Ayats Found (3)
Surah 39 : Ayat 1
تَنزِيلُ ٱلْكِتَـٰبِ مِنَ ٱللَّهِ ٱلْعَزِيزِ ٱلْحَكِيمِ
اِس کتاب کا نزول اللہ زبردست اور دانا کی طرف سے ہے1
1 | یہ اس سورہ کی مختصر تمہید ہے جس میں بس یہ بتانے پر اکتفا کیا گیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا اپنا کلام نہیں ہے،جیسا کہ منکرین کہتے ہیں،بلکہ یہ اللہ تعالٰی کا کلام ہے جو اس نے خود نازل فرمایا ہے۔اس کے ساتھ اللہ تعالٰی کی دو صفات کا ذکر کر کے سامعین کو دو حقیقتوں پر متنبہ کیا گیا ہے تاکہ وہ اس کلام کو کوئی معمولی چیز نہ سمجھیں بلکہ اس کی اہمیت محسوس کریں۔ایک یہ کہ جس خدا نے اسے نازل کیا ہے وہ عزیز ہے،یعنی ایسا زبردست ہے کہ اس کے ارادوں اور فیصلوں کو نافذ ہونے سے کوئی طاقت روک نہیں سکتی اور کسی کی یہ مجال نہیں ہے کہ اس کے مقابلہ میں ذرہ برابر بھی مزاحمت کر سکے۔دوسرے یہ کہ وہ حکیم ہے،یعنی جو ہدایت وہ اس کتاب میں دے رہا ہے وہ سراسر دانائی پر مبنی ہے اور صرف ایک جاہل و نادان آدمی ہی اس سے منہ موڑ سکتا ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، السجدہ، حاشیہ نمبر 1۔) |
Surah 42 : Ayat 1
حمٓ
ح م
Surah 42 : Ayat 3
كَذَٲلِكَ يُوحِىٓ إِلَيْكَ وَإِلَى ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِكَ ٱللَّهُ ٱلْعَزِيزُ ٱلْحَكِيمُ
اِسی طرح اللہ غالب و حکیم تمہاری طرف اور تم سے پہلے گزرے ہوئے (رسولوں) کی طرف وحی کرتا رہا ہے1
1 | افتتاح کلام کا یہ انداز خود بتا رہا ہے کہ پس منظر میں وہ چہ میگوئیاں ہیں جو مکہ معظمہ کی ہر محفل ، ہر چوپال، ہر کوہ و بازار، اور ہر مکان اور دُکان میں اس وقت نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت اور قرآن کے مضامین پر ہو رہی تھیں۔ لوگ کہتے تھے کہ نہ معلوم یہ شخص کہاں سے یہ نرالی باتیں نکال نکال کر لا رہا ہے۔ ہم نے تو ایسی باتیں نہ کبھی سنیں نہ ہوتے دیکھیں۔ وہ کہتے تھے ، یہ عجیب ماجرا ہے کہ باپ دادا سے جو دین چلا آ رہا ہے ، ساری قوم جس دین کی پیروی کر رہی ہے ، سارے ملک میں جو طریقے صدیوں سے رائج ہیں ، یہ شخص ان سب کو غلط قرار دیتا ہے اور کہتا ہے جو دین میں پیش کر رہا ہوں وہ صحیح ہے۔ وہ کہتے تھے ، اس دین کو بھی اگر یہ اس حیثیت سے پیش کرتا کہ دین آبائی اور رائج الوقت طریقوں میں اسے کچھ قباحت نظر آتی ہے اور ان کی جگہ اس نے خود کچھ نئی باتیں سوچ کر نکالی ہیں ، تو اس پر کچھ گفتگو بھی کی جا سکتی تھی، مگر وہ تو کہتا ہے کہ یہ خد ا کا کلام ہے جو میں تمھیں سنا رہا ہوں۔ یہ بات آخر کیسے مان لی جاۓ؟ کیا خدا اس کے پاس آتا ہے؟ یا یہ خدا کے پس جاتا ہے؟ یا اس کی اور خدا کی بات چیت ہوتی ہے؟ انہی چرچوں اور چہ میگوئیوں پر بظاہر رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو خطاب کرتے ہوۓ، مگر در اصل کفار کو سناتے ہوۓ ارشاد ہوا ہے کہ ہاں ، یہی باتیں اللہ عزیز و حکیم وحی فرما رہا ہے اور یہی مضامین لیے ہوۓ اس کی وحی پچھلے تمام انبیاء پر نازل ہوتی رہی ہے۔ وحی کے لغوی معنی ہیں ’’ اشارہ سریع‘‘ اور ’’ اشارہ خفی‘‘ ، یعنی ایسا اشارہ جو سرعت کے ساتھ اس طرح کیا جاۓ کہ بس اشارہ کرنے والا جانے یا وہ شخص جسے اشارہ کیا گیا ہے ، باقی کسی اور شخص کو اس کا پتہ نہ چلنے پاۓ۔ اس لفظ کو اصطلاحاً اس ہدایت کے لیے استعمال کیا گیا ہے جو بجلی کی کوند کی طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے کسی بندے کے د ل میں ڈالی جاۓ۔ ارشاد الہٰی و مدعا یہ ہے کہ اللہ کے کسی کے پاس آنے یا اس کے پاس کوئی کے جانے اور رو برو گفتگو کرنے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہو تا۔ وہ غالب اور حکیم ہے۔ انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لیے جب بھی وہ کسی بندے سے رابطہ قائم کرنا چاہے ، کوئی دشواری اس کے ارادے کی راہ میں مزاحم نہیں ہو سکتی۔اور وہ اپنی حکمت سے اس کام کے لیے وحی کا طریقہ اختیار فرما لیتا ہے۔ اسی مضمون کا اعادہ سورۃ کی آخری آیات میں کیا گیا ہے۔ اور وہاں اسے زیادہ کھول کر بیان فرمایا گیا ہے۔ پھر یہ جو ان لوگوں کا خیال تھا کہ یہ نرالی باتیں ہیں ، اس پر ارشاد ہوا ہے کہ یہ نرالی باتیں نہیں ہیں بلکہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم سے پہلے جتنے انبیاء آۓ ہیں ان سب کو بھی خدا کی طرف سے یہی کچھ ہدایات دی جاتی رہی ہیں |