Ayats Found (13)
Surah 6 : Ayat 19
قُلْ أَىُّ شَىْءٍ أَكْبَرُ شَهَـٰدَةًۖ قُلِ ٱللَّهُۖ شَهِيدُۢ بَيْنِى وَبَيْنَكُمْۚ وَأُوحِىَ إِلَىَّ هَـٰذَا ٱلْقُرْءَانُ لِأُنذِرَكُم بِهِۦ وَمَنۢ بَلَغَۚ أَئِنَّكُمْ لَتَشْهَدُونَ أَنَّ مَعَ ٱللَّهِ ءَالِهَةً أُخْرَىٰۚ قُل لَّآ أَشْهَدُۚ قُلْ إِنَّمَا هُوَ إِلَـٰهٌ وَٲحِدٌ وَإِنَّنِى بَرِىٓءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ
ان سے پوچھو، کس کی گواہی سب سے بڑھ کر ہے؟کہو، میرے اور تمہارے درمیان اللہ گواہ ہے1، اور یہ قرآن میری طرف بذریعہ وحی بھیجا گیا ہے تاکہ تمہیں اور جس جس کو یہ پہنچے، سب کو متنبہ کر دوں کیا واقعی تم لوگ یہ شہادت دے سکتے ہو کہ اللہ کے ساتھ دوسرے خدا بھی ہیں2؟ کہو، میں تو اس کی شہادت ہرگز نہیں دے سکتا کہو3، خدا تو وہی ایک ہے اور میں اس شرک سے قطعی بیزار ہوں جس میں تم مبتلا ہو
3 | یعنی اگر تم علم کے بغیر محض جھُوٹی شہادت دینا چاہتے ہو تو دو، میں تو ایسی شہادت نہیں دے سکتا |
2 | کسی چیز کی شہادت دینے کے لیے محض قیاس و گمان کافی نہیں ہے بلکہ اس کے لیے علم ہونا ضروری ہے جس کی بنا پر آدمی یقین کے ساتھ کہہ سکے کہ ایسا ہے ۔ پس سوال کا مطلب یہ ہے کہ کیا واقعی تمہیں یہ علم ہے کہ اس جہانِ ہست و بُود میں خدا کے سوا اَور بھی کوئی کار فرما حاکمِ ذی اختیار ہے جو بندگی و پرستش کا مستحق ہو |
1 | یعنی اس بات پر گواہ ہے کہ میں اس کی طرف سے مامور ہوں اور جو کچھ کہہ رہا ہوں اسی کے حکم سے کہہ رہا ہوں |
Surah 7 : Ayat 1
الٓمٓصٓ
ا، ل، م، ص
Surah 7 : Ayat 2
كِتَـٰبٌ أُنزِلَ إِلَيْكَ فَلَا يَكُن فِى صَدْرِكَ حَرَجٌ مِّنْهُ لِتُنذِرَ بِهِۦ وَذِكْرَىٰ لِلْمُؤْمِنِينَ
یہ ایک کتاب ہے جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے1، پس اے محمدؐ، تمہارے دل میں اس سے کوئی جھجک نہ ہو2 اس کے اتارنے کی غرض یہ ہے کہ تم اس کے ذریعہ سے (منکرین کو) ڈراؤ اور ایمان لانے والے لوگوں کو یاد دہانی ہو3
3 | مطلب یہ ہے کہ اس سورہ کا اصل مقصد تو ہے اِنذار، یعنی لوگوں کو رسول کی دعوت قبول نہ کرنے کے نتائج سے ڈرانا اور غافلوں کو چونکا نا اور متنبہ کرنا، رہی اہلِ ایمان کی تذکیر(یاد دہانی)تو وہ ایک ضمنی فائدہ ہے جو اِنذر کے سلسلہ میں خودبخود حاصل ہو جاتا ہے |
2 | یعنی بغیر کسی جھجک اور خوف کے اِسے لوگوں تک پہنچا دو اور اس بات کی کچھ پرواہ نہ کرو کہ مخالفین اس کا کیسا استقبال کریں گے۔ وہ بگڑتے ہیں، بگڑیں۔ مذاق اُڑاتے ہیں، اُڑائیں۔ طرح طرح کی باتیں بناتے ہیں، بنائیں۔ دشمنی میں اور زیادہ سخت ہوتے ہیں، ہو جائیں۔ تم بے کھٹکے اِس پیغام کو پہنچاؤ اور اس کی تبلیغ میں ذرا باک نہ کرو۔ جس مفہوم کے لیے ہم نے لفظ ِ جھجک استعمال کیا ہے، اصل عبارت میں اس کے لیے لفظ حَرَج ٌاستعمال ہوا ہے ۔ لغت میں حرج اُس گھنی جھاڑی کو کہتے ہیں جس میں سے گزرنا مشکل ہو ۔ دل میں حرج ہونے کا مطلب یہ ہُوا کہ مخالفتوں اور مزاحمتوں کے درمیان اپنا راستہ صاف نہ پاکرآدمی کا دل آگے بڑھنے سے رُکے۔ اسی مضمون کو قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ضیق صدر کے لفظ سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔ مثلاً وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّکَ یَضِيْقُ صَدْرُکَ بِمَا یَقُوْلُوْنَ (الحجر۸ ، آیت ۹۷)”اے محمد ؐ ، ہمیں معلوم ہے کہ جو باتیں یہ لوگ بناتے ہیں ان سے تم دل تنگ ہوتے ہو“۔ یعنی تمہیں پریشانی لاحق ہوتی ہے کہ جن لوگوں کی ضد اور ہٹ دھرمی اور مخالفتِ حق کا یہ حال ہے انہیں آخر کس طرح سیدھی راہ پر لایا جائے۔ فَلَعَلَّکَ تَارِکٌۢ بَعْضَ مَا یُوحٰیٓ اِلَیْکَ وَضَائِقٌۢ بِہٖ صَدْرُکَ اَنْ یَّقُوْلُوْا لَوْ لَآ اُنْزِلَ عَلَیْہِ کَنْزٌ اَوْ جَآءَ مَعَہ مَلَکٌ (ہود، آیت ١۲)”تو کہیں ایسا نہ ہو کہ جو کچھ تم پر وحی کیا جا رہا ہے اس میں سے کوئی چیز تم بیان کرنے سے چھوڑ دو اور اس بات سے دل تنگ ہو کہ وہ تمہاری دعوت کے جواب میں کہیں گے اِس پر کوئی خزانہ کیوں نہ اُترایا اس کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہ آیا |
1 | کتاب سے مراد یہی سورہ اعراف ہے |
Surah 19 : Ayat 97
فَإِنَّمَا يَسَّرْنَـٰهُ بِلِسَانِكَ لِتُبَشِّرَ بِهِ ٱلْمُتَّقِينَ وَتُنذِرَ بِهِۦ قَوْمًا لُّدًّا
پس اے محمدؐ، اِس کلام کو ہم نے آسان کر کے تمہاری زبان میں اسی لیے نازل کیا ہے کہ تم پرہیز گاروں کو خوشخبری دے دو اور ہٹ دھرم لوگوں کو ڈرا دو
Surah 21 : Ayat 45
قُلْ إِنَّمَآ أُنذِرُكُم بِٱلْوَحْىِۚ وَلَا يَسْمَعُ ٱلصُّمُّ ٱلدُّعَآءَ إِذَا مَا يُنذَرُونَ
اِن سے کہہ دو کہ "میں تو وحی کی بنا پر تمہیں متنبہ کر رہا ہوں" مگر بہرے پکار کو نہیں سنا کرتے جبکہ اُنہیں خبردار کیا جائے
Surah 21 : Ayat 46
وَلَئِن مَّسَّتْهُمْ نَفْحَةٌ مِّنْ عَذَابِ رَبِّكَ لَيَقُولُنَّ يَـٰوَيْلَنَآ إِنَّا كُنَّا ظَـٰلِمِينَ
اور اگر تیرے رب کا عذاب ذرا سا انہیں چھو جائے1 تو ابھی چیخ اٹھیں کہ ہائے ہماری کم بختی، بے شک ہم خطا وار تھے
1 | وہی عذاب جس کے لیے یہ جلدی مچاتے ہیں اور مذاق کے انداز میں کہتے ہیں کہ لاؤ نا وہ عذاب کیوں نہیں وہ ٹوٹ پڑتا |
Surah 26 : Ayat 194
عَلَىٰ قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ ٱلْمُنذِرِينَ
تاکہ تو اُن لوگوں میں شامل ہو جو (خدا کی طرف سے خلق خدا کو) متنبّہ کرنے والے ہیں
Surah 32 : Ayat 3
أَمْ يَقُولُونَ ٱفْتَرَٮٰهُۚ بَلْ هُوَ ٱلْحَقُّ مِن رَّبِّكَ لِتُنذِرَ قَوْمًا مَّآ أَتَـٰهُم مِّن نَّذِيرٍ مِّن قَبْلِكَ لَعَلَّهُمْ يَهْتَدُونَ
