Ayats Found (2)
Surah 25 : Ayat 1
تَبَارَكَ ٱلَّذِى نَزَّلَ ٱلْفُرْقَانَ عَلَىٰ عَبْدِهِۦ لِيَكُونَ لِلْعَـٰلَمِينَ نَذِيرًا
نہایت متبرک ہے1 وہ جس نے یہ فرقان2 اپنے بندے پر نازل کیا3 تاکہ سارے جہان والوں کے لیے نذیر ہو4
4 | یعنی خبر دار کرنے والا ، متنبہ کرنے والا، غفلت اور گمراہی کے برے نتائج سے ڈرانے والا ۔ اس سے مراد فرقان بھی ہو سکتا ہے ، اور وہ ’’بندہ‘‘ بھی جس پر فرقان نازل کیا گیا۔ الفاظ ایسے جامع ہیں کہ دونوں ہی مراد ہو سکتے ہیں ، اور حقیقت کے اعتبار سے چونکہ دونوں ایک ہیں ، اور ایک ہی کام کے لیے بھیجے گۓ ہیں ، اس لیے کہنا چاہیے کہ دونوں ہی مراد ہیں ۔ پھر یہ جو فرمایا کہ سارے جہان والوں کے لیے نذیر ہو، تو اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کی دعوت اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت کسی ایک ملک کے لیے نہیں ، پوری دنیا کے لیے ہے ، اور اپنے ہی زمانے کے لیے نہیں ، آنے والے تمام زمانوں کے لیے ہے ۔ یہ مضمون متعدد مقامات پر قرآن مجید میں بیان ہوا ہے ۔ مثلاً فرمایا : یٰٓاَ یُّھَالنَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعاً، ’’ اے انسانو! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں ‘‘ (الاعراف، آیت 158) ۔ وَاُوْ حِیَ اِلَیَّ ھٰذَالْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَکُمْ بِہٖ وَمَنْم بَلَغَ ، ’’ میری طرف یہ قرآن بھیجا گیا ہے تاکہ اس کے ذریعہ سے میں تم کو خبردار کروں اور جس جس کو بھی یہ پہنچے ‘‘ (الانعام آیت 19) وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْراً وَّ نَذِیْراً ، ’’ ہم نے تم کو سارے ہی انسانوں کے لیے بشارت دینے والا اور خبر دار کرنے والا بنا کر بھیجا ہے ‘‘ (سبا آیت 28) وَمَآ اَرْسَلْنٰکَاِالَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ ، ’’ اور ہم نے تم کو تمام دنیا والوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے ‘‘ (الانبیاء، آیت 107 ) اور اسی مضمون کو خوب کھول کھول کر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے احادیث میں بار بار بیان فرمایا ہے کہ بُعثت الی الاحمر والا سود ، ’’ میں کالے اور گورے سب کی طرف بھیجا گیا ہوں ‘‘۔ اور کان النبی یبعث الیٰ قومہ خاصۃ و بعثت الی الناس عامۃ ، ’’ پہلے ایک نبی خاص طور پر اپنی ہی قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا ، اور میں عام طور پر تمام انسانوں کی طرف بھیجا گیا ہوں ‘‘ (بخاری و مسلم) اور و ارسلت الی الخلق کافۃ و خُرِم بی النبیون، ’’ میں ساری خلقت کی طرف بھیجا گیا ہوں اور ختم کر دیے گۓ میری آمد پر انبیاء‘‘(مسلم) |
3 | اصل میں لفظ نَزَّلَ استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں بتدریج، تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کرنا ۔ اس تمہیدی مضمون کی مناسبت آگے چل کر آیت 32 (رکوع3) کے مطالعہ سے معلوم ہو گی جہاں کفار مکہ کے اس اعتراض پر گفتگو کی گئی ہے کہ ’’ یہ قرآن پورا کا پورا ایک ہی وقت میں کیوں نہ اتار دیا گیا ‘‘؟ |
