Ayats Found (4)
Surah 4 : Ayat 60
أَلَمْ تَرَ إِلَى ٱلَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ ءَامَنُواْ بِمَآ أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَآ أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَن يَتَحَاكَمُوٓاْ إِلَى ٱلطَّـٰغُوتِ وَقَدْ أُمِرُوٓاْ أَن يَكْفُرُواْ بِهِۦ وَيُرِيدُ ٱلشَّيْطَـٰنُ أَن يُضِلَّهُمْ ضَلَـٰلاَۢ بَعِيدًا
اے نبیؐ! تم نے دیکھا نہیں اُن لوگوں کو جو دعویٰ تو کرتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں اُس کتاب پر جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے اور ان کتابوں پر جو تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں، مگر چاہتے یہ ہیں کہ اپنے معاملات کا فیصلہ کرانے کے لیے طاغوت کی طرف رجوع کریں، حالانکہ انہیں طاغوت سے کفر کرنے کا حکم دیا گیا تھا1 شیطان انہیں بھٹکا کر راہ راست سے بہت دور لے جانا چاہتا ہے
1 | یہاں صریح طور پر ”طاغوت“ سے مراد وہ حاکم ہے جو قانونِ الہٰی کے سوا کسی دُوسرے قانون کے مطابق فیصلہ کرتا ہو، اور وہ نظامِ عدالت ہے جو نہ تو اللہ کے اقتدارِ اعلٰی کا مطیع ہو اور نہ اللہ کی کتاب کو آخرت سند مانتا ہو۔ لہٰذا یہ آیت اس معنٰی میں بالکل صاف ہے کہ جو عدالت”طاغوت“ کی حیثیت رکھتی ہو اس کے پاس اپنے معاملات فیصلہ کے لیے لے جانا ایمان کے منافی ہے اور خدا اور اس کی کتاب پر ایمان لانے کا لازمی اقتضا یہ ہے کہ آدمی ایسی عدالت کو جائز عدالت تسلیم کرنے سے انکار کر دے۔ قرآن کی رُو سے اللہ پر ایمان اور طاغوت سے کفر، دونوں لازم و ملزوم ہیں، اور خدا اور طاغوت دونوں کے آگے بیک وقت جُھکنا عین منافقت ہے |
Surah 4 : Ayat 65
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُواْ فِىٓ أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُواْ تَسْلِيمًا
نہیں، اے محمدؐ، تمہارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں، بلکہ سر بسر تسلیم کر لیں
Surah 5 : Ayat 43
وَكَيْفَ يُحَكِّمُونَكَ وَعِندَهُمُ ٱلتَّوْرَٮٰةُ فِيهَا حُكْمُ ٱللَّهِ ثُمَّ يَتَوَلَّوْنَ مِنۢ بَعْدِ ذَٲلِكَۚ وَمَآ أُوْلَـٰٓئِكَ بِٱلْمُؤْمِنِينَ
اور یہ تمہیں کیسے حَکم بناتے ہیں جبکہ ان کے پاس توراۃ موجود ہے جس میں اللہ کا حکم لکھا ہوا ہے اور پھر یہ اس سے منہ موڑ رہے ہیں1؟ اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ ایمان ہی نہیں رکھتے
1 | س آیت میں اللہ تعالیٰ نے اِن لوگوں کی بددیانتی کو بالکل بے نقاب کر دیا ہے۔ یہ”مذہبی لوگ“ جنہوں نے تمام عرب پر اپنی دینداری اور اپنے علم کتاب کا سِکّہ جما رکھا تھا ، ان کی حالت یہ تھی کہ جس کتاب کو خود کتاب اللہ مانتے تھے اور جس پر ایمان رکھنے کے مدّعی تھے اُس کے حکم کو چھور کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنا مقدمہ لائے تھے جن کے پیغمبر ہونے سے ان کو بشدّت انکار تھا۔ اس سے یہ راز بالکل فاش ہوگیا کہ یہ کسی چیز پر بھی صداقت کے ساتھ ایمان نہیں رکھتے، دراصل ان کا ایمان اپنے نفس اور اس کی خواہشات پر ہے، جسے کتاب اللہ مانتے ہیں اس سے صرف اس لیے مُنہ موڑتے ہیں کہ اس کا حکم ان کے نفس کو ناگوار ہے، اور جسے معاذاللہ جھُوٹا مدّعِی نبوّت کہتے ہیں اس کے پاس صرف اس امید پر جاتے ہیں کہ شاید وہاں سے کوئی ایسا فیصلہ حاصل ہو جائے جو ان کے منشاء کے مطابق ہو |
Surah 5 : Ayat 44
إِنَّآ أَنزَلْنَا ٱلتَّوْرَٮٰةَ فِيهَا هُدًى وَنُورٌۚ يَحْكُمُ بِهَا ٱلنَّبِيُّونَ ٱلَّذِينَ أَسْلَمُواْ لِلَّذِينَ هَادُواْ وَٱلرَّبَّـٰنِيُّونَ وَٱلْأَحْبَارُ بِمَا ٱسْتُحْفِظُواْ مِن كِتَـٰبِ ٱللَّهِ وَكَانُواْ عَلَيْهِ شُهَدَآءَۚ فَلَا تَخْشَوُاْ ٱلنَّاسَ وَٱخْشَوْنِ وَلَا تَشْتَرُواْ بِـَٔـايَـٰتِى ثَمَنًا قَلِيلاًۚ وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ فَأُوْلَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْكَـٰفِرُونَ
ہم نے توراۃ نازل کی جس میں ہدایت اور روشنی تھی سارے نبی، جو مسلم تھے، اُسی کے مطابق اِن یہودی بن جانے والوں کے معاملات1 کا فیصلہ کرتے تھے، اور اِسی طرح ربانی اور احبار بھی2 (اسی پر فیصلہ کا مدار رکھتے تھے) کیونکہ انہیں کتاب اللہ کی حفاظت کا ذمہ دار بنایا گیا تھا اور وہ اس پر گواہ تھے پس (اے گروہ یہود!) تم لوگوں سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو اور میری آیات کو ذرا ذرا سے معاوضے لے کر بیچنا چھوڑ دو جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں
2 | ربّانی = علماء – احبار = فقہاء |
1 | یہاں ضمناً اس حقیقت پر بھی متنبّہ کر دیا گیا کہ انبیاء سب کے سب ”مسلم“ تھے، بخلاف اس کے یہ یہودی ”اسلام “ سے ہٹ کر اور فرقہ بندی میں مبتلا ہو کر صرف”یہودی“ بن کر رہ گئے تھے |