Ayats Found (2)
Surah 14 : Ayat 1
الٓرۚ كِتَـٰبٌ أَنزَلْنَـٰهُ إِلَيْكَ لِتُخْرِجَ ٱلنَّاسَ مِنَ ٱلظُّلُمَـٰتِ إِلَى ٱلنُّورِ بِإِذْنِ رَبِّهِمْ إِلَىٰ صِرَٲطِ ٱلْعَزِيزِ ٱلْحَمِيدِ
ا ل ر اے محمدؐ، یہ ایک کتاب ہے جس کو ہم نے تمہاری طرف نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لاؤ، ان کے رب کی توفیق سے، اُس خدا کے راستے1 پر جو زبردست اور اپنی ذات میں آپ محمود2 ہے
2 | ’’ حمید‘‘ کا لفظ اگرچہ محمود ہی کا ہم معنی ہے، مگر دونوں لفظوں میں ایک لطیف فرق ہے۔ محمود کسی شخص کو اُسی وقت کہیں گے جبکہ اس کی تعریف کی گئی ہو یا کی جاتی ہو۔ مگر حمید آپ سے حمد کا مستحق ہے، خواہ کوئی اس کی حمد کرے یا نہ کرے۔ اس لفظ کا پورا مفہوم ستودہ صفات، سزاوارِ حمد اور مستحقِ تعریف جیسے الفاظ سے ادا نہیں ہو سکتا، اسی لیے ہم نے اس کا ترجمہ ’’ اپنی زات میں آپ محمود‘‘ کیا ہے۔ |
1 | یعنی تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لانے کا مطلب شیطانی راستوں سے ہٹا کر خدا کے راستے پر لانا ہے ، دوسرے الفاظ میں ہر وہ شخص جو خدا کی راہ پر نہیں ہے وہ دراصل جہالت کے اندھیروں میں بھٹک رہا ہے ، خواہ وہ اپنے آپ کو کتنا ہی روشن خیال سمجھ رہا ہو اور اپنے زعم میں کتنا ہی نور علم سے منور ہو۔ بخلاف ا س کے جس نے خدا کا راستہ پا لیا وہ علم کی روشنی میں آگیا، چاہے وہ ایک اَن پڑھ دیہاتی ہی کیوں نہ ہو۔ پھر یہ جو فرمایا کہ تم اِن کو اپنے رب کے اذن یا اُس کی توفیق سے خدا کے راستے پر لاؤ، تو اس میں دراصل اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ کوئی ، مبلّغ ، خوا ہ وہ نبی ہی کیوں نہ ہو، راہِ راست پیش کر دینے سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتا۔ کسی کو اس راستہ پر لے آنا اُ س کے بس میں نہیں ہے۔ اِس کا انحصار سراسر اللہ کی توفیق اور اُس کے اذن پر ہے۔ اللہ کسی کو توفیق دے تو وہ ہدایت پا سکتا ہے، ورنہ پیغمبر جیسا کام مبلغ اپنا پورا زور لگا کر بھی اس کو ہدایت نہیں بخش سکتا۔ رہی اللہ کی توفیق ، تو اس کا قانون بالکل الگ ہے جسے قرآن میں مختلف مقامات پر وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا گیا ہے۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ خدا کی طرف سے ہدایت کی توفیق اُسی کو ملتی ہے جو خود ہدایت کا طالب ہو، ضد اور ہٹ دھرمی اور تعضب سے پاک ہو، اپنے نفس کا بندہ اور اپنی خواہشات کا غلام نہ وہ، کھلی آنکھوں سے دیکھے، کھلے کانوں سے سُنے، صاف دماغ سے سوچے، اور معقول بات کو بے لاگ طریقہ سے مانے |
Surah 14 : Ayat 3
ٱلَّذِينَ يَسْتَحِبُّونَ ٱلْحَيَوٲةَ ٱلدُّنْيَا عَلَى ٱلْأَخِرَةِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ ٱللَّهِ وَيَبْغُونَهَا عِوَجًاۚ أُوْلَـٰٓئِكَ فِى ضَلَـٰلِۭ بَعِيدٍ
جو دنیا کی زندگی کو آخرت پر ترجیح دیتے ہیں1، جو اللہ کے راستے سے لوگوں کو روک رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہ راستہ (ان کی خواہشات کے مطابق) ٹیٹرھا ہو جائے2 یہ لوگ گمراہی میں بہت دور نکل گئے ہیں
2 | یعنی وہ اللہ کی مرضی کے تابع ہو کر نہیں رہنا چاہتے بلکہ یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کا دین اُن کی مرضی کا تابع ہو کرہے۔ اُن کے ہر خیال ، ہر نظریے اور ہر وہم و گمان کو اپنے عقائد میں داخل کرے اور کسی ایسے عقیدے کو اپنے نظامِ فکر میں نہ رہنے دے جو اُن کی کھوپڑی میں نہ سماتا ہو۔ اُن کی ہر رسم ، ہر عادت ، اور ہر خصلت کو سند جواز دے اور کسی ایسے طریقے کی پیروی کا اُن سے مطالبہ نہ کرے جو انہیں پسند نہ ہو۔ وہ اِن کا ہاتھ بندھا غلام ہو کہ جدھر جدھر یہ اپنے شیطانِ نفس کے اتباع میں مڑیں اُدھر وہ بھی جائے، اور کہیں نہ تو وہ انہیں ٹوکے اور نہ کسی مقام پر انہیں اپنے راسہ کی طرف موڑنے کی کوشش کرے۔ وہ اللہ کی بات صرف اُسی صورت میں مان سکتے ہیں جبکہ وہ اِس طرح کا دین ان کے لیے بھیجے |
1 | یا بالفاظ دیگر جنہیں ساری فکر بس دنیا کی ہے، آخرت کی پروا نہیں ہے ۔ جو دنیا کے فائدوں اور لذتوں اور آسائشوں کی خاطر آخرت کا نقصان تو مول لے سکتے ہیں، مگر آخرت کی کامیابیوں اور خوشحالیوں کے لیے دنیا کا کوئی نقصان، کوئی تکلیف اور کوئی خطرہ ، بلکہ کسی لذت سے محرومی تک برداشت نہیں کر سکتے۔ جنہوں نے دنیا اور آخرت دونوں کا موازنہ کر کے ٹھنڈے دل سے دنیا کو پسند کر لیا ہے اور آخرت کے بارے میں فیصلہ کر چکے ہیں کہ جہاں جہاں اس کا مفاد دنیا کے مفاد سے ٹکرا ئے گا وہاں اُسے قربان کرتے چلے جائیں گے |