Ayats Found (5)
Surah 2 : Ayat 22
ٱلَّذِى جَعَلَ لَكُمُ ٱلْأَرْضَ فِرَٲشًا وَٱلسَّمَآءَ بِنَآءً وَأَنزَلَ مِنَ ٱلسَّمَآءِ مَآءً فَأَخْرَجَ بِهِۦ مِنَ ٱلثَّمَرَٲتِ رِزْقًا لَّكُمْۖ فَلَا تَجْعَلُواْ لِلَّهِ أَندَادًا وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ
وہی تو ہے جِس نے تمہارے لیے زمین کا فرش بچھایا، آسمان کی چھت بنائی، اوپر سے پانی برسایا اور اس کے ذریعے سے ہر طرح کی پیداوار نکال کر تمہارے لیے رزق بہم پہنچایا پس جب تم یہ جانتے ہو تو دوسروں کو اللہ کا مد مقابل نہ ٹھیراؤ1
1 | یعنی جب تم خود بھی اِس بات کے قائل ہو اور تمہیں معلوم ہے کہ یہ سارے کام اللہ ہی کے ہیں، تو پھر تمہاری بندگی اسی کے لیے خاص ہونی چاہیے، دُوسرا کون اس کا حق دار ہو سکتا ہے کہ تم اس کی بندگی بجا لاؤ ؟ دُوسروں کو اللہ کا مدِّ مقابل ٹھہرانے سے مُراد یہ ہے کہ بندگی و عبادت کی مختلف اقسام میں سے کسی قسم کا رویّہ خدا کے سوا دُوسروں کے ساتھ برتا جائے۔ آگے چل کر خود قرآن ہی سے تفصیل کے ساتھ معلوم ہو جائے گا کہ عبادت کی وہ اقسام کون کون سی ہیں جنہیں صِرف اللہ کے لیے مخصوص ہونا چاہیے اور جن میں دُوسروں کی شریک ٹھہرانا وہ ” شرک“ ہے ، جسے روکنے کے لیے قرآن آیا ہے |
Surah 23 : Ayat 64
حَتَّىٰٓ إِذَآ أَخَذْنَا مُتْرَفِيهِم بِٱلْعَذَابِ إِذَا هُمْ يَجْــَٔرُونَ
یہاں تک کہ جب ہم ان کے عیاشوں کو عذاب میں پکڑ لیں گے1 تو پھر وہ ڈکرانا شروع کر دیں گے2
2 | اصل میں لفظ ’’ جُؤَار ‘‘ استعمال کیا گیا ہے جو بیل کی اس آواز کو کہتے ہیں جو سخٹ تکلیف کے وقت وہ نکالتا ہے۔ یہ لفظ یہاں محض فریاد و فغان کے معنی میں نہیں بلکہ اس شخص کی فریاد و فغان کے معنی میں بولا گیا ہے جو کسی رحم کا مستحق نہ ہو۔ اس میں تحقیر اور طنز کا انداز چھپا ہوا ہے۔ اس کے اندر یہ معنی پوشیدہ ہیں کہ ’’ اچھا، اب جو اپنے کرتوتوں کا مزا چکھنے کی نوبت آئی تو بلبلانے لگے |
1 | عیاش‘‘ یہاں ’’مُتْرَفِیْن‘‘ کا ترجمہ کیا گیا ہے۔ ’’مترفین ‘‘ اصل میں ان لوگوں کو کہتے ہیں جو دنیوی مال و دولت کو پا کر مزے کر رہے ہوں اور خدا و خلق کے حقوق سے غافل ہوں۔ اس لفظ کا صحیح مفہوم لفظ عیاش سے ادا ہو جاتا ہے ، بشرطیکہ اسے صرف شہوت رانی کے معنی میں نہ لیا جائے بلکہ عیش کوشی کے وسیع تر معنوں میں لیا جائے۔ عذاب سے مراد یہاں غالباً آخرت کا عذاب نہیں ہے بلکہ دنیا کا عذاب ہے جو اسی زندگی میں ظالموں کو دیکھنا پڑے |
Surah 50 : Ayat 6
أَفَلَمْ يَنظُرُوٓاْ إِلَى ٱلسَّمَآءِ فَوْقَهُمْ كَيْفَ بَنَيْنَـٰهَا وَزَيَّنَّـٰهَا وَمَا لَهَا مِن فُرُوجٍ
اچھا1، تو کیا اِنہوں نے کبھی اپنے اوپر آسمان کی طرف نہیں دیکھا؟ کس طرح ہم نے اسے بنایا اور آراستہ کیا2، اور اس میں کہیں کوئی رخنہ نہیں ہے3
