Ayats Found (5)
Surah 6 : Ayat 21
وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ ٱفْتَرَىٰ عَلَى ٱللَّهِ كَذِبًا أَوْ كَذَّبَ بِـَٔـايَـٰتِهِۦٓۗ إِنَّهُۥ لَا يُفْلِحُ ٱلظَّـٰلِمُونَ
اور اُس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹا بہتان لگائے1، یا اللہ کی نشانیوں کو جھٹلائے2؟ یقیناً ایسے ظالم کبھی فلاح نہیں پا سکتے
2 | اللہ کی نشانیوں سے مراد ہو نشانیاں بھی ہیں جو انسان کے اپنے نفس اور ساری کائنات میں پھیلی ہوئی ہیں، اور وہ بھی جو پیغمبروں کی سیرت اور ان کے کارناموں میں ظاہر ہوئیں ، اور وہ بھی جو کتبِ آسمانی میں پیش کی گئیں۔ یہ ساری نشانیاں ایک ہی حقیقت کی طرف رہنمائی کرتی ہیں، یعنی یہ کہ موجوداتِ عالم میں خدا صرف ایک ہے باقی سب بندے ہیں۔ اب جو شخص ان تمام نشانیوں کے مقابلہ میں کسی حقیقی شہادت کے بغیر، کسی علم، کسی مشاہدے اور کسی تجربے کے بغیر، مجرّد قیاس و گمان یا تقلید ِ آبائی کی بنا پر ، دُوسروں کو اُلُوہیّت کی صفات سے متصف اور خداوندی حقوق کا مستحق ٹھیراتا ہے ، ظاہر ہے کہ اس سے بڑھ کر ظالم کوئی نہیں ہو سکتا۔ وہ حقیقت و صداقت پر ظلم کر رہا ہے، اپنے نفس پر ظلم کررہا ہے اور کائنات کی ہر اس چیز پر ظلم کر رہا ہے جس کے ساتھ وہ اس غلط نظریہ کی بنا پر کوئی معاملہ کرتا ہے |
1 | یعنی یہ دعویٰ کرے کہ خد اکے ساتھ دُوسری بہت سی ہستیاں بھی خدائی میں شریک ہیں، خدائی صفات سے متصف ہیں، خداوندانہ اختیارات رکھتی ہیں، اور اس کی مستحق ہیں کہ انسان ان کے آگے عبدیّت کا رویّہ اختیار کرے۔ نیز یہ بھی اللہ پر بہتان ہے کہ کوئی یہ کہے کہ خدا نے فلاں فلاں ہستیوں کو اپنا مقَرَّبِ خاص قرار دیا ہے اور اُسی نے یہ حکم دیا ہے ، یا کم از کم یہ کہ وہ اِس پر راضی ہے کہ ان کی طرف خدائی صفات منسُوب کی جائیں اور ان سے وہ معاملہ کیا جائے جو بندے کو اپنے خدا کے ساتھ کرنا چاہیے |
Surah 6 : Ayat 135
قُلْ يَـٰقَوْمِ ٱعْمَلُواْ عَلَىٰ مَكَانَتِكُمْ إِنِّى عَامِلٌۖ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ مَن تَكُونُ لَهُۥ عَـٰقِبَةُ ٱلدَّارِۗ إِنَّهُۥ لَا يُفْلِحُ ٱلظَّـٰلِمُونَ
اے محمدؐ! کہہ دو کہ لوگو! تم اپنی جگہ عمل کرتے رہو اور میں بھی اپنی جگہ عمل کر رہا ہوں1، عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ انجام کار کس کے حق میں بہتر ہوتا ہے، بہر حال یہ حقیقت ہے کہ ظالم کبھی فلاح نہیں پا سکتے
1 | یعنی اگر میرے سمجھانے سے تم نہیں سمجھے اور اپنی غلط روی سے باز نہیں آتے تو جس راہ پر تم چل رہے ہو چلے جاؤ، اور مجھے اپنی راہ چلنے کے لیے چھوڑ دو، انجام کار جو کچھ ہوگا وہ تمہارے سامنے بھی آجائے گا اور میرے سامنے بھی |
Surah 12 : Ayat 23
وَرَٲوَدَتْهُ ٱلَّتِى هُوَ فِى بَيْتِهَا عَن نَّفْسِهِۦ وَغَلَّقَتِ ٱلْأَبْوَٲبَ وَقَالَتْ هَيْتَ لَكَۚ قَالَ مَعَاذَ ٱللَّهِۖ إِنَّهُۥ رَبِّىٓ أَحْسَنَ مَثْوَاىَۖ إِنَّهُۥ لَا يُفْلِحُ ٱلظَّـٰلِمُونَ
