Ayats Found (3)
Surah 3 : Ayat 57
وَأَمَّا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ فَيُوَفِّيهِمْ أُجُورَهُمْۗ وَٱللَّهُ لَا يُحِبُّ ٱلظَّـٰلِمِينَ
اور جنہوں نے ایمان اور نیک عملی کا رویہ اختیار کیا ہے انہیں اُن کے اجر پورے پورے دے دیے جائیں گے اور خوب جان لے کہ ظالموں سے اللہ ہرگز محبت نہیں کرتا"
Surah 3 : Ayat 140
إِن يَمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ ٱلْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُهُۥۚ وَتِلْكَ ٱلْأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ ٱلنَّاسِ وَلِيَعْلَمَ ٱللَّهُ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَيَتَّخِذَ مِنكُمْ شُهَدَآءَۗ وَٱللَّهُ لَا يُحِبُّ ٱلظَّـٰلِمِينَ
ا ِس وقت اگر تمھیں چوٹ لگی ہے تو اس سے پہلے ایسی ہی چوٹ تمہارے مخالف فریق کو بھی لگ چکی ہے1 یہ تو زمانہ کے نشیب و فراز ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں تم پر یہ وقت ا س لیے لایا گیا کہ اللہ دیکھنا چاہتا تھا کہ تم میں سچے مومن کون ہیں، اور ان لوگوں کو چھانٹ لینا چاہتا تھا جو واقعی (راستی کے) گواہ ہوں2 کیونکہ ظالم لوگ اللہ کو پسند نہیں ہیں
2 | اصل الفاظ ہیں وَیَتَّخِذَ مِنْکُم ْشُھَدَآءَ ۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ تم میں سے کچھ شہید لینا چاہتا تھا، یعنی کچھ لوگوں کو شہادت کی عزّت بخشنا چاہتا تھا۔ اور دُوسرا مطلب یہ ہے کہ اہلِ ایمان اور منافقین کے اُس مخلوط گروہ میں سے جس پر تم اِس وقت مشتمل ہو، اُن لوگوں کو الگ چھانٹ لینا چاہتا تھا جو حقیقت میں شُھَدَآ ء عَلَی النَّاس ہیں، یعنی اُس منصب ِ جلیل کے اہل ہیں جس پر ہم نے اُمّتِ مسلمہ کو سرفراز کیا ہے |
1 | اشارہ ہے جنگِ بدر کی طرف۔ اور کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جب اُس چوٹ کو کھا کر کافر پست ہمّت نہ ہوئے تو اس چوٹ پر تم کیوں ہمّت ہارو |
Surah 42 : Ayat 40
وَجَزَٲٓؤُاْ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَاۖ فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُۥ عَلَى ٱللَّهِۚ إِنَّهُۥ لَا يُحِبُّ ٱلظَّـٰلِمِينَ
برائی کا بدلہ1 ویسی ہی برائی ہے2، پھر جو کوئی معاف کر دے اور اصلاح کرے اُس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے3، اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا4
4 | اس تنبیہ میں بدلہ لینے کے متعلق ایک تیسرے قاعدے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ، اور وہ یہ ہے کہ کسی شخص کو دوسرے کے ظلم کا انتقام لیتے لیتے خود ظالم نہیں بن جانا چاہیے۔ ایک برائی کے بدلے میں اس سے بڑھ کر برائی کر گزرنا جائز نہیں ہے۔ مثلاً اگر کوئی شخص کسی کو ایک تھپڑ مارے تو وہ اسے ایک تھپڑ مار سکتا ہے۔ لات گھونسوں کی اس پر بارش نہیں کر سکتا۔ اسی طرح گناہ کا بدلہ گناہ کی صورت میں لینا درست نہیں ہے۔ مثلاً کسی شخص کے بیٹے کو اگر کسی ظالم نے قتل کیا ہے تو اس کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ جا کر اس کے بیٹے کو قتل کر دے۔ یا کسی شخص کی بہن یا بیٹی کو اگر کسی کمینہ انسان نے خراب کیا ہے تو اس کے لیے حلال نہیں ہو جاۓ گا کہ وہ اس کی بیٹی یا بہن سے زنا کرے |
3 | یہ دوسرا قاعدہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زیادتی کرنے والے سے بدلہ لے لینا اگر چہ جائز ہے ، لیکن جہاں معاف کر دینا اصلاح کا موجب ہو سکتا ہو وہاں اصلاح کی خاطر بدلہ لینے کے بجاۓ معاف کر دینا زیادہ بہتر ہے۔ اور چونکہ یہ معافی انسان اپنے نرس پر جبر کر کے دیتا ہے ، اس لیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کا اجر ہمارے ذمہ ہے ، کیونکہ تم نے بگڑے ہوۓ لوگوں کی اصلاح کی خاطر یہ کڑوا گھونٹ پیا ہے |
2 | یہ پہلا اصولی قاعدہ ہے جسے بدلہ لینے میں ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ بدلے کی جائز حد یہ ہے کہ جتنی برائی کسی کے ساتھ کی گئی ہو، اتنی ہی برائی وہ اس کے ساتھ کر لے ، اس سے زیادہ برائی کرنے کا وہ حق نہیں رکھتا |
1 | یہاں سے آخر پیراگراف تک کی پوری عبارت آیت ما سبق کی تشریح کے طور پر ہے |