کیا یہ لوگ کہتے ہیں1 کہ اس شخص نے اِسے خود گھڑ لیا ہے2؟ نہیں، بلکہ یہ حق ہے تیرے رب کی طرف سے3 تاکہ تو متنبہ کرے ایک ایسی قوم کو جس کے پاس تجھ سے پہلے کوئی متنبہ کرنے والا نہیں آیا، شاید کہ وہ ہدایت پا جائیں4
4 | یعنی جس کا حق ہونا اور مِن جانب اللہ ہونا قطعی و یقینی امر ہے اُسی طرح اِس کا مبنی بر حکمت ہونا اور خود تم لوگوں کے لیے خدا کی ایک رحمت ہونا بھی ظاہر ہے۔ تم خود جانتے ہو کہ صد ہا برس سے تمہارے اندر کوئی پیغمبر نہیں آیا ہے۔ تم خود جانتے ہو کہ تمہاری ساری قوم جہالت اور اخلاقی پستی اور سخت پسماندگی میں مبتلا ہے۔ اس حالت میں اگر تمہیں بیدار کرنے اور راہ راست دکھانے کے لیے ایک پیغمبر تمہارے درمیان بھیجا گیا ہے تو اس پر حیران کیوں ہوتے ہو۔ یہ تو ایک بڑی ضرورت ہے جسے اللہ تعالٰی نے پورا کیا ہے اور تمہاری اپنی بھلائی کے لیے کیا ہے۔ واضح رہے کہ عرب میں دینِ حق کی روشنی سب سے پہلے حضرت ہودؑ اور حضرت صالحؑ کے ذریعہ سے پہنچی تھی جو زمانۂ قبل تاریخ میں گزرے ہیں۔ پھر حضرت ابراہیم و اسمٰعیل علیہما السلام آئے جن کا زمانہ حضورؐ سے ڈھائی ہزار برس قبل گزرا ہے۔ اس کے بعد آخری پیغمبر جو عرب کی سر زمین میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے پہلے بھیجے گئے وہ حضرت شعیب علیہ السّلام تھے۔اور ان کی آمد پر بھی دو ہزار برس گزر چکے تھے۔ یہ اتنی طویل مدّت ہے کہ اس کے لحاظ سے یہ کہنا بالکل بجا تھا کہ اس قوم کے اندر کوئی متنبہ کرنے والا نہیں آیا۔ اس ارشاد کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس قوم میں کبھی کوئی متنبہ کرنے والا نہ آیا تھا۔ بلکہ اس کامطلب یہ ہے کہ ایک مدّتِ دراز سے یہ قوم ایک متنبہ کرنے والے کی محتاج چلی آ رہی ہے۔ یہاں ایک اور سوال سامنے آجاتا ہے جس کو صاف کر دینا ضروری ہیں۔ اس آیت کو پڑھتے ہوئے آدمی کے ذہن میں یہ کھٹک پیدا ہوتی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے پہلے صدہا برس تک عربوں میں کوئی نبی نہیں آیا تو اُس جاہلیت کے دور میں گزرے ہوئے لوگوں سے آخر باز پُرس کس بنیاد پر ہوگی؟ انہیں معلوم ہی کب تھا کہ ہدایت کیا ہے اور ضلالت کیا ہے؟ پھر اگر وہ گمراہ تھے تو اپنی اس گمراہی کے ذمہ دار وہ کیسے قرار دیے جا سکتے ہیں؟اس کا جواب یہ ہے کہ دین کا تفصیلی علم چاہے اُس جاہلیّت کے زمانہ میں لوگوں کے پاس نہ رہا ہو، مگر یہ بات اُس زمانے میں بھی لوگوں سے پوشیدہ نہ تھی کہ اصل دین توحید ہے اور انبیاء علیہم السلام نے کبھی بُت پرستی نہیں سکھائی ہے۔ یہ حقیقت اُن روایات میں بھی محفوظ تھی جو عرب کے لوگوں کو اپنی سر زمین کے انبیاء سے پہنچی تھیں، اور اسے قریب کی سرزمین میں آئی ہوئے انبیاء حضرت موسیٰ ،حضرت داؤد، حضرت سلیمان اور حضرت عیسٰی علیہم السلام کی تعلیمات کے واسطے سے بھی وہ جانتے تھے۔ عرب کی روایات میں یہ بات بھی مشہور و معروف تھی کہ قدیم زمانہ میں اہل عرب کا اصل دین، دینِ اِبراہیمیؐ تھا اور بُت پرستی اُن کے ہاں عُمرو بن لُحیّ نامی ایک شخص نے شروع کی تھی۔ شرک و بُت پرستی کے رواج عام کے باوجود عرب کے مختلف حصّوں میں جگہ جگہ ایسے لوگ موجود تھے جو شرک سے انکار کرتے تھے، توحید کا اعلان کرتے تھے اور بُتوں پر قُربانیاں کرنے کی علانیہ مذمّت کرتے تھے خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد سے بالکل قریب زمانے میں قُسّ بن ساعِد ۃالایاوی ،اُمَیَّہ بن ابی الصَّلْت، سُوْید بن عُمرو المُصْطَلِقی، وکیع بن سَعَمہ بن زُہَیر الاِیاوی، عُمرو بن جُندُب الجُہنِی، ابو قیس صَرمہ بن ابی انَس، زید بن عُمروبن نُُفَیل، ورقہ بن نَو فَل، عثمان بن الحُوَیزِث، عبیداللہ بن جَحش، عامر بن الظَّرب العَدْوانی، عَلّاف بن شہاب التَّمیمی ، المُتَلَمِسّ بن اُمَیّۃالکنانی ، زُہَیربن ابی سَلْمیٰ ، خالد بن سِنان بن غَیث، العَبُسی، عبداللہ القُضَاعِی اور ایسے ہی بہت سے لوگوں کے حالات ہمیں تاریخوں میں ملتے ہیں جنہیں حُنَفَاء کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ سب لوگ علی الا علان توحید کو اصل دین کہتے تھے اور مشرکین کے مذہب سے اپنی بے تعلقی کا صاف صاف اظہار کرتے تھے۔ ظاہر ہے کہ ان لوگوں کے ذہن میں یہ تخیل انبیاء علیہم السلام کی سابقہ تعلیمات کے باقی ماندہ اثرات ہی سے آیا تھا۔ اس کے علاوہ یمن میں چوتھی پانچویں صدی عیسوی کے جو کتبات آثار قدیمہ کی جدید تحقیقات کے سلسلے میں برآمد ہوئے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس دَور میں وہاں ایک توحیدی مذہب موجود تھا جس کے پیروالرحمان اور ربّ السّماء والارض ہی کو اِلٰہ واحِد تسلیم کرتے تھے۔ ۳۷۸ عیسوی کا ایک کتبہ ایک عبادت گاہ کے کھنڈر سے ملا ہے جس میں لکھا گیا ہے کہ یہ معبد’’الٰہ ذدسَموی‘‘ یعنی الٰہ السماء کی عبادت کے لئے بنایا گیا ہے۔۴۶۵ عیسوی کے ایک کتبہ میں بنصرورا الٰھن بعل سمین وارضین(بنصر و بعون الالٰہ ربّ السماء والارْض)کے الفاظ لکھے ہیں جو عقیدۂ توحید پر صریح دلالت کرتے ہیں۔اسی دور کا ایک اور کتبہ ایک قبر پر ملا ہے جس میں بِخَیل رحمنن(یعنی استعین بحولالرحمٰن)کے الفاظ لکھے ہوئے ہیں، اِسی طرح شمال عرب میں دریائے فُرات اور قِنَّسرین کے درمیان زَہَد کے مقام پر ۵۱۲ عیسوی کا ایک کتبہ ملا ہے جس میں بسْم الا لٰہٗ لَاعِزَّاِلَّا لَہٗ لَاشُکرَاِلَّالَہٗ کے الفاظ پائے جاتے ہیں۔ یہ ساری باتیں بتاتی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت سے پہلے انبیاء سابقین کی تعلیمات کے آثار عرب سے بالکل مٹ نہیں گئے تھے اور کم از کم اِتنی بات یاد دلانے کے لیے بہت سے ذرائع موجود تھے کہ ’’تمہارا خدا ایک ہی خدا ہے ‘‘۔(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم، صفحات ۴۶۴۔۴۶۵) |