3 | یعنی اپنی اس حیرت انگیز وسعت کے باوجود یہ عظیم الشان نظام کائنات ایسا مسلسل اور مستحکم ہے اور اس کی بندش اتنی چست ہے کہ اس میں کسی جگہ کوئی دراڑ یا شگاف نہیں ہے اور اس کا تسلسل کہیں جا کر ٹوٹ نہیں جاتا۔ اس چیز کو ایک مثال سے اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے۔ جدید زمانے کے ریڈیائی ہیئت دانوں نے ایک کہکشانی نظام کا مشاہدہ کیا ہے جسے وہ منبع 3 ج 295(Source 3c,295) کے نام سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس کے متعلق ان کا اندازہ یہ ہے کہ اس کی جو شعاعیں اب ہم تک پہنچ رہی ہیں وہ 4 ارب سال سے بھی زیادہ مدت پہلے اس میں سے روانہ ہوئی ہونگی۔ اس بعید ترین فاصلے سے ان شعاعوں کا زمین تک پہنچنا آخر کیسے ممکن ہوتا اگر زمین اور اس کہکشاں کے درمیان کائنات کا تسلسل کسی جگہ سے ٹوٹا ہوا ہوتا اور اس کی بندش میں کہیں شگاف پڑا ہوا ہوتا۔ اللہ تعالیٰ اس حقیقت کی طرف اشارہ کر کے در اصل یہ سوال آدمی کے سامنے پیش کرتا ہے کہ میری کائنات کے اس نظام میں جب تم ایک ذرا سے رخنے کی نشان دہی بھی نہیں کر سکتے تو میری قدرت میں اس کمزوری کا تصور کہاں سے تمہارے دماغ میں آگیا کہ تمہاری مہلت امتحان ختم ہو جانے کے بعد تم سے حساب لینے کے لیے میں تمہیں پھر زندہ کر کے اپنے سامنے حاضر کرنا چاہوں تو نہ کر سکوں گا۔ یہ صرف امکان آخرت ہی کا ثبوت نہیں ہے بلکہ توحید کا ثبوت بھی ہے چار ارب سال نوری(Light Years) کی مسافت سے ان شعاعوں کا زمین تک پہنچنا، اور یہاں انسان کے بناۓ ہوۓ آلات کی گرفت میں آنا صریحاً اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس کہکشاں سے لے کر زمین تک کی پوری دنیا مسلسل ایک ہی مادے سے بنی ہوئی ہے، ایک ہی طرح کی قوتیں اس میں کار فرما ہیں، اور کسی فرق و تفاوت کے بغیر وہ سب ایک ہی طرح کے قوانین پر کام کر رہی ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ شعاعیں نہ یہاں تک پہنچ سکتی تھیں اور نہ ان آلات کی گرفت میں آسکتی تھیں جو انسان نے زمین اور اس کے ماحول میں کام کرنے والے قوانین کا فہم حاصل کر کے بناۓ ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک ہی خدا اس پوری کائنات کا خالق و مالک اور حاکم و مدبر ہے |
2 | یہاں آسمان سے مراد پورا علام بالا ہے جسے انسان شب و روز اپنے اوپر چھایا ہوا دیکھتا ہے۔ جس میں دن کو سورج چمکتا ہے اور رات کو چاند اور بے حد و حساب تارے روشن نظر آتے ہیں۔ جسے آدمی برہنہ آنکھ ہی سے دیکھے تو حیرت طاری ہو جاتی ہے، لیکن اگر دوربین لگا لے تو ایک ایسی وسیع و عریض کائنات اس کے سامنے آتی ہے جو نا پیدا کنار ہے، کہیں سے شروع ہو کر کہیں ختم ہوتی نظر نہیں آتی۔ ہماری زمین سے لاکھوں گنے بڑے عظیم الشان سیارے اس کے اندر گیندوں کی طرح گھوم رہے ہیں۔ ہمارے سورج سے ہزاروں درجہ زیادہ روشن تارے اس میں چمک رہے ہیں۔ ہمارا یہ پورا نظام شمسی اس کی صرف ایک کہکشاں (Galaxy) کے ایک کونے میں پڑا ہوا ہے۔ تنہا اسی ایک کہکشاں میں ہمارے سورج جیسے کم از کم 3 ارب دوسرے تارے (ثوابت) موجود ہیں، اور اب تک کا انسانی مشاہدہ ایسی ایسی دس لاکھ کہکشانوں کا پتہ دے رہا ہے۔ ان لاکھوں کہکشانوں میں سے ہماری قریب ترین ہمسایہ کہکشاں اتنے فاصلے پر واقع ہے کہ اس کی روشنی ایک لاکھ 86 ہزار فی سیکنڈ کی رفتار سے چل کر دس لاکھ سال میں زمین تک پہنچتی ہے۔ یہ تو کائنات کے صرف اس حصے کی وسعت کا حال ہے جو اب تک انسان کے علم اور اس کے مشاہدہ میں آئی ہے۔ خدا کی خدائی کس قدر وسیع ہے، اس کا کوئی اندازہ ہم نہیں کر سکتے۔ ہو سکتا ہے کہ انسان کی معلوم کائنات کے مقابلے میں وہ نسبت بھی نہ رکھتی ہو جو قطرے کو سمندر سے ہے۔ اس عظیم کار گاہ ہست و بود کو جو خدا وجود میں لایا ہے اس کے بارے میں زمین پر رینگنے والا یہ چھوٹا سا حیوان ناطق، جس کا نام انسان ہے، اگر یہ حکم لگاۓ کہ وہ اسے مرنے کے بعد دوبارہ پیدا نہیں کر سکتا، تو یہ اس کی اپنی ہی عقل کی تنگی ہے۔ کائنات کے خالق کی قدرت اس سے کیسے تنگ ہو جاۓ گی |
1 | ۔ اوپر کی پانچ آیتوں میں کفار مکہ کے موقف کی نا معقولیت واضح کرنے کے بعد اب بتایا جا رہا ہے کہ آخرت کی جو خبر محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے دی ہے اس کی صحت کے دلائل کیا ہیں۔ اس مقام پر یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ کفار جن دو باتوں پر تعجب کا اظہار کر رہے تھے ان میں سے ایک، یعنی محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت کے بر حق ہونے کی دو دلیلیں ابتدا ہی میں دی جاچکی ہیں۔ اول یہ کہ وہ تمہارے سامنے قرآن مجید پیش کر رہے ہیں جو ان کے نبی ہونے کا کھلا ہوا ثبوت ہے۔ دوم یہ کہ وہ تمہاری اپنی ہی جنس اور قوم اور برادری کے آدمی ہیں۔ اچانک آسمان سے یا کسی دوسری سر زمین سے نہیں آ گۓ ہیں کہ تمہارے لیے ان کی زندگی اور سیرت و کردار کو جانچ کر یہ تحقیق کرنا مشکل ہو کہ وہ قابل اعتماد آدمی ہیں یا نہیں اور یہ قرآن ان کا اپنا گھڑا ہوا کلام ہو بھی سکتا ہے یا نہیں، اس لیے ان کے دعواۓ نبوت پر تمہارا تعجب بے جا ہے۔ یہ استدلال تفصیل کے ساتھ پیش کرنے کے بجاۓ دو مختصر اشاروں کی شکل میں بیان کیا گیا ہے، کیونکہ جس زمانے میں محمد صلی اللہ علیہ و سلم خود مکہ میں کھڑے ہو کر ان لوگوں کو قرآن سنا ہے تھے جو بچپن سے جوانی اور ادھیڑ عمر تک آپ کی ساری زندگی دیکھے ہوۓ تھے، اس وقت ان اشاروں کی پوری تفصیل ماحول کے ہر شخص پر آپ ہی واضح تھی۔ اس لیے اس کو چھوڑ کر اب تفصیلی استدلال اس دوسری بات کی صداقت پر کیا جا رہا ہے جس کو وہ لوگ عجیب اور عقل سے بعید کہہ رہے تھے |
