Ayats Found (3)
Surah 15 : Ayat 16
وَلَقَدْ جَعَلْنَا فِى ٱلسَّمَآءِ بُرُوجًا وَزَيَّنَّـٰهَا لِلنَّـٰظِرِينَ
یہ ہماری کار فرمائی ہے کہ آسمان میں ہم نے بہت سے مضبوط قلعے بنائے1، اُن کو دیکھنے والوں کے لیے مزین کیا2
2 | یعنی ہر خطّے میں کوئی نہ کوئی روشن سیّارہ یا تارا رکھ دیا اور اس طرح ساراعالم جگمگا اُٹھا۔ بالفاظ دیگر ہم نے اِس ناپیدا کنار کائنات کو ایک بھیانک ڈھنڈا ر بنا کر نہیں رکھ دیا بکہ ایسی حسین و جمیل دنیا بنائی جس میں ہر طرف نگاہوں کو جذب کر لینے والے جلوے پھیلے ہوئے ہیں۔ اس کاریگری میں صرف ایک صانع اکبر کی صنعت اور ایک حکیم ِ اجل کی حکمت ہی نظر نہیں آتی ہے، بلکہ ایک کمال د ر جے کا پاکیزہ ذوق رکھنے والے آرٹسٹ کا آرٹ بھی نمایاں ہے۔ یہی مضمون ایکل دوسرے مقام پر یوں بیان کیا گیا ہے ، اَلَّذِیْ ٓ اَحْسَنَ کُلَّ شِیْ ءٍ خَلَقَہٗ ”وہ خدا کہ جس نے ہر چیز جو بنائی خو ب ہی بنائی“ |
1 | بُرج عربی زبان میں قلعے، قصر اور مستحکم عمارت کو کہتے ہیں۔ قدیم علم ہیئت میں ”برج“ کا لفظ اصطلاحًا اُن بارہ منزلوں کے لیے استعمال ہوتا تھا جن پر سورج کے مدار کو تقسیم کیا گیا تھا۔ اِس وجہ سے بعض مفسرین نے یہ سمجھا کہ قرآن کا اشارہ انہی بروج کیطرف ہے ۔ بعض دوسرے مفسرین نے اس سے مراد سیّارے لیے ہیں۔ لیکن بعد کے مضمون پر غور کرنے سے خیال ہوتا ہے کہ شاید اس سے مراد عالمِ بالا کے وہ خِطّے ہیں جن میں سے ہر خِطّے کو نہایت مستحکم سرحدوں نے دوسرے خِطّے سے جدا کر رکھا ہے۔ اگرچہ یہ سرحدیں فضائے بسیط میں غیر مرئی طور پر کھچی ہوئی ہیں ، لیکن ان کو پار کر کے کسی چیز کا ایک خِطّے سے دوسرے خِطّے میں چلا جانا سخت مشکل ہے۔ اس مفہوم کے لحاظ سے ہم بروج کو محفوظ خِطّوں (Fortified Spheres ) کی معنی میں لینا زیادہ صحیح سمجھتے ہیں |
Surah 25 : Ayat 16
لَّهُمْ فِيهَا مَا يَشَآءُونَ خَـٰلِدِينَۚ كَانَ عَلَىٰ رَبِّكَ وَعْدًا مَّسْــُٔولاً
جس میں اُن کی ہر خواہش پوری ہو گی، جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے، جس کا عطا کرنا تمہارے پروردگار کے ذمے ایک واجب الادا وعدہ ہے1
1 | اصل الفاظ ہیں ’’ وعد امسئولا‘‘، یعنی ایسا وعدہ جس کے پورا کرنے کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے ۔ یہاں ایک شخص یہ سوال اٹھا سکتا ہے کہ جنت کا یہ وعدہ اور دوزخ کا یہ ڈر ادا کسی ایسے شخص پر کیا اثر انداز ہو سکتا ہے ۔ جو قیامت اور حشر و نشر اور جنت و دوزخ کا پہلے ہی منکر ہو ؟ اس لحاظ سے تو یہ بظاہر ایک نے محل کلام محسوس ہوتا ہے ، لیکن تھوڑا سا غور کیا جائے تو بات بآسانی سمجھ میں آسکتی ہے ۔ اگر معاملہ یہ ہو کہ میں ایک بات منوانا چاہتا ہوں اور دوسرا نہیں ماننا چاہتا تو بحث و حجت کا انداز کچھ اور ہوتا ہے ۔ لیکن اگر میں اپنے مخاطب سے اس انداز میں گفتگو کر رہا ہوں کہ زیر بحث مسئلہ میری بات ماننے یا نہ ماننے کا نہیں بلکہ تمہارا اپنے مفاد کا ہے ، تو مخاطب چاہے کیسا ہی ہٹ دھرم ہو، ایک دفعہ سوچنے پر مجبورہوجاتا ہےیہاں کلام کا طرز یہی دوسرا ہے اس صورت میں مخاطب کو خود اپنی بھلائی کے نقطہ نظر سے یہ سوچنا پڑتا ہے کہ دوسری زندگی کے ہونے کا چاہے ثبوت موجود نہ ہو، مگر بہرحال اس کے نہ ہونے کا بھی کوئی ثبوت نہیں ہے ،اور امکان دونوں ہی کا ہے ۔ اب اگر دوسری زندگی نہیں ہے ، جیسا کہ ہم سمجھ رہے ہیں ، تو ہمیں بھی مر کر مٹی ہو جانا ہے اور آخرت کے قائل کو بھی ۔ اس صورت میں دونوں برابر رہیں گے ۔ لیکن اگر کہیں بات وہی حق نکلی جو یہ شخص کہہ رہا ہے تو یقیناً پھر ہماری خیر نہیں ہے ۔ اس طرح یہ طرز کلام مخاطب کی ہٹ دھرمی میں ایک شگاف ڈال دیتا ہے ، اور شگاف میں مزید وسعت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب قیامت ، حشر ، حساب اور جنت و دوزخ کا ایسا تفصیلی نقشہ پیش کیا جانے لگتا ہے کہ جیسے کوئی وہاں کا آنکھوں دیکھا حال بیان کر رہا ہو۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد چہارم، حٰم السجدہ، آیت 52 حاشیہ 69 ۔ الاحقاف، آیت 10) |
Surah 85 : Ayat 1
وَٱلسَّمَآءِ ذَاتِ ٱلْبُرُوجِ
قسم ہے مضبوط قلعوں والے آسمان کی1
1 | اصل الفاظ ہیں ذات البروج۔ یعنی برجوں والے آسمان کی۔ مفسرین میں سے بعض نے اس سے مراد قدیم علم ہیبت کے مطابق آسمان کے 12 برج لیے ہیں۔ اور ابن عباس، مجاہد ، قتادہ، حسن بصری، ضحاک اور سدی کے نزدیک اس سے مراد آسمان کے عظیم الشان تارے ا ور سیارے ہیں |