Ayats Found (7)
Surah 2 : Ayat 270
وَمَآ أَنفَقْتُم مِّن نَّفَقَةٍ أَوْ نَذَرْتُم مِّن نَّذْرٍ فَإِنَّ ٱللَّهَ يَعْلَمُهُۥۗ وَمَا لِلظَّـٰلِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ
تم نے جو کچھ بھی خرچ کیا ہو اور جو نذر بھی مانی ہو، اللہ کو اُس کا علم ہے، اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں1
1 | خرچ خواہ راہِ خدا میں کیا ہو یا راہِ شیطان میں ، اور نذر خواہ اللہ کے لیے مانی ہو یا غیر اللہ کے لیے، دونوں صُورتوں میں آدمی کی نیّت اور س کے فعل سے اللہ خوب واقف ہے۔ جنہوں نے اُس کے لیے خرچ کیا ہوگا اور اس کی خاطر نذر مانی ہوگی، وہ اس کا اجر پائیں گے اور جن ظالموں نے شیطانی راہوں میں خرچ کیا ہو گا اور اللہ کو چھوڑ کر دُوسروں کے لیے نذر مانی ہوں گی اُن کو خدا کی سزا سے بچانے کے لیے کوئی مددگار نہ ملے گا۔ نذر یہ ہے کہ آدمی اپنی کسی مُراد کے بر آنے پر کسی ایسے خرچ یا کسی ایسی خدمت کو اپنے اُوپر لازم کر لے ، جو اس کے ذمّے فرض نہ ہو۔ اگر یہ مراد کسی حلال و جائز امر کی ہو، اور اللہ سے مانگی گئی ہو، اور اس کے بر آنے پر جو عمل کرنے کا عہد آدمی نے کیا ہے، وہ اللہ ہی کے لیے ہو، تو ایسی نذر اللہ کی اطاعت میں ہے اور اس کا پورا کرنا اجر و ثواب کا موجب ہے۔ اگر یہ صُورت نہ ہو ، تو ایسی نذر کا ماننا معصیت اور اس کا پُورا کرنا مُوجبِ عذاب ہے |
Surah 3 : Ayat 192
رَبَّنَآ إِنَّكَ مَن تُدْخِلِ ٱلنَّارَ فَقَدْ أَخْزَيْتَهُۥۖ وَمَا لِلظَّـٰلِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ
تو نے جسے دوزخ میں ڈالا اسے در حقیقت بڑی ذلت و رسوائی میں ڈال دیا، اور پھر ایسے ظالموں کا کوئی مدد گار نہ ہوگا
Surah 5 : Ayat 72
لَقَدْ كَفَرَ ٱلَّذِينَ قَالُوٓاْ إِنَّ ٱللَّهَ هُوَ ٱلْمَسِيحُ ٱبْنُ مَرْيَمَۖ وَقَالَ ٱلْمَسِيحُ يَـٰبَنِىٓ إِسْرَٲٓءِيلَ ٱعْبُدُواْ ٱللَّهَ رَبِّى وَرَبَّكُمْۖ إِنَّهُۥ مَن يُشْرِكْ بِٱللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ ٱللَّهُ عَلَيْهِ ٱلْجَنَّةَ وَمَأْوَٮٰهُ ٱلنَّارُۖ وَمَا لِلظَّـٰلِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ
یقیناً کفر کیا اُن لوگوں نے جنہوں نے کہا کہ اللہ مسیح ابن مریم ہی ہے حالانکہ مسیح نے کہا تھا کہ "اے بنی اسرائیل! اللہ کی بندگی کرو جو میرا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی" جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھیرایا اُس پر اللہ نے جنت حرام کر دی اور اُس کا ٹھکانا جہنم ہے اور ایسے ظالموں کا کوئی مدد گار نہیں
Surah 22 : Ayat 71
وَيَعْبُدُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِۦ سُلْطَـٰنًا وَمَا لَيْسَ لَهُم بِهِۦ عِلْمٌۗ وَمَا لِلظَّـٰلِمِينَ مِن نَّصِيرٍ
یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر ان کی عبادت کر رہے ہیں جن کے لیے نہ تو اس نے کوئی سند نازل کی ہے اور نہ یہ خود اُن کے بارے میں کوئی علم رکھتے ہیں1 اِن ظالموں کے لیے کوئی مددگار نہیں ہے2