جس عورت کے گھر میں وہ تھا وہ اُس پر ڈورے ڈالنے لگی اور ایک روز دروازے بند کر کے بولی 1"آ جا" یوسفؑ نے کہا "خدا کی پناہ، میرے رب نے تو مجھے اچھی منزلت بخشی (اور میں یہ کام کروں!) ایسے ظالم کبھی فلاح نہیں پایا کرتے"
1 | عام طور پر مفسرین اور مترجمین نے یہ سمجھا ہے کہ یہاں ”میرے رب“کا لفظ حضرت یوسف ؑ نے اُس شخص کے لیے استعمال کیا ہے جس کی ملازمت میں وہ اُس وقت تھے اور ان کے اس جواب کا مطلب یہ تھا کہ میرے آقا نے تو مجھے ایسی اچھی طرح رکھا ہے، پھر میں یہ نمک حرامی کیسے کرسکتا ہوں کہ اس کی بیوی سے زنا کروں۔ لیکن مجھے اس ترجمہ و تفسیر سے سخت اختلاف ہے۔ اگرچہ عربی زبان کے اعتبار سے یہ مفہوم لینے کی بھی گنجائش ہے، کیونکہ عربی میں لفظ رب ”آقا“کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، لیکن یہ بات ایک نبی کی شان سے بہت گری ہوئی ہے کہ وہ ایک گناہ سے باز رہنے میں اللہ تعالیٰ کے بجائے کسی بندے کا لحاظ کرے۔ اور قرآن میں اس کی کوئی نظیر بھی موجود نہیں ہے کہ کسی نبی نے خدا کے سوا کسی اور کو اپنا رب کہا۔ آگے چل کر آیات ۴١، ۴۲، ۵۰ میں ہم دیکھتے ہیں کہ سیّدنا یوسف ؑ اپنے اور مصریوں کے مسلک کا یہ فرق بار بار واضح فرماتے ہیں کہ اُ ن کا رب تو اللہ ہے اور مصریوں نے بندوں کو اپنا رب بنارکھا ہے۔ پھر جب آیت کے الفاظ میں یہ مطلب لینے کی بھی گنجائش موجود ہے کہ حضرت یوسف ؑ نےرَبّی کہہ کر اللہ کی ذات مراد لی ہو، تو کیا وجہ ہے کہ ہم ایک ایسے معنی کو اختیار کریں جس میں صریحاً قباحت کا پہلو نکلتا ہے |
Surah 28 : Ayat 37
وَقَالَ مُوسَىٰ رَبِّىٓ أَعْلَمُ بِمَن جَآءَ بِٱلْهُدَىٰ مِنْ عِندِهِۦ وَمَن تَكُونُ لَهُۥ عَـٰقِبَةُ ٱلدَّارِۖ إِنَّهُۥ لَا يُفْلِحُ ٱلظَّـٰلِمُونَ
موسیٰؑ نے جواب دیا "میرا رب اُس شخص کے حال سے خوب واقف ہے جو اس کی طرف سے ہدایت لے کر آیا ہے اور وہی بہتر جانتا ہے کہ آخری انجام کس کا اچھا ہونا ہے، حق یہ ہے کہ ظالم کبھی فلاح نہیں پاتے1"
1 | یعنی تومجھے ساحر اورافترا پرواز قرار دیتا ہے، لیکن میرا رب میرےحال سےخوب واقف ہے۔ وہ جانتا ہے کہ جوشخص اس کی طرف سے رسول مقررکیاگیا ہے وہ کیسا آدمی ہے۔ اورآخری انجام کا فیصلہ اسی کے ہاتھ میں ہے۔ میں جھوٹا ہوں تومیراانجام براہوگا اورتوجھوٹا ہے توپھرخوب جان لے کہ تیراانجام اچھانہیں ہے۔ بہرحال یہ حقیقت اپنی جگہ اٹل ہے کہ ظالم کے لیے فلاح نہیں ہے۔ جوشخص خدا کارسول نہ ہواورجھوٹ موٹ کارسول بن کراپنا کوئی مفاد حاصل کرنا چاہے وہ بھی ظالم ہے اورفلاح سے محروم رہے گا، اورجوطرح طرح کے جھوٹے الزامات لگا کرسچے رسول کوجھٹلائے اورمکاریوں سے صداقت کودبانا چاہے وہ بھی ظالم ہے اوراسےکبھی فلاح نصیب نہ ہوگی |
Surah 20 : Ayat 111
۞ وَعَنَتِ ٱلْوُجُوهُ لِلْحَىِّ ٱلْقَيُّومِۖ وَقَدْ خَابَ مَنْ حَمَلَ ظُلْمًا
لوگوں کے سر اُس حیّ و قیّوم کے آگے جھک جائیں گے نامراد ہوگا جو اُس وقت کسی ظلم کا بار گناہ اٹھائے ہوئے ہو