Ayats Found (10)
Surah 2 : Ayat 258
أَلَمْ تَرَ إِلَى ٱلَّذِى حَآجَّ إِبْرَٲهِــۧمَ فِى رَبِّهِۦٓ أَنْ ءَاتَـٰهُ ٱللَّهُ ٱلْمُلْكَ إِذْ قَالَ إِبْرَٲهِــۧمُ رَبِّىَ ٱلَّذِى يُحْىِۦ وَيُمِيتُ قَالَ أَنَا۟ أُحْىِۦ وَأُمِيتُۖ قَالَ إِبْرَٲهِــۧمُ فَإِنَّ ٱللَّهَ يَأْتِى بِٱلشَّمْسِ مِنَ ٱلْمَشْرِقِ فَأْتِ بِهَا مِنَ ٱلْمَغْرِبِ فَبُهِتَ ٱلَّذِى كَفَرَۗ وَٱللَّهُ لَا يَهْدِى ٱلْقَوْمَ ٱلظَّـٰلِمِينَ
کیا تم نے اُس شخص کے حال پر غور نہیں کیا، جس نے ابراہیمؑ سے جھگڑا کیا تھا1؟ جھگڑا اِس بات پر کہ ابراہیمؑ کا رب کون ہے، اور اس بنا پر کہ اس شخص کو اللہ نے حکومت دے رکھی تھی2 جب ابراہیمؑ نے کہا کہ 3"میرا رب وہ ہے، جس کے اختیار میں زندگی اور موت ہے، تو اُس نے جواب دیا: "زندگی اور موت میرے اختیار میں ہے"ابراہیمؑ نے کہا: "اچھا، اللہ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے، تو ذرا اُسے مغرب سے نکال لا" یہ سن کر وہ منکر حق ششدر رہ گیا، مگر اللہ ظالموں کو راہ راست نہیں دکھایا کرتا
3 | اگرچہ حضرت ابراہیم ؑ کے پہلے فقرے ہی سے یہ بات واضح ہو چکی تھی کہ ربّ اللہ کےسوا کوئی دُوسرا نہیں ہوسکتا، تاہم نمرُود اس کا جواب ڈھٹائی سے دے گیا۔ لیکن دُوسرے فقرے کے بعد اس کے لیے مزید ڈھٹائی سے کچھ کہنا مشکل ہو گیا۔ وہ خود بھی جانتا تھا کہ آفتاب و ماہتاب اُسی خدا کے زیرِ فرمان ہیں، جس کو ابراہیم ؑ نے ربّ مانا ہے۔ پھر وہ کہتا، تو آخر کیا کہتا؟ مگر اس طرح جو حقیقت اس کے سامنے بے نقاب ہو رہی تھی ، اس کو تسلیم کر لینے کے معنی اپنی مطلق العنان فرماں روائی سے دست بردار ہو جانے کے تھے، جس کے لیے اس کے نفس کا طاغوت تیار نہ تھا۔ لہٰذا وہ صرف ششدر ہی ہو کر رہ گیا، خود پرستی کی تاریکی سے نِکل کر حق پرستی کی روشنی میں نہ آیا۔ اگر اس طاغوت کے بجائے اس نے خدا کو اپنا ولی و مددگار بنایا ہوتا ، تو اس کے لیے حضرت ابراہیم ؑ کی اس تبلیغ کے بعد راہِ راست کھُل جاتی ۔ تلموُد کا بیان ہے کہ اس کے بعد اس بادشاہ کے حکم سے حضرت ابراہیم ؑ قید کر دیے گئے۔ دس روز تک وہ جیل میں رہے۔ پھر بادشاہ کی کونسل نے اُن کوزندہ جلانے کا فیصلہ کیا اور ان کے آگ میں پھینکے جانے کا وہ واقعہ پیش آیا، جو سُورہ انبیاء ، رکوع ۵، العنکبوت، رکوع ۳-۲، اور الصافّات، رکوع ۴ میں بیان ہوا ہے |
2 | یعنی اس جھگڑنے میں جو بات ما بِہ ِ النّزاع تھی، وہ یہ تھی کہ ابراہیم ؑ اپنا ربّ کس کو مانتے ہیں۔ اور یہ نزاع اس وجہ سے پیدا ہوئی تھی کہ اُس جھگڑنے والے شخص، یعنی نمرود کو خدا نے حکومت عطا کر رکھی تھی۔ اِن دو فقروں میں جھگڑے کی نوعیّت کی طرف جو اشارہ کیا گیا ہے، اس کو سمجھنے کے لیے حسبِ ذیل حقیقتوں پر نگاہ رہنی ضروری ہے: (۱) قدیم ترین زمانے سے آج تک تمام مشرک سوسائیٹیوں کی یہ مشترک خصُوصیّت رہی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو ربّ الارباب اور خدائے خدائیگان کی حیثیت سے تو مانتے ہیں، مگر صرف اسی کو ربّ اور تنہا اُسی کو خدا اور معبُود نہیں مانتے۔ (۲)خدائی کو مشرکین نے ہمیشہ دو حصّوں میں تقسیم کیا ہے۔ ایک فوق الفطری (Supernatural ) خدائی، جو سلسلہء اسباب پر حکمراں ہے اور جس کی طرف انسان اپنی حاجات اور مشکلات میں دستگیری کے لیے رُجوع کرتا ہے ۔ اس خدائی میں وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اَرواح اور فرشتوں اور جِنوں اور سیّاروں اور دُوسری بہت سی ہستیوں کو شریک ٹھیراتے ہیں ، ان سے دُعائیں مانگتے ہیں، ان کے سامنے مراسِم پرستش بجا لاتے ہیں، اور ان کے آستانوں پر نذر و نیاز پیش کرتے ہیں۔ دوسری تمدّنی اور سیاسی معاملات کی خدائی( یعنی حاکمیّت)، جو قوانینِ حیات مقرر کر نے کی مجاز اور اطاعتِ امر کی مستحق ہو، اور جسے دُنیوی معاملات میں فرماں روائی کے مطلق اختیارات حاصل ہوں۔ اِس دُوسری قسم کی خدائی کو دُنیا کے تمام مشرکین نے قریب قریب ہر زمانے میں اللہ تعالیٰ سے سلب کر کے، یا اس کے ساتھ، شاہی خاندانوں اور مذہبی اور سوسائیٹی کے اگلے پچھلے بڑوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ اکثر شاہی خاندان اِسی دُوسرے معنی میں خدائی کے مدّعی ہوئے ہیں ، اور اسے مستحکم کرنے کے لیے اُنہوں نے بالعموم پہلے معنی والے خدا ؤ ں کی اولاد ہونے کا دعویٰ کیا ہے، اور مذہبی طبقے اس معاملے میں ان کے ساتھ شریک ِ سازش رہے ہیں۔ (۳) نمرود کا دعوائے خدائی بھی اسی دُوسری قسم کا تھا۔ وہ اللہ تعالیٰ کے وجود کا منکر نہ تھا۔ اس کا دعویٰ یہ نہیں تھا کہ زمین و آسمان کا خالق اور کائنات کا مدبّر وہ خود ہے۔ اس کا کہنا یہ نہیں تھا کہ اسبابِ عالم کے پُورے سلسلے پر اسی کی حکومت چل رہی ہے۔ بلکہ اسے دعویٰ اس امر کا تھا کہ اِس ملکِ عراق کا اور اس کے باشندوں کا حاکمِ مطلق مَیں ہوں، میری زبان قانون ہے، میرے اوپر کوئی بالاتر اقتدار نہیں ہے جس کے سامنے میں جواب دہ ہوں، اور عراق کا ہر وہ باشندہ باغی و غدّار ہے جو اس حیثیت سے مجھے اپنا ربّ نہ مانے یا میرے سوا کسی اَور کو ربّ تسلیم کرے۔ (۴) ابراہیم ؑ نے جب کہا کہ میں صرف ایک ربّ العالمین ہی کو خدا اور معبُود اور ربّ مانتا ہوں، اور اس کے سوا سب کو خدائی اور ربوبیّت کا قطعی طور پر منکر ہوں، تو سوال صرف یہی پیدا نہیں ہوا کہ قومی مذہب اور مذہبی معبُودوں کے بارے میں ان کا یہ نیا عقیدہ کہاں تک قابلِ برداشت ہے، بلکہ یہ سوال بھی اُٹھ کھڑا ہوا کہ قومی ریاست اور اس کے مرکزی اقتدار پر اس عقیدے کی جو زَد پڑتی ہے، اُسے کیونکر نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ جُرمِ بغاوت کے الزام میں نمرُود کے سامنے پیش کیے گئے |
1 | اس شخص سے مُراد نمرُود ہے، جو حضرت ابراہیم ؑ کے وطن(عراق) کا بادشاہ تھا۔ جس واقعے کا یہاں ذکر کیا جا رہا ہے ، اس کی طرف کوئی اشارہ بائیبل میں نہیں ہے۔ مگر تَلْموُد میں یہ پُورا واقعہ موجود ہے اور بڑی حد تک قرآن کے مطابق ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ کا باپ نمرُود کے ہاں سلطنت کے سب سے بڑے عہدے دار (Chief Officer Of The State ) کا منصب رکھتا تھا۔ حضرت ابراہیم ؑنے جب کھُلم کھُلا شرک کی مخالفت اور توحید کی تبلیغ شرُوع کی اور بُت خانے میں گھُس کر بُتوں کو توڑ ڈالا، تو اُن کے باپ نے خود ان کا مقدمہ بادشاہ کے دربار میں پیش کیا اور پھر وہ گفتگو ہُوئی ، جو یہاں بیان کی گئی ہے |
Surah 3 : Ayat 86
كَيْفَ يَهْدِى ٱللَّهُ قَوْمًا كَفَرُواْ بَعْدَ إِيمَـٰنِهِمْ وَشَهِدُوٓاْ أَنَّ ٱلرَّسُولَ حَقٌّ وَجَآءَهُمُ ٱلْبَيِّنَـٰتُۚ وَٱللَّهُ لَا يَهْدِى ٱلْقَوْمَ ٱلظَّـٰلِمِينَ
کیسے ہوسکتا ہے کہ اللہ اُن لوگوں کو ہدایت بخشے جنہوں نے نعمت ایمان پا لینے کے بعد پھر کفر اختیار کیا حالانکہ وہ خود اس بات پر گواہی دے چکے ہیں کہ یہ رسول حق پر ہے اور ان کے پاس روشن نشانیاں بھی آ چکی ہیں1 اللہ ظالموں کو تو ہدایت نہیں دیا کرتا
1 | یہاں پھر اُسی بات کا اعادہ کیا گیا ہے جو اس سے قبل بارہا بیان کی جا چکی ہے کہ نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں عرب کے یہودی علماء جان چکے تھے اور ان کی زبانوں تک سےاس امر کی شہادت ادا ہو چکی تھی کہ آپ نبی ِ برحق ہیں اور جو تعلیم آپ لائے ہیں وہ وہی تعلیم ہے جو پچھلے انبیاء لا تے رہے ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے جو کچھ کیا وہ محض تعصّب، ضد اور دُشمنیِ حق کی اُس پُرانی عادت کا نتیجہ تھا جس کے وہ صدیوں سے مجرام چلے آرہے تھے |
Surah 9 : Ayat 19
۞ أَجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ ٱلْحَآجِّ وَعِمَارَةَ ٱلْمَسْجِدِ ٱلْحَرَامِ كَمَنْ ءَامَنَ بِٱللَّهِ وَٱلْيَوْمِ ٱلْأَخِرِ وَجَـٰهَدَ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِۚ لَا يَسْتَوُۥنَ عِندَ ٱللَّهِۗ وَٱللَّهُ لَا يَهْدِى ٱلْقَوْمَ ٱلظَّـٰلِمِينَ
کیا تم لوگوں نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد حرام کی مجاوری کرنے کو اس شخص کے کام کے برابر ٹھیرا لیا ہے جو ایمان لایا اللہ پر اور روز آخر پر اور جس نے جانفشانی کی اللہ کی راہ میں1؟ اللہ کے نزدیک تو یہ دونوں برابر نہیں ہیں اور اللہ ظالموں کی رہنمائی نہیں کرتا
1 | یعنی کسی زیارت گاہ کی سجدہ نشینی ، مجاوری اور چند نمائشی مذہبی اعمال کی بجا آوری ، جس پر دنیا کے سطح بیں لوگ بالعموم شرف اور تقدس کا مدار رکھتے ہیں ، خدا کے نزدیک کوئی قدر و منزلت نہیں رکھتی۔ اصلی قدر و قیمت ایمان اور راہ خدا میں قربانی کی ہے۔ ان صفات کا جو شخص بھی حامل ہو وہ قیمتی آدمی ہے خوا ہ وہ کسی اونچے خاندان سے تعلق نہ رکھتا ہو اور کسی قسم کے امتیازی طرّے اس کو لگے ہوئے نہ ہوں۔ لیکن جو لوگ ان صفات سے خالی ہیں وہ محض اس لیے کہ بزرگ زادے ہیں ۔ سجدہ نشینی ان کے خاندان میں مدتوں سے چلی آرہی ہے اور خاص خاص موقعوں پر کچھ مذہبی مراسم کی نمائش وہ بڑی شان کے ساتھ کر دیا کرتے ہیں، نہ کسی مرتبے کے مستحق ہو سکتے ہیں اور نہ یہ جائز ہو سکتا ہے کہ ایسے بے حقیقت ”موروثی“ حقوق کو تسلیم کر کے مقدس مقامات اور مذہبی ادارے ان نالائق لوگوں کے ہاتھوں میں رہنے دیے جائیں |
Surah 9 : Ayat 109
أَفَمَنْ أَسَّسَ بُنْيَـٰنَهُۥ عَلَىٰ تَقْوَىٰ مِنَ ٱللَّهِ وَرِضْوَٲنٍ خَيْرٌ أَم مَّنْ أَسَّسَ بُنْيَـٰنَهُۥ عَلَىٰ شَفَا جُرُفٍ هَارٍ فَٱنْهَارَ بِهِۦ فِى نَارِ جَهَنَّمَۗ وَٱللَّهُ لَا يَهْدِى ٱلْقَوْمَ ٱلظَّـٰلِمِينَ
پھر تمہارا کیا خیال ہے کہ بہتر انسان وہ ہے جس نے اپنی عمارت کی بنیاد خدا کے خوف اور اس کی رضا کی طلب پر رکھی ہو یا وہ جس نے اپنی عمارت ایک وادی کی کھوکھلی بے ثبات کگر1 پر اٹھائی اور وہ اسے لے کر سیدھی جہنم کی آگ میں جا گری؟ ایسے ظالم لوگوں کو اللہ کبھی سیدھی راہ نہیں دکھاتا2
2 | ”سیدھی راہ“ یعنی وہ راہ جس سے انسان بامراد ہوتا اور حقیقی کامیابی کی منزل پر پہنچتا ہے |
1 | متن میں لفظ”جُرُف“ استعمال ہوا ہے جس کا اطلاق عربی زبان میں کسی ندی یا دریا کے اُس کنارے پر ہوتا ہے جس کے نیچے کی مٹی کو پانی نے کاٹ کاٹ کر بہا دیا ہو اور اوپر کا حصہ بے سہارا کھڑا ہو۔ جو لوگ اپنے عمل کی بنیاد خدا سے بے خوفی اور اس کی رضا سے بے نیازی پر رکھتے ہیں ان کی تعمیر حیات کو یہاں اُس عمارت سے تشبیہ دی گئی ہے جو ایسے ایک کھوکھلے بے ثبات کنارۂ دریا پر اُٹھائی گئی ہو ۔ یہ ایک بے نظیر تشبیہ ہے جس سے زیادہ بہتر طریقہ سے اِس صورت حال کی نقشہ کشی نہیں کی جا سکتی۔ اس کی پوری معنویت ذہن نشین کر نے کے لیے یوں سمجھیے کہ دینوی زندگی کی وہ ظاہری سطح جس پر مومن، منافق، کافر ، صالح، فاجر ، غرض تمام انسان کام کرتے ہیں، مٹی کی اُس اوپری تہ کے مانند ہے جس پر دنیا میں ساری عمارتیں بنائی جاتی ہیں ۔ یہ نہ اپنے اندر خود کوئی پائیداری نہیں رکھتی، بلکہ اس کی پائیداری کا انحصار اس پر ہے کہ اس کے نیچے ٹھوس زمین موجود ہو۔ اگر کوئی جگہ ایسی ہو جس کے نیچے کی زمین کسی چیز ، مثلاً دریا کے پانی سے کٹ چکی ہو تو جو ناواقف انسان اس کی ظاہری حالت سے دھوکا کھا کر اس پر اپنا مکان بنائے گا اسے وہ اس کے مکان سمیت لے بیٹھے گی اور وہ نہ صرف خود ہلاک ہو گا بلکہ اس ناپائیدار بنیاد پر اعتماد کر کے اپنا جو کچھ سرمایہ ٔ زندگی وہ اس عمار ت میں جمع کرے گا وہ بھی برباد ہو جائے گا۔ بالکل اسی مثال کے مطابق حیاتِ دنیا کی وہ ظاہری سطح بھی جس پر ہم سب اپنے کارنامۂ زندگی کی عمارت اٹھاتے ہیں، بجائے خود کوئی ثبات و قرار نہیں رکھتی بلکہ اس کی مضبوطی و پائیداری کا انحصار اس پر ہے کہ اس کے نیچے خدا کے خوف، اُس کے حضور جوابدہی کے احساس اور اُس کی مرضی کے اتباع کی ٹھوس چٹان موجود ہو۔ جو نادان آدمی محض حیات دنیا کے ظاہری پہلو پر اعتماد کر لیتا ہے اور دنیا میں خدا سے بے خوف اور اس کی رضا سے بے پروا ہو کر کام کرتا ہے وہ دراصل خود اپنی تعمیر زندگی کے نیچے سے اس کی بنیادوں کو کھوکھلا کر دیتا ہے اور اس کا آخری انجام اس کے سوا کچھ نہیں کہ یہ بے بنیاد سطح ، جس پر اس نے اپنی عمر بھر کا سرمایہ ٔ عمل جمع کیا ہے ایک دن یکایک گر جائے اور اسے اس کے پورے سرمایے سمیت لے بیٹھے |
Surah 61 : Ayat 7
وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ ٱفْتَرَىٰ عَلَى ٱللَّهِ ٱلْكَذِبَ وَهُوَ يُدْعَىٰٓ إِلَى ٱلْإِسْلَـٰمِۚ وَٱللَّهُ لَا يَهْدِى ٱلْقَوْمَ ٱلظَّـٰلِمِينَ
اب بھلا اُس شخص سے بڑا ظالم اور کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹے بہتان باندھے1 حالانکہ اسے اسلام (اللہ کے آگے سر اطاعت جھکا دینے) کی دعوت دی جا رہی ہو؟2 ایسے ظالموں کو اللہ ہدایت نہیں دیا کرتا
2 | یعنی اول تو سچے نبی کو جھوٹا مدعی کہنا ہی بجاۓ خود کچھ کم ظلم نہیں ہے ، کجا کہ اس پر مزید ظلم یہ کیا جاۓ کہ بلانے والا تو خدا کی بندگی و اطاعت کی طرف بلا رہا ہو اور سننے والا جواب میں اسے گالیاں دے اور اس کی دعوت کو زک دینے کے لیے جھوٹ اور بہتان اور افترا پردازیوں کے ہتھکنڈے استعمال کرے |
1 | یعنی اللہ کے بھیجے ہوۓ نبی کو جھوٹا مدعی قرار دے ، اور اللہ کے اس کلام کو جو اس کے نبی پر نازل ہو رہا ہو، نبی کا پنا گھڑا ہوا کلام ٹھہراۓ |
Surah 62 : Ayat 5
مَثَلُ ٱلَّذِينَ حُمِّلُواْ ٱلتَّوْرَٮٰةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوهَا كَمَثَلِ ٱلْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارَۢاۚ بِئْسَ مَثَلُ ٱلْقَوْمِ ٱلَّذِينَ كَذَّبُواْ بِـَٔـايَـٰتِ ٱللَّهِۚ وَٱللَّهُ لَا يَهْدِى ٱلْقَوْمَ ٱلظَّـٰلِمِينَ
جن لوگوں کو توراۃ کا حامل بنایا گیا تھا مگر انہوں نے اس کا بار نہ اٹھا یا1، اُن کی مثال اُس گدھے2 کی سی ہے جس پر کتابیں لدی ہوئی ہوں اِس سے بھی زیادہ بری مثال ہے اُن لوگوں کی جنہوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلا دیا ہے 3ایسے ظالموں کو اللہ ہدایت نہیں دیا کرتا
3 | یعنی ان کا حال گدھے سے بھی بد تر ہے۔ وہ تو سمجھ بوجھ نہیں رکھتا اس لیے مغرور ہے۔ مگر یہ سمجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ توراۃ کو پڑھتے پڑھاتے ہیں۔ اس کے معنی سے ناواقف نہیں ہیں۔ پھر بھی یہ اس کی ہدایات سے دانستہ انحراف کر رہے ہیں، اور اس نبی کو ماننے سے قصداً انکار کر رہے ہیں جو توراۃ کی رو سے سراسر حق پر ہے۔ یہ نا فہمی کے قصور وار نہیں ہیں بلکہ جان بوجھ کر اللہ کی آیات کو جھٹلانے کے مجرم ہیں |