3 | جس طرح پہلی آیت میں لَا رَیْبَ فِیْہِ،کہنا کافی سمجھا گیا تھا اور اس سے بڑھ کر کوئی استدلال قرآن کے کلام اِلٰہی ہونے کے حق میں پیش کر نے کی ضرورت نہ سمجھی گئی تھی، اُسی طرح اب اِس آیت میں بھی کفّارِ مکہ کے الزامِ افترا پر صرف اتنی بات ہی کہنے پر اکتفا کیا جا رہا ہے کہ ’’ یہ حق ہے تیرے رب کی طرف سے‘‘ اس کی وجہ وہی ہے جو اوپر حاشیہ نمبر ۱ میں ہم بیان کر چکے ہیں۔ کون، کس ماحول میں، کس شان کے ساتھ یہ کتاب پیش کر رہا تھا، یہ سب کچھ سامعین کے سامنے موجود تھا۔ اور یہ کتاب بھی اپنی زبان اور اپنے ادب اور مضامین کے ساتھ سب کے سامنے تھی۔ اور اس کے اثرات و نتائج بھی مکہ اُس سوسائٹی میں سب اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ اس صورت حال میں اس کتاب کا ربّ العالمین سے آیا ہوا حق ہونا ایسا صریح امر واقعہ تھا جسے صرف نعمتی طور پر بیان کر دینا ہی کفّار کے الزام کی تردید کے لیے کافی تھا۔ ا س پر کسی استدلال کی کوشش بات کو مضبوط کرنے کے بجائے الٹی اسے کمزور کرنے کی موجب ہوتی۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے دن کے وقت سورج چمک رہا ہو اور کوئی ڈھیٹ آدمی کہے کہ یہ اندھیری رات ہے۔ اس کے جواب میں صرف یہی کہنا کافی ہے کہ تم اسے رات کہتے ہو؟ یہ روز روشن تو سامنے موجود ہے۔ اس کے بعد دن کے موجود ہونے پر اگر آپ منطقی دلیلیں قائم کریں گے تو اپنے جواب کے زور میں کوئی اضافہ نہیں کریں گے بلکہ درحقیقت اس کے زور کو کچھ کم ہی کر دیں گے۔ |
2 | یہ محض سوال واستفہام نہیں ہے بلکہ اس میں سخت تعجب کا انداز پایا جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اُن ساری باتوں کے باوجود، جن کی بنا پر اس کتاب کا مُنزَّل من اللہ ہونا ہر شک وشبہ سے بالا تر ہے، کیا یہ لوگ ایسی صریح ہٹ دھرمی کی بات کہہ رہے ہیں کہ محمد(صلی اللہ علیہ و سلم) اسے خود تصنیف کرکے جھوٹ موٹ اللہ ربّ العالمین کی طرف منسُوب کردیا ہے؟ اتنا لغو اور بے سر و پا الزام رکھتے ہوئے کوئی شرم ان کو نہیں آتی؟ انہیں کچھ محسوس نہیں ہوتا کہ جو لوگ محمد(صلی اللہ علیہ و سلم) کو اور اُن کے کام اور کلام کو جانتے ہیں اوراس کتاب کو بھی سمجھتے ہیں، وہ اس بیہودہ الزام کو سُن کرکیا رائے قائم کریں گے؟ |
1 | اوپر کے تمہیدی فقرے کے بعد مشرکینِ مکہ کے پہلے اعتراض کو لیا جا رہا ہے جو وہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت پر کرتے تھے۔ |
Surah 36 : Ayat 6
لِتُنذِرَ قَوْمًا مَّآ أُنذِرَ ءَابَآؤُهُمْ فَهُمْ غَـٰفِلُونَ
تاکہ تم خبردار کرو ایک ایسی قوم کو جس کے باپ دادا خبردار نہ کیے گئے تھے اور اس وجہ سے وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں1
