Ayats Found (3)
Surah 5 : Ayat 48
وَأَنزَلْنَآ إِلَيْكَ ٱلْكِتَـٰبَ بِٱلْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ ٱلْكِتَـٰبِ وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِۖ فَٱحْكُم بَيْنَهُم بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُۖ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَآءَهُمْ عَمَّا جَآءَكَ مِنَ ٱلْحَقِّۚ لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًاۚ وَلَوْ شَآءَ ٱللَّهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَٲحِدَةً وَلَـٰكِن لِّيَبْلُوَكُمْ فِى مَآ ءَاتَـٰكُمْۖ فَٱسْتَبِقُواْ ٱلْخَيْرَٲتِۚ إِلَى ٱللَّهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ
پھر اے محمدؐ! ہم نے تمہاری طرف یہ کتاب بھیجی جو حق لے کر آئی ہے اور الکتاب میں سے جو کچھ اس کے آگے موجود ہے اُس کی تصدیق کرنے والی1 اور اس کی محافظ و نگہبان ہے2 لہٰذا تم خدا کے نازل کردہ قانون کے مطابق لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرو اور جو حق تمہارے پاس آیا ہے اُس سے منہ موڑ کر ان کی خواہشات کی پیروی نہ3 کرو ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لیے ایک شریعت اور ایک راہ عمل مقرر کی اگرچہ تمہارا خدا چاہتا تو تم سب کو ایک امت بھی بنا سکتا تھا، لیکن اُس نے یہ اِس لیے کیا کہ جو کچھ اُس نے تم لوگوں کو دیا ہے اس میں تمہاری آزمائش کرے لہٰذا بھلائیوں میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرو آخر کار تم سب کو خدا کی طرف پلٹ کر جانا ہے، پھر وہ تمہیں اصل حقیقت بتا دے گا جس میں تم اختلاف کرتے رہے ہو4
4 | یہ مذکورہ بالا سوال کا پُورا جواب ہے۔ اس جواب کی تفصیل یہ ہے: (۱) محض اختلاف شرائع کو اس بات کی دلیل قرار دینا غلط ہے کہ یہ شریعتیں مختلف مآخذ سے ماخوذ اور مختلف سر چشموں سے نکلی ہوئی ہے۔ دراصل وہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے مختلف قوموں کے لیے مختلف زمانوں اور مختلف حالات میں مختلف ضابطے مقرر فرمائے۔ (۲) بلاشبہ یہ ممکن تھا کہ شروع ہی سے تمام انسانوں کے لیے ایک ضابطہ مقرر کر کے سب کو ایک اُمّت بنا دیا جاتا۔ لیکن وہ فرق جو اللہ تعالیٰ نے مختلف انبیاء کی شریعتوں کے درمیان رکھا اُس کے اندر دُوسری بہت سی مصلحتوں کے ساتھ ایک بڑی مصلحت یہ بھی تھی کہ اللہ تعالیٰ اس طریقہ سے لوگوں کی آزمائش کرنا چاہتا تھا ۔ جو لوگ اصل دین اور اس کی رُوح اور حقیقت کو سمجھتے ہیں، اور دین میں اِن ضوابط کی حقیقی حیثیت کو جانتے ہیں، اور کسی تعصّب میں مُبتلا نہیں ہیں وہ حق کو جس صُورت میں بھی وہ آئے گا پہچان لیں گے اور قبول کر لیں گے۔ اُن کو اللہ کے بھیجے ہوئے سابق احکام کی جگہ بعد کے احکام تسلیم کرنے میں کوئی تامّل نہ ہو گا۔بخلاف اس کے جو لوگ روح دین سے بیگانہ ہیں اور ضوابط اور ان کی تفصیلات ہی کو اصل دین سمجھ بیٹھے ہیں،اور جنہوں نے خدا کی طرف سے آئی ہوئی چیزوں پر خود اپنے حاشیےچڑھا کر ان پر جمود اور تعصب اختیا کر لیا ہے وہ ہر اُس ہدایت کو رد کرتے چلے جائیں گے جو بعد میں خدا کی طرف سے آئے ان دونوں قسم کے آدمیوں کو ممیز کرنے کے لیے یہ آزمائش ضروری تھی، اس لیے اللہ تعالٰی نے شرائع میں اختلاف رکھا۔