2 | یعنی جس طرح گدھے پر کتابیں لدی ہوں اور وہ نہیں جانتا کہ اس کی پیٹھ پر کیا ہے ، اسی طرح یہ توراۃ کو اپنے اوپر لادے ہوۓ ہیں اور نہیں جانتے کہ یہ کتاب کس لیے آئی ہے اور ان سے کیا چاہتی ہے |
1 | اس فقرے کے دو معنی ہیں۔ ایک عام اور دوسرا خاص۔ عام معنی یہ ہیں کہ جن لوگوں پر توراۃ کے علم و علم، اور اس کے مطابق دنیا کی ہدایت کا بار رکھا گیا تھا، مگر نہ انہوں نے اپنی اس ذمہ داری کو سمجھا اور نہ اس کا حق ادا کیا۔ خاص معنی یہ ہیں کہ حامل توراۃ گروہ ہونے کی حیثیت سے جن کا کام یہ تھا کہ سب سے پہلے آگے بڑھ کر اس رسول کا ساتھ دیتے جس کے آنے کی صاف صاف بشارت توراۃ میں دی گئی تھی، مگر انہوں نے سب سے بڑھ کر اس کی مخالف کی اور توراۃ کی تعلیم کے تقاضے کو پورا نہ کیا |
Surah 5 : Ayat 51
۞ يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا تَتَّخِذُواْ ٱلْيَهُودَ وَٱلنَّصَـٰرَىٰٓ أَوْلِيَآءَۘ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَآءُ بَعْضٍۚ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُۥ مِنْهُمْۗ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَهْدِى ٱلْقَوْمَ ٱلظَّـٰلِمِينَ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا رفیق نہ بناؤ، یہ آپس ہی میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں اور اگر تم میں سے کوئی ان کو اپنا رفیق بناتا ہے تو اس کا شمار بھی پھر انہی میں ہے، یقیناً اللہ ظالموں کو اپنی رہنمائی سے محروم کر دیتا ہے
Surah 6 : Ayat 144
وَمِنَ ٱلْإِبِلِ ٱثْنَيْنِ وَمِنَ ٱلْبَقَرِ ٱثْنَيْنِۗ قُلْ ءَآلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ ٱلْأُنثَيَيْنِ أَمَّا ٱشْتَمَلَتْ عَلَيْهِ أَرْحَامُ ٱلْأُنثَيَيْنِۖ أَمْ كُنتُمْ شُهَدَآءَ إِذْ وَصَّـٰكُمُ ٱللَّهُ بِهَـٰذَاۚ فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ ٱفْتَرَىٰ عَلَى ٱللَّهِ كَذِبًا لِّيُضِلَّ ٱلنَّاسَ بِغَيْرِ عِلْمٍۗ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَهْدِى ٱلْقَوْمَ ٱلظَّـٰلِمِينَ
اور اسی طرح دو اونٹ کی قسم سے ہیں اور دو گائے کی قسم سے پوچھو، اِن کے نر اللہ نے حرام کیے ہیں یا مادہ، یا وہ بچے جو اونٹنی اور گائے کے پیٹ میں ہوں؟1 کیا تم اُس وقت حاضر تھے جب اللہ نے ان کے حرام ہونے کا حکم تمہیں دیا تھا؟ پھر اُس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوگا جو اللہ کی طرف منسوب کر کے جھوٹی بات کہے تاکہ علم کے بغیر لوگوں کی غلط راہ نمائی کرے یقیناً اللہ ایسے ظالموں کو راہ راست نہیں دکھاتا
