Ayats Found (8)
Surah 2 : Ayat 60
۞ وَإِذِ ٱسْتَسْقَىٰ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِۦ فَقُلْنَا ٱضْرِب بِّعَصَاكَ ٱلْحَجَرَۖ فَٱنفَجَرَتْ مِنْهُ ٱثْنَتَا عَشْرَةَ عَيْنًاۖ قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُنَاسٍ مَّشْرَبَهُمْۖ كُلُواْ وَٱشْرَبُواْ مِن رِّزْقِ ٱللَّهِ وَلَا تَعْثَوْاْ فِى ٱلْأَرْضِ مُفْسِدِينَ
یاد کرو، جب موسیٰؑ نے اپنی قوم کے لیے پانی کی دعا کی تو ہم نے کہا کہ فلاں چٹان پر اپنا عصا مارو چنانچہ اس سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے1 اور ہر قبیلے نے جان لیا کہ کونسی جگہ اس کے پانی لینے کی ہے اُس وقت یہ ہدایت کر دی گئی تھی کہ اللہ کا دیا ہوا رزق کھاؤ پیو، اور زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو
1 | وہ چٹان اب تک جزیرہ نمائے سینا میں موجود ہے۔ سیّاح اسے جا کر دیکھتے ہیں اور چشموں کے شگاف اس میں اب بھی پائے جاتے ہیں۔ ۱۲ چشموں میں یہ مصلحت تھی کہ بنی اسرائیل کے قبیلے بھی ۱۲ ہی تھے۔ خدا نے ہر ایک قبیلے کے لیے الگ چشمہ نکال دیا تاکہ ان کے درمیان پانی جھگڑا نہ ہو |
Surah 7 : Ayat 74
وَٱذْكُرُوٓاْ إِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَآءَ مِنۢ بَعْدِ عَادٍ وَبَوَّأَكُمْ فِى ٱلْأَرْضِ تَتَّخِذُونَ مِن سُهُولِهَا قُصُورًا وَتَنْحِتُونَ ٱلْجِبَالَ بُيُوتًاۖ فَٱذْكُرُوٓاْ ءَالَآءَ ٱللَّهِ وَلَا تَعْثَوْاْ فِى ٱلْأَرْضِ مُفْسِدِينَ
یاد کرو وہ وقت جب اللہ نے قوم عاد کے بعد تمہیں اس کا جانشین بنایا اور تم کو زمین میں یہ منزلت بخشی کہ تم اُس کے ہموار میدانوں میں عالی شان محل بناتے اور اس کے پہاڑوں کو مکانات کی شکل میں تراشتے ہو1 پس اس کی قدرت کے کرشموں سے غافل نہ ہو جاؤ اور زمین میں فساد برپا نہ کرو2"
2 | یعنی عاد کے انجام سے سبق لو۔جس خدا کی قدرت نے اُس مفسد قوم کو برباد کر کے تمہیں اس کی جگہ سر بلند کیا، وہی خدا تمہیں برباد کر کے دوسروں کو تمہارا جا نشین بنا سکتا ہے اگر تم بھی عاد کی طرح مفسد بن جاؤ۔(تشریح کے لیے ملاحظہ ہو حاشیہ ۵۲) |
1 | ثمود کی یہ صنعت ویسی ہی تھی جیسی ہندوستان میں ایلورا، ایجنٹہ اور بعض دوسرے مقامات پر پائی جاتی ہے، یعنی وہ پہاڑوں کو تراش کر ان کے اندر بڑی بڑی عالی شان عمارتیں بناتے تھے، جیسا کہ اوپر بیان ہوا۔ مدائن صالح میں اب تک ان کی کچھ عمارتیں جو ں کی توں موجود ہیں اور ان کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اس قوم نےانجینیری میں کتنی حیرت انگیز ترقی کی تھی |
Surah 26 : Ayat 183
وَلَا تَبْخَسُواْ ٱلنَّاسَ أَشْيَآءَهُمْ وَلَا تَعْثَوْاْ فِى ٱلْأَرْضِ مُفْسِدِينَ
اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دو زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو
Surah 29 : Ayat 36
وَإِلَىٰ مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا فَقَالَ يَـٰقَوْمِ ٱعْبُدُواْ ٱللَّهَ وَٱرْجُواْ ٱلْيَوْمَ ٱلْأَخِرَ وَلَا تَعْثَوْاْ فِى ٱلْأَرْضِ مُفْسِدِينَ
اور مَدیَن کی طرف ہم نے اُن کے بھائی شعیب کو بھیجا1 اُس نے کہا 2"اے میری قوم کے لوگو، اللہ کی بندگی کرو اور روزِ آخر کے امیدوار رہو اور زمین میں مفسد بن کر زیادتیاں نہ کرتے پھرو"
