Ayats Found (10)
Surah 2 : Ayat 224
وَلَا تَجْعَلُواْ ٱللَّهَ عُرْضَةً لِّأَيْمَـٰنِكُمْ أَن تَبَرُّواْ وَتَتَّقُواْ وَتُصْلِحُواْ بَيْنَ ٱلنَّاسِۗ وَٱللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
اللہ کے نام کو ایسی قسمیں کھانے کے لیے استعمال نہ کرو، جن سے مقصود نیکی اور تقویٰ اور بند گان خدا کی بھلائی کے کاموں سے باز رہنا ہو1 اللہ تمہاری ساری باتیں سن رہا ہے اور سب کچھ جانتا ہے
1 | احادیثِ صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جس شخص نے کسی بات کی قَسم کھائی ہو اور بعد میں اس پر واضح ہو جائے کہ اِس قَسم کے توڑ دینے ہی میں خیر اور بھلائی ہے، اسے قَسم توڑ دینی چاہیے اور کفّارہ ادا کرنا چاہیے۔ قَسم توڑنے کا کفّارہ دس مسکینوں کو کھانا کھلانا یا انہیں کپڑے پہنانا یا ایک غلام آزاد کرنا یا تین دن کے روزے رکھنا ہے۔( ملاحظہ ہو سُورہ مائدہ ، آیت ۸۹) |
Surah 4 : Ayat 114
۞ لَّا خَيْرَ فِى كَثِيرٍ مِّن نَّجْوَٮٰهُمْ إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ أَوْ إِصْلَـٰحِۭ بَيْنَ ٱلنَّاسِۚ وَمَن يَفْعَلْ ذَٲلِكَ ٱبْتِغَآءَ مَرْضَاتِ ٱللَّهِ فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا
لوگوں کی خفیہ سرگوشیوں میں اکثر و بیشتر کوئی بھلائی نہیں ہوتی ہاں اگر کوئی پوشیدہ طور پر صدقہ و خیرات کی تلقین کرے یا کسی نیک کام کے لیے یا لوگوں کے معاملات میں اصلاح کرنے کے لیے کسی سے کچھ کہے تو یہ البتہ بھلی بات ہے، اور جو کوئی اللہ کی رضا جوئی کے لیے ایسا کرے گا اُسے ہم بڑا اجر عطا کریں گے
Surah 5 : Ayat 2
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا تُحِلُّواْ شَعَـٰٓئِرَ ٱللَّهِ وَلَا ٱلشَّهْرَ ٱلْحَرَامَ وَلَا ٱلْهَدْىَ وَلَا ٱلْقَلَـٰٓئِدَ وَلَآ ءَآمِّينَ ٱلْبَيْتَ ٱلْحَرَامَ يَبْتَغُونَ فَضْلاً مِّن رَّبِّهِمْ وَرِضْوَٲنًاۚ وَإِذَا حَلَلْتُمْ فَٱصْطَادُواْۚ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَـَٔـانُ قَوْمٍ أَن صَدُّوكُمْ عَنِ ٱلْمَسْجِدِ ٱلْحَرَامِ أَن تَعْتَدُواْۘ وَتَعَاوَنُواْ عَلَى ٱلْبِرِّ وَٱلتَّقْوَىٰۖ وَلَا تَعَاوَنُواْ عَلَى ٱلْإِثْمِ وَٱلْعُدْوَٲنِۚ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَۖ إِنَّ ٱللَّهَ شَدِيدُ ٱلْعِقَابِ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، خد ا پرستی کی نشانیوں کو بے حرمت نہ کرو1 نہ حرام مہینوں میں سے کسی کو حلال کر لو، نہ قربانی کے جانوروں پر دست درازی کرو، نہ اُن جانوروں پر ہاتھ ڈالو جن کی گردنوں میں نذر خداوندی کی علامت کے طور پر پٹے پڑے ہوئے ہوں، نہ اُن لوگوں کو چھیڑو جو اپنے رب کے فضل اور اس کی خوشنودی کی تلاش میں مکان محترم (کعبہ) کی طرف جا رہے ہوں2 ہاں جب احرام کی حالت ختم ہو جائے تو شکار تم کرسکتے ہو3 اور دیکھو، ایک گروہ نے جو تمہارے لیے مسجد حرام کا راستہ بند کر دیا ہے تواس پر تمہارا غصہ تمہیں اتنا مشتعل نہ کر دے کہ تم بھی ان کے مقابلہ میں ناروا زیادتیاں کرنے لگو4 نہیں! جو کام نیکی اور خدا ترسی کے ہیں ان میں سب سے تعاون کرو اور جو گناہ اور زیادتی کے کام ہیں ان میں کسی سے تعاون نہ کرو اللہ سے ڈرو، اس کی سز ا بہت سخت ہے
4 | چونکہ کفار نے اس وقت مسلمانوں کو کعبہ کی زیارت سے روک دیا تھا اور عرب کے قدیم دستور کے خلاف حج تک سے مسلمان محرُوم کر دیے گئے تھے ، اس لیے مسلمانوں میں یہ خیال پیدا ہوا کہ جن کافر قبیلوں کے راستے اسلامی مقبوضات کے قریب سے گزرتے ہیں ، ان کو ہم بھی حج سے روک دیں اور زمانۂ حج میں ان کے قافلوں پر چھا پے مارنے شروع کر دیں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فر ما کر انہیں اِس ارادہ سے باز رکھا |
3 | احرام بھی مِن جُملہ شعائر اللہ ہے، اور اس کی پابندیوں میں سے کسی پابندی کو توڑنا اس کی بے حرمتی کرنا ہے۔ اس لیے شعائر اللہ ہی کے سلسلہ میں اس کا ذکر بھی کر دیا گیا کہ جب تک تم احرام بند ہو ، شکار کرنا خداپرستی کے شعائر میں سے ایک شعا ر کی توہین کرنا ہے۔ البتہ جب شرعی قاعدہ کے مطابق احرام کی حد ختم ہو جائے تو شکار کرنے کی اجازت ہے |
2 | شعائراللہ “ کے احترام کا عام حکم دینے کے بعد چند شعائر کا نام لے کر ان کے احترام کا خاص طور پر حکم دیا گیا کیونکہ اُس وقت جنگی حالات کی وجہ سے یہ اندیشہ پیدا ہوگیا تھا کہ جنگ کے جوش میں کہیں مسلمانوں کے ہاتھوں ان کی توہین نہ ہو جائے۔ ان چند شعائر کو نام بنام بیان کرنے سے یہ مقصُود نہیں ہے کہ صرف یہی احترام کے مستحق ہیں |