2 | یعنی قرآن مجید ۔فرقان مصدر ہے مادہ ف ر ق سے ، جس کے معنی ہیں دو چیزوں کو الگ کرنا، یا ایک ہی چیز کے اجزاء کا الگ الگ ہونا ۔ قرآن مجید کے لیے اس لفظ کا استعمال یا تو فارِق کے معنی میں ہوا ہے ، یا مفروق کے معنی میں یا پھر اس سے مقصود مبالغہ ہے ، یعنی فرق کرنے کے معاملے میں اس کا کمال اتنا بڑھا ہوا ہے کہ گویا وہ خود ہی فرق ہے ۔ اگر اسے پہلے اور تیسرے معنی میں لیا جاۓ تو اس کا صحیح ترجمہ کسوٹی، اور فیصلہ کن چیز ، اور معیارِ فیصلہ ( Criterion) کے ہوں گے ۔ اور اگر دوسرے معنی میں لیا جاۓ تو اس کا مطلب الگ الگ اجزاء پر مشتمل ، اور الگ الگ اوقات میں آنے والے اجزاء پر ، مشتمل ، چیز کے ہوں گے ، قرآن مجید کو ان دونوں ہی اعتبارات سے ’’ الفرقان‘‘ کہا گیا ہے |
1 | اصل میں لفظ تَبَارَکَ استعمال ہوا ہے جس کا پورا مفہوم کسی ایک لفظ تو در کنار ایک فقرے میں بھی ادا ہونا مشکل ہے ۔ اس کا مادہ ب ر ک ہے جس سے دو مصدر بَرَکَۃ اور بُرُ و ک نکلے ہیں ۔ بَرَکۃ میں افزونی ، فراوانی ، کثرت اور زیادتی کا تصور ہے اور بُرُوک میں ثبات ، بقاء اور لزوم کا تصور ۔ پھر جب اس مصدر سے تَبَارَکَ کا صیغہ بنایا جاتا ہے تو باب تفاعُل کی خصوصیت، مبالغہ اور اظہار کمال، اس میں اور شامل ہو جاتی ہے اور اس کا مفہوم انتہائی فراوانی، بڑھتی اور چڑھتی افزوفی، اور کمال درجے کی پائیداری ہو جاتا ہے ۔ یہ لفظ مختلف مواقع پر مختلف حیثیتوں سے کسی چیز کی فراوانی کے لیے ، یا اس کے ثبات و دوام کی کیفیت بیان کرنے کے لیے بولا جاتا ہے ۔ مثلاً کبھی اس سے مراد بلندی میں بہت بڑھ جانا ہوتا ہے ۔ جیسے کہتے ہیں تبارکت النخلۃ یعنی فلاں کھجور کا درخت بہت اونچا ہو گیا ۔ اِصْمَعِی کہتا ہے کہ ایک بدو ایک اونچے ٹیلے پر چڑھ گیا اور اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا تَبَارَکْتُ عَلَیْکُمْ ۔ ’’ میاں تم سے اونچا ہو گیا ہوں ‘‘۔ کبھی اسے عظمت اور بزرگی میں بڑھ جانے کے لیے بولتے ہیں ۔ کبھی اس کو فیض رسانی اور خیر اور بھلائی میں بڑھے ہوئے ہونے کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔ کبھی اس سے پاکیزگی و تقدس کا کمال مراد ہوتا ہے ۔ اور یہی کیفیت اس کے معنی ثبوت و لزوم کی بھی ہے ۔ موقع و محل اور سیاق و سباق بتا دیتا ہے کہ کس جگہ اس لفظ کا استعمال کس غرض کے لیے کیا گیا ہے ۔ یہاں جو مضمون آگے چل کر بیان ہو رہا ہے اس کو نگاہ میں رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ اللہ تعالیٰ کے لیے تَبَارَکَ ایک معنی میں نہیں ، بہت سے معنوں میں استعمال ہوا ہے : 1: بڑا محسن اور نہایت با خیر، اس لیے کہ اس نے اپنے بندے کو فرقان کی عظیم الشان نعمت سے نواز کر دنیا بھر کو خبردار کرنے کا انتظام فرمایا ۔ 2 : نہایت بزرگ و با عظمت ، اس لیے کہ زمین و آسمان کی بادشاہی اسی کی ہے ۔ 3 : نہایت مقدس و منزَّہ ، اس لیے کہ اس کی ذات ہر شائبۂ شرک سے پاک ہے ۔ نہ اس کا کوئی ہم نجس کہ ذات خداوندی میں اس کا نظیر و مثیل ہو، اور نہ اس کے لیے فنا و تغیر کہ اسے جا نشینی کے لیے بیٹے کی حاجت ہو۔ 4 : نہایت بلند و برتر، اس لیے کہ بادشاہی ساری کی ساری اسی کی ہے اور کسی دوسرے کا یہ مرتبہ نہیں کہ اس کے اختیارات میں اس کا شریک ہو سکے ۔ 5 : کمال قدرت کے اعتبار سے برتر ، اس لیے کہ وہ کائنات کی ہر چیز کو پیدا کرنے والا اور ہر شے کی تقدیر مقرر کرنے والا ہے ۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم ، المومنون، حاشیہ 14 ۔ الفرقان، حاشیہ 19) |