Surah 78 : Ayat 12
وَبَنَيْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعًا شِدَادًا
اور تمہارے اوپر سات مضبوط آسمان قائم کیے1
1 | مضبوط کا لفظ اس معنی میں استعمال کیا گیا ہے کہ ان کی سرحدیں اتنی مستحکم ہیں کہ ان میں ذرہ برابرتغیروتبدل نہیں ہونے پاتا اوران سرحدوں کو پارکرکےعالم بالا کے بے شمار ستاروں اور سیاروں میں سےکوئی نہ ایک دوسرے سے ٹکراتا ہے نہ تمہاری زمین پر آ گرتا ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، البقرہ، حاشیہ 34۔ جلد دوم، الرعد، حاشیہ 2۔ الحجر، حواشی 8، 12۔ جلد سوم، المؤمنون، حاشیہ 15۔ جلد چہارم، لقمان، حاشیہ 13۔ یٰسین، حاشیہ 37۔ الصافات، حواشی 5۔6۔ المومن، حاشیہ 90۔ جلد پنجم، ق حواشی 7۔8) |
Surah 91 : Ayat 5
وَٱلسَّمَآءِ وَمَا بَنَـٰهَا
اور آسمان کی اور اُس ذات کی قسم جس نے اُسے قائم 1کیا
1 | یعنی چھت کی طرح اسے زمین پر اٹھا کھڑا کیا۔ اس آیت اور اس کے بعد کی دو آیتوں میں ما کا لفاظ استعمال ہوا ہے یعنی ’’ مَا بَنَاهَا‘‘، اور’’مَا طَحَاهَا ‘‘اور ’’مَا سَوَّاهَا‘‘ اس لفظ ما کو مفسرین کے ایک گروہ نے مصدری معنوں میں لیا ہے اور وہ ان آیتوں کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ آسمان اور اس کے قائم کیے جانے کی قسم، زمین اور اس کے بچھائے جانے کی قسم، اور نفس اور اس کے ہموار کیے جانے کی قسم۔ لیکن یہ معنی اس لیے درست نہیں ہیں کہ ان تین فقروں کے بعد یہ فقرہ کہ ’’پھر اس کی بدی اور اس کی پرہیز گاری اس پر الہام کر دی‘‘ اس سلسلہ کلام کے ساتھ ٹھیک نہیں بیٹھتا۔ دوسرے مفسرین نے یہاں ما کو من یا الذی کے معنی میں لیا ہے، اور وہ ان فقروں کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ جس نے آسمان کو قائم کیا، جس نے زمین کو بچھایا اور جس نے نفس کو ہموار کیا۔ یہی دوسرا مطلب ہمارے نزدیک صحیح ہے، اور اس پر یہ اعتراض نہیں ہو سکتا کہ ما عربی زبان میں بے جان اشیاء اور بے عقل مخلوقات کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ خود قرآن میں اس کی بکثرت مثالیں موجود ہیں کہ ما کو من کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔ مثلاً ’’وَلَا أَنتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ‘‘ (اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں)۔ ’’ فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ ‘‘ (پس عورتوں میں سے جو تمہیں پسند آئیں ان سے نکاح کر لو)۔ ’’ وَلَا تَنكِحُوا مَا نