Ayats Found (2)
Surah 6 : Ayat 98
وَهُوَ ٱلَّذِىٓ أَنشَأَكُم مِّن نَّفْسٍ وَٲحِدَةٍ فَمُسْتَقَرٌّ وَمُسْتَوْدَعٌۗ قَدْ فَصَّلْنَا ٱلْأَيَـٰتِ لِقَوْمٍ يَفْقَهُونَ
اور وہی ہے جس نے ایک متنفس سے تم کو پید ا کیا1 پھر ہر ایک کے لیے ایک جائے قرار ہے اور ایک اس کے سونپے جانے کی جگہ یہ نشانیاں ہم نے واضح کر دی ہیں اُن لوگوں کے لیے جو سمجھ بوجھ رکھتے ہیں2
2 | یعنی نوع انسانی کی تخلیق اور اس کے اندر مردو زن کی تفریق اور تناسل کے ذریعہ سے اس کی افزائش، اور رحم مادر میں انسانی بچہ کا نطفہ قرار پا جانے کے بعد سے زمین میں اس کے سونپے جانے تک اس کی زندگی کے مختلف اطوار پر اگر نظر ڈالی جائے تو اس میں بے شمار کھُلی کھُلی نشانیاں آدمی کے سامنے آئیں گی جن سے وہ اُس حقیقت کو پہچان سکتا ہے جو اُوپر بیان ہوئی ہے۔ مگر ان نشانیوں سے یہ معرفت حاصل کرنا انہی لوگوں کا کام ہے جو سمجھ بُوجھ سے کام لیں۔ جانوروں کی طرح زندگی بسر کرنے والے، جو صرف اپنی خواہشات سے اور انھیں پورا کرنے کی تدبیروں ہی سے غرض رکھتے ہیں، اِن نشانیوں میں کچھ بھی نہیں دیکھ سکتے |
1 | یعنی نسلِ انسانی کی ابتداء ایک متنفس سے کی |
Surah 16 : Ayat 16
وَعَلَـٰمَـٰتٍۚ وَبِٱلنَّجْمِ هُمْ يَهْتَدُونَ
اس نے زمین میں راستہ بتانے والی علامتیں رکھ دیں1، اور تاروں سے بھی لوگ ہدایت پاتے ہیں2
2 | یہاں تک آفاق اور اَنفُس کی بہت سی نشانیاں جو پے در پے بیان کی گئی ہیں ان سے یہ ذہن نشین کرنا مقصود ہے کہ انسان اپنے وجود سے لے کر زمین اور آسمان کے گوشے گوشے تک جدھر چاہے نظر دوڑا کر دیکھ لے، ہر چیز پیغمبر کے بیان کی تصدیق کر رہی ہے اور کہیں سے بھی شرک کی۔۔۔۔۔۔ اور ساتھ ساتھ دہریت کی بھی ۔۔۔۔۔۔ تائید میں کوئی شہادت فراہم نہیں ہوتی۔ یہ ایک حقیر بوند سے بولتا چالتااور حجّت و استدلال کرتا انسان بنا کھڑا کرنا۔ یہ اُس کی ضرورت کے عین مطابق بہت سے جانور پیدا کرنا جن کے بال اور کھال، خون اور دودھ، گوشت اور پیٹھ، ہر چیز میں انسانی فطرت کے بہت سے مطالبات کا، حتیٰ کہ اس کے ذوق جمال کی مانگ تک کا جواب موجود ہے۔ یہ آسمان سے بارش کا انتظام، اور یہ زمین میں طرح طرح کے پھلوں اور غلّوں اور چاروں کی روئیدگی کا انتظام، جس کے بے شمار شعبے آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ کھاتے چلے جاتےہیں اور پھر انسان کی بھی فطری ضرورتوں کے عین مطابق ہیں۔ یہ رات اور دن کی باقاعدہ آمدورفت، اور یہ چاند اور سورج اور تاروں کی انتہائی منظم حرکات، جن کا زمین کی پیداوار اور انسان کی مصلحتوں سے اِتنا گہرا ربط ہے۔ یہ زمین میں سمندروں کا وجود اور یہ اُن کے اندر انسان کی بہت سی طبعی اور جمالی طلبوں کا جواب۔ یہ پانی کا چند مخصوص قوانین سے جکڑا ہوا ہونا، اور پھر اس کے یہ فائدے کہ انسان سمندر جیسی ہولناک چیز کا سینہ چیرتا ہوا اس میں اپنے جہاز چلا تا ہے اور ایک ملک سے دوسرے ملک تک سفراور تجارت کرتا پھرتا ہے۔ یہ دھرتی کے سینے پر پہاڑوں کے اُبھار اور یہ انسان کی ہستی کے لیے اُن کے فائدے۔ یہ سطح زمین کی ساخت سے لےکر آسمان کی بلند فضاؤں تک بے شمارعلامتوں اور امتیازی نشانوں کا پھیلاؤ اور پھر اس طرح ان کا انسان کے لیے مفید ہونا۔ یہ ساری چیزیں صاف شہادت دے رہی ہیں کہ ایک ہی ہستی نے یہ منصوبہ سوچا ہے، اُسی نے اپنی منصوبے کے مطابق ان سب کو ڈیزائن کیا ہے، اُسی نے اِس ڈیزائن کو پیدا کیا ہے، وہی ہر آن اس دنیا میں نِت نئی چیزیں بنا بنا کر اس طرح لا رہا ہےکہ مجموعی اسکیم اور اس نظم میں ذرا فرق نہیں آتا، اور وہی زمین سے لے کر آسمانوں تک اس عظیم الشان کارخانے کو چلا رہا ہے۔ ایک بے وقوف یا ایک ہٹ دھرم کے سوا اور کون یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ سب کچھ ایک اتفاقی حادثہ ہے؟ یا یہ کہ اس کمال درجۂ منظم، مربوط اور متناسب کائنات کے مختلف کام یا مختلف اجزا مختلف خداؤں کے آفریدہ اور مختلف خداؤں کے زیرِانتظام ہیں؟ |
1 | یعنی خدا نے ساری زمین بالکل یکساں بنا کر نہیں رکھ دی ہے بلکہ ہر خطے کو مختلف امتیازی علامات(Landmarks) سے ممتاز کیا۔ اِس کے بہت سے دوسرے فوائد کے ساتھ ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ آدمی اپنے راستےاور منزل مقصود کو الگ پہچان لیتا ہے۔ اس نعمت کی قدر آدمی کو اسی وقت معلوم ہوتی ہے جبکہ اسے کبھی ایسے ریگستانی علاقوں میں جانے کا اتفاق ہوا ہو جہاں اس طرح کے امتیازی نشانات تقریبًا مفقود ہوتے ہیں اور آدمی ہر وقت بھٹک جانے کا خطرہ محسوس کرتا ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر بحری سفر میں آدمی کو اس عظیم الشان نعمت کا احساس ہوتا ہے،کیونکہ وہاں نشاناتِ راہ بالکل ہی مفقود ہوتے ہیں۔ لیکن صحراؤں اور سمندروں میں بھی اللہ نے انسان کو رہنمائی کا ایک فطری انتظام کر رکھا ہے اور وہ ہیں تارے جنہیں دیکھ دیکھ کر انسان قدیم ترین زمانے سے آج تک اپنا راستہ معلوم کر رہا ہے۔ یہاں پھر توحیداور رحمت و ربوبیت کی دلیلوں کے درمیان ایک لطیف اشارہ دلیل ِرسالت کی طرف کر دیا گیا ہے۔ اس مقام کو پڑھتے ہوئے ذہن خود بخود اس مضمون کی طرف منتقل ہوتا ہے کہ جس خدا نے تمہاری مادّی زندگی میں تمہاری رہنمائی کے لیے یہ کچھ انتظامات کیے ہیں کیا وہ تمہاری اخلاقی زندگی سے اتنا بے پروا ہو سکتا ہے کہ یہاں تمہاری ہدایت کا کچھ بھی انتظام نہ کرے؟ ظاہر ہے کہ مادّی زندگی میں بھٹک جانے کا بڑے سے بڑا نقصان بھی اخلاقی زندگی میں بھٹکنے کے نقصان سے بدرجہا کم ہے۔ پھر جس ربِّ رحیم کو ہماری مادّی فلاح کی اتنی فکر ہے کہ پہاڑوں میں ہمارے لیے راستے بناتا ہے، میدانوں میں نشاناتِ راہ کھڑے کرتا ہے، صحراؤں اور سمندروں میں ہم کو صحیح سمتِ سفر بتانے کے لیے آسمانوں پر قندیلیں روشن کر تا ہے، اس سے یہ بدگمانی کیسے کی جا سکتی ہے کہ اس نے ہماری اخلاقی فلاح کے لیے کوئی راستہ نہ بنایا ہوگا، اس راستے کو نمایاں کرنے کے لیے کوئی نشان نہ کھڑا کیا ہوگا، اور اُسے صاف صاف دکھانے کے لیے کوئی سراج منیر روشن نہ کیا ہوگا؟ |