہر چیز کی تفصیل اور ایمان لانے والوں کے لیے ہدایت اور رحمت