2 | اس کےدومطلب ہوسکتےہیں۔ایک یہ کہ آخرت کےآنے کی توقع رکھو،یہ نہ سمجھوکہ جوکچھ ہےبس یہی دینوی زندگی ہےاورکوئی دوسری زندگی نہیں ہےجس میں تمہیں اپنےاعمال کاحساب دینااورجزاوسزاپاناہو۔دوسرامطلب یہ ہےکہ وہ کام کروجس سےتم آخرت میں انجام بہترہونے کی امید کرسکو۔ |
1 | تقابل کےلیےملاحظ ہوالاعراف،رکوع ۱۱۔ہود ۸۔الشعراء ۱۰۔ |
Surah 7 : Ayat 56
وَلَا تُفْسِدُواْ فِى ٱلْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَـٰحِهَا وَٱدْعُوهُ خَوْفًا وَطَمَعًاۚ إِنَّ رَحْمَتَ ٱللَّهِ قَرِيبٌ مِّنَ ٱلْمُحْسِنِينَ
زمین میں فساد برپا نہ کرو جبکہ اس کی اصلاح ہو چکی ہے اور خدا ہی کو پکارو خوف کے ساتھ اور طمع کے ساتھ1، یقیناً اللہ کی رحمت نیک کردار لوگوں سے قریب ہے
1 | اس فقرے سے واضح ہو گیا کہ اوپر کے فقرے میں جس چیز کو فساد سے تعبیر کیا گیا ہے وہ دراصل یہی ہے کہ انسان خدا کے بجائے کسی اور کو اپنا ولی و سرپرست اور کارساز اور کارفرما قرار دے کر مدد کے لیے پکارے۔ اور اصلاح اس کے سوا کسی دوسری چیز کا نام نہیں ہے کہ انسان کی اِس پکار کا مرجع پھر سے محض اللہ کی ذات ہی ہو جائے۔ خوف اور طمع کے ساتھ پارنے کا مطلب یہ ہے کہ تمہیں خوف بھی ہو تو اللہ سے ہو اور تمہاری اُمیدیں بھی اگر کسی سے وابستہ ہوں تو صرف اللہ سے ہوں۔ اللہ کو پکارو تو اس احساس کے ساتھ پکارو کہ تمہاری قسمت بالکلیہ اس کی نظرِ عنایت پر منحصر ہے، فلاح و سعادت کو پہنچ سکتے ہو تو صرف اس کی مدد اور رہنمائی سے، ورنہ جہاں تم اس کی اعانت سے محروم ہوئے پھر تمہارے لیے تباہی و نا مرادی کے سوا کوئی دوسرا انجام نہیں ہے |
Surah 7 : Ayat 85
وَإِلَىٰ مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًاۗ قَالَ يَـٰقَوْمِ ٱعْبُدُواْ ٱللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَـٰهٍ غَيْرُهُۥۖ قَدْ جَآءَتْكُم بَيِّنَةٌ مِّن رَّبِّكُمْۖ فَأَوْفُواْ ٱلْكَيْلَ وَٱلْمِيزَانَ وَلَا تَبْخَسُواْ ٱلنَّاسَ أَشْيَآءَهُمْ وَلَا تُفْسِدُواْ فِى ٱلْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَـٰحِهَاۚ ذَٲلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
اور مدین1 والوں کی طرف ہم نے ان کے بھائی شعیبؑ کو بھیجا اس نے کہا 2"اے برادران قوم، اللہ کی بندگی کرو، اُس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے تمہارے پاس تمہارے رب کی صاف رہنمائی آ گئی ہے، لہٰذا وزن اور پیمانے پورے کرو، لوگوں کو اُن کی چیزوں میں گھاٹا نہ دو، اور زمین میں فساد برپا نہ کرو جب کہ اس کی اصلاح ہو چکی ہے3، اسی میں تمہاری بھلائی ہے اگر تم واقعی مومن ہو4
4 | اس فقرے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ لوگ خود مدعی ایمان تھے۔ جیسا کہ اوپر ہم ارشاد ر چکے ہیں ، یہ دراصل بگڑے ہوئے مسلمان تھے اور اعتقادی و اخلاقی فساد میں مبتلا ہونے کے با وجود ان کے اندر نہ صرف ایمان کا دعویٰ باقی تھا بلکہ اس پر انہیں فخر بھی تھا۔ اسی لیے حضرت شعیب نے فرمایا کہ اگرتم مومن ہو تو تمہارے نزدیک خیر اور بھلائی راستبازی اور دیانت میں ہونی چاہیے اور تمہارے میارِ خیر و شر اُن دنیا پرستوں سے مختلف ہونا چاہیے جو خدا اور آخرت کو نہیں مانتے |