(۳)تمام شرائع سے اصل مقصود نیکیوں اور بھلائیوں کو پانا ہے اور وہ اسی طرح حاصل ہو سکتی ہیں کہ جس وقت جو حکم خدا ہو اس کی پیروی کی جائے۔لہذا جو لوگ اصل مقصد پر نگاہ رکھتے ہیں ان کے لیے شرائع کے اختلافات اور مناہج کے فروق پر جھگڑا کرنے کے بجائے صیح طرز عمل یہ ہے کہ مقصد کی طرف اس راہ سے پیش قدمی کریں جس کو اللہ تعالٰی کی منظوری حاصل ہو۔(۴)جواختلافات انسانوں نے اپنے جمود تعصب،ہٹ دھرمی اور ذہن کی اُپچ سے خود پیدا کر لیے ہیں اُن کا آخری فیصلہ نہ مجلس مناظرہ میں ہو سکتا ہے نہ میدان جنگ میں۔آخری فیصلہ اللہ تعالٰی خود کرے گا جبکہ حقیقت بے نقاب کر دی جائے گی اور لوگوں پر منکشف ہو جائے گا کہ جن جھگڑوں میں وہ عمریں کھپا کر دنیا سے آئے ہیں اُن کی تہ میں’’حق‘‘ کا جو ہر کتنا تھا اور باطل کے حاشیے کس قدر |
3 | یہ ایک جملہ ء معترضہ ہے جس سے مقصُود ایک سوال کی توضیح کرنا ہے جو اُوپر کے سلسلہ ء تقریر کو سُنے ہوئے مخاطب کے ذہن میں اُلجھن پیدا کر سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب تمام انبیاء اور تمام کتابوں کا دین ایک ہے ، اور یہ سب ایک دُوسرے کی تصدیق و تائید کرتے ہوئے آئے ہیں تو شریعت کی تفصیلات میں ان کے درمیان فرق کیوں ہے؟ کیا بات ہے کہ عبادت کی صُورتوں میں ، حرام و حلال کی قیُود میں اور قوانین ِ تمدّن و معاشرت کے فروع میں مختلف انبیاء اور کُتبِ آسمانی کی شریعتوں کے درمیان تھوڑا بہت اختلاف پایا جاتا ہے |
2 | اصل میں لفظ”مُھَیْمِنْ“ استعمال ہوا ہے۔ عربی میں ھیمن یھمن ھیمنۃ کے معنی محافظت، نگرانی ، شہادت، امانت ، تائد اور حمایت کے ہیں۔ ھیمن الرجل الشئ، یعنی آدمی نے فلاں چیز کی حفاظت و نگہبانی کی۔ ھیمن الطائر علیٰ فراخہ۱، یعنی پرندے نے اپنے چُوزے کو اپنے پروں میں لے کر محفوض کر لیا۔ حضرت عمر ؓ نے ایک مرتبہ لوگوں سے کہا انی داعٍ فھیمنوا یعنی میں دُعا کر تا ہوں تم تائید میں آمین کہو۔ اسی سے لفظ ھمیَان ہے جسے اُردو میں ہمیانی کہتے ہیں، یعنی وہ تھیلی جس میں آدمی اپنا مال رکھ کر محفوظ کرتا ہے۔ پس قرآن کو ”الکتاب“ پر مھیمن کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس نے ان تمام بر حق تعلیمات کو جو پچھلی کُتبِ آسمانی میں دی گئی تھیں، اپنے اندر لے کر محفوظ کر لیا ہے۔ وہ اِن پر نگہبان ہے اس معنی میں کہ اب ان کی تعلیمات بر حق کا کوئی حصہ ضائع نہ ہونے پائے گا۔ وہ ان کا مؤیّد ہے اس معنی میں کہ ان کتابوں کے اندر خدا کا کلام جس حد تک موجود ہے قرآن سے اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ وہ ان پر گواہ ہے اس معنی میں کہ ان کتابوں کےاندر خدا کے کلام اور لوگوں کے کلام کی جو آمیزش ہو گئی ہے قرآن کی شہادت سے اس کو پھر چھانٹا جا سکتا ہے، جو کچھ ان میں قرآن کے مطابق ہے وہ خدا کا کلام ہے اور جو قرآن کے خلاف ہے وہ لوگوں کا کلام ہے |
1 | یہاں ایک اہم حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے۔ اگرچہ اس مضمون کو یوں بھی ادا کیا جا سکتا تھا کہ ”پچھلی کتابوں“ میں سے جو کچھ اپنی اصلی اور صحیح صورت پر باقی ہے، قرآن اس کی تصدیق کرتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے ”پچھلی کتابوں“ کے بجائے”الکتاب“ کا لفظ استعمال فرمایا۔ اس سے یہ راز منکشف ہوتا ہے کہ قرآن اور تمام وہ کتابیں جو مختلف زمانوں اور مختلف زبانوں میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئیں، سب فی الاصل ایک ہی کتاب ہیں۔ ایک ہی ان کا مصنّف ہے ، ایک ہی ان کا مدّعا اور مقصد ہے ، ایک ہی ان کی تعلیم ہے ، اور ایک ہی علم ہے جو ان کے ذریعہ سے نوع انسانی کو عطا کیا گیا۔ فرق اگر ہے تو عبارات کا ہے جو ایک ہی مقصد کے لیے مختلف مخاطبوں کے لحاظ سے مختلف طریقوں سے اختیار کی گئیں۔ پس حقیقت صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ یہ کتابیں ایک دوسرے کی مخالف نہیں، مؤ یّد ہیں، تردید کرنے والی نہیں، تصدیق کرنے والی ہیں۔ بلکہ اصل حقیقت اس سے کچھ بڑھ کر ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ سب ایک ہی ”الکتاب“ کے مختلف ایڈیشن ہیں |
Surah 5 : Ayat 49
وَأَنِ ٱحْكُم بَيْنَهُم بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَآءَهُمْ وَٱحْذَرْهُمْ أَن يَفْتِنُوكَ عَنۢ بَعْضِ مَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ إِلَيْكَۖ فَإِن تَوَلَّوْاْ فَٱعْلَمْ أَنَّمَا يُرِيدُ ٱللَّهُ أَن يُصِيبَهُم بِبَعْضِ ذُنُوبِهِمْۗ وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ ٱلنَّاسِ لَفَـٰسِقُونَ
پس اے محمدؐ! تم اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق اِن لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرو اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو ہوشیار رہو کہ یہ لوگ تم کو فتنہ میں ڈال کر اُس ہدایت سے ذرہ برابر منحرف نہ کرنے پائیں جو خدا نے تمہاری طرف نازل کی ہے پھر اگر یہ اس سے منہ موڑیں تو جان لو کہ اللہ نے اِن کے بعض گناہوں کی پاداش میں ان کو مبتلائے مصیبت کرنے کا ارادہ ہی کر لیا ہے، اور یہ حقیقت ہے کہ اِن لوگوں میں سے اکثر فاسق ہیں
Surah 5 : Ayat 50
أَفَحُكْمَ ٱلْجَـٰهِلِيَّةِ يَبْغُونَۚ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ ٱللَّهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ
(اگر یہ خدا کے قانون سے منہ موڑتے ہیں) تو کیا پھر جاہلیت1 کا فیصلہ چاہتے ہیں؟ حالانکہ جو لوگ اللہ پر یقین رکھتے ہیں ان کے نزدیک اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا کوئی نہیں ہے
1 | جاہلیّت کا لفظ اسلام کے مقابلہ میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اسلام کا طریقہ سراسر علم ہے کیونکہ اس کی طرف خدا نے رہنمائی کی ہے جو تمام حقائق کا علم رکھتا ہے ۔ اور اس کے برعکس ہر وہ طریقہ جو اسلام سے مختلف ہے جاہلیّت کا طریقہ ہے۔ عرب کے زمانہء قبل ِاسلام کو جاہلیّت کا دَور اسی معنی میں کہا گیا ہےکہ اس زمانہ میں علم کے بغیر محض وہم یا قیاس و گمان یا خواہشات کی بنا پر انسانوں نے اپنے لیے زندگی کے طریقے مقرر کر لیے تھے۔ یہ طرزِ عمل جہاں جس دَور میں بھی انسان اختیار کریں اسے بہرحال جاہلیّت ہی کا طرزِ عمل کہا جائے گا۔ مدرسوں اور یونیورسٹیوں میں جو کچھ پڑھایا جاتا ہے وہ محض ایک جُزوی عِلم ہے اور کسی معنی میں بھی انسان کی رہنمائی کے لیے کافی نہیں ہے ۔ لہٰذا خدا کے دیے ہوئے عِلم سے بے نیاز ہو کر جو نظامِ زندگی اِس جُزوی عِلم کے ساتھ ظنون و اوہام اور قیاسات و خواہشات کی آمیزش کر کے بنا لیے گئے ہیں وہ بھی اُسی طرح”جاہلیت“ کی تعریف میں آتے ہیں جس طرح قدیم زمانے کے جاہلی طریقے اِس تعریف میں آتے ہیں |