Ayats Found (1)
Surah 7 : Ayat 54
إِنَّ رَبَّكُمُ ٱللَّهُ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضَ فِى سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِ يُغْشِى ٱلَّيْلَ ٱلنَّهَارَ يَطْلُبُهُۥ حَثِيثًا وَٱلشَّمْسَ وَٱلْقَمَرَ وَٱلنُّجُومَ مُسَخَّرَٲتِۭ بِأَمْرِهِۦٓۗ أَلَا لَهُ ٱلْخَلْقُ وَٱلْأَمْرُۗ تَبَارَكَ ٱللَّهُ رَبُّ ٱلْعَـٰلَمِينَ
در حقیقت تمہارا رب اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا1، پھر اپنے تخت سلطنت پر جلوہ فرما ہوا2 جو رات کو دن پر ڈھانک دیتا ہے اور پھر دن رات کے پیچھے دوڑا چلا آتا ہے جس نے سورج اور چاند اور تارے پیدا کیے سب اس کے فرمان کے تابع ہیں خبردار رہو! اُسی کی خلق ہے اور اسی کا امر ہے3 بڑا با برکت ہے اللہ4، سارے جہانوں کا مالک و پروردگار
4 | برکت کے اصل معنی ہیں نمو، افزائش اور بڑھوتری کے ، اور اسی کے ساتھ اس لفظ میں رفعت و عظمت کا مفہوم بھی ہے اور ثبات اور جماؤ کا بھی۔ پھر ان سب مفہومات کے ساتھ خیر اور بھلائی کا تصورّ لازماً شامل ہے۔ پس اللہ کے نہایت با برکت ہونے کا مطلب یہ ہوا کہ اس کی خوبیوں اور بھلائیوں کی کوئی حد نہیں ہے، بے حدوحساب خیرات اس کی ذات سے پھیل رہی ہیں، اور وہ بہت بلند و بر تر ہستی ہے ، کہیں جا کر اس کی بلندی ختم نہیں ہوتی ، اور اس کی یہ بھلائی اور رفعت مستقل ہے، عارضی نہیں ہے کہ کبھی اس کو زوال ہو۔(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو، الفرقان، حواشی۔١۔١۹) |
3 | یہ اُسی مضمون کی مزید تشریح ہے جو”استواء علی العرش“ کے الفاظ میں مجملاً بیان کیا گیا تھا۔ یعنی یہ کہ خدا محض خالق ہی نہیں آمر اور حا کم بھی ہے۔ اس نے اپنی خلق کو پیدا کر کے نہ تو دوسروں کے حوالے کر دیا کہ وہ اس میں حکم چلائیں، اور نہ پوری خلق کو یا اس کے کسی حصّے کو خود مختار بنا دیا ہے کہ جس طرح چاہے خود کام کرے۔ بلکہ عملاً تمام کائنات کی تدبیر خدا کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ لیل ونہار کی گردش آپ سے آپ نہیں ہو رہی ہے بلکہ خدا کے حکم سے ہو رہی ہے، جب چاہے اسے روک دے اور جب چاہے اس کے نظام کو تبدیل کر دے۔سورج اور چاند اور تارے خود کسی طاقت کے مالک نہیں ہیں بلکہ خدا کے ہاتھ میں بالکل مسخّر ہیں اور مجبور غلاموں کی طرح بس وہی کام کیے جا رہے ہیں جو خدا ان سے لے رہا ہے |
2 | خد ا کے استواءعلی العرش(تخت سلطنت پر جلوہ فرماہونے )کی تفصیلی کیفیت کو سمجھنا ہمارے لیے مشکل ہے۔ بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کی تخلیق کے بعد کسی مقام کو اپنی اس لا محدود سلطنت کا مرکز قرار دے کر اپنی تجلیات کو وہاں مرتکز فرمادیا ہو اور اسی کا نام عرش ہو جہاں سے سارے عالم پر موجود اور قوت کا فیضان بھی ہو رہا ہے اور تدبیر امر بھی فرمائی جا رہی ہے ۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ عرش سے مراد اقتدار فرماں روائی ہو اور ا س پر جلوہ فرما ہوے سے مراد یہ ہو کہ اللہ نے کا ئنات کو پیدا کر کے اس کی زمامِ سلطنت اپنے ہاتھ میں لی۔ بہر حال استواء علی العرش کا تفصیلی مفہوم خواہ کچھ بھی ہو، قرآن میں اس کے ذکر کا اصل مقصد یہ ذہن نشین کر نا ہے کہ اللہ تعالیٰ محض خالقِ کا ئنات ہی نہیں ہے بلکہ مدبّر ِ کائنات بھی ہے۔ وہ دنیا کو وجود میں لانے کے بعد اس سے بے تعلق ہو کر کہیں بیٹھ نہیں گیا ہے بلکہ عملاً وہی سارے جہان کے جزو کل پر فرماں روائی کر رہا ہے۔ سلطانی و حکمرانی کے تمام اختیارات بالفعل اس کے ہاتھ میں ہیں،ہر چیز اس کے امر کی تابع ہے، ذرّہ ذرّہ اس کے فرمان کا مطیع ہے اور موجودات کی قسمتیں دائماً اس کے حکم سے وابستہ ہیں۔ اس طرح قرآن اُ س کی بنیادی غلط فہمی کی جڑ کاٹنا چاہتا ہے جس کی وجہ سے انسان کبھی شرک کی گمراہی میں مبتلا ہوا ہے اور کبھی خود مختیاری و خود سری کی ضلالت میں۔ خدا کو کائنات کے انتظام سے عملاً بے تعلق سمجھ لینے کا لازمی نتیجہ یہ ہےکہ آدمی یا تو اپنی قسمت کو دوسرں سےوابستہ سمجھے اور ان کے آگے سر جھکادے ، یا بھر اپنی قسمت کا مالک خود اپنے آپ کو سمجھے اور خود مختار بن بیٹھے۔ یہاں ایک اور بات اور قابل توجہ ہے۔ قرآن مجید میں خدا اور خلق کے تعلق کو واضح کرنے کے لیے انسانی زبان میں سے زیادہ تر وہ الفاظ، مصطلحات، استعارے اور انداز بیان انتخاب کیے گئے ہیں جو سلطنت و بادشاہی سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ طرز بیان قرآن میں اس قدر نمایاں ہے کہ کوئی شخص جو سمجھ کر قرآن کو پڑھتا ہوا سے محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ بعض کم فہم ناقدین کے معکوس دماغوں نے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ یہ کتاب جس عہد کی ”تصنیف “ہے اس زمانہ میں انسان کے ذہن پر شاہی نظام کا تسلط تھا اس لیے مصنف نے(جس سے مراد ان ظالموں کے نزدیک محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں) خدا کو بادشاہ کے رنگ میں پیش کیا۔ حالانکہ دراصل قرآن فس دائمی و ابدی حقیقت کو پیش کر رہا ہے وہ اس کے بر عکس ہے۔ وہ حقیقت یہ ہے کہ زمین اور آسمانوں میں پادشاہی صرف ایک ذات کی ہے، اور حاکمیت (Sovereignity ) جس شے کا نام ہے وہ اسی ذات کے لیے خاص ہے، اور یہ نظامِ کائنات ایک کامل مرکزی نظام ہے جس میں تمام اختیارات کو وہی ایک ذات استعمال کر رہی ہے، لہذا اس نظام میں جو شخص یا گروہ اپنی یا کسی اور کی جزوی یا کُلّی حاکمیت کا مدعی ہے وہ محض فریب میں مبتلا ہے۔ نیز یہ کہ اس نظام کے اندر رہتے ہوئے انسان کے لیے اِس کے سوا کوئی دوسرا رویہ صحیح نہیں ہو سکتا کہ اُسی ایک ذات کو مذہبی معنوں میں واحد معبود بھی مانے اور سیاسی و تمدنی معنوں میں واحد سلطان (Sovereign )بھی تسلیم کرے |
1 | یہاں دن کا لفظ یا تو اسی چوبیس گھنٹے کے دن کا ہم معنی ہے جسے دنیا کے لوگ دن کہتے ہیں، یا پھر یہ لفظ دور ( Period ) کے معنی میں استعمال ہوا ہے، جیسا کہ سورة الحج آیت نمبر ۴۷ میں فرمایا وَاِنَّ یَوْمًاعِنْدَرَبِّکِ کَاَلْفِ سَنَةٍمِمَّاتَعُدُّوْنَ(اور حقیقت یہ ہے کہ تیرے رب کے ہاں ایک دن ہزار سال کے برابر ہے اُس حساب سے جو تم لوگ لگاتے ہو)، اور سورة مارج کی آیت ۴ میں فرمایا کہ تَعْرُجُ الْمَلٰئِکَةُوَالرُّوْحُ اِلَیْہِ فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٗ خَمْسِیْنَ اَلْفَ سَنَةٍ(فرشتے اور جبرائیل اس کی طرف ایک دن میں چڑھتے ہیں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہے)۔اس کا صحیح مفہوم اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔(مزید تشریح کے لیے ملا حظہ ہو حٰم السجدہ حواشی ١١ تا ١۵) |