Ayats Found (1)
Surah 16 : Ayat 102
قُلْ نَزَّلَهُۥ رُوحُ ٱلْقُدُسِ مِن رَّبِّكَ بِٱلْحَقِّ لِيُثَبِّتَ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَهُدًى وَبُشْرَىٰ لِلْمُسْلِمِينَ
اِن سے کہو کہ اِسے تو روح القدس نے ٹھیک ٹھیک میرے رب کی طرف سے بتدریج نازل کیا ہے1 تاکہ ایمان لانے والوں کے ایمان کو پختہ کرے 2اور فرماں برداروں کو زندگی کے معاملات میں سیدھی راہ بتائے3 اور اُنہیں فلاح و سعادت کی خوش خبری دے4
4 | یہ اُس کی تیسری مصلحت ہے۔یعنی یہ کہ فرماں برداروں کو جن مزاحمتوں اورمخالفتوں سے سابقہ پیش آرہا ہےاور جس جس طرح انہیں ستایااور تنگ کیا جارہا ہے،اور دعوتِ اسلامی کے کام میں مشکلات کےجو پہاڑ سدّ راہ ہورہے ہیں،ان کی وجہ سےوہ باربار اس کے محتاج ہوتے ہیں کہ بشارتوں سے ان کی ہمت بندھائی جاتی رہے اور ان کوآخری نتائج کی کامیابی کا یقین دلایا جاتارہے تاکہ وہ پُرامید رہیں اوردل شکستہ نہ ہونے پائیں۔ |
3 | یہ اس تدریج کی دوسری مصلحت ہے۔یعنی یہ کہ جو لوگ ایمان لا کر فرمانبرداری کی راہ چل رہے ہیں ان کو دعوتِ اسلامی کے کام میں اور زندگی کےپیش آمدہ مسائل میں جس موقع پرجس قسم کی ہدایات درکار ہوں وہ بروقت دے دی جائیں۔ظاہر ہےکہ نہ انہیں قبل ازوقت بھیجنا مناسب ہو سکتاہے،اورنہ بیک وقت ساری ہدایات دے دینا مفید ہے۔ |
2 | یعنی اُس کے بتدریج اِس کلام کو لے کر آنے اور بیک وقت سب کچھ نہ لے آنے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ اللہ کے علم و دانش میں کوئی نقص ہے، جیسا کہ تم نے اپنی نادانی سے سمجھا، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کی قوتِ فہم اور قوتِ اخذ میں نقص ہے جس کے سبب سے وہ بیک وقت ساری بات کو نہ سمجھ سکتا ہے اور نہ ایک وقت کی سمجھی ہوئی بات میں پختہ ہو سکتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالٰی کی حکمت اِس بات کی مقتضی ہوئی کہ روح القدس اِس کلام کو تھوڑا تھوڑا کر کے لائے، کبھی اجمال سے کام لے اور کبھی اسی بات کی تفصیل بتائے، کبھی ایک طریقہ سے بات سمجھائے اور کبھی دوسرے طریقے سے، کبھی ایک پیرایۂ بیان اختیار کرے اور کبھی دوسرا، اور ایک ہی بات کو بار بار طریقے طریقے سےذہن نشینن کرنے کی کوشش کرے، تاکہ مختلف قابلیتوں اور استعدادوں کے طالبینِ حق ایمان لا سکیں اور ایمان لانے کے بعد علم و یقین اور فہم و ادراک میں پختہ ہو سکیں۔ |
1 | روح القدس“ کا لفظی ترجمہ ہے”پاک رُوح“ یا ”پاکیزگی“۔ اور اصطلاحًا یہ لقب حضرت جبریلؑ کو دیا گیا ہے۔ یہاں وحی لانے والے فرشتے کا نام لینے کے بجائے اس کا لقب استعمال کرنے سے مقصود سامعین کو اس حقیقت پر متنبہ کرنا ہے کہ اِس کلام کو ایک ایسی روح لے کر آرہی ہے جو بشری کمزوریوں اور نقائص سے پاک ہے۔ وہ نہ خائن ہے کہ اللہ کچھ بھیجے اور وہ اپنی طرف سے کمی بیشی کر کے کچھ اور بنادے۔ نہ کذّاب و مفتری ہے کہ خود کوئی بات گھڑ کے اللہ کے نام سے بیان کر دے۔ نہ بدنیت ہے کہ اپنی کسی نفسانی غرض کی بنا پر دھوکے اور فریب سے کام لے۔ وہ سراسر ایک مقدس و مطہر روح ہے جو اللہ کا کلام پوری امانت کے ساتھ لا کر پہنچاتی ہے۔ |