2 | یعنی یہ احمق لوگ سمجھ رہے ہیں کہ یہ معبود دنیا اور آخرت میں ان کے مدد گار ہیں ، حالانکہ حقیقت میں ان کا کوئی بھی مدد گارنہیں ہے۔ نہ یہ معبود، کیونکہ ان کے پاس مدد کی کوئی طاقت نہیں ، اور نہ اللہ، کیونکہ اس سے یہ بگاوت اختیار کر چکے ہیں۔ لہٰذا اپنی اس حماقت سے یہ آپ اپنے ہی اوپر ظلم کر رہے ہیں |
1 | یعنی نہ تو خدا کی کسی کتاب میں یہ کہا گیا ہے کہ ہم نے فلاں فلاں کو اپنے ساتھ خدائی شریک کیا ہے لہٰذا ہمارے ساتھ تم ان کی بھی عبادت کیا کرو، اور نہ ان کو کسی علمی ذریعہ سے یہ معلوم ہوا ہے کہ یہ لوگ واقعی الوہیت میں حصہ دار ہیں اور اس بنا پر ان کو عبادت کا حق پہنچتا ہے۔ اب یہ جو طرح طرح کے معبود گھڑے گۓ ہیں ، اور ان کی صفات اور اختیارات کے متعلق قسم قسم کے عقائد تصنیف کر لیے گۓ ہیں ، اور ان کے آستانوں پر جبہ سائیاں ہو رہی ہیں ، دعائیں مانگی جا رہی ہیں ، چڑھاوے چڑھ رہے ہیں ، نیازیں دی جا رہی ہیں ، طواف کیے جا رہے اور اعتکاف ہو رہے ہیں ، یہ سب جاہلانہ گمان کی پیروی کے سوا آخرا ور کیا ہے |
Surah 35 : Ayat 37
وَهُمْ يَصْطَرِخُونَ فِيهَا رَبَّنَآ أَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَـٰلِحًا غَيْرَ ٱلَّذِى كُنَّا نَعْمَلُۚ أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم مَّا يَتَذَكَّرُ فِيهِ مَن تَذَكَّرَ وَجَآءَكُمُ ٱلنَّذِيرُۖ فَذُوقُواْ فَمَا لِلظَّـٰلِمِينَ مِن نَّصِيرٍ
وہ وہاں چیخ چیخ کر کہیں گے کہ 1"اے ہمارے رب، ہمیں یہاں سے نکال لے تاکہ ہم نیک عمل کریں اُن اعمال سے مختلف جو پہلے کرتے رہے تھے" (انہیں جواب دیا جائے گا) "کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہ دی تھی جس میں کوئی سبق لینا چاہتا تو سبق لے سکتاتھا؟ اور تمہارے پاس متنبہ کرنے والا بھی آ چکا تھا اب مزا چکھو ظالموں کا یہاں کوئی مددگار نہیں ہے"
1 | اس سے مراد ہر وہ عمر ہے جس میں آدمی اس قابل ہو سکتا ہو کہ اگر وہ نیک و بد اور حق و باطل میں امتیاز کرنا چاہے تو کر سکے اور گمراہی چھوڑ کر ہدایت کی طرف رجوع کرنا چاہے تو کر سکے۔ اس عمر کو پہنچنے سے پہلے اگر کوئی شخص مر چکا ہو تو اس آیت کی رُو سے اس پر کوئی مواخذہ نہ ہوگا۔ البتہ جو اس عمر کو پہنچ چکا ہو وہ اپنے عمل کے لیے لازماً جواب دہ قرار پائے گا، اور پھر اس عمر کے شروع ہو جانے کے بعد جتنی مدت بھی وہ زندہ رہے اور سنبھل کر راہ راست پر آنے کے لیے جتنے مواقع بھی اسے ملتے چلے جائیں اتنی ہی اس کی ذمہ داری شدید تر ہوتی چلے جائی گی، یہاں تک کہ جو شخص بڑھاپے کو پہنچ کر بھی سیدھا نہ ہو اس کے لیے کسی عذر کی گنجائش باقی نہ رہے گی۔ یہی بات ہے جو ایک حدیث میں حضرت ابو ہریرہ اور حضرت سہل بن سَعد ساعِدی نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل فرمائی ہے کہ جو شخص کم عمر پائے اس کے لیے تو عذر کا موقع ہے، مگر 60 سال اور اس سے اوپر عمر پانے والے کے لیے کوئی عذر نہیں ہے (بخاری، احمد، نَسائی، ابن جریر اور ابن ابی حاتم وغیرہ)۔ |
