Ayats Found (7)
Surah 3 : Ayat 114
يُؤْمِنُونَ بِٱللَّهِ وَٱلْيَوْمِ ٱلْأَخِرِ وَيَأْمُرُونَ بِٱلْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ ٱلْمُنكَرِ وَيُسَـٰرِعُونَ فِى ٱلْخَيْرَٲتِ وَأُوْلَـٰٓئِكَ مِنَ ٱلصَّـٰلِحِينَ
اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں، نیکی کا حکم دیتے ہیں، برائیوں سے روکتے ہیں اور بھلائی کے کاموں میں سرگرم رہتے ہیں یہ صالح لوگ ہیں
Surah 7 : Ayat 157
ٱلَّذِينَ يَتَّبِعُونَ ٱلرَّسُولَ ٱلنَّبِىَّ ٱلْأُمِّىَّ ٱلَّذِى يَجِدُونَهُۥ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِى ٱلتَّوْرَٮٰةِ وَٱلْإِنجِيلِ يَأْمُرُهُم بِٱلْمَعْرُوفِ وَيَنْهَـٰهُمْ عَنِ ٱلْمُنكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ ٱلطَّيِّبَـٰتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ ٱلْخَبَـٰٓئِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَٱلْأَغْلَـٰلَ ٱلَّتِى كَانَتْ عَلَيْهِمْۚ فَٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ بِهِۦ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَٱتَّبَعُواْ ٱلنُّورَ ٱلَّذِىٓ أُنزِلَ مَعَهُۥٓۙ أُوْلَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْمُفْلِحُونَ
(پس آج یہ رحمت اُن لوگوں کا حصہ ہے) جو اِس پیغمبر، نبی امی کی پیروی اختیار کریں1 جس کا ذکر اُنہیں اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا ملتا ہے2 وہ انہیں نیکی کا حکم دیتا ہے، بدی سے روکتا ہے، ان کے لیے پاک چیزیں حلال او ر ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے3، اور ان پر سے وہ بوجھ اتارتا ہے جو اُن پر لدے ہوئے تھے اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے4 لہٰذا جو لوگ اس پر ایمان لائیں اور اس کی حمایت اور نصرت کریں اور اُس روشنی کی پیروی اختیار کریں جو اس کے ساتھ نازل کی گئی ہے، وہی فلاح پانے والے ہیں
4 | یعنی ان کے فقیہوں نے اپنی قانونی موشگافیوں سے ، ان کے روحانی مقتداؤں نے اپنے تورُّع کے مبالغوں سے ، اور ان کے جاہل عوام نے اپنے تو ہمات اور خود ساختہ حدود و ضوابط سے ان کی زندگی کو جن بوجھوں تلے دبا رکھا ہے اور جن جکڑ بندیوں میں کَس رکھا ہے، یہ پیغمبر وہ سارے بوجھ اتار دیتا ہے اور وہ تمام بندشیں توڑ کر زندگی کو آزاد کر دیتا ہے |
3 | یعنی جن پاک چیزوں کو انہوں نے حرام کر رکھا ہے، وہ انہیں حلال قرار دیتا ہے اور جن ناپاک چیزوں کو یہ لوگ حلال کیے بیٹھے ہیں انہیں وہ حرام قرار دیتا ہے |
2 | مثال کے طور پر توراة اور انجیل کے حسبِ ذیل مقامات ملاحظہ ہوں جہاں محمد صلی اللہل علیہ وسلم کی آمد کے متعلق صاف اشارات موجود ہیں: استشناء، باب ١۸، آیت ١۵ تا١۹۔ متی، باب۲١ تا۴٦۔ یوحنا، باب١، آیت١۹تا ۲١۔ یوحنا باب١۴، آیت١۵تا١۷ و آیت ۲۵تا۳۰ یوحنا، باب١۵، آیت ۲۵۔۲٦ یوحنا، باب١٦، آیت۷تا١۵ |
1 | حضرت موسیٰ کی دعا کا جواب اوپر کے فقرے پر ختم ہو گیا تھا۔ اس کے بعد اب موقع کی مناسبت سے فورًا بنی اسرائیل کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع کی دعوت دی گئی ہے ۔ تقریر کا مدعا یہ ہے کہ تم پر خدا کی رحمت نازل ہونے کے لیے جو شرائط موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں عائد کی گئی تھیں وہی آج تک قائم ہیں اور دراصل یہ اُنہی شرائط کا تقاضا ہے کہ تم اِس پیغمبر پر ایمان لاؤ۔ تم سے کہا گیا تھا کہ خدا کی رحمت اُن لوگوں کا حصہ ہے جو نافرمانی سے پر ہیز کریں۔ تو آج سب سے بڑی بنیادی نا فرمانی یہ ہے کہ جس پیغمبر کو خدا نے مامور کیا ہے اس کی رہنمائی تسلیم کرنے سے انکار کیا جائے۔ لہٰذا جب تک اِس نافرمانی سے پرہیز نہ کر و گےتقویٰ کی جڑ ہی سرے سے قائم نہ ہوگی خواہ جزئیات و فروعات میں تم کتنا ہی تقویٰ بگھارتے رہو۔ تم سے کہا گیا تھا کہ رحمت ِ الہٰی سے حِصہ پانے کے لیے زکوٰة بھی ایک شرط ہے۔ تو آج کسی انفاق مال پر اُس وقت تک زکوٰة کی تعریف صادق نہیں آسکتی جب تک اقامتِ دینِ حق کی اُس جدوجہد کا ساتھ نہ دیا جائے جو اِس پیغمبر کی قیادت میں ہو رہی ہے۔ لہٰذا جب تک اِس راہ میں مال صرف نہ کرو گے زکوٰة کی بنیاد ہی استوار نہ ہو گی چاہے تم کتنی ہی خیرات اور نذرونیاز کرتے ہو۔ تم سے کہاگیا تھا کہ اللہ نے اپنی رحمت صرف اُن لوگوں کے لیے لکھی ہے جو اللہ کی آیات پر ایمان لائیں۔ تو آج جو آیات اس پیغمبر پر نازل ہو رہی ہیں ان کا انکار کرکے تم کسی طرح بھی آیات ِ الہٰی کے ماننے والے قرار نہیں پا سکتے۔ لہٰذا جب تک اِن پر ایمان نہ لاؤ گے یہ آخری شرط بھی پوری نہ ہو گی خواہ توراة پر ایمان رکھنے کا تم کتنا ہی دعوٰی کرتے رہو۔ یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے”اُمّی“ کا لفظ بہت معنی خیز استعمال ہوا ہے۔ بنی اسرائیل اپنے سوا دوسری قوموں کی اُمّی (Gentiles ) کہتے تھے اور ان کا قومی فخر و غرور کسی اُمّی کی پیشوائی تسلیم کرنا تو درکنار، اِس پر بھی تیار نہ تھا کہ اُمّیوں کے لیے اپنے برابر انسانی حقوق ہی تسلیم کر لیں۔ چناچہ قرآن ہی میں آتا ہے کہ وہ کہتے تھے لَیْسَ عَلَیْنَا فِی الْاُمِّیِّیْنَ سَبِیْلٌ(آل عمران آیت۷۵)”اُمیوں کے مال مار کھانے میں ہم پر کوئی مواخذہ نہیں ہے۔ پس اللہ تعالیٰ انہی کی اصطلاح استعمال کر کے فرماتا ہے کہ اب تو اسی اُمّی کے ساتھ تمہاری قسمت وابستہ ہے، اس کی پیروی قبول کر وگے تو میری رحمت سےحصہ پاؤ گے ورنہ وہی غضب تمہارے لیے مقرر ہے جس میں صدیوں سے گرفتار چلے آرہے ہو |
Surah 9 : Ayat 71