1 | ہر وہ چیز جو کسی مسلک یا عقیدے یا طرزِ فکر و عمل یا کسی نظام کی نمائندگی کرتی ہو وہ اس کا ”شعار“ کہلائے گی، کیونکہ وہ اس کے لیے علامت یا نشانی کا کام دیتی ہے۔ سرکاری جھنڈے ، فوج اور پولیس وغیرہ کے یونیفارم ، سِکّے، نوٹ اور اسٹامپ حکومتوں کے شعائر ہیں اور وہ اپنے محکوموں سے ، بلکہ جن جن پر ان کا زور چلے ، سب سے ان کے احترام کا مطالبہ کرتی ہیں۔ گِرجا اور قربان گاہ اور صلیب مسیحیّت کے شعائر ہیں۔ چوٹی اور زنّار اور مندر برہمنیّت کے شعائر ہیں۔ کیس اور کڑا اور کرپان وغیرہ سکھ مذہب کے شعائر ہیں۔ ہتھوڑا اور درانتی اشتراکیّت کا شعار ہیں۔ سواستیکا آریہ نسل پرستی کا شعار ہے۔ یہ سب مسلک اپنے اپنے پیرووں سے اپنے اِن شعائر کے احترام کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اگر کوئی شخص کسی نظام کے شعائر میں سے کسی شعار کی توہین کرتا ہے تو یہ اِس بات کی علامت ہے کہ وہ دراصل اُس نظام کے خلاف دُشمنی رکھتا ہے، اور اگر وہ توہین کرنے والا خود اسی نظام سے تعلق رکھتا ہو تو اس کا یہ فعل اپنے نظام سے ارتداد اور بغاوت کا ہم معنی ہے۔ ”شعائراللہ“ سے مراد وہ تمام علامات یا نشانیاں ہیں جو شرک و کفر اور دہریّت کے بالمقابل خالص خدا پرستی کے مسلک کی نمائندگی کرتی ہوں۔ ایسی علامات جہاں جس مسلک اور جس نظام میں بھی پائی جائیں مسلمان ان کے احترام پر مامو ر ہیں ، بشرطیکہ ان کا نفسیاتی پس منظر خالص خدا پرستانہ ہو، کسی مشرکانہ یا کافرانہ تخیّل کی آلودگی سے انہیں ناپاک نہ کر دیا گیا ہو۔ کوئی شخص خواہ وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو، اگر اپنے عقیدہ و عمل میں خدائے واحد کی بندگی و عبادت کا کوئی جُزء رکھتا ہے، تو اس جُزء کی حد تک مسلمان اس سے موافقت کریں گے اور ان شعائر کا بھی پُورا احترام کریں گے جو اس کے مذہب میں خالص خدا پرستی کی علامت ہوں۔ اس چیز میں ہمارے اور اس کے درمیان نزاع نہیں بلکہ موافقت ہے۔ نزاع اگر ہے تو اس افر میں نہیں کہ وہ خدا کی بندگی کیوں کرتا ہے، بلکہ اس امر میں ہے کہ وہ خداکی بندگی کے ساتھ دُوسری بندگیوں کی آمیزش کیوں کرتا ہے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ شعائر اللہ کے احترام کی یہ حکم اُس زمانہ میں دیا گیا تھا جبکہ مسلمانوں اور مشرکینِ عرب کے درمیان جنگ برپا تھی، مکّہ پر مشرکین قابض تھے، عرب کے ہر حصّے سے مشرک قبائل کے لوگ حج و زیارت کے لیے کعبہ کی طرف جاتے تھے اور بہت سے قبیلوں کے راستے مسلمانوں کی زد میں تھے۔ اس وقت حکم دیا گیا کہ یہ لوگ مشرک ہی سہی، تمہارے اور ان کے درمیان جنگ ہی سہی، مگر جب یہ خدا کے گھر کی طرف جاتے ہیں تو انہیں نہ چھیڑو، حج کے مہینوں میں ان پر حملہ نہ کرو، خدا کے دربار میں نذر کرنے کے لیے جانور یہ لیے جارہے ہوں اُن پر ہاتھ نہ ڈالو ، کیونکہ ان کے بگڑے ہوئے مذہب میں خدا پرستی کا جتنا حصّہ باقی ہے وہ بجائے خود احترام کا مستحق ہے نہ کہ بے احترامی کا |
Surah 7 : Ayat 199
خُذِ ٱلْعَفْوَ وَأْمُرْ بِٱلْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ ٱلْجَـٰهِلِينَ
اے نبیؐ، نرمی و درگزر کا طریقہ اختیار کرو، معروف کی تلقین کیے جاؤ، اور جاہلوں سے نہ الجھو
Surah 15 : Ayat 94
فَٱصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ ٱلْمُشْرِكِينَ
پس اے نبیؐ، جس چیز کا تمہیں حکم دیا جا رہا ہے، اُسے ہانکے پکارے کہہ دو اور شرک کرنے والوں کی ذرا پروا نہ کرو
Surah 31 : Ayat 17
يَـٰبُنَىَّ أَقِمِ ٱلصَّلَوٲةَ وَأْمُرْ بِٱلْمَعْرُوفِ وَٱنْهَ عَنِ ٱلْمُنكَرِ وَٱصْبِرْ عَلَىٰ مَآ أَصَابَكَۖ إِنَّ ذَٲلِكَ مِنْ عَزْمِ ٱلْأُمُورِ
بیٹا، نماز قائم کرنے کا حکم دے، بدی سے منع کر، اور جو مصیبت بھی پڑے اس پر صبر کر1 یہ وہ باتیں ہیں جن کی بڑی تاکید کی گئی ہے2
2 | دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ بڑے حوصلے کا کام ہے۔ اصلاحِ خلق کے لیے اُٹھنا اور اس کی مشکلات کو انگیز کرنا کم ہمت لوگوں کے بس کی بات نہیں ہے۔ یہ ان کاموں میں سے ہے جن کے لیے بڑا دِل گُردہ چاہیے۔ |
1 | اس میں ایک لطیف اشارہ اس امر کی طرف ہے کہ جو شخص بھی نیکی کا حکم دینے اور بدی سے روکنے کا کام کرے گا اس پر مصائب کا نزول ناگزیر ہے۔ دُنیا لازماً ایسے شخص کے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑ جاتی ہے اور اسے ہر قسم کی اذیتوں سے سابقہ پیش آ کر رہتا ہے۔ |
Surah 49 : Ayat 9
وَإِن طَآئِفَتَانِ مِنَ ٱلْمُؤْمِنِينَ ٱقْتَتَلُواْ فَأَصْلِحُواْ بَيْنَهُمَاۖ فَإِنۢ بَغَتْ إِحْدَٮٰهُمَا عَلَى ٱلْأُخْرَىٰ فَقَـٰتِلُواْ ٱلَّتِى تَبْغِى حَتَّىٰ تَفِىٓءَ إِلَىٰٓ أَمْرِ ٱللَّهِۚ فَإِن فَآءَتْ فَأَصْلِحُواْ بَيْنَهُمَا بِٱلْعَدْلِ وَأَقْسِطُوٓاْۖ إِنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ٱلْمُقْسِطِينَ
اور اگر اہل ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑ جائیں1 تو ان کے درمیان صلح کراؤ2 پھر اگر ان میں سے ایک گروہ دوسرے گروہ سے زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو3 یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آئے4 پھر اگر وہ پلٹ آئے تو ان کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کرا دو5 اور انصاف کرو کہ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے6
6 | یہ آیت مسلمانوں کی باہمی جنگ کے بارے میں شرعی قانون کی اصل بنیاد ہے۔ ایک حدیث کے سوا جس کا ہم آگے ذکر کریں گے، اس قانون کی کوئی تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت میں نہیں ملتی، کیونکہ حضور کے زمانے میں مسلمانوں کے درمیان جنگ کی کبھی نوبت ہی نہیں آئی کہ آپ کے عمل اور قول سے اس کے احکام کی تفصیلات معلوم ہوتیں۔ بعد میںاس قانون کی مستند تشریح اس وقت ہوئی جب حضرت علیؓ کے عہد خلافت میں خود مسلمانوں کے درمیان لڑائیاں ہوئیں۔ اس وقت چونکہ بکثرت صحابہ کرام موجود تھے، اس لیے ان کے عمل اور ان کے بیان کردہ احکام سے اسلامی قانون کے اس شعبی کا مفصل ضابطہ مرتب ہوا۔ خصوصیت کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اسوہ اس معاملہ میں تمام فقہاء کا اصل مرجع ہے۔ ذیل میں ہم اس ضابطہ کا ایک ضروری خلاصہ درج کرتے ہیں: 1)۔ مسلمانوں کی باہمی جنگ کی کئی صورتیں ہیں جن کے حکم الگ الگ ہیں۔ (الف) لڑنے والے دونوں گروہ کسی مسلمان حکومت کی رعایا ہوں۔ اس صورت میں ان کے درمیان صلح کرانا، یا یہ فیصلہ کرنا کہ ان میں سے زیادتی کرنے والا کون ہے، اور طاقت سے اس کو حق کی طرف رجوع پر مجبور کرنا حکومت کا فریضہ ہے۔ (ب) لڑنے والے فریقین دو بہت بڑے طاقت ور گروہ ہوں، یا دو مسلمان حکومتیں ہوں، اور دونوں کی لڑائی دنیا کی خاطر ہو۔ اس صورت میں اہل ایمان کا کام یہ ہے کہ اس فتنے میں حصہ لینے سے قطعی اجتناب کریں اور فریقین کو خدا کا خوف دلا کر جنگ سے باز رہنے کی نصیحت کرتے رہیں۔ (ج) لڑنے والے وہ فریقین جن کا اوپر (ب) میں ذکر کیا گیا ہے، ان میں سے ایک حق پر ہو اور دوسرا زیادتی کر رہا ہو، اور نصیحت سے اصلاح پر آمادہ نہ ہو رہا ہو۔ اس صورت میں اہل ایمان کا کام یہ ہے کہ زیادتی کرنے والے فریق کے خلاف بر سر حق فریق کا ساتھ دیں۔ (د) فریقین میں سے ایک گروہ رعیت ہو اور اس نے حکومت، یعنی مسلم حکومت کے خلاف خروج کیا ہو۔ فقہاء اپنی اصلاح استعمال کرتے ہیں۔ 2)۔ باغی، یعنی حکومت کے خلاف خروج کرنے والے گروہ بھی متعدد اقسام کے ہو سکتے ہیں: (الف) وہ جو محض فساد برپا کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں اور اپنے اس خروج کے لیے ان کے پاس کوئی شرعی تاویل نہ ہو۔ ان کے خلاف حکومت کی جنگ بالاتفاق جائز ہے اور اس کا ساتھ دینا اہل ایمان پر واجب ہے، قطع نظر اس سے کہ حکومت عادل ہو یا نہ ہو۔ (ب) وہ جو حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے خروج کریں،اور ان کے پاس کوئی شرعی تاویل نہ ہو، بلکہ ان کا ظاہر حال بتا رہا ہو کہ وہ ظالم و فاسق ہیں۔ اس صورت میں اگر حکومت عادل ہو تب تو اس کا ساتھ دینا بلا کلام واجب ہے، لیکن اگر وہ عادل نہ بھی ہو تو اس حکومت کو برقرار رکھنے کے لیے لڑنا واجب ہے جس کے ذریعہ سے فی الحال مملکت کا نظم قائم ہے۔ (ج) وہ جو کسی شرعی تاویل کی بنا پر حکومت کے خلاف خروج کریں، مگر ان کی تاویل باطل اور ان کا عقیدہ فاسد ہو مثلاً خوارج۔ اس صورت میں بھی، مسلم حکومت، خواہ وہ عادل ہو یا نہ ہو، ان سے جنگ کرنے کا جائز حق رکھتی ہے اور اس کا ساتھ دینا واجب ہے۔ (د) وہ جو ایک عادل حکومت کے خلاف خروج کریں جب کہ اس کے سربراہ کی امارت جائز طور پر قائم ہو چکی ہو۔ اس صورت میں خواہ ان کے پاس کوئی شرعی تاویل ہو یا نہ ہو، بہر حال ان سے جنگ کرنے میں حکومت حق بجانب ہے اور اس کا ساتھ دینا واجب۔ (ھ) وہ جو ایک ظالم حکومت کے خلاف خروج کریں جس کی امارت جبراً قائم ہوئی ہو اور جس کے امراء فاسق ہوں، اور خروج کرنے والے عدل اور حدود اللہ کی اقامت کے لیے اٹھے ہوں اور ان کا ظاہر حال یہ بتا رہا ہو کہ وہ خود صالح لوگ ہیں۔ اس صورت میں ان کو ’’باغی‘‘ یعنی زیادتی کرنے والا گروہ قرار دینے اور ان کے خلاف جنگ کو واجب قرار دینے میں فقہاء کے درمیان سخت اختلاف واقع ہو گیا ہے، جسے مختصراً ہم یہاں بیان کرتے ہیں۔ جمہور فقہاء اور اہل الحدیث کی راۓ یہ ہے کہ جس امیر کی امارت ایک دفعہ قائم ہو چکی ہو اور مملکت کا امن و امان نظم و نسق اس کے انتظام میں چل رہا ہو، وہ خواہ عادل ہو یا ظالم، اور اس کی امرت خواہ کسی طور پر قائم ہوئی ہو، اس کے خلاف خروج کرنا حرام ہے، الا یہ کہ وہ کفر صریح کا ارتکاب کرے۔ امام سر خسی لکھتے ہیں کہ ’’ جب مسلمان ایک فرمانروا پر مجتمع ہوں اور اس کی بدولت ان کو امن حاصل ہو اور راستے محفوظ ہوں، ایسی حالت میں اگر مسلمانوں کا کوئی گروہ اس کے خلاف خروج کرے تو جو شخص بھی جنگ کی طاقت رکھتا ہو اس پر واجب ہے کہ مسلمانوں کے اس فرمانروا کے ساتھ مل کر خرج کرنے والوں کے خلاف جنگ کرے ‘‘ (البسوط، باب الخوارج)۔ امام، لودِی شرح مسلم میں کہتے ہیں کہ ’’ ائمہ،یعنی مسلمان فرمانرواؤں کے خلاف خروج اور قتال حرام ہے، خواہ وہ فاسق اور ظالم ہی کیوں نہ ہوں‘‘۔ اس پر امام نودی اجماع کا دعویٰ کرتے ہیں۔ لیکن اس پر اجماع کا دعویٰ صحیح نہیں ہے۔ فقہاۓ اسلام کا ایک بڑا گروہ، جس میں اکابر اہل علم شامل ہیں، خروج کرنے والوں کو صرف اس صورت میں ’’باغی‘‘ قرار دیتا ہے جبکہ وہ امام عادل کے خلاف خروج کریں۔ ظالم و فاسق امراء کے خلاف صلحاء کے خروج کو وہ قرآن مجید کی اصطلاح کے مطابق ’’بغاوت‘‘ کا مصداق نہیں ٹھیراتے، اور نہ ان کے خلاف جنگ کو واجب قرار دیتے ہیں۔ امام ابو حنیفہ کا مسلک ظالم امراء کے خلاف قتال کے معاملہ میں اہل علم کو معلوم ہے۔ ابوبکر جصاص احکام القرآن میں صاف لکھتے ہیں کہ امام صاحب اس قتال کو نہ صرف جائز، بلکہ سازگار حالات میں واجب سمجھتے تھے (جلد اول، ص 81۔جلد دوم،ص 39) بنی امیہ کے خلاف زید بن علی کے خروج میں انہوں نے نہ صرف خود مالی مدد دی، بلکہ دوسروں کو بھی اس کی تلقین فرمائی(الجصاص،ج 1 ص 81)۔ منصور کے خلاف نفس زکیہ کے خروج میں وہ پوری سرگرمی کے ساتھ نفس زکیہ کی حمایت کرتے رہے اور اس جنگ کو انہوں نے کفار کے خلاف جہاد سے افضل قرار دیا(الجصاص،ج1،ص 81۔ مناقب ابی حنیفہ للکردری،ج2،ص71۔72)۔ پھر فقہاۓ حنفیہ کا بھی متفقہ مسلک وہ نہیں ہے جو امام سرخسی نے بیان کیا ہے۔ ابن ہُمام ہدایہ کی شرح فتح القدیر میں لکھتے ہیں کہ الباغی فی عرف الفقھاْالخارج عن طاعۃ امام الحق، ’’ فقہاء کے عرف میں باغی وہ ہے جو امام حق کی اطاعت سے نکل جاۓ‘‘۔ حنابلہ میں سے ابن عقیل اور ابن لجوزی امام غیر عادل کے خلاف خروج کو جائز ٹھیراتے ہیں اور اس پر حضرت حسین کے خروج سے استدلال کرتے ہیں (الانصاف، ج 10، باب قتال اہل البغی)۔ امام شافعی کتاب الام میں باغی اس شخص کو قرار دیتے ہیں جو امام عادل کے خلاف جنگ کرے (ج 4،ص135)۔ امام مالک کا مسلک المدونہ میں یہ نقل کیا گیا ہے کہ’’ خروج کرنے والے اگر امام عدل کے خلاف جنگ کرنے کے لیے نکلیں تو ان کے خلاف مقاتلہ کیا جاۓ‘‘(جلد اول،ص 407)۔ قاضی ابوبکر ابن العربی احکام القرآن میں ان کا یہ قول نقل کرتے ہیں: ’’ جب کوئی شخص عمر بن عبدالعزیز جیسے امام عدل کے خلاف خروج کرے تو اس کی دفع کرنا واجب ہے، رہا کسی دوسری قسم کا امام تو اسے اس کے حال پر چھوڑ دو، اللہ کسی دوسرے ظالم کے ذریعہ سے اس کو سزا دے گا اور پھر کسی تیسرے ظالم کے ذریعہ سے ان دونوں کو سزا دے گا‘‘۔ ایک اور قول امام مالکؒ کا انہوں نے یہ نقل کیا ہے : ’’ جب ایک امام سے بیعت کی جا چکی ہو اور پھر اس کے بھائی اس کے مقابلے پر کھڑے ہو جائیں تو ان سے جنگ کی جاۓ گی اگر وہ امام عادل ہو۔ رہے ہمارے زمانے کے ائمہ تو ان کے لیے کوئی بیعت نہیں ہے، کیونکہ ان کی بیعت زبردستی لی گئی ہے ‘‘ پھر مالکی علماء کا جو مسلک سَحْنون کے حوالہ سے قاضی صاحب نے بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ جنگ تو صرف امام عدل کے ساتھ مل کر کی جاۓ گی، خواہ پہلا امام عادل ہو یا وہ شخص جس نے اس کے خلاف خروج کیا ہو۔ لیکن اگر دونوں عادل نہ ہوں تو دونوں سے الگ رہو۔ البتہ اگر تمہاری اپنی جان پر حملہ کیا جاۓ یا مسلمان ظلم کے شکار ہو رہے ہوں تو مدافعت کرو‘‘۔ یہ مسالک نقل کرنے کے بعد قاضی ابو بکر کہتے ہیں : لا نقاتل الامع امامٍ عادل یقدمہ اھل الحق لا نفسہم۔‘‘ ہم جنگ نہیں کریں گے مگر اس امام عادل کے ساتھ جسے اہل حق نے اپنی امامت کے لیے آگے بڑھا یا ہو‘‘۔ 3)۔ خروج کرنے والے اگر قلیل التعداد ہوں اور ان کی پشت پر کوئی بڑی جماعت نہ ہو، نہ وہ کچھ زیادہ جنگی سر و سامان رکھتے ہوں، تو ان پر قانون بغاوت کا اطلاق نہ ہوگا، بلکہ ان کے ساتھ عام قانون تعزیرات کے مطابق برتاؤ کیا جاۓ گا، یعنی وہ قتل کریں گے تو ان سے قصاص لیا جاۓ گا اور مال کا نقصان کریں گے تو اس کا تاوان ان پر عائد ہوگا۔ قانون بغاوت کا اطلاق صرف ان باغیوں پر ہوتا ہے جو کوئی بڑی طاقت رکھتے ہوں، اور کثیر جمیعت اور جنگی سرو سامان کے ساتھ خروج کریں۔ 4)۔ خروج کرنے والے جب تک محض اپنے فاسد عقائد، یا حکومت اور اس کے سربراہ کے خلاف باغیانہ اور معاندانہ خیالات کا اظہار کرتے رہیں،ان کو قتل یا قید نہیں کیا جا سکتا۔ جنگ ان کے خلاف صرف اس وقت کی جاۓ گی جب وہ عملاً مسلح بغاوت کر دیں اور خونریزی کی ابتدا کر بیٹھیں۔(المبسوط، باب الخوارج۔ فتح القدیر، باب البغاۃ۔ احکام القرآن للجصاص)۔ 5)۔ باغیوں کے خلاف جنگ کا آغاز کرنے سے پہلے ان کو قرآن مجید کی ہدایت کے مطابق دعوت دی جاۓ گی کہ وہ بغاوت کی روش چھوڑ کر عدل کی راہ اختیار کریں۔ اگر ان کے کچھ شبہات و اعتراضات ہوں تو انہیں سمجھانے کی کوشش کی جاۓ گی۔اس پر بھی وہ باز نہ آئیں اور مقاتلہ کا آغاز ان کی طرف سے ہو جاۓ، تب ان کے خلاف تلوار اٹھائی جاۓ گی۔ (فتح القدیر۔ احکام القرآن للجصاص)۔ 6)۔ باغیوں سے لڑائی میں جن ضوابط کو ملحوظ رکھا جاۓ گا وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشاد پر مبنی ہیں جسے حضرت عبداللہ بن عمر کے حوالہ سے حاکم، بزار اور الجصاص نے نقل کیا ہے۔: حضورؐ نے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے پوچھا اے ابن ام عبد، جانتے ہو اس امت کے باغیوں کے بارے میں اللہ کا کیا حکم ہے؟ انہوں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ فرمایا ان کے زخمیوں پر ہاتھ نہیں ڈالا جاۓ گا، ان کے اسیر کو قتل نہیں کیا جاۓ گا، ان کے بھاگنے والے کا پیچھا نہیں کیا جاۓ گا، اور ان کا مال غنیمت کے طور پر تقسیم نہیں کیا جاۓ گا۔‘‘ اس ضابطہ کا دوسرا ماخذ،جس پر تمام فقہاۓ اسلام نے اعتماد کیا ہے، حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول اور عمل ہے۔ آپ نے جنگ جمَل میں فتح یاب ہونے کے بعد اعلان کیا کہ بھاگنے والے کا تعاقب نہ کرو، زخمی پر حملہ نہ کرو، گرفتار ہو جانے والوں کو قتل نہ کرو، جو ہتھیار ڈال دے اس کو امان دو، لوگوں کے گھروں میں نہ گھسو، اور عورتوں پر دست درازی نہ کرو،خواہ وہ تمہیں گالیاں ہی کیوں نہ دے رہی ہوں۔ آپ کی فوج کے بعض لوگوں نے مطالبہ کیا کہ مخالفین کو اور ان کے بال بچوں کو غلام بنا کر تقسیم کر دیا جاۓ۔ اس پر غضب ناک ہو کر آپ نے فرمایا۔ تم میں سے کون امّ المومنین عائشہ کو اپنے حصہ میں لینا چاہتا ہے؟ 7)۔ باغیوں کے اموال کا حکم، جو حضرت علیؓ کے اسوہ حسنہ سے ماخوذ ہے، یہ ہے کہ ان کا کوئی مال، خواہ وہ ان کے لشکر میں ملا ہو یا ان کے پیچھے ان کے گھروں پر ہو، اور وہ خواہ زندہ ہوں یا مارے جا چکے ہوں، بہر حال اسے مال غنیمت قرار دیا جاۓ گا اور نہ فوج میں تقسیم کیا جاۓ گا۔ البتہ جس مال کا نقصان ہو چکا ہو، اسکا کوئی ضِمان لازم نہیں آتا۔ جنگ ختم ہونے اور بغاوت کا زور ٹوٹ جانے کے بعد ان کے مال ان ہی کو واپس دے دیے جائیں گے۔ ان کے اسلحہ اور سواریاں جنگ کی حالت میں اگر ہاتھ آ جائیں تو انہی ان کے خلاف استعمال کیا جاۓ گا، مگر فاتحین کی ملکیت بنا کر مال غنیمت کے طور پر تقسیم نہیں کیا جاۓ گا، اور اگر ان سے پھر بغاوت کا اندیشہ نہ ہو تو ان کی یہ چیزیں بھی واپس دے دی جائیں گی۔ صرف امام ابو یوسف کے راۓ یہ ہے کہ حکومت اسے غنیمت قرار دے گی (المبسوط، فتح القدیر۔الحصاص)۔ 8 )۔ ان کے گرفتار شدہ لوگوں کو یہ عہد لے کر کہ وہ پھر بغاوت نہ کریں گے، رہا کر دیا جاۓ گا۔ (المبسوط)۔ 9 )۔ باغی مقتولوں کے سر کاٹ کر گشت کرانا سخت مکروہ فعل ہے، کیونکہ یہ مُثلہ ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے منع فرمایا ہے۔ حضرت ابو بکرؓ کے پاس رومی بطیق کا سر کاٹ کر لایا گیا تو آپ نے اس پر شدید ناراضی کا اظہار کیا اور فرمایا ہمارا کا رومیوں اور ایرانیوں کی پیروی کرنا نہیں ہے۔ یہ معاملہ جب کفار تک سے کرنا روا نہیں ہے تو مسلمانوں کے ساتھ تو یہ بدرجہ اولیٰ ممنوع ہونا چاہیے۔(المبسوط)۔ 10 )۔ جنگ کے دوران میں باغیوں کے ہاتھوں جان و مال کا جو نقصان ہوا ہو، جنگ ختم ہونے اور امن قائم ہو جانے کے بعد اس کا کوئی قصاص اور ضمان ان پر عائد نہ ہوگا۔ نہ کسی مقتول کا بدلہ ان سے لیا جاۓ گا اور نہ کسی مال کا تاوان ان پر ڈالا جاۓ گا، تاکہ فتنے کی آگ پھر نہ بھڑک اٹھے۔ صحابہ کرام کی باہمی لڑائیوں میں یہی ضابطہ ملحوظ رکھا گیا تھا (المبسوط۔ الجصاص۔ احکام القرآن ابن العرنی)۔ 11 )۔ جن علاقوں پر باغیوں کا قبضہ ہو گیا ہو اور وہاں انہوں نے اپنا نظم و نسق قائم کر کے زکوٰۃ اور دوسرے محصولات وصول کر لیے ہوں حکومت ان علاقہ پر دو بارہ قبضہ کرنے کے بعد لوگوں سے از سر نو اس زکوٰۃ اور ان محصولات کا مطالبہ نہیں کرے گی۔ اگر باغیوں نے یہ اموال شرعی طریقے پر صرف کر دیے ہوں گو عند اللہ بھی وہ ادا کرنے والوں پر سے ساقط ہو جائیں گے۔ لیکن اگر انہوں نے غیر شرعی طریقے پر تصرف کیا ہو، تو یہ ادا کرنے والوں کے اور ان کے خدا کے درمیان معاملہ ہے۔ وہ خود چاہیں تو اپنی زکوٰۃ دوبارہ ادا کر دیں (فتح القدیر۔ الجصاص۔ابن العربی)۔ 12)۔ باغیوں نے اپنے زیر تصرف علاوہ میں جو عدالتیں قائم کی ہوں، اگر ان قاضی اہل عدل میں سے ہوں اور شریعت کے مطابق انہوں نے فیصلے کیے ہوں، تو وہ بر قرار رکھے جائیں گے اگرچہ ان کے مقرر کرنے والے بغاوت کے مجرم ہی کیوں نہ ہوں۔ البتہ اگر ان کے فیصلے غیر شرعی ہوں اور بغاوت فرو ہونے کے بعد وہ حکومت کی عدالتوں کے سامنے لاۓ جائیں تو وہ نافذ نہیں کیے جائیں گے۔ علاوہ بریں باغیوں کی قائم کی ہوئی عدالتوں کی طرف سے کوئی وارنٹ یا پروانہ امر حکومت کی عدالتوں میں قبول نہ کیا جاۓ گا (المبسوط۔ الجصاص)۔ 13)۔ باغیوں کی شہادت اسلامی عدالتوں میں قابل قبول نہ ہو گی کیونکہ اہل عدل کے خلاف جنگ کرنا فسق ہے۔ امام محمد کہتے ہیں کہ جب تک وہ جنگ نہ کریں اور اہل عدل کے خلاف عملاً خروج کے مرتکب نہ ہوں، ان کی شہادت قبول کی جاۓ گی، مگر جب وہ جنگ کر کے ہوں تو پھر میں ان کی شہادت قبول نہ کروں گا (الجصاص)۔ ان احکام سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کفار کے خلاف جنگ اور مسلمان باغیوں کے خلاف جنگ کے قانون میں کیا فرق ہے |
5 | محض صلح کرا دینے کا حکم نہیں ہے بلکہ عدل و انصاف کے ساتھ صلح کرانے کا حکم ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں وہ صلح کوئی قابل قدر چیز نہیں ہے جو حق اور باطل کے فرق کو نظر انداز کر کے محض لڑائی روکنے کے لیے کرائی جاۓ اور جس میں بر سر حق گروہ کو دبا کر زیادتی کرنے والے گروہ کے ساتھ بے جا رعایت برتی جاۓ۔ صلح وہی صحیح ہے جو انصاف پر مبنی ہو۔ اسی سے فساد ٹلتا ہے، ورنہ حق والوں کو دبانے اور زیادتی کرنے والوں کی ہمت افزائی کرنے کا نتیجہ لازماً یہ ہوتا ہے کہ خرابی کے اصل اسباب جوں کے توں باقی رہتے ہیں، بلکہ ان میں اور اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے، اور اس سے بار بار فساد بر پا ہونے کی نوبت پیش آتی ہے |
4 | اس سے معلوم ہوا کہ یہ لڑائی باغی (زیادتی کرنے والے گروہ) کو بغاوت (زیادتی) کی سزا دینے کے لیے نہیں ہے بلکہ اسے اللہ کے حکم کی طرف پلٹنے پر مجبور کرنے کے لیے ہے۔ اللہ کے حکم سے مراد یہ ہے کہ کتاب اللہ و سنت رسول اللہ کی رو سے جو بات حق ہو اسے یہ باغی گروہ قبول کر لینے پر آمادہ ہو جاۓ اور جو طرز عمل اس میزان حق کی رو سے زیادتی قرار پاتا ہے اس کو چھوڑ دے۔ جوں ہی کہ کوئی باغی گروہ اس حکم کی پیروی پر راضی ہو جاۓ، اس کے خلاف طاقت کا استعمال بند ہو جانا چاہیے، کیونکہ یہی قتال کا مقصود اور اس کی آخری حد ہے۔ اس کے بعد مزید دست درازی کرنے والا خود زیادتی کا مرتکب ہو گا۔ اب رہی یہ بات کہ کتاب اللہ و سنت رسول اللہ کی رو سے ایک نزاع میں حق کیا ہے اور زیادتی کیا، تو لا محالہ اس کو طے کرنا ان لوگوں کا کام ہے جو امت میں اور علم اور بصیرت کے لحاظ سے اس کی تحقیق کرنے کے اہل ہوں |
3 | یعنی مسلمانوں کا یہ کام بھی نہیں ہے کہ وہ زیادتی کرنے والے کو زیادتی کرنے دیں اور جس پر زیادتی کی جاہی ہو اسے اس کے حال پر چھوڑ دیں، یا الٹا زیادتی کرنے والے کا ساتھ دیں۔ بلکہ ان کا فرض یہ ہے کہ اگر لڑنے والے فریقین میں صلح کرانے کی تمام کوششیں ناکام ہو جائیں، تو پھر یہ دیکھیں کہ ح پر کون ہے اور زیادتی کرنے والا کون۔ جو حق پر ہو اس کا ساتھ دیں اور جو زیادتی کرنے والا ہو اس سے لڑیں۔ اس لڑائی کا چونکہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اس لیے یہ واجب ہے اور جہاد کے حکم میں ہے اس کا شمار اس فتنے میں نہیں ہے جس کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے کہ القائم فیھَا خیرٌ من الماشی والقاعد فیھا خیر من القائم (اس میں کھڑا رہنے والا چلنے والے سے، اور بیٹھ جانے والا کھڑا رہنے والے سے بہتر ہے )۔ کیونکہ اس فتنے سے مراد تو مسلمانوں کی وہ باہمی لڑائی ہے جس میں فریقین عصبیت اور حمیت جاہلیہ اور طلب دنیا کے لیے لڑ رہے ہوں اور دونوں میں سے کوئی بھی حق پر نہ ہو۔ رہی یہ لڑائی جو زیادتی کرنے والے گروہ کے مقابلہ میں بر سر حق گروہ کی حمایت کے لیے لڑی جاۓ، تو یہ فتنے میں حصہ لینا نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل ہے۔ تمام فقہاء کا اس کے وجوب پر اتفاق ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ میں اس کے واجب ہونے پر کوئی اختلاف نہ تھا (احکام القرآن للجصاص)۔ بلکہ بعض فقہاء تو اسے جہاد سے بھی افضل قرار دیتے ہیں اور ان کا استدلال یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنا پورا زمانہ خلافت کفار سے جہاد کرنے کے بجاۓ باغیوں سے لڑنے میں صرف کر دیا (روح المعانی)۔ اس کے واجب نہ ہونے پر اگر کوئی شخص اس بات سے استدلال کرے کہ حضرت علیؓ کی ان لڑائیوں میں حضرت عبداللہ بن عمر اور بعض دوسرے صحابہ نے حسہ نہیں لیا تھا تو وہ غلطی پر ہے۔ ابن عمر خود فرماتے ہیں کہ :ماوجدت فی نفسی من شئ ما وجدت من ھٰذہِ اِلاٰ یۃ اَنّی لم اقاتل ھٰذہ الفئۃ کما امرنی اللہ تعالیٰ، (المستدرک للحاکم، کتاب معرفۃ الصحابہ، باب الدفع عمن قعدوا عن بیعۃ علی) ’’مجھے اپنے دل میں کسی بات پر اتنی زیادہ کھٹک نہیں ہوئی جتنی اس آیت کی وجہ سے ہوئی کہ میں نے اللہ کے حکم کے مطابق اس باغی گروہ سے جنگ نہ کی‘‘ زیادتی کرنے والے گروہ سے ’’قتال‘‘ کرنے کا حکم لازماً یہی معنی نہیں رکھتے کہ اس کے خلاف ہتھیاروں سے جنگ کی جاۓ اور ضرور اس کو قتل ہی کیا جاۓ۔ بلکہ اس سے مراد اس کے خلاف طاقت کا استعمال کرنا چاہیے، اور اصل مقصود اس کی زیادتی کا ازالہ ہے۔ اس مقصد کے لیے جس طاقت کا استعمال نا گزیر ہو اسے استعمال کرنا چاہیے اور جتنی طاقت کا استعمال کافی ہو، نہ اس سے کم استعمال کرنی چاہیے نہ اس سے زیادہ۔ اس حکم کے مخاطب وہ لوگ ہیں جو طاقت استعمال کر کے زیادتی کا ازالہ کرنے پر قادر ہوں |
2 | اس حکم کے مخاطب وہ تمام مسلمان ہیں جو ان دونوں گروہوں میں شامل نہ ہوں، اور جن کے لیے ان کے درمیان صلح کی کوشش کرنا ممکن ہو۔ دوسرے الفاظ میں، اللہ تعالیٰ کے نزدیک مسلمانوں کا یہ کام نہیں ہے کہ ان کی اپنی ملت کے دو گروہ آپس میں لڑ رہے ہوں اور وہ بیٹھے ان کی لڑائی کا تماشا دیکھتے رہیں۔ بلکہ یہ افسوسناک صورت حال جب بھی پیدا ہو، تمام اہل ایمان کو اس پر بے چین ہو جانا چاہیے اور ان کے باہمی معاملات کی اصلاح کے لیے جس کے بس میں جو کوشش بھی ہو وہ اسے صرف کر ڈالنی چاہیے۔ فریقین کو لڑائی سے باز رہنے کی تلقین کی جاۓ۔ انہیں خدا سے ڈرایا جاۓ۔ با اثر لوگ فریقین کے ذمہ دار آدمیوں سے جا کر ملیں۔ نزاع کے اسباب معلوم کریں۔ اور اپنی حد تک ہر وہ کوشش کریں جس سے ان کے درمیان مصالحت ہو سکتی ہو |
1 | یہ نہیں فرمایا کہ ’’جب اہل ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑیں‘‘، بلکہ فرمایا یہ ہے کہ اگر اہل ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑ جائیں ‘‘۔ ان الفاظ سے یہ بات خود بخود نکلتی ہے کہ آپس میں لڑنا مسلمانوں کا معمول نہیں ہے اور نہیں ہونا چاہیے۔ نہ ان سے یہ امر متوقع ہے کہ وہ مومن ہوتے ہوۓ آپس میں لڑا کریں گے۔ البتہ اگر کبھی ایسا ہو جاۓ تو اس صورت میں وہ طریق کار اختیار کرنا چاہیے جو آگے بیان کیا جا رہا ہے۔ علاوہ بریں گروہ کے لیے بھی ’’ فرقہ‘‘ کے بجاۓ ’’طائفہ‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ عربی زبان میں فرقہ بڑے گروہ کے لیے اور طائفہ چھوٹے گروہ کے لیے بولا جاتا ہے اس سے بھی یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰٰٰٰٰ کی نگاہ میں یہ ایک انتہائی ناپسندیدہ حالت ہے جس میں مسلمانوں کی بڑی بڑی جماعتوں کا مبتلا ہو جانا متوقع نہیں ہونا چاہیے |
Surah 49 : Ayat 10
إِنَّمَا ٱلْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُواْ بَيْنَ أَخَوَيْكُمْۚ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ
مومن تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں، لہٰذا اپنے بھائیوں کے درمیان تعلقات کو درست کرو1 اور اللہ سے ڈرو، امید ہے کہ تم پر رحم کیا جائے گا2
2 | پچھلی دو آیتوں میں مسلمانوں کی باہمی لڑائی کے متعلق ضروری ہدایات دینے کے بعد اہل ایمان کو یہ احساس دلایا گیا تھا کہ دین کے مقدس ترین رشتے کی بنا پروہ ایک دوسرے کے بھائی ہیں اور ان کو خدا سے ڈرتے ہوۓ اپنے آپس کے تعلقات کو درست رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔اب آگے کی دو آیتوں میں ان بڑی بڑی برائیوں کے سد باب کا حکم دیا جا رہا ہے جو بالعموم ایک معاشرے میں لوگوں کے باہمی تعلقات کو خراب کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کی عزت پر حملہ،ایک دوسرے کی سل آزاری، ایک دوسرے سے بد گمانی، اور ایک دوسرے کے عیوب کا تجسس، در حقیقت یہی وہ اسباب ہیں جن سے آپس کی عداوتیں پیدا ہوتی ہیں اور پھر دوسرے اسباب کے ساتھ مل کر ان سے بڑے بڑے فتنے رو نما ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں جو احکام آگے کی آیتوں میں دیے گۓ ہیں اور ان کی جو تشریحات احادیث میں ملتی ہیں ان کی بنا پر ایک مفصل قانون ہتک عزت (Law of libel) مرتب کیا جا سکتا ہے۔ مغربی قوانین ہتک عزت اس معاملے میں اتنے ناقص ہیں کہ ایک شخص ان کے تحت دعویٰ کر کے اپنی عزت کچھ اور کھو آتا ہے۔ اسلامی قانون اس کے بر عکس ہر شخص کی ایک بنیادی عزت کا قائل ہے جس پر حملہ کرنے کا کسی کو حق نہیں ہے۔ قطع نظر اس سے کہ حملہ واقعیت پر مبنی ہویا نہ ہو، اور جس پر حملہ کیا گیا ہے اس کی کوئی ’’حیثیت عرفی‘‘ ہو یا نہ ہو۔ مجرد یہ بات کہ ایک آدمی نے دوسرے آدمی کی تذلیل کی ہے اسے مجرم بنا دینے کے لیے کافی ہے، الا یہ کہ اس تذلیل کا کوئی رعی جواز ثابت کر دیا جاۓ |
1 | یہ آیت دنیا کے تمام مسلمانوں کی ایک عالمگیر برادری قائم کرتی ہے اور یہ اسی کی برکت ہے کہ کسی دوسرے دین یا مسلک کے پیروؤں میں وہ اخوت نہیں پائی گئی ہے جو مسلمانوں کے درمیان پائی جاتی ہے۔ اس حکم کی اہمیت اور اس کے تقاضوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے بکثرت ارشادات میں بیان فرمایا ہے جن سے اس کی پوری روح سمجھ میں آسکتی ہے۔ حضرت جریر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے تین باتوں پر بیعت لی تھی۔ ایک یہ کہ نماز قائم کروں گا۔ دوسرے یہ کہ زکوٰۃ دیتا رہوں گا۔تیسرے یہ کہ ہر مسلمان کا خیر خواہ رہوں گا (بخاری، کتابالایمان)۔ حضرت عبداللہ بن مسعسد کی رسایت ہے کہ حضور نے فرمایا مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اس سے جنگ کرنا کفر(بخاری، کتاب الایمان۔ مسند احمد میں اسی مضمون کی روایت حضرت سعید بن مالک نے بھی اپنے والد سے نقل کی ہے )۔ حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کی جان، مال اور عزت حرام ہے ۔ (مسلم، کتاب البروالصلہ۔ ترمذی، ابواب البروالصِّلہ)۔ حضرت ابو سعید خذریؓ اور حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا ’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، وہ اس پر ظلم نہیں کرتا، اس کا ساتھ نہیں چھوڑتا اور اس کی تذلیل نہیں کرتا۔ ایک آدمی کے لیے یہی شر بہت ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی تحقیر کرے (مسند احمد)۔ حضرت سہل بن سعد ساعدی آپؐ کا یہ ارشاد روایت کرتے ہیں کہ ’’ گروہ اہل ایمان کے ساتھ ایک مومن کا تعلق ویسا ہی ہے جیسا سر کے ساتھ جسم کا تعلق ہوتا ہے۔ وہ اہل ایمان کی ہر تکلیف کو اسی طرح محسوس کرتا ہے جس طرح سر جسم کے ہر حصے کا درد محسوس کرتا ہے۔ (مسند احمد)۔ اسی سے ملتا جلتا مضمون ایک اور حدیث میں ہے، جس میں آپؐ نے فرمایا ہے مومنوں کی مثال آپس کی محبت، وابستگی اور ایک دوسرے پر رحم و شفقت کے معاملہ میں ایسی ہے جیسے ایک جسم کی حالت ہوتی ہے کہ اس کے کسی عضو کو بھی تکلیف ہو تو سارا جسم اس پر بخار اور بے خوابی میں مبتلا ہو جاتا ہے(بخاری و مسلم)۔ ایک اور حدیث میں آپ کا یہ ارشاد منقول ہوا ہے کہ مومن ایک دوسرے کے لیے ایک دیوار کی اینٹوں کی طرح ہوتے ہیں کہ ہر ایک دوسرے سے تقویت پاتا ہے (بخاری، کتاب الادب، ترمذی، ابواب البروالصلہ) |
Surah 51 : Ayat 55
وَذَكِّرْ فَإِنَّ ٱلذِّكْرَىٰ تَنفَعُ ٱلْمُؤْمِنِينَ
البتہ نصیحت کرتے رہو، کیونکہ نصیحت ایمان لانے والوں کے لیے نافع1 ہے
1 | اس آیت میں تبلیغ کا دوسرا کا دوسرا قاعدہ بیان کیا گیا ہے۔ دعوت حق کا اصل مقصد ان سعید روحوں تک ایمان کی نعمت پہنچانا ہے جو اس نعمت کی قدر شناس ہوں اور اسے خود حاصل کرنا چاہیں۔ مگر داعی کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ انسانی معاشرے کے ہزاروں لاکھوں افراد میں وہ سعید روحیں کہاں ہیں۔ اس لیے اس کا کام یہ ہے کہ اپنی دعوت عام کا سلسلہ برابر جاری رکھے تا کہ جہاں جہاں بھی ایمان قبول کرنے والے افراد موجود ہوں وہاں اس کی آواز پہنچ جاۓ۔ یہی لوگ اس کی اصل دولت ہیں۔ انہی کی تلاش اس کا اصل کام ہے۔ اور انہی کو سمیٹ سمیٹ کر خدا کے راستے پر لا کھڑا کرنا اس کے پیش نظر ہونا چاہیے۔ بیچ میں اولاد آدم کا جو فضول عنصر اس کو ملے اس کی طرف بس اسی وقت تک داعی کو توجہ کرنی چاہیے جب تک اسے تجربے سے یہ معلوم نہ ہو جاۓ کہ یہ جنس کا سد ہے۔ اس کے کساد و فساد کا تجربہ ہو جانے کے بعد اسے پھر اپنا قیمتی وقت اس جنس کے لوگوں پر ضائع نہ کرنا چاہیے، کیونکہ یہ اس کی تذکیر سے نفع اٹھانے والے ہیں |
Surah 87 : Ayat 9
فَذَكِّرْ إِن نَّفَعَتِ ٱلذِّكْرَىٰ
لہٰذا تم نصیحت کرو اگر نصیحت نافع ہو1
1 | عام طور پر مفسرین نے ان دو فقروں کو الگ الگ سمجھا ہے۔ پہلے فقرے کا مطلب انہوں نے یہ لیا ہے کہ ہم تمہیں ایک آسان شریعت دے رہے ہیں جس پر عمل کرنا سہل ہے، اور دوسرے فقرے کا یہ مطلب لیا ہے کہ نصیحت کرو اگر وہ نافع ہو۔ لیکن ہمارے نزدیک فذکر کا لفظ دونوں فقروں کو باہم مربوط کرتا ہے اور بعد کے فقرے کا مضمون پہلے فقرے کے مضمون پر مترتب ہوتا ہے۔ اس لیے ہم اس ارشاد الہی کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ اے نبی، ہم تبلیغ دین کے معاملہ میں تم کو کسی مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتے کہ تم بہروں کو سناؤ اور ا ندھوں کو راہ دکھاؤ، بلکہ ایک آسان طریقہ تمہارےلیے میسر کیے دیتے ہیں، اور وہ یہ ہے کہ نصیحت کرو جہاں تمہیں یہ محسوس ہو کہ کوئی اس سے فائدہ اٹھانے کےلیے تیار ہے۔ اب رہی یہ بات کہ کون اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے تیار ہے اور کون نہیں ہے، تو ظاہر ہے کہاس کا قتہ تبلیغ عام ہی سے چل سکتا ہے اس لیے عام تبلیغ تو جاری رکھنی چاہیے، مگر اس سے تمہارا مقصود یہ ہونا چاہیے کہ اللہ کے بندوں میں سے ان لوگوں کو تلاش کرو جو اس سے فائدہ اٹھا کر راہ راست اختیار کر لیں۔ یہی لوگ تمہاری نگاہ ا لتفات کے مستحق ہیں اور انہی کی تعلیم و تربیت پر تمہیں توجہ صرف کرنی چاہیے۔ ان کو چھوڑ کر ایسےلوگوں کے پیچھے پڑنے کی تمہیں کوئی ضرورت نہیں ہے جن کے متعلق تجربے سے تمہیں معلوم ہو جائے کہ وہ کوئی نصیحت قبول نہیں کرنا چاہتے۔ یہ قریب قریب وہی مضمون ہے جو سورۃ عبس میں دوسرے طریقے سے یوں بیان فرمایا گیا ہے کہ ’’جو شخص بے پروائی برتتا ہے اس کی طرف تو تم توجہ کرتے ہو، حالانکہ اگر وہ نہ سدھرے تو تم پر اس کی کیا ذمہ دا ری ہے؟ اور جو خود تمہارے پاس دوڑا آتا ہے اور وہ ڈر رہا ہوتا ہے اس سے تم بے رخی برتتے ہو۔ ہر گز نہیں یہ تو ایک نصیحت ہے ، جس کا جی چاہے اسے قبول کرے‘‘ (آیات 5 تا 12) |