1 | اس آیت کے دو ترجمے ممکن ہیں۔ ایک وہ جو اوپر متن میں کیا گیا ہے۔دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’’تم ڈراؤ ایک قوم کے لوگوں کو اُسی بات سے جس سے ان کے باپ دادا ڈرائے گئے تھے، کیونکہ وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں‘‘۔ پہلا مطلب اگر لیا جائے تو باپ دادا سے مراد زمانۂ قریب کے باپ دادا ہوں گے، کیونکہ زمانۂ بعید میں تو عرب کی سر زمین میں متعدد انبیاء آ چکے تھے اور دوسرا مطلب اختیار کرنے کی صورت میں مراد یہ ہو گی کہ قدیم زمانے میں جو پیغام انبیاء کے ذریعہ سے اس قوم کے آبا و اجداد کے پاس آیا تھا اس کی اب پھر تجدید کرو، کیونکہ یہ لوگ اسے فراموش کر گئے ہیں۔ اس لحاظ سے دونوں ترجموں میں در حقیقت کوئی تضاد نہیں ہے اور معنی کے لحاظ سے دونوں اپنی اپنی جگہ درست ہیں۔اس مقام پر یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قوم کے اسلاف پر جو زمانہ ایسا گزرا تھا جس میں کوئی خبردار کرنے والا ان کے پاس نہیں آیا،اُس زمانے میں اپنی گمراہی کے وہ کس طرح ذمہ دار ہو سکتے تھے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالٰی جب کوئی نبی دنیا میں بھیجتا ہے تو اس کی تعلیم و ہدایت کے اثرات دور دور تک پھیلتے ہیں اور نسلاً بعد نسل چلتے رہتے ہیں۔ یہ آثار جب تک باقی رہیں اور نبی کے پیروؤں میں جب تک ایسے لوگ اُٹھتے رہیں جو ہدایت کی شمع روشن کرنے والے ہوں، اس وقت تک زمانے کو ہدایت سے خالی نہیں قرار دیا جاسکتا۔اور جب اس نبی کی تعلیم کے اثرات بالکل مٹ جائیں یا ان میں مکمل تحریف ہو جائے تو دوسرے نبی کی بعثت نا گزیر ہو جاتی ہے۔نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت سے پلے عرب میں حضرت ابراہیم و اسماعیل اور حضرت شعیب اور حضرت موسیٰ علیہم السلام کی تعلیم کے اثرات ہر طرف پھیلے ہوئے تھے اور وقتاً فوقتاً ایسے لوگ اس قوم میں اُٹھتے رہے تھے، یا باہر سے آتے رہے تھے جو ان اثرات کو تازہ کرتے رہتے تھے۔جب یہ اثرات مٹنے کے قریب ہو گئے اور اصل تعلیم میں بھی تحریف ہو گئی تو اللہ تعالٰی نے حضورؐ کی مبعوث فرمایا اور ایسا انتظام فرمایا کہ آپ کی ہدایت کے آثار نہ مٹ سکتے ہیں اور نہ محرف ہو سکتے ہیں۔(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، سورۃ سبا، حاشیہ نمبر 5)۔ |
Surah 36 : Ayat 70
لِّيُنذِرَ مَن كَانَ حَيًّا وَيَحِقَّ ٱلْقَوْلُ عَلَى ٱلْكَـٰفِرِينَ
تاکہ وہ ہر اُس شخص کو خبردار کر دے جو زندہ ہو1 اور انکار کرنے والوں پر حجت قائم ہو جائے
1 | زندہ سے مراد سوچنے اور سمجھنے والا انسان ہے جس کی حالت پتھر کی سی نہ ہو کہ آپ اس کے سامنے خواہ کتنی ہی معقولیت کے ساتھ حق اور باطل کا فرق بیان کریں اور کتنی ہی درد مندی کے ساتھ اس کو نصیحت کریں، وہ نہ کچھ سنے، نہ سمجھے اور اپنی جگہ سے سر کے۔ |