Surah 25 : Ayat 2
ٱلَّذِى لَهُۥ مُلْكُ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضِ وَلَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَمْ يَكُن لَّهُۥ شَرِيكٌ فِى ٱلْمُلْكِ وَخَلَقَ كُلَّ شَىْءٍ فَقَدَّرَهُۥ تَقْدِيرًا
وہ جو زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے1، جس نے کسی کو بیٹا نہیں بنایا ہے2، جس کے ساتھ بادشاہی میں کوئی شریک نہیں ہے3، جس نے ہر چیز کو پیدا کیا پھر اس کی ایک تقدیر مقرر کی4
4 | دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’’ ہر چیز کو ایک اندازۂ خاص پر رکھا ‘‘، ’’ یا ہر چیز کے لیے ٹھیک ٹھیک پیمانہ مقرر کیا‘‘۔ لیکن خواہ کوئی ترجمہ بھی کیا جائے ، بہر حال اس سے پورا مطلب ادا نہیں ہوتا۔ پورا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صرف یہی نہیں کہ کائنات کی ہر چیز کو وجود بخشا ہے ، بلکہ وہی ہے جس نے ایک ایک چیز کے لیے صورت، جسامت ، قوت و استعداد، اوصاف و خصائص ، کام اور کام کا طریق ، بقاء کی مدت، عروج و ارتقاء کی حد، اور دوسری وہ تمام تفصیلات مقرر کی ہیں جو اس چیز کی ذات سے متعلق ہیں ، اور پھر اسی نے عالم وجود میں وہ اسباب و وسائل اور مواقع پیدا کیے ہیں جن کی بدولت ہر چیز یہاں اپنے اپنے دائرے میں اپنے حصے کا کام کر رہی ہے ۔ اس ایک آیت میں توحید کی پوری تعلیم سمیٹ دی گئی ہے ۔ قرآن مجید کی جامع آیات میں سے یہ ایک عظیم الشان آیت ہے جس کے چند الفاظ میں اتنا بڑا مضمون سمو دیا گیا ہے کہ ایک پوری کتاب بھی اس کی وسعتوں کا احاطہ کرنے کے لیے کافی نہیں ہو سکتی ۔ حدیث میں آتا ہے کہ : کان النبی صلی اللہ علیہ و سلم اذا افصح الغلام من بنی عبدالمطلب علمہ ھٰذہ الاٰیۃ ،’’ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ قاعدہ تھا کہ حضور کے خاندان میں جن کسی بچے کی زبان کھل جاتی تھی تو آپ یہ آیت اسے سکھاتے تھے ‘‘(مُصَنَّفْ عبدالرزاق و مُصَنَّفِ ابن ابی شَیبہ ، بروایت عمر و بن شعیب عن ابیہ عن جدہٖ)۔ اس سے معلوم ہوا کہ آدمی کے ذہن میں توحید کا پورا تصور بٹھانے کے لیے یہ آیت ایک بہترین ذریعہ ہے ۔ ہر مسلمان کو چاہیے کہ اس کے بچے جب ہو شیار ہونے لگیں تو آغاز ہی میں ان کے ذہن پر یہ نقش ثبت کر دے |
3 | اصل میں لفظ مُلک استعمال ہوا ہے جو عربی زبان میں بادشاہی ، اقتدار اعلیٰ، اور حاکمیت (Sovereignty) کے لیے بولا جاتا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی ساری کائنات کا مختار مطلق ہے اور فرمانروائی کے اختیارات میں ذرہ برابر بھی کسی کا کوئی حصہ نہیں ہے ۔ یہ چیز آپ سے آپ اس بات کو مستلزم ہے کہ پھر معبود بھی اس کے سوا کوئی نہیں ہے ۔ اس لیے کہ انسان جس کو بھی معبود بناتا ہے یہ سمجھ کر بناتا ہے کہ اس کے پاس کوئی طاقت ہے جس کی وجہ سے وہ ہمیں کسی قسم کا نفع یا نقصان پہنچا سکتا ہے اور ہماری قسمتوں پر اچھا یا برا اثر ڈال سکتا ہے ۔ بے زور اور بے اثر ہستیوں کو ملجا و ماویٰ بنانے کے لیے کوئی احمق سے احمق انسان بھی کبھی تیار نہیں ہو سکتا۔ اب اگر یہ معلوم ہو جائے کہ اللہ جل شانہ کے سوا اس کائنات میں کسی کے پاس بھی کوئی زور نہیں ہے ، تو پھر نہ کوئی گردن اس کے سوا کسی کے آگے اظہار عجز و نیاز کے لیے جھکے گی، نہ کوئی ہاتھ اس کے سوا کسی کے آگے نذر پیش کرنے کے لیے بڑھے گا، نہ کوئی زبان اس کے سوا کسی کی حمد کے ترانے گائے گی یا دعا و التجا کے لیے کھلے گی، اور نہ دنیا کے کسی نادان سے نادان آدمی سے بھی کبھی یہ حماقت سرزد ہو سکے گی کہ وہ اپنے حقیقی خدا کے سوا کسی اور کی طاعت و بندگی بجا لائے، یا کسی کو بذات خود حکم چلانے کا حق دار مانے ۔ اس مضمون کو مزید تقویت اوپر کے اس فقرے سے پہنچتی ہے کہ ’’آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اسی کی ہے اور اسی کے لیے ہے ‘‘ ۔ |
2 | یعنی نہ تو کسی سے اس کا کوئی نسبی تعلق ہے ، اور نہ کسی کو اس نے اپنا متبنیٰ بنایا ہے ۔ کوئی ہستی کائنات میں ایسی نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ سے نسلی تعلق یا تبنیت کے تعلق کی بنا پر اس کو معبودیت کا استحقاق پہنچتا ہو۔ اس کی ذات یکتائے محض ہے ، کوئی اس کا ہم جنس نہیں ، اور کوئی خدائی خاندان نہیں ہے کہ معاذ اللہ، ایک خدا سے کوئی نسل چلی ہو اور بہت سے خدا پیدا ہوتے چلے گۓ ہوں ۔ اس لیے وہ تمام مشرکین سراسر جاہل و گمراہ ہیں جنہوں نے فرشتوں ، یا جنوں ، یا بعض انسانوں کو خدا کی اولاد سمجھا اور اس بنا پر انہیں دیوتا اور معبود قرار دے لیا ۔ اسی طرح وہ لوگ بھی نری جہالت و گمراہی میں مبتلا ہیں جنہوں نے نسلی تعلق کی بنا پر نہ سہی ، کسی خصوصیت کی بنا پر ہی سہی ، اپنی جگہ یہ سمجھ لیا کہ خداوند عالم نے کسی شخص کو اپنا بیٹا بنا لیا ہے ۔ ’’ بیٹا بنا لینے ‘‘ کے اس تصور کو جس پہلو سے بھی دیکھا جائے یہ سخت غیر معقول نظر آتا ہے، کجا کہ یہ ایک امر واقعہ ہو۔ جن لوگوں نے یہ تصور ایجاد یا اختیار کیا ان کے گھٹیا ذہن ذات الہٰی کی بر تری کا تصور کرنے سے عاجز تھے ۔ انہوں نے اس ذات بے ہمتا و بے نیاز کو انسانوں پر قیاس کیا جو یا تو تنہائی سے گھبرا کر کسی دوسرے کے بچے کو گود لے لیتے ہیں ، یا جذبات محبت کے وفور سے کسی کو بیٹا بنا لیتے ہیں ، یا متبنّیٰ بنانے کی اس لیے ضرورت محسوس کرتے ہیں کہ مرنے کے بعد کوئی تو ان کا وارث اور ان کے نام اور کام کو زندہ رکھنے والا ہو۔ یہی تین وجوہ ہیں جن کی بنا پر انسانی ذہن میں تَبْنِیت کا خیال پیدا ہوتا ہے ، اور ان میں سے جس وجہ کو بھی اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا جائے ، سخت جہالت اور گستاخی اور کم عقلی ہے ۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ۔ یونس ، حواشی 66 تا 68 ) |
1 | ۔ دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’’ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اسی کے لیے ہے ‘‘ ، یعنی وہی اس کا حق دار ہے اور اسی کے لیے وہ مخصوص ہے، کسی دوسرے کو نہ اس کا حق پہنچتا ہے اور نہ کسی دوسرے کا اس میں کوئی حصہ ہے |