Surah 30 : Ayat 29
بَلِ ٱتَّبَعَ ٱلَّذِينَ ظَلَمُوٓاْ أَهْوَآءَهُم بِغَيْرِ عِلْمٍۖ فَمَن يَهْدِى مَنْ أَضَلَّ ٱللَّهُۖ وَمَا لَهُم مِّن نَّـٰصِرِينَ
مگر یہ ظالم بے سمجھے بوجھے اپنے تخیلات کے پیچھے چل پڑے ہیں اب کون اُس شخص کو راستہ دکھا سکتا ہے جسے اللہ نے بھٹکا دیا ہو1 ایسے لوگوں کا تو کوئی مدد گار نہیں ہو سکتا
1 | یعنی جب کوئی شخص سیدھی سیدھی عقل کی بات نہ خود سوچے اورنہ کسی کے سمجھانے سےسمجھنے کےلیےتیارہو توپھراس کی عقل پراللہ کی پھٹکار پڑجاتی ہے اوراس کے بعدہروہ چیزجوکسی معقول آدمی کو حق بات تک پہنچنے میں مدد دےسکتی ہے،وہ اس ضدی جہالت پسند انسان کوالٹی مزید گمراہی میں مبتلاکرتی چلی جاتی ہے۔یہی کیفیت ہےجسے’’بھٹکانے‘‘کے لفظ سے تعبیرکیاگیاہے۔ راستی پسند انسان جب اللہ سے ہدایت کی توفیق طلب کرتا ہےتو اللہ اس کی طلبِ صادق کےمطابق اس کےلیے زیادہ سے زیادہ اسبابِ ہدایت پیدافرمادیتاہے۔اورگمراہی پسندانسان جب گمراہ ہی ہونے پراصرارکرتا ہےتوپھراللہ اس کےلیے وہی اسباب پیداکرتاچلا جاتا ہےجواسے بھٹکاکرروز بروزحق سےدورلیے چلےجاتےہیں۔ |
Surah 42 : Ayat 8
وَلَوْ شَآءَ ٱللَّهُ لَجَعَلَهُمْ أُمَّةً وَٲحِدَةً وَلَـٰكِن يُدْخِلُ مَن يَشَآءُ فِى رَحْمَتِهِۦۚ وَٱلظَّـٰلِمُونَ مَا لَهُم مِّن وَلِىٍّ وَلَا نَصِيرٍ
اگر اللہ چاہتا تو اِن سب کو ایک ہی امت بنا دیتا، مگر وہ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل کرتا ہے، اور ظالموں کا نہ کوئی ولی ہے نہ مدد گار1
1 | یہ مضمون اس سلسلہ کلام میں تین مقاصد کے لیے آیا ہے : اولاً ، اس سے مقصود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو تعلیم اور تسلی دینا ہے۔ اس میں حضورؐ کو یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ آپ کفار مکہ کی جہالت و ضلالت اور اوپر سے ان کی ضد اور ہٹ دھرمی کو دیکھ دیکھ کر اس قدر زیادہ نہ کُڑھیں ، اللہ کی مرضی یہی ہے کہ انسانوں کو اختیار و انتخاب کی آزادی عطا کی جاۓ ، پھر جو ہدایت چاہے اسے ہدایت ملے اور جو گمراہ ہی ہونا پسند کرے اسے جانے دیا جاۓ جدھر وہ جانا چاہتا ہے۔ اگر یہ اللہ کی مصلحت نہ ہوتی تو انبیاء اور کتابیں بھیجنے کی حاجت ہی کیا تھی، اس کے لیے تو اللہ جل شانہ کا ایک تخلیقی اشارہ کافی تھا، سارے انسان اسی طرح مطیع فرمان ہوتے جس طرح دریا، پہاڑ ، درخت ، مٹی، پتھر اور سب حیوانات ہیں (اس مقصد کے لیے یہ مضمون دوسرے مقامات پر بھی قرآن مجید میں بیان ہوا ہے۔ ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول ، ص 535 تا 537۔ 570 )۔ ثانیاً، اس کے مخاطب وہ تمام لوگ ہیں جو اس ذہنی الجھن میں گرفتار تھے اور اب بھی ہیں کہ اگر اللہ فی الواقع انسانوں کی رہنمائی کرنا چاہتا تھا، اور اگر عقیدہ و عمل کے یہ اختلافات، جو لوگوں میں پھیلے ہوۓ ہیں ، اسے پسند نہ تھے ، اور اگر اسے پسند یہی تھا کہ لوگ ایمان و اسلام کی راہ اختیار کریں ، تو اس کے لیے آخر وحی اور کتاب اور نبوت کی کیا ضرورت تھی؟ یہ کام تو وہ بآسانی اس طرح کر سکتا تھا کہ سب کو مومن و مسلم پیدا کر دیتا۔ اسی الجھن کا ایک شاخسانہ یہ استدلال بھی تھا کہ جب اللہ نے ایسا نہیں کیا ہے تو ضرور وہ مختلف طریقے جن پر ہم چل رہے ہیں ، اس کو پسند ہیں ، اور ہم جو کچھ کر رہے ہیں اسی کی مرضی سے کر رہے ہیں ، لہٰذا اس پر اعتراض کا کسی کو حق نہیں ہے (اس غلط فہمی کو رفع کرنے کے لیے بھی یہ مضمون قرآن میں متعدد مقامات پر بیان کیا گیا ہے۔ ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول ،ص 573۔574۔ 587۔594 تا 596۔ جلد دوم، ص 313۔373۔374۔528۔539۔540) ثانیاً ، اس کا مقصد اہل ایمان کو ان مشکلات کی حقیقت سمجھانا ہے جو تبلیغ دین اور اصلاح خلق کی راہ میں اکثر پیش آتی ہیں جو لوگ اللہ کی دی ہوئی آزادی انتخاب و ارادہ، اور اس کی بنا پر طبائع اور طریقوں کے اختلاف کی حقیقت کو نہیں سمجھتے ، وہ کبھی تو کار اصلاح کی سست رفتاری دیکھ کر مایوس ہونے لگتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کچھ کرامتیں اور معجزات رو نما ہوں تا کہ انہیں دیکھتے ہی لوگوں کے دل بدل جائیں ، اور کبھی وہ ضرورت سے زیادہ جوش سے کام لے کر اصلاح کے بے جا طریقے اختیار کرنے کی طرف مائل ہو جاتے ہیں (اس مقصد کے لیے بھی یہ مضمون بعض مقامات پر قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے۔ ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، ص 420۔421۔566 تا 569)۔ ان مقاصد کے لیے ایک بڑا اہم مضمون ان مختصر سے فقروں میں بیان فرمایا گیا ہے۔ دنیا میں اللہ کی حقیقی خلافت اور آخرت میں اسکی جنت کوئی معمولی رحمت نہیں ہے جو مٹی اور پتھر اور گدھوں اور گھوڑوں کے مرتبے کی مخلوق پر ایک رحمت عام کی طرح بانٹ دی جاۓ۔ یہ تو ایک خاص رحمت اور بہت اونچے درجے کی رحمت ہے جس کے لیے فرشتوں تک کو موزون نہ سمجھا گیا۔ اسی لیے انسان کو ایک ذی اختیار مخلوق کی حیثیت سے پیدا کر کے اللہ نے اپنی زمین کے یہ وسیع ذرائع اس کے تصرف میں دیے اور یہ ہنگامہ خیز طاقتیں اس کو بخشیں تاکہ یہ اس امتحان سے گزر سکے جس میں کامیاب ہو کر ہی کوئی بندہ اس کی یہ رحمت خاص پانے کے قابل ہو سکتا ہے۔ یہ رحمت کی اپنی چیز ہے۔ اس پر کسی کا اجارہ نہیں ہے۔ نہ کوئی اسے اپنے ذاتی استحقاق کی بنا پر دعوے سے لے سکتا ہے ، نہ کسی میں یہ طاقت ہے کہ اسے بزور حاصل کر سکے۔ اسے وہی لے سکتا ہے جو اللہ کے حضور بندگی پیش کرے ، اس کو اپنا ولی بناۓ اور اس کا دامن تھامے۔ تب اللہ اس کی مدد اور رہنمائی کرتا ہے ، اور اسے اس امتحان سے بخیریت گزرنے کی توفیق عطا فرماتا ہے تاکہ وہ اس کی رحمت میں داخل ہو سکے۔ لیکن جو ظالم اللہ ہی سے منہ موڑ لے اور اس کے بجاۓ دوسروں کو اپنا ولی بنا بیٹھے ، اللہ کو کچھ ضرورت نہیں پڑی ہے کہ خواہ مخواہ زبردستی اس کا ولی بنے ، اور دوسرے جن کو وہ ولی بناتا ہے ، سرے سے کوئی علم، کوئی طاقت اور کسی قسم کے اختیارات ہی نہیں رکھتے کہ اس کی ولایت کا حق ادا کر کے اسے کامیاب کرا دیں |