Ayats Found (4)
Surah 69 : Ayat 38
فَلَآ أُقْسِمُ بِمَا تُبْصِرُونَ
پس نہیں1، میں قسم کھاتا ہوں اُن چیزوں کی بھی جو تم دیکھتے ہو
1 | یعنی تم لوگوں نے جو کچھ سمجھ رکھا ہے بات وہ نہیں ہے |
Surah 69 : Ayat 40
إِنَّهُۥ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ
یہ ایک رسول کریم کا قول ہے1
1 | یہاں رسول کریمﷺ سے مراد محمد ﷺ ہیں اور سورہ تکویر (آیت 19) میں اس سے مراد جبریل علیہ السلام ہیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ یہاں قرآن کو رسول کریم کا قول کہنے کے بعد فرمایا گیا ہے کہ یہ کسی شاعر یا کاہن کا قول نہیں ہے، اور ظاہر ہے کہ کفار مکہ جبریلؑ کو نہیں بلکہ محمد ﷺ کو شاعر اور کاہن کہتے تھے۔ بخلاف اس کے سورۃ تکویر میں قرآن کو رسول کریم کا قول کہنے کے بعد فرمایا گیا ہے کہ وہ رسول بڑی قوت والا ہے، صاحب عرش کے ہاں بلند مرتبہ رکھتا ہے، وہاں اس کی بات مانی جاتی ہے، وہ امانت دار ہے اور محمد ﷺ نے اس کو روشن افق پر دیکھا ہے۔ قریب قریب یہی مضمون سورہ نجم آیت نمبر 5 تا 10 میں جبریل علیہ السلام کے متعلق بیان ہوا ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کو محمد ﷺ اور جبریل کا قول کس معنی میں کہا گیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ لوگ اس کو حضورؐ کی زبان سے اور حضورؐ اسے جبریلؑ کی زبان سے سن رہے تھے، اس لیے ایک لحاظ سے یہ حضورؐ کا قول تھا اور دوسرے لحاظ سے جبریلؑ کا قول، لیکن آگے چل کر یہ بات واضح کر دی گئی ہے کہ فی الاصل یہ رب العالمین کا نازل کردہ ہے جو محمدﷺ کے سامنے جبریلؑ کی زبان سے، اور لوگوں کے سامنے محمدﷺ کی زبان سے ادا ہو رہا ہے۔ خود رسول کا لفظ بھی اس حقیقت پر دلالت کرتا ہے کہ یہ ان دونوں کا اپنا کلام نہیں ہے بلکہ پیغامبر ہونے کی حیثیت سے انہوں نے اس پیغام بھیجنے والے کی طرف سے پیش کیا ہے |
Surah 81 : Ayat 15
فَلَآ أُقْسِمُ بِٱلْخُنَّسِ
پس نہیں1، میں قسم کھاتا ہوں
1 | یعنی تم لوگوں کا یہ گمان صحیح نہیں ہے کہ جو کچھ قرآن میں بیان کیا جارہا ہے یہ کسی دیوانے کی بڑ ہے یا کوئی شیطانی وسوسہ ہے |
Surah 81 : Ayat 21
مُّطَاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ
وہاں اُس کا حکم مانا جاتا ہے1، وہ با اعتماد ہے2
2 | یعنی وہ اپنی طرف سے کوئی بات خدا کی وحی میں ملا دینے والا نہیں، بلکہ ا یسا امانت دار ہے کہ جو کچھ خدا کی طرف سے ارشاد ہوتا ہے اسے جوں کا توں پہنچا دیتا ہے |
1 | یعنی وہ فرشتوں کا ا فسر ہے۔ تمام فرشتے اس کے حکم کے تحت کام کرتے ہیں |