وَٱلْمُؤْمِنُونَ وَٱلْمُؤْمِنَـٰتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَآءُ بَعْضٍۚ يَأْمُرُونَ بِٱلْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ ٱلْمُنكَرِ وَيُقِيمُونَ ٱلصَّلَوٲةَ وَيُؤْتُونَ ٱلزَّكَوٲةَ وَيُطِيعُونَ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥٓۚ أُوْلَـٰٓئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ ٱللَّهُۗ إِنَّ ٱللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
مومن مرد اور مومن عورتیں، یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں، بھلائی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں1 یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی رحمت نازل ہو کر رہے گی، یقیناً اللہ سب پر غالب اور حکیم و دانا ہے
1 | ”جس طرح منافقین ایک الگ اُمت ہیں اسی طرح اہلِ ایمان بھی ایک الگ امت ہیں۔ اگرچہ ایمان کا ظاہری اقرار اور اسلام کی پیروی کا خارجی اظہار دونوں گروہوں میں مشترک ہے۔ لیکن دونوں کے مزاج، اخلاق، اطوار، عادات اور طرزِ عمل میں ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ جہاں زبان پر ایمان کا دعویٰ ہے ، مگر دل سچے ایمان سے خالی ہیں وہاں زندگی کا سارا رنگ ڈھنگ ایسا ہے جو اپنی ایک ایک ادا سے دعوائے ایمان کی تکذیب کررہاہے۔ اوپر کے لیبل پر تو لکھا ہے کہ یہ مُشک ہے مگر لیبل کے نیچے جو کچھ ہے وہ اپنے پورے وجود سے ثابت کر رہا ہے کہ یہ گوبر کے سوا کچھ نہیں۔ بخلاف اس کے جہاں ایمان اپنی اصل حقیقت کے ساتھ موجود ہے وہاں مُشک اپنی صورت سے، اپنی خوشبو سے ، اپنی خاصیتوں سے ہر آزمائش اور ہر معاملہ میں اپنا مُشک ہونا کھولے دے رہا ہے۔ اسلام و ایمان کے عربی نام نے بظاہر دونوں گروہوں کو ایک اُمت بنا رکھا ہے، مگر فی الواقع منافق مسلمانوں کا اخلاقی مزاج اور رنگِ طبیعت کچھ اور ہے اور صادق الایمان مسلمانون کا کچھ اور۔ اسی وجہ سے منافقانہ خصائل رکھنے والے مردوزن ایک الگ جتھا بن گئے ہیں جن کو خدا سے غفلت ، برائی سے دلچسپی، نیکی سے بُعد اور خیر سے عدم تعاون کی مشترک خصوصیات نے ایک دوسرے سے وابستہ اور اہلِ ایمان سے عملًا بے تعلق کر دیا ہے۔ اور دوسری جانب سچے مومن مردوزن ایک دوسرا گروہ بن گئے ہیں جس کے سارے افراد میں یہ خصوصیت مشترک ہے کہ نیکی سے وہ دلچسپی رکھتے ہیں، بدی سے نفرت کرتے ہیں، خدا کی یاد ان کے لیے غذا کی طرح زندگی کی ناگزیر ضروریات میں شامل ہے، راہِ خدا میں خرچ کرنے کےلیے ان کے دل اور ہاتھ کھلے ہوئے ہیں، اور خدا اور رسول کی اطاعت ان کی زندگی کا وتیرہ ہے۔ اس مشترک اخلاقی مزاج اور طرزِ زندگی نے انہیں آپس میں ایک دوسرے سے جوڑا اور منافقین کے گروہ سے توڑ دیا ہے |
Surah 9 : Ayat 112
ٱلتَّـٰٓئِبُونَ ٱلْعَـٰبِدُونَ ٱلْحَـٰمِدُونَ ٱلسَّـٰٓئِحُونَ ٱلرَّٲكِعُونَ ٱلسَّـٰجِدُونَ ٱلْأَمِرُونَ بِٱلْمَعْرُوفِ وَٱلنَّاهُونَ عَنِ ٱلْمُنكَرِ وَٱلْحَـٰفِظُونَ لِحُدُودِ ٱللَّهِۗ وَبَشِّرِ ٱلْمُؤْمِنِينَ
اللہ کی طرف بار بار پلٹنے والے1، اُس کے بندگی بجا لانے والے، اُس کی تعریف کے گن گانے والے، اُس کی خاطر زمین میں گردش کرنے والے2، اُس کے آگے رکوع اور سجدے کرنے والے، نیکی کا حکم دینے والے، بدی سے روکنے والے، اور اللہ کے حدود کی حفاظت کرنے والے3، (اس شان کے ہوتے ہیں وہ مومن جو اللہ سے خرید و فروخت کا یہ معاملہ طے کرتے ہیں) اور اے نبیؐ ان مومنوں کو خوش خبری دے دو
3 | یعنی اللہ تعالیٰ نے عقائد ، عبادات، اخلاق، معاشرت ، تمدّن، معیشت ، سیاست، عدالت اور صلح و جنگ کے معاملات میں جو حدیں مقرر کر دی ہیں وہ ان کو پوری پابندی کے ساتھ ملحوظ رکھتے ہیں ، اپنے انفرادی و اجتماعی عمل کو انہی حدود کے اندر محدود رکھتے ہیں، اور کبھی ان سے تجاوز کر کے نہ تو من مانی کا روائیاں کرنے لگتے ہیں اور نہ خدائی قوانین کے بجائے خود ساختہ قوانین یا انسانی ساخت کے دوسرے قوانین کو اپنی زندگی کا ضابطہ بناتے ہیں۔ اس کے علاوہ خدا کے حدود کی حفاظت میں یہ مفہوم بھی شامل ہے کہ ان حدود کو قائم کیا جائے اور انہیں ٹوٹنے نہ دیا جائے۔ لہٰذا سچے اہلِ ایمان کی تعریف صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ وہ خود حدود اللہ کی پابندی کرتےہیں، بلکہ مزید برآں ان کی یہ صفت بھی ہے کہ وہ دنیا میں اللہ کی مقرر کردہ حدود کو قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ان کی نگہبانی کرتے ہیں اور اپنا پورا زور اس سعی میں لگا دیتے ہیں کہ یہ حدیں ٹوٹنے نہ پائیں |
2 | متن میں لفظ السَّا ئِحُونَ استعمال ہوا ہے جس کی تفسیر بعض مفسرین نے الصَّآ ئِمُونَ (روزہ رکھنے والے) سے کی ہے۔ لیکن سیاحت کے معنی روزہ، مجازی معنی ہیں۔ اصل لغت میں اس کے یہ معنی نہیں ہیں۔ اور جس حدیث میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس لفظ کے یہ معنی ارشاد فرمائے ہیں ، اس کی نسبت حضورؐ کی طرف درست نہیں ہے۔ اس لیے ہم اس کو اصل لغوی معنی ہی میں لینا زیادہ صحیح سمجھتے ہیں۔ پھر جس طرح قرآن میں بکثرت مواقع پر مطلقًا انفاق کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کےمعنی خرچ کرنے کے ہیں اور مراد اُس سے راہ ِ خدا میں خرچ کرنا ہے ، اُسی طرح یہاں بھی سیاحت سے مراد محض گھومنا پھرنا نہیں ہے بلکہ ایسے مقاصد کے لیے زمین میں نقل و حرکت کرنا ہے جو پاک اور بلند ہو ں اور جن میں اللہ کی رضا مطلوب ہو۔ مثلًا اقامت دین کے لیے جہاد، کفر زدہ علاقوں سے ہجرت، دعوتِ دین، اصلاحِ خلق، طلبِ علمِ صالح، مشاہدۂ آثارِ الہٰی اور تلاشِ رزق ِ حلال۔ اس صفت کو یہاں مومنین کی صفات میں خاص طور پر اس لیے بیان کیا گیا ہے کہ جو لوگ ایمان کا دعوٰی کرنے کے باوجود جہاد کی پکار پر گھروں سے نہیں نکلتے تھےان کو یہ بتایا جائے کہ حقیقی مومن ایمان کا دعویٰ کر کے اپنی جگہ چین سے بیٹھا نہیں رہ جاتا بلکہ وہ خدا کے دین کو قبول کر نے کے بعد اس کا بول بالا کرنے کے لیے اُٹھ کھڑا ہوتا ہے اور اس کے تقاضے پورے کرنے کے لیے دنیا میں دوڑ دھوپ اور سعی و جہد کرتا پھرتا ہے |
1 | متن میں لفظ التّآ ئِبُون استعمال ہوا ہے جس کا لفظی ترجمہ”توبہ کرنے والے“ ہے۔ لیکن جس اندازِ کلام میں یہ لفظ استعمال کیا گیا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ توبہ کرنا اہلِ ایمان کی مستقل صفا ت میں سے ہے ، اس لیے اس کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ وہ ایک ہی مرتبہ توبہ نہیں کرتے بلکہ ہمیشہ توبہ کرتے رہتے ہیں۔ اور توبہ کے اصل معنی رجوع کرنے یا پلٹنے کے ہیں، لہٰذا اس لفظ کی حقیقی روح ظاہر کرنے کے لیے ہم نے اس کا تشریحی ترجمہ یوں کیا ہے کہ ” وہ اللہ کی طرف بار بار پلٹتے ہیں“۔ مومن اگر چہ اپنے پورے شعور و ارادہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے اپنے نفس و مال کی بیع کا معاملہ طے کرتا ہے، لیکن چونکہ ظاہر حال کے لحاظ سے محسوس یہی ہوتا ہےکہ نفس اس کا اپنا ہے اور مال اُس کا اپنا ہے، اور یہ بات کہ اِس نفس و مال کا اصل مالک اللہ تعالیٰ ہے ایک امر محسوس نہیں بلکہ محض ایک امر معقول ہے ، اس لیے مومن کی زندگی میں بارہا ایسے مواقع پیش آتے رہتے ہیں جبکہ وہ عارضی طور پر خدا کے ساتح اپنے معاملۂ بیع کو بھول جاتا ہے اور اس سے غافل ہو کر کوئی خودمختارانہ طرزِ عمل اختیار کربیٹھتا ہے۔ مگر ایک حقیقی مومن کی صفت یہ ہے کہ جب بھی اس کی یہ عارضی بھول دور ہوتی ہے اور وہ اپنی غفلت سے چونکتا ہے اور اس کو یہ محسوس ہو جاتا ہے کہ غیر شعوری طور پر وہ اپنے عہد کی خلاف ورزی کر گزرا ہے تو اسے ندامت لاحق ہوتی ہے ، شرمندگی کے ساتھ وہ اپنے خدا کی طرف پلٹتا ہے، معافی مانگتا ہے اور اپنے عہد کو پھر سے تازہ کر لیتا ہے۔ یہی بار بار کی توبہ اور یہی رہ رہ کر خدا کی طرف پلٹنا اور ہر لغزش کے بعد وفاداری کی راہ پر واپس آنا ہی ایمان کے دوام و ثبات کا ضامن ہے ۔ ورنہ انسان جن بشری کمزوریوں کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے ان کی موجودگی میں تو یہ بات اس کے بس میں نہیں ہے کہ خدا کے ہاتھ ایک دفعہ نفس و مال بیچ دینے کے بعد ہمیشہ کامل شعورت حالت میں وہ اس بیع کے تقاضوں کو پورا کرتا رہے اور کسی وقت بھی غفلت و نسیان اس پر طاری نہ ہونے پائے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ مومن کی تعریف میں یہ نہیں فرماتا کہ وہ بندگی کی راہ پر آکر کبھی اس سے پھسلتا ہی نہیں ہے، بلکہ اس کی قابلِ تعریف صفت یہ قرار دیتا ہے کہ وہ پھسل پھسل کر بار بار اُسی راہ کی طرف آتا ہے ، اور یہی وہ بڑی سے بڑی خوبی ہے جس پر انسان قادر ہے۔ پھر اس موقع پر مومنین کی صفات میں سب سے پہلے توبہ کا ذکر کرنے کی ایک اور مصلحت بھی ہے ۔ اوپر سے جو سلسلۂ کلام چلا آرہا ہے اس میں روئے سخن اُن لوگوں کی طرف ہے جن سے ایمان کے منافی افعال کا ظہور ہوا تھا۔ لہٰذا ان کو ایمان کی حقیقت اور اس کا بنیادی مقتضٰی بتانے کے بعد اب یہ تلقین کی جارہی ہے کہ ایمان لانے والوں میں لازمی طور پر جو صفات ہونی چاہییں ان میں سے اوّلین صفت یہ ہے کہ جب بھی ان کا قدم راہِ بندگی سے پھسل جائے وہ فورًا اس کی طرف پلٹ آئیں ، نہ یہ کہ اپنے انحراف پر جمے رہیں اور زیادہ دُور نکلتے چلے جائیں |
Surah 41 : Ayat 33
وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلاً مِّمَّن دَعَآ إِلَى ٱللَّهِ وَعَمِلَ صَـٰلِحًا وَقَالَ إِنَّنِى مِنَ ٱلْمُسْلِمِينَ
اور اُس شخص کی بات سے اچھی بات اور کس کی ہو گی جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا کہ میں مسلمان ہوں1
1 | اہل ایمان کو تسکین دینے اور ان کی ہمت بندھانے کے بعد اب ان کو ان کے اصل کام کی طرف رغبت دلائی جا رہی ہے۔ گزشتہ آیت میں ان کو بتایا گیا تھا کہ اللہ کی بندگی پر ثابت قدم ہو جانا اور اس راستے کو اختیار کر لینے کے بعد پھر اس سے منحرف نہ ہونا بجاۓ خود وہ بنیادی نیکی ہے جو آدمی کو فرشتوں کا دوست اور جنت کا مستحق بناتی ہے۔ اب ان کو بتایا جا رہا ہے کہ آگے کا درجہ، جس سے زیادہ بلند کوئی درجہ انسان کے لیے نہیں ہے، یہ ہے کہ تم خون نیک عمل کرو، اور دوسروں کو اللہ کی بندگی کی طرف بلاؤ، اور شدید مخالفت کے ماحول میں بھی، جہاں اسلام کا اعلان و اظہار کرنا اپنے اوپر مصیبتوں کو دعوت دینا ہے، ڈٹ کر کہو کہ میں مسلمان ہوں ۔اس ارشاد کی پوری اہمیت سمجھنے کے لیے اس ماحول کا نگاہ میں رکھنا ضروری ہے جس میں یہ بات فرمائی گئی تھی۔ اس وقت حالت یہ تھی کہ جو شخص بھی مسلمان ہونے کا اظہار کرتا تھا اسے یکایک یہ محسوس ہوتا تھا کہ گویا اس نے درندوں کے جنگل میں قدم رکھ دیا ہے جہاں ہر ایک اسے پھاڑ کھانے کو دوڑ رہا ہے۔ اور اس سے آگے بڑھ کو جس نے اسلام کی تبلیغ کے لیے زبان کھولی اس نے تو گویا درندوں کو پکار دیا کہ آؤ اور مجھے بھنبھوڑ ڈالو۔ ان حالات میں فرمایا گیا ہے کہ کسی شخص کا اللہ کو اپنا رب مان کر سیدھی راہ اختیار لینا اور اس سے نہ ہٹنا بلا شبہ اپنی جگہ بڑی اور بنیادی نیکی ہے، لیکن کمال درجے کی نیکی یہ ہے کہ میں مسلمان ہوں ، اور نتائج سے بے پرواہ ہو کر اللہ کی بندگی کی طرف خلق خدا کو دعوت دے، اور اس کام کو کرتے ہوۓ اپنا عمل اتنا پاکیزہ رکھے کہ کسی کو اسلام اور اس کے علمبرداروں پر حرف رکھنے کی گنجائش نہ ملے |