1 | یہ سوال اس تفصیل کے ساتھ ان کے سامنے اس لیے پیش کیا گیا ہے کہ اُن پر خود اپنے ان توہّمات کی غیر معقولیّت واضح ہو جائے۔ یہ بات کہ ایک ہی جانور کا نر حلال ہو اور مادہ حرام، یا مادہ حلال ہو اور نر حرام، یا جانور خود حلال ہو مگر اس کا بچہ حرام، یہ صریحاً ایسی نامعقول بات ہے کہ عقلِ سلیم اِسے ماننے سے انکار کرتی ہے اور کوئی ذی عقل انسان یہ تصوّر نہیں کر سکتا کہ خدا نے ایسی لغویّات کا حکم دیا ہو گا۔ پھر جس طریقہ سے قرآن نے اہلِ عرب کو اُن کے اِن توہّمات کی غیر معقولیّت سمجھانے کی کوشش کی ہے بعینہٖ اسی طریقہ پر دُنیا کی اُن دُوسری قوموں کو بھی اُن کے توہّمات کی لغویّات پر متنبہ کیا جا سکتا ہے جن کے اندر کھانے پینے کی چیزوں میں حُرمت و حِلّت کی غیر معقول پابندیاں اور چھُوت چھات کی قیُود پائی جاتی ہیں |
Surah 28 : Ayat 50
فَإِن لَّمْ يَسْتَجِيبُواْ لَكَ فَٱعْلَمْ أَنَّمَا يَتَّبِعُونَ أَهْوَآءَهُمْۚ وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ ٱتَّبَعَ هَوَٮٰهُ بِغَيْرِ هُدًى مِّنَ ٱللَّهِۚ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَهْدِى ٱلْقَوْمَ ٱلظَّـٰلِمِينَ
اب اگر وہ تمہارا یہ مطالبہ پورا نہیں کرتے تو سمجھ لو کہ دراصل یہ اپنی خواہشات کے پیرو ہیں، اور اُس شخص سے بڑھ کر کون گمراہ ہو گا جو خدائی ہدایت کے بغیر بس اپنی خواہشات کی پیروی کرے؟ اللہ ایسے ظالموں کو ہرگز ہدایت نہیں بخشتا
Surah 46 : Ayat 10
قُلْ أَرَءَيْتُمْ إِن كَانَ مِنْ عِندِ ٱللَّهِ وَكَفَرْتُم بِهِۦ وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِّنۢ بَنِىٓ إِسْرَٲٓءِيلَ عَلَىٰ مِثْلِهِۦ فَـَٔـامَنَ وَٱسْتَكْبَرْتُمْۖ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَهْدِى ٱلْقَوْمَ ٱلظَّـٰلِمِينَ
اے نبیؐ، ان سے کہو 1"کبھی تم نے سوچا بھی کہ اگر یہ کلام اللہ ہی کی طرف سے ہوا اور تم نے اِس کا انکار کر دیا (تو تمہارا کیا انجام ہوگا)؟ اور اِس جیسے ایک کلام پر تو بنی اسرائیل کا ایک گواہ شہادت بھی دے چکا ہے وہ ایمان لے آیا اور تم اپنے گھمنڈ میں پڑے رہے ایسے ظالموں کو اللہ ہدایت نہیں دیا کرتا2"
2 | مفسرین کے ایک بڑے گروہ نے اس گواہ سے مراد حضرت عبداللہ بن سلام کو لیا ہے جو مدینہ طیبہ کے مشہور یہودی عالم تھے اور ہجرت کے بعد نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لاۓ۔ یہ واقعہ چونکہ مدینہ میں پیش آیا تھا اس لیے ان مفسرین کا قول یہ ہے کہ یہ آیت مدنی ہے۔ اس تفسیر کی بنیاد حضرت سعد بن ابی وقاص کا یہ بیان ہے کہ یہ آیت حضرت عبداللہ بن سلام کے بارے میں نازل ہوئی تھی (بخار، مسلم، نسائی، ابن جریر)، اور اسی بنا پر ابن عباس، مجاہد، قتادہ، ضحاک، ابن سیرین، حسن بصری، ابن زید، اور عوف بن مالک الاشجعی جیسے متعدد اکابر مفسرین نے اس تفسیر کو قبول کیا ہے۔ مگر دوسری طرف عکرمہ اور شعبی اور مسروق کہتے ہیں کہ یہ آیت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کے بارے میں نہیں ہو سکتی کیونکہ یہ پوری سورۃ مکی ہے۔ ابن جریر طبری نے بھی اسی قول کو ترجیح دی ہ اور ان کا کہنا یہ ہے اوپر سے سارا سلسلہ کلام مشرکین مکہ کو مخاطب کرتے ہوۓ چلا آ رہا ہے اور آگے بھی سارا خطاب انہی سے ہے، اس سیاق و سباق میں یکایک مدینے میں نازل ہونے والی ایک آیت کا آ جانا قابل تصور نہیں ہے۔ بعد کے جن مفسرین نے اس دوسرے قول کو قبول کیا ہے وہ حضرت سعد بن ابی وقاص کی روایت کو رد نہیں کرتے، بلکہ ان کا خیال یہ ہے کہ یہ آیت چونکہ حضرت عبداللہ بن سلام کے ایمان لانے پر بھی چسپاں ہوتی ہے، اس لیے حضرت سعد نے قُدَماء کی عادت کے مطابق یہ فرمان دیا کہ یہ ان کے برے میں نازل ہوئی۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جب وہ ایمان لاۓ اس وقت ان ہی کے بارے میں یہ نازل ہوئی، بلکہ اس مطلب صرف یہ ہے کہ وہ اس آیت کے ٹھیک ٹھیک مصداق ہیں اور ان کے قبول ایمان پر یہ پوری طرح چسپاں ہوتی ہے۔ بظاہر یہی دوسرا قول زیادہ صحیح اور معقول محسوس ہوتا ہے۔ اس کے بعد یہ سوال حل طلب وہ جاتا ہے کہ اس گواہ سے مراد کون ہے۔ جن مفسرین نے اس دوسرے قول کو اختیار کیا ہے ان میں سے بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد موسیٰ علیہ السلام ہیں لیکن بعد کا یہ فقرہ کہ وہ ایمان لے آیا اور تم اپنے گھمنڈ میں پڑے رہے۔ اس تفسیر کے ساتھ کوئی مناسبت نہیں رکھتا۔ زیادہ صحیح بات وہی معلوم ہو تی ہے جو مفسر نیسا پوری اور ابن کثیر نے بیان کی ہے کہ یہاں گواہ سے مراد کو ئ شخص نہیں، بلکہ بنی اسرائیل کا عام آدمی ہے۔ ارشاد الہی کا مدعا یہ ہے کہ قرآن مجید جو تعلیم تمہارے سامنے پیش کر رہا ہے یہ کو ئ انوکھی چیز بھی نہیں ہے دنیا میں پہلی مرتبہ تمھارے ہی سامنے پیش کی گئی ہو اور تم یہ عذر کر سکو ہم یہ نرالی باتیں کیسے مان لیں جو نوع انسانی کے سامنے کبھی آ ئ ہی نہ تھیں۔ اس سے پہلے یہی تعلیمات اسی طرح وحی کے ذریعہ سے بنی اسرائیل کے سامنے تو را ۃ اور دوسرے کتب آسمانی کی شکل میں آ چکی ہیں ایک عام آ دمی ان کو مان چکا ہے، اور یہ بھی تسلیم کر چکا ہے کہ اللہ کی وحی ان تعلیمات کے نزول کا ذریعہ ہے۔ اس لیے تم لوگ یہ دعوی نہیں کر سکتے کہ وحی اور یہ تعلیمات ناقابل فہم چیزیں ہیں۔ اصل بات صرف یہ ہے کہ تمہارا غرور و تکبر اور بے بنیاد و گھمنڈ ایمان لانے میں مانع ہے |
1 | یہ وہی مضمون ہے جو اس سے پہلے ایک دوسرے طریقہ سے سورہ حٰم السجدہ، آیت 52 میں گزر چکا ہے۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو جلد چہارم، تفسیر سورہ مذکور، حاشیہ 69 |