3 | اس فقرے کی جامع تشریح اس سورة اعراف کے حواشی ۴۴،۴۵ میں گزر چکی ہے ۔ یہاں خصوصیت کے ساتھ حضرت شعیب کے اس قول کا ارشاد اس طرح ہے کہ دینِ حق اور اخلاق صالحہ پر زندگی کا جو نظام انبیائے سابقین کی ہدایت و رہنما ئی قائم ہو چکا تھا، اب تم اسے اپنی اعتقادی گمراہیوں اور اخلاقی بد راہیوں سے خراب نہ کرو |
2 | اس سے معلوم ہوا کہ اس قوم میں دو بڑی خرابیاں پائی جاتی تھی۔ ایک شرک ، دوسرے تجارتی معاملا ت میں بد دیانتی ۔ اور انہی دونوں چیزوں کی اصلاح کے لیے حضرت شعیب مبعوث ہوئے تھے |
1 | مَدیَن کا اصل علاقہ حجاز کے شمال مغرب اور فلسطین کے جنوب میں بحِراحمر اور خلیج عقبہ کے کنارے پر واقع تھا مگر جزیرہ نما ئے سینا کے مشرقی ساحل پر بھی اس کا کچھ سلسلہ پھیلا ہوا تھا۔ یہ ایک بڑی تجارت پیشہ قوم تھی۔ قدیم زمانہ میں جو تجارتی شاہ راہ بحِر احمر کے کنارے یمن سے مکہ اور یَنبوع ہوتی ہوئی شام تک جاتی تھی، اور ایک دوسری تجارتی شاہ راہ جو عراق سے مصر کی طرف جاتی تھی، اس کے عین چوراہے پر اس قوم کی بستیاں واقع تھیں۔ اسی بناء پر عرب کا بچہ بچہ مَدیَن سے واقف تھا اور اس کے مٹ جانے کے بعد بھی عرب میں اس کی شہرت برقرار رہی ۔ کیونکہ عربوں کے تجارتی قافلے مصر اور شام کی طرف جاتے ہوئے رات دن اس کے آثارِ قدیمہ کے درمیان سے گزرتے تھے۔ اہل مَد یَن کے متعلق ایک اور ضروری بات ، جس کو اچھی طرح ذہن نشین کر لینا چاہیے، یہ ہے کہ یہ لوگ دراصل حضرت ابراہیم علیہ السلام کے صاحبزادے مِد یان کی طرف منسوب ہیں جو ان کی تیسری بیوی قَطُوراء کے بطن سے تھے۔ قدیم زمانہ کے قاعدے کے مطابق جو لوگ کسی بڑے آدمی کے ساتھ وابستہ ہو جاتے تھے وہ رفتہ رفتہ اسی کی آل اولاد میں شمار ہو کر بنی فلاں کہلانے لگتے تھے، اسی قاعدے پر عرب کی آبادی کا بڑا حِصہ بنی اسماعیل کہلایا۔ اور اولاد یعقوب کے ہاتھ پر مشرف باسلام ہونے والے لوگ سب کے سب بنی اسرائیل کے جامع نام کے تحت کھپ گئے۔ اسی طرح مَد یَن کے علاقے کی ساری آبادی بھی جو مد یان بن ابراہیم علیہ السلام کے زیر اثر آئی، بنی مدیان کہلائی اور ان کے ملک کا نام ہی مَد یَن یا مَد یان مشہور ہو گیا۔ اس تاریخی حقیقت کو جان لینے کےبعد یہ گمان کرنے کی کوئی وجہ باقی نہیں رہتی کہ اس قوم کو دین ِحق کی آواز پہلی مرتبہ حضرت شعیب کے ذریعہ سے پہنچی تھی۔ درحقیقت بنی اسرائیل کی طرح ابتداء ً وہ بھی مسلمان ہی تھے اور شعیب علیہ السلام کے ظہور کے وقت ان کی حالت ایک بگڑی ہوئی مسلمان قوم کی سی تھی جیسی ظہور موسیً علیہ السلام کے وقت بنی اسرائیل کی حالت تھی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد چھ سات سو برس تک مشرک اور بد اخلاق قوموں کے درمیان رہتے رہتے یہ لوگ شرک بھی سیکھ گئے تھے اور بد اخلاقیوں میں بھی مبتلا ہو گئے تھے، مگر اس کے با وجود ایمان کا دعویٰ اور اس پر فخر بر قرار تھا |
Surah 7 : Ayat 142
۞ وَوَٲعَدْنَا مُوسَىٰ ثَلَـٰثِينَ لَيْلَةً وَأَتْمَمْنَـٰهَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيقَـٰتُ رَبِّهِۦٓ أَرْبَعِينَ لَيْلَةًۚ وَقَالَ مُوسَىٰ لِأَخِيهِ هَـٰرُونَ ٱخْلُفْنِى فِى قَوْمِى وَأَصْلِحْ وَلَا تَتَّبِعْ سَبِيلَ ٱلْمُفْسِدِينَ