Surah 90 : Ayat 17
ثُمَّ كَانَ مِنَ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَتَوَاصَوْاْ بِٱلصَّبْرِ وَتَوَاصَوْاْ بِٱلْمَرْحَمَةِ
پھر (اس کے ساتھ یہ کہ) آدمی اُن لوگوں میں شامل ہو جو ایمان لائے 1اور جنہوں نے ایک دوسرے کو صبر اور (خلق خدا پر) رحم کی تلقین کی2
2 | یہ مومن معاشرے کی دو اہم خصوصیات ہیں جن کو دو مختصر فقروں میں بیان کر دیا گیا ہے۔ پہلی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے افراد ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کریں۔ اور دوسری یہ کہ وہ ایک دوسرے کو رحم کی تلقین کریں۔ جہاں تک صبر کا تعلق ہے، ہم اس سے پہلے بار ہا اس امر کی وضاحت کر چکے ہیں کہ قرآن مجید جس وسیع مفہوم میں اس لفظ کو ا ستعمال کرتا ہے اس کے لحاظ سے مومن کی پوری زندگی صبر کی زندگی ہے، اور ایمان کے راستے میں قدم رکھتے ہی آدمی کے صبر کا امتحان شروع ہو جاتا ہے۔ خدا کی فرض کردہ عبادتوں کے انجام دینے میں صبر درکار ہے۔ خدا کے احکام کی اطاعت و پیروی میں صبر کی ضرورت ہے۔ خدا کی حرام کی ہوئی چیزوں سے بچنا صبر کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اخلاق کی برائیوں کو چھوڑنا اور پاکیزہ اخلاق اختیار کرنا صبر چاہتا ہے۔ قدم قدم پر گناہوں کی ترغیبات سامنے آتی ہیں جن کا مقابلہ صبر ہی سے ہو سکتا ہے۔ بے شمار مواقع زندگی میں ایسے پیش آتے ہیں جن میں خدا کے قانون کی پیروی کی جائے تو نقصانات، تکالیف، مصائب، اور محرومیوں سے سابقہ پڑتا ہے اور اس کے برعکس نافرمانی کی راہ اختیار کی جائے تو فائدے اور لذتیں حاصل ہوتی نظر آتی ہیں۔ صبر کے بغیر ان مواقع سے کوئی مومن بخریت نہیں گزر سکتا۔ پھر ایمان کی راہ اختیار کرتے ہی آدمی کو اپنے نفس اور اس کی خواہشات سے لے کر اپنے اہل و عیال، اپنے خاندان، معاشرے ، اپنے ملک و قوم، اور دنیا بھر کے شیاطین جن و انس کی مزاحمتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، حتی کہ راہ خدا میں ہجرت اور جہاد کی نوبت بھی آ جاتی ہے۔ ان سب حالات میں صبر ہی کی صفت آدمی کو ثابت قدم رکھ سکتی ہے۔ اب یہ ظاہر بات ہے کہ ایک ایک مومن اکیلا اکیلا اس شدید ا متحان میں پڑ جائے تو ہر وقت شکست کھا جانے کے خطرے سے دوچار ہو گا اور مشکل ہی سے کامیاب ہو سکے گا۔ بخلاف اس کے ا گر ایک مومن معاشرہ ایسا موجود ہو جس کا ہر فرد خود بھی صابر ہو اور جس کے سارے افراد ایک دوسرے کو صبر کے اس ہمہ گیر امتحان میں سہارا بھی دے رہے ہوں تو کامرانیاں اس معاشرے کے قدم چومیں گی۔ بدی کے مقابلے میں ایک بے پناہ طاقت پیدا ہو جائے گی۔ انسانی معاشرے کو بھلائی کے راستے پر لانے کے لیے ا یک زبردست لشکر تیار ہو جائے گا۔ رہا رحم، تو اہل ایمان کے معاشرے کی امتیازی شان یہی ہے کہ وہ ایک سنگدل، بے رحم اور ظالم معاشرہ نہیں ہوتا بلکہ انسانیت کے لیے رحیم و شفیق اور آس میں ایک دوسرے کا ہمدرد و غمخوار معاشرہ ہوتا ہے۔ فرد کی حیثیت سے بھی ایک مومن اللہ کی شان رحیمی کا مظہر ہے، اور جماعت کی حیثیت سے بھی مومنوں کا گروہ خدا کے اس رسول کا نمائندہ ہے جس کی تعریف میں فرمایا گیا ہے کہ ’’وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ‘‘ (الانبیاء۔106) آنحضورؐ نے سب سے بڑھکر جس بلند اخلاقی صفت کو اپنی امت میں فروغ دینے کی کوشش فرمائی ہے وہ یہی رحم کی صفت ہے۔ مثال کے طور پر آپ کے حسب ذیل ارشادات ملاحظہ ہوں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی نگاہ میں اس کی کیا اہمیت تھی۔ حضرت جریر بن عبداللہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: لا یرحم اللہ من لا یرحم الناس (بخاری ۔ مسلم) اللہ اس شخص پر رحم نہیں کرتا جو انسانوں پر ر حم نہیں کرتا۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص کہتے ہیں کہ حضورؐ نے فرمایا: الراحمون یرحمھم الرحمن۔ ارحموامن فی الارض یرحمکم من فی السماء (ابو داؤد۔ ترمذی) رحم کرنے والوں پر رحمان رحم کرتا ہے۔ زمین والوں پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔ حضرت ابو سعید خدری حضورؐ کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں: من لا یرحم لا یرحم (بخاری فی الادب المفرد)۔ جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔ ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: لیس منا من لم یرحم صغیر نا ولم یوقر کبیرنا (ترمذی) وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو ہمارے چھوٹے پر رحم نہ کھائے ، اور ہمارے بڑے کی توقیر نہ کرے۔ ابو داؤد نے حضورؐ کے اس ارشاد کو حضرت عبداللہ بن عمرو کے حوالہ سے یوں نقل کیا ہے: من لم یرحم صغیرنا و یعرف حق کبیرنا فلیس منا۔ جس نے ہمارے چھوٹے پر رحم نہ کھایا اور ہمارے بڑے کا حق نہ پہچانا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ میں نے ابو ا لقاسم صادق و مصدوق صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے سنا ہے: لا تنزع الرحمۃ الا من شقی (مسند ا حمد۔ ترمذی) بد بخت آدمی کے دل ہی سے رحم سلب کر لیا جاتا ہے۔ حضرت عباس بن حمار کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا تین قسم کے آدمی جنتی ہیں۔ ان میں سے ایک: رجل رحیم رقیق القلب لکل ذل قربی و مسلم۔ (مسلم) وہ شخص ہے جو ہر رشتہ دار اور ہر مسلمان کے لیے رحیم او رقیق القلب ہو۔ حضرت نعمان بن بشیرؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تری المومنین و تراحمھم و توادھم و تعاطفھم کمثل الجسد اذا اشتکی عضوا تداعی لہ سائر الجسد با لسھر و الحمی۔ (بخاری و مسلم) تم مومنوں کو آپس کے رحم اور محبت اور ہمدری کے معاملہ میں ایک جسم کی طرح پاؤ گے کہ اگر ایک عضور میں کوئی تکلیف ہو تو سارا جسم اس کی خاطر بے خوابی اور بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ حضرت ابو موسیؓ اشعری کہتے ہیں کہ حضورؐ نے فرمایا: المومن للمومن کالبنیان یشد بعضہ بعضاً مومن دوسرے مومن کے لیے اس دیوار کی طرح ہے جس کا ہر حصہ دوسرے حصے کو مضبوط کرتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر حضورؐ کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں: المسلم اخوالمسلم لا یظلمہ و لا یسلمہ و من کان فی حاجۃ اخیہ کان اللہ فی حاجتہ و من فرج عن مسلم کربۃ فرج اللہ عنہ کربۃ من کربات یوم القیامۃ و من ستر مسلما سترہ اللہ یوم ا لقیامۃ۔ (بخاری و مسلم) مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرتا ہے نہ اس مدد سے باز رہتا ہے۔ جو شخص اپنے بھائی کی کسی حاجت کو پورا کرنے میں لگا ہو گا اللہ اس کی حاجت پوری کرنے میں لگ جائے گا۔ اور جو شخص کسی مسلمان کو کسی مصیبت سے نکالے گا اللہ تعالی اسے روز قیامت کی مصیبتوں میں سے کسی مصیبت سے نکال دے گا، اور جو شخص کسی مسلمان کی عیب پوری کرے گا اللہ قیامت کے روز اس کی عیب پوری کرے گا۔ ان ارشادات سے معلوم ہو جاتا ہے کہ نیک اعمال کرنے والوں کو ایمان لانے کے بعد اہل ایمان کے گروہ میں شامل ہونے کی جو ہدایت قرآن مجید کی اس آیت میں دی گئی ہے اس سے کس قسم کا معاشرہ بنانا مقصود ہے |
1 | یعنی ان اوصاف کے ساتھ یہ ضروری ہے کہ آدمی مومن ہو، کیونکہ ایمان کے بغیر نہ کوئی عمل صالح ہے اور نہ اللہ کے ہاتھ وہ مقبول ہو سکتا ہے۔ قرآن مجید میں بکثرت مقامات پر اس کی تصریح کی گئی ہے کہ نیکی وہی قابل قدر اور ذریعہ نجات ہے جو ایمان کے ساتھ ہو۔ مثلاً سورہ نساء میں فرمایا ’’جو نیک اعمال کرے، خواہ وہ مرد ہو یا عورت ، اور ہو وہ مومن، تو ایسے لوگ جنت میں داخل ہوں گے‘‘ (آیت 124)۔ سورہ نحل میں فرمایا ’’جو نیک عمل کرے ، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، اور ہو وہ مومن ، تو ہم اسے پاکیزہ زند گی بسر کرائیں گے اور ایسے لوگوں کو ان کا اجر ان کے بہترین اعمال کے مطابق عطا کریں گے‘‘ (آ یت 97)۔ سورہ مومن میں فرمایا ’’اور جو نیک عمل کرے، خواہ مرد ہو یا عورت، اور ہو وہ مومن، ایسے لوگ جنت میں داخل ہوں گے، وہاں ان کو بے حساب رزق دیا جائے گا‘‘ (آیت 40)۔ قرآن پاک کا جو شخص بھی مطالعہ کرے گا وہ یہ دیکھے گا کہ اس کتاب میں جہاں بھی عمل صالح کے اجر اور اس کی جزائے خیر کا ذکر کیا گیا ہے وہاں لازماً اس کے ساتھ ا یمان کی شرط لگی ہوئی ہے۔ عمل بلا ایمان کو کہیں بھی خدا کے ہاں مقبول نہیں قرار دیا گیا ہے اور نہ اس پر کسی اجر کی امید دلائی گئی ہے۔ اس مقام پر یہ اہم نکتہ بھی نگاہ سے مخفی نہ رہنا چاہیے کہ آیت میں یہ نہیں فرمایا گیا کہ ’’پھر وہ ایمان لایا‘‘ بلکہ یہ فرمایا گیا ہے کہ ’’پھر وہ ان لوگوں میں شامل ہوا جو ایمان لائے‘‘۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ محض ایک فرد کی حیثیت سے اپنی جگہ ایمان لا کر رہ جانا مطلوب نہیں ہے، بلکہ مطلوب یہ ہے کہ ہر ایمان لانے والا ان دوسرے لوگوں کے ساتھ مل جائے جو ایمان لائے ہیں تاکہ اس اہل ایمان کی ایک جماعت بنے، ایک مومن معاشرہ وجود میں آئے، اور اجتماعی طور پر ان بھلائیوں کو قائم کیا جا ئے جن کا قائم کرنا، اور ان برائیوں کو مٹایا جائے جن کا مٹانا ایمان کا تقاضا ہے |
Surah 103 : Ayat 3
إِلَّا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ وَتَوَاصَوْاْ بِٱلْحَقِّ وَتَوَاصَوْاْ بِٱلصَّبْرِ
سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے، اور نیک اعمال کرتے رہے، اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے1
1 | اس سورۃ میں زمانے کی قسم اس بات پر کھائی گئی ہے کہ انسان بڑے خسارے میں ہے، اور اس خسارے سے صرف وہی لوگ بچے ہوئے ہیں جن کے اندر چار صفتیں پائی جاتی ہیں: (1) ایمان (2) عملِ صالح (3) ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کرنا (4) ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرنا۔ اب اس کے ایک ایک جز کو الگ لے کر اس پر غور کرنا چاہیے تاکہ اس ارشاد کا پورا مطلب واضح ہو جائے۔ جہاں تک قسم کا تعلق ہے، اس سے پہلے بارہا ہم اس بات کی وضاحت کر چکے ہیں کہ اللہ تعالی نے مخلوقات میں سے کسی چیز کی قسم اس کی عظمت یا اس کے کاکمالات و عجائب کی بنا پر نہیں کھائی ، بلکہ اس بنا پر کھائی ہے کہ وہ اس بات پر دلالت کرتی ہے جسے ثابت کرنا مقصود ہے۔ پس زمانے کی قسم کا مطلب یہ ہے کہ زمانہ اس حقیقت پر گواہ ہے کہ انسان بڑے خسارے میں ہے سوائے ان لوگوں کے جن میں یہ چار صفتیں پائی جاتی ہوں۔ زمانے کا لفظ گزرے ہوئے زمانے کے لیے بھی استعمال ہوتاہے، اور گزرتے ہوئے زمانے کے لیے بھی جس میں حال درحقیقت کسی لمبی مدت کا نام نہیں ہے۔ ہر آن گزر کر ماضی بتنی چلی جا رہا ہے، اور ہر آن آ کر مستقبل کو حال اور جا کر حال کو ماضی بنا رہی ہے۔ یہاں چونکہ مطلقاً زمانے کی قسم کھائی گئی ہے، اس لیے دونوں طرح کے زمانے اس کے مفہوم میں شامل ہیں۔ گزرے ہوئے زمانے کی قسم کھانے کا مطلب یہ ہے کہ انسانی تاریخ اس بات پر شہادت دے رہی ہے کہ جو لوگ بھی ان صفات سے خالی تھے وہ بالاخر خسارے میں پڑ کر رہے۔ اور گزرتے ہوئے زمانے کی قسم کھانے کا مطلب سمجھنے کے لیے پہلے یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ جو زمانہ اب گزر رہا ہے وہ دراصل وہ وقت ہے جو ایک ایک شخص اور ایک ایک قوم کو دنیا میں کام کرنے کے لیے دیا گیا ہے۔ اس کی مثال اس وقت کی سی ہے جو امتحان گاہ میں طالبعلم کو پرچے حل کرنے کے لیے دیا جاتا ہے۔ یہ وقت جس تیز رفتاری کے ساتھ گزر رہا ہے اس کا اندازہ تھوڑی دیر کے لیے اپنی گھڑی میں سیکنڈ کی سوئی کو حرکت کرتے ہوئے دیکھنے سے آپ کو ہو جائے گا۔ حالانکہ ایک سیکنڈ بھی وقت کی بہت بڑی مقدار ہے۔ اسی ایک سیکنڈ میں روشنی ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل کا راستہ طے کر لیتی ہے، اور خدا کی خدائی میں بہت سی چیزیں ایسی بھی ہو سکتی ہیں جو اس سے بھی زیادہ تیز رفتار ہوں خواہ وہ ابھی تک ہمارے علم میں نہ آئی ہوں۔ تاہم اگر وقت کے گزرنے کی رفتار وہی سمجھ لی جائے جو گھڑی میں سیکنڈ کی سوئی کے چلنے سے ہم کو نظر آتی ہے، اور اس بات پر غور کیا جائے کہ ہم جو کچھ بھی اچھا یا برا فعل کرتے ہیں اور جن کاموں میں بھی ہم مشغول رہتے ہیں، سب کچھ اس محدود مدت عمر ہی میں وقوع پذیر ہوتا ہے جو دنیا میں ہم کو کام کرنے کے لیے دی گئی ہے، تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا اصل سرمایہ تو یہی وقت ہے جو تیزی سے گزر رہا ہے۔ امام رازی نے کسی بزرگ کا قول نقل کیا ہے کہ ‘‘میں نے سورہ عصر کا مطلب ایک برف فروش سے سمجھا جو بازار میں آواز لگا رہا تھا کہ رحم کرو اس شخص پر جس کا سرمایہ پگھلا جا رہا ہے، رحم اس شخص پر جس کا سرمایہ گھلا جا رہا ہے اس کی یہ بات سن کر میں نے کہا یہ ہے والعصر ان الانسان لفی خسر، کا مطلب۔عمر کی جو مدت انسان کی دی گئی ہے وہ برف کے گھلنے کی طرح تیزی سے گزر رہی ہے۔ اس کو اگر ضائع کیا جائے، یا غلط کاموں میں صرف کر ڈالا جائے تو یہی انسان کا خسارہ ہے’’۔پس گزرتے ہوئے زمانے کی قسم کھا کر جو بات اس سورہ میں کی گئی ہے، اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ تیز رفتار زمانہ شہادت دے رہا ہے کہ ان چار صفات سے خالی ہو کر انسان جن کاموں میں بھی اپنی مہلت عمر کو صرف کر رہا ہے وہ سب کے سب خسارے کے سودے ہیں۔ نفع میں صرف وہ لوگ ہیں جو ان چار صفات سے متصف ہو کر دنیا میں کام کریں۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے ہم اس طالب علم سے جو امتحان کے مقررہ وقت کو اپنا پرچہ حل کرنے کے بجائے کسی اور کام میں گزار رہا ہو، کمرے کے اندر لگے ہوئے گھنٹے کی طرف اشارہ کر کےکہیں کہ یہ گزرتا ہوا وقت بنا رہا ہے کہ تم اپنا نقصان کر رہے ہو، نفع میں صرف وہ طالب علم ہے جو اس وقت کا ہر لمحہ اپنا پرچہ حل کرنے میں صرف کر رہا ہے۔ انسان کا لفظ اگرچہ واحد ہے، لیکن بعد کے فقرے میں اس سےان لوگوں کو متسثنی کیا گیا ہے جو چار صفات سے متصف ہوں، اس لیے لا محالہ یہ ماننا پڑے گا کہ یہاں لفظ انسان اسم جنس کے طور پر استعمال کیا گیا ہے اور اس کا اطلاق افراد، گروہوں ، اقوام اور پوری نوع انسانی پر یکساں ہوتا ہے۔ پس یہ حکم کہ مذکورہ چار صفات سے جو بھی خ الی ہو وہ خسارے میں ہے، ہر حالت میں ثابت ہو گا، خواہ ان سے خالی کوئی شخص ہو، یا کوئی قوم، دیا دنیا بھر کے انسان۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے ہم اگر یہ حکم لگائیں کہ زہر انسان کےلیے مہلک ہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ زہر بہرحال مہلک ہے خواہ ایک فرد اس کو کھائے یا ایک پوری قوم، یا ساری دنیا کے انسان مل کر اسے کھا جائیں۔ زہر کی مہلکِ خاصیت اپنی جگہ اٹل ہے، اس میں اس لحاظ سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ایک شخص نے اس کو کھایا ہے، یا ایک قوم نے اسے کھانے کا فیصلہ کیا ہے، یا دنیا بھر کے انسانوں کا اجماع اس پر ہو گیا ہے کہ زہر کھانا چاہیے۔ ٹھیک اسی طرح یہ بات اپنی جگہ اٹل ہے ک چار مذکورہ بالا صفات سے خالی ہونا انسان کے لیے خسارے کا موجب ہے۔ اس قاعدہ کلیہ میں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کوئی شخص ان سے خالی ہے، یا کسی قوم نے ، یا دنیا بھر کے انسانوں نے کفر ، بد عملی، اور ایک دوسرے کو باطل کی ترغیب دینے اور بندگی نفس کی تلقین کرنے پر اتفاق کر لیا ہے۔ اب دیکھیے کہ خسارے کا لفظ قرآن مجید کس معنی میں استعمال کرتا ہے۔ لغت کے اعتبار سے خسارہ نفع کی ضد ہے اور جب تجارت میں اس لفظ کا استعمال اس حالت میں بھی ہوتا ہے جب کسی ایک سودے میں گھاٹا آئے ، اور اس حالت میں بھی جب سارا کاروبار گھاٹے میں جا رہا ہو، اور اس حالت میں بھی جب اپنا سارا سرمایہ کھو کر آدمی دیوالیہ ہو جائے، قرآن مجید اسی لفظ کو اپنی خاص اصطلاح بنا کر فلاح کے مقابلے میں استعمال کرتا ہے اور جس طرح اس کا تصور فلاح محض دنیوی خوشحالی کا ہم معنی نہیں ہے بلکہ دنیا سے لے کر آخرت تک انسان کی حقیقی کامیابی پر حاوی ہے، اسی طرح اس کا تصور خسران بھی محض دنیوی ناکامی یا خستہ حالی کا ہم معنی نہیں ہے بلکہ دنیا سے لے کر آخرت تک انسان کی حقیقی ناکامی و نامرادی پر حاوی ہے۔ فلاح اور خسران دونوں کے قرآنی تصور کی تشریح اس سے پہلے ہم متعدد مقامات پر کر چکے ہیں اس لیے ان کے اعادے کی حاجت نہیں ہے (ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، الاعراف ، حاشیہ 9۔ الانفال ۔ حاشیہ 30۔ یونس ، حاشیہ 23۔ بنی اسرائیل ، حاشیہ 102۔ جلد سوم ، الحج، حاشیہ 17۔ المومنون ، حواشی 1۔2۔11۔50۔ جلد چہارم ، لقمان، حاشیہ 4۔ الزمر ، حاشیہ 34)۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اگرچہ قرآن کے نزدیک حقیقی فلاح آخرت میں انسان کی کامیابی اور حقیقی خسارہ وہاں اس کی ناکامی ہے لیکن اس دنیا میں بھی جس چیز کا نام لوگوں نے فلاح رکھ چھوڑا ہے وہ در اصل فلاح نہیں ہے بلکہ اس کا انجام خود اسی دنیا میں خسارہ ہے، اور جس چیز کو لوگ خسارہ سمجھتے ہیں وہ در اصل خسارہ ہیں ہے بلکہ اس دنیا میں بھی وہی فلاح کا ذریعہ ہے ۔ اس حقیقت کو قرآن مجید میں کئی مقامات پر بیان کیا گیا ہے اور ہر جگہ ہم نے اس کی تشریح کر دی ہے (ملاحظہ ہو، تفہیم القرآن، جلد دوم، النحل، حاشیہ 99۔ جلد سوم، مریم، حاشیہ 53، طہٰ، حاشیہ 105۔ جلد ششم ، الیل ، حواشی 3۔5)۔ پس جب قرآن پورے زور اور قطعیت کے ساتھ کہتا ہے کہ ‘‘در حقیقت انسان بڑے خسارے میں ہے’’ تو اس کا مطلب دنیا اور آخرت دونوں کا خسارہ ہے، اور جب وہ کہتا ہے کہ اس خسارے سے صرف وہ لوگ بچے ہوئے ہیں جن کے اندر حسب ذیل چار صفات پائی جاتی ہیں، تو اس کا مطلب دونوں جہانوں میں خسارے سے بچنا اور فلاح پانا ہے۔ اب ہمیں ان چاروں صفات کو دیکھنا چاہیے جن کے پائے جانے پر اس سورۃ کی رو سے انسان کا خسارے سے محفوظ رہنا موقوف ہے۔ ان میں پہلی صفت ایمان ہے۔ یہ لفظ ارچہ بعض مقامات پر قرآن مجید میں محض زبانی اقرارِ ایمان کے معنی میں بھی استعمال کیا گیا ہے (مثلاً النساء، آیت 137، المائدہ آیت 54، الانفال، آیت 20۔27، التوبہ، آیت 38۔ اور الصف، آیت 2 میں)لیکن اس کا اصل استعمال سچے دل سے ماننے اور یقین کرنے کے معنی ہی میں کیا گیا ہے، اور عربی زبان میں بھی اس لفظ کے یہی معنی ہیں، لغت میں امن لہ کے معنی صدقہ و اعتمد علیہ )اس کی تصدیق کی اور اس پر اعتماد کیا)اور امن بہ کے معنی ہیں ایقن بہ (اس پر یقین کیا)۔ قرآن در اصل جس ایمان کو حقیقی ایمان قرار دیتا ہے، اس کو ان آیات میں پوری طرح واضح کر دیا گیا ہے: ’’ اِنَّمَا الْمُؤْ مِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْ ا بِا للہِ وَرَسُوْلِہِ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا۔ ‘‘ (الحجرات ۔ 15) مومن تو حقیقت میں وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ا یمان لائے اور پھر شک میں نہ پڑے۔ ’’ اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللہُ ثُمَّ اسْتَقَا مُوْا۔ ‘‘ (حٰم السجدہ ۔ 30) جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے اور پھر اس پر ڈٹ گئے۔ ’’ اِنَّمَا الْمُؤْ مِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُھُمْ۔ ‘‘ (الانفال 2) مومن تو حقیقت میں وہ ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل لرز جاتے ہیں۔ ’’ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہِ۔ ‘‘ (البقرۃ 165) اور جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ سب سے بڑھ کر اللہ سے محبت رکھتے ہیں۔ ’’ فَلَا وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا۔ ‘‘ (النساء 65) پس نہیں (اے نبی)تمہارے رب کی قسم وہ ہر گز مومن نہیں ہیں جب تک اپنے باہمی اختلاف میں تمہیں فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی محسوس نہ کریں بلکہ سر بسر تسلیم کر لیں۔ ان سے بھی زیادہ اس آیت میں زبانی اقرارِ ایمان اور حقیقی ایمان کا فرق ظاہر کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ اصل مطلوب حقیقی ایمان ہے نہ کہ زبانی اقرار۔ ’’ یٰآَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اٰمِنُوْ بِا للہِ وَ رَسُوْلِہٖ۔ ‘‘ (النساء 136) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، ایمان لائے اللہ اور اس کے رسول پر۔ اب رہا یہ سوال کہ ایمان لانے سے کن چیزوں پر ایمان لانا مراد ہے، تو قرآن مجید میں پوری طرح اس بات کو بھی کھول کھول کر بیان کر دیا گیا ہے۔ اس سے مراد اولاً ، اللہ کو ماننا ہے۔ محض اس کے وجود کو ماننا نہیں بلکہ اسے اس حیثیت سے ماننا ہے کہ وہی ایک خدا ہے۔ خدائی میں کوئی اس کا شریک نہیں ہے۔ وہی اس کا مستحق ہے کہ انسان اس کی عبادت ، بندگی اور اطاعت بجا لائے۔ وہی قسمتیں بنانے اور بگاڑنے والا ہے۔ بندے کو اسی سے دعا مانگنی چاہیے اور اسی پر توکل کرنا چاہیے۔ وہی حکم دینے ا ور منع کرنے والا ہے۔ بندے کا فرض ہے کہ اس کے حکم کی اطاعت کرے اور جس چیز سے اس نے منع کیا ہے اس سے رک جائے۔ وہ سب کچھ دیکھنے اور سننے والا ہے ۔ اس سے انسان کا کوئی فعل تو درکنار ، وہ مقصد اور نیت بھی مخفی نہیں ہے جس کے ساتھ اس نے کوئی فعل کیا ہے۔ ثانیاً ، رسول کو ماننا ، اس حیثیت سے کہ وہ اللہ تعالی کا مامور کیا ہوا ہادی و رہنما ہے، اور جس چیز کی تعلیم بھی اس نے دی ہے وہ اللہ تعالی کی طرف سے ہے، برحق ہے، اور واب التسلیم ہے۔ اسی ایمان بالرسالت میں ملائکہ ، انبیاء اور کتب الہیہ پر، اور خود قرآن پر بھی ایمان لانا شامل ہے، کیونکہ یہ ان تعلیمات میں سے ہے جو اللہ کے رسول نے دی ہیں۔ ثالثاً آخرت کو ماننا ، اس حیثیت سے کہ انسان کی موجودہ زندگی پہلی اور آخری زندگی نہیں ہے بلکہ مرنے کے بعد انسان کو دوبارہ زندہ ہو کر اٹھنا ہے، اپنے ان اعمال کا جو اس نے دنیا کی اس زندگی میں کیے ہیں خدا کو حساب دینا ہے، اور اس محاسبہ میں جو لوگ نیک قرار پائیں انہیں جزاء ، اور جو بد قرار پائیں ان کو سزا ملنی ہے۔ یہ ایمان اخلاق اور سیرت و کردار کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کر دیتا ہے جس پر ایک پاکیزہ زندگی کی عمارت قائم ہو سکتی ہے۔ ورنہ جہاں سرے سے یہ ایمان ہی موجود نہ ہو وہاں انسان کی زندگی خواہ کتنی ہی خوشنما کیوں نہ ہو، اس کا حال ایک بے لنگر کے جہاز کا سا ہوتا ہے جو موجود کے ساتھ بہتا چلا جاتا ہے اور کہیں قرار نہیں پکڑ سکتا۔ ایمان کے بعد دوسری صف جو انسان کو خسارے سے بچانے کے لیے ضروری ہے وہ صالحات (نیک کاموں) پر عمل کرنا ہے۔ صالحات کا لفظ تمام نیکیوں کا جامع ہے جس سے نیکی اور بھلائی کی کوئی قسم چھوٹی نہیں رہ جاتی۔ لیکن قرآن کی رو سے کوئی عمل بھی اس وقت تک عمل و صالح نہیں ہو سکتا جب تک اس کی جڑ میں ایمان موجود نہ ہو، اور وہ اس ہدایت کی پیروی میں نہ کیا جائے جو اللہ اور اس کے رسول نے دی ہے۔ اسی لیے قرآن مجید میں ہر جگہ عمل صالح سے پہلے ایمان کا ذکر کیا گیا ہے اور اس عمل بلا ایمان پر کسی اجر کی امید دلائی گئی ہے۔ دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایمان وہی معتبر اور مفید ہے جس کے صادق ہونے کا ثبوت انسان اپنے عمل سے پیش کرے۔ ورنہ ایمان بلا عمل صالح محض ایک دعویٰ ہے جس کی تردید آدمی خود ہی کر دیتا ہے جب وہ اس دعوے کے باوجود اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے طریقےسے ہٹ کر چلتا ہے۔ ایمان اور عمل صالح کا تعلق بیج اور درخت کا سا ہے ۔ جب تک بیج زمین میں نہ ہو، کوئی درخت پیدا نہیں ہو سکتا۔ لیکن اگر بیج زمین میں ہو اور کوئی درخت پیدا نہ ہو رہا ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ بیج زمین میں دفن ہو کر رہ گیا۔ اور یہ بات اس سورہ میں کہی گئی ہے کہ انسان کو خسارے سے بچانے کے لیے جو دوسری صفت ضروری ہے وہ ایمان کے بعد صالحات پر عمل کرنا ہے۔ بالفاظ دیگر عمل صالح کے بغیر محض ایمان آدمی کو خسارے سے نہیں بچا سکتا۔ مذکورہ بالا دو صفتیں تو وہ ہیں جو ایک ایک فرد میں ہونی چاہئیں۔ اس کے بعد یہ سورۃ دو مزید صفتیں بیان کرتی ہے جو خسارے سے بچنے کے لیے ضروری ہیں، اور وہ یہ ہیں کہ یہ ایمان لانے اور عمل صالح کرنے والے لوگ ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کریں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اول تو ایمان لانے اور نیک عمل کرنے والوں کو فرد فرد بن کر نہیں چاہیے بلکہ ان کے ا جتماع سے ایک مومن و صالح معاشرہ وجود میں آنا چاہیے۔ دوسرے، اس معاشرے کے ہر فرد کو اپنی یہ ذ مہ داری محسوس کرنی چاہیے کہ وہ معاشرے کو بگڑنے نہ دے، اس لیے اس کے تمام افراد پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو حق اور صبر کی تلقین کریں۔ حق کا لفظ باطل کی ضد ہے اور بالعموم یہ دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ ایک ، صحیح اور سچی اور مطابق عدل و انصاف اور مطابق حقیقت بات، خواہ وہ عقیدہ و ایمان سے تعلق رکھتی ہو یا دنیا کے معاملات سے۔ دوسرے ، وہ حق جس کا ا دا کرنا انسان پر واجب ہو، خواہ وہ خدا کا حق ہو یا بندوں کا حق یا خود اپنے نفس کا حق۔ پس ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اہل ایمان کا یہ معاشرہ ایسا بے حس نہ ہو کہ اس میں باطل سر اٹھا رہا ہو اور حق کے خلاف کام کیے جا رہے ہوں، مگر لوگ خاموشی کے ساتھ اس کا تماشا دیکھتے رہیں، بلکہ اس معاشرے میں یہ روح جاری و ساری رہے کہ جب اور جہاں بھی باطل سر اٹھائے کلمہ حق کہنے والے اس کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہوں، اور معاشرے کا ہر فرد صرف خود ہی حق پرستی اور راستبازی اور عدل و انصاف پر قائم رہنے اور حق داروں کے حقوق ادا کرنے پر اکتفا نہ کرے بلکہ دوسروں کو بھی اس طرز عمل کی نصیت کرے۔ یہ وہ چیز ہے جو معاشرے کو اخلاقی زوال و انحطاط سے بچانے کی ضامن ہے۔ اگر یہ روح کسی معاشرے میں موجود نہ رہے تو وہ خسران سے نہیں بچ سکتا اور اس خسران میں وہ لوگ بھی آخر کار مبتلا ہو کر رہتے ہیں جو اپنی جگہ حق پر قائم ہوں مگر اپنے معاشرے میں حق کو پامال ہوتے دیکھتے رہیں۔ یہی بات ہے جو سورہ مائدہ میں فرمائی گئی ہے کہ بنی اسرائیل پر حضرت داؤد اور حضرت عیسیٰ ابن مریم کی زبان سے لعنت کی گئی اور اس لعنت کی وجہ یہ تھی کہ ان کے معاشرے میں گناہوں اور زیادتیوں کا ارتکاب عام ہو رہا تھا اور لوگوں نے ایک دوسرے کو برے افعال سے روکنا چھوڑ دیا تھا (آیات 78۔79) پھر اسی بات کو سورہ اعراف میں اس طرح بیان فرمایا گیا ہے کہ بنی اسرائیل نے جب کھلم کھلا سبت کے احکام کی خلاف ورزی کر کے مچھلیاں پکڑنی شروع کر دیں تو ان پر عذاب نازل کر دیا گیا اور اس عذاب سے صرف وہی لوگ بچائے گئے جو اس گناہ سے روکنے کی کوشش کرتے تھے (آیات 163 تا 166) اور اسی بات کو سورہ انفال میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ بچو اس فتنے سے جس کی شامت مخصوص طور پر صرف انہی لوگوں تک محدود نہ رہے گی جنہوں نے تم میں سے گناہ کیا ہو ۔(آیت 25)ا۔ اسی لی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو امتِ مسلمہ کا فریضہ قرار دیا گیا ہے (آلِ عمران۔104) اور اس امت کو بہترین امت کہا گیا ہے جو یہ فریضہ انجام دے (آلِ عمران۔ 110)۔ حق کی نصیحت کے ساتھ دوسری چیز جو اہل ایمان اور ان کے معاشرے کو خسارے سے بچانے کے لیے شرط لازم قرار دی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اس معاشرے کے افراد ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرتے رہیں۔ یعنی حق کی پیروی اور اس کی حمایت میں جو مشکلات پیش آتی ہیں، اور اس راہ میں جن تکالیف سے، جن مشقتوں سے، جن مصائب سے، اور جن نقصانات اور محرومیوں سے انسان کو سابقہ پیش آتا ہے ان کے مقابلے میں وہ ایک دوسرے کو ثابت قدم رہنے کی تلقین کرتے رہیں۔ ان کا ہر فرد دوسرے کی ہمت بندھاتا رہے کہ وہ ان حالات کو صبر کے ساتھ برداشت کرے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد ششم ، الدھر ، حاشیہ 16۔ البلد ، حاشیہ 14) |