ہم نے موسیٰؑ کو تیس شب و روز کے لیے (کوہ سینا پر) طلب کیا اور بعد میں دس دن کا اور اضافہ کر دیا، اِس طرح اُس کے رب کی مقرر کردہ مدت پورے چالیس دن ہو گئی1 موسیٰؑ نے چلتے ہوئے اپنے بھائی ہارونؑ سے کہا کہ 2"میرے پیچھے تم میری قوم میں میری جانشینی کرنا اور ٹھیک کام کرتے رہنا اور بگاڑ پیدا کرنے والوں کے طریقے پر نہ چلنا"
2 | حضرت ہارون علیہ السلام اگرچہ حضرت موسیٰ سے تین سال بڑے تھے لیکن کارِ نبوّت میں حضرت موسیٰ کے ماتحت اور مددگار تھے۔ ان کی نبوت مستقل نہ تھی بلکہ حضرت موسیٰ نےاللہ تعالیٰ سے درخواست کر کے ان کو اپنے وزیر کی حیثیت سے مانگا تھا جیسا کہ آگے چل کر قرآن مجید میں تبصریح بیان ہوا ہے |
1 | مصر سے نکلنے کے بعد جب بنی اسرئیل کی غلامانہ پابندیاں ختم ہو گئیں اور اُنہیں ایک خود مختار قوم کی حیثیت حاصل ہو گئی تو حکمِ خدا وندی کےتحت حضرت موسیٰ ؑ کوہ سینا پر طلب کیے گئے تا کہ انہیں بنی اسرائیل کے لیے شریعت عطا فرمائی گئی تھی کہ حضرت موسیٰ ایک پورا چِلّہ پہاڑ پر گزاریں اور روزے رکھ کر ، شب و روز عبادت اور تفکر و تدبر کر کے اور دل و دماغ کو یکسو کر کے اُس قولِ ثقیل کے اخذ کرنے کی استعداد اپنے اندر پیدا کریں جو ان پر نازل کیا جانے والا تھا۔ حضرت موسیٰ ؑ نے اس ارشاد کی تعمیل میں کوہ سینا جاتے وقت بنی اسرإیل کو اُس مقام پر چھوڑا تھا جو موجودہ نقشہ میں نبی صالح اور کوہ ِ سینا کے درمیان وادی ایشخ کے نام سے موسوم ہے۔ اس وادی کا وہ حصہ جہاں بنی اسرائیل نے پڑاؤ کیا تھا آج کل میدان الراحہ کہلاتا ہے۔ وادی کے ایک سرے پر وہ پہاڑی واقع ہے جہاں مقامی روایت کے بموجب حضرت صالح علیہ السلام ثمود کے علاقے سے ہجرت کر کے تشریف لے آئے تھے۔ آج وہاں ان کی یادگار میں ایک مسجد بنی ہوئی ہے ۔ دوسری طرف ایک اور پہاڑی جبل ہارون نامی ہے جہاں کہا جاتا ہے کہ حضرت ہارون علیہ السلام بنی اسرائیل کی گوسالہ پرستی سے ناراض ہو کر جابیٹھے تھے۔ تیسری طرف سینا کا بلند پہاڑ ہے جس کا بالائی حصہ اکثر بادلوں سے ڈھنکا رہتا ہے اور جس کی بلندی ۷۳۹۵ فیٹ ہے۔ اس پہاڑ کی چوٹی پر آج تک وہ کھوہ زیارت گاہِ عام بنی ہوئی ہے جہاں حضرت موسیٰ ؑ نے چلّہ کیاتھا۔ اس کے قریب مسلمانوں کی ایک مسجد اور عیسائیوں کا ایک گرِجا موجود ہے اور پہاڑ کے دامن میں رومی قیصر جسٹنین کے زمانہ کی ایک خانقاہ آج تک موجود ہے۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو النمل، حواشی ۹۔١۰) |
Surah 28 : Ayat 77
وَٱبْتَغِ فِيمَآ ءَاتَـٰكَ ٱللَّهُ ٱلدَّارَ ٱلْأَخِرَةَۖ وَلَا تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ ٱلدُّنْيَاۖ وَأَحْسِن كَمَآ أَحْسَنَ ٱللَّهُ إِلَيْكَۖ وَلَا تَبْغِ ٱلْفَسَادَ فِى ٱلْأَرْضِۖ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يُحِبُّ ٱلْمُفْسِدِينَ
جو مال اللہ نے تجھے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر بنانے کی فکر کر اور دُنیا میں سے بھی اپنا حصہ فراموش نہ کر احسان کر جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے اور زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش نہ کر، اللہ مفسدوں کو پسند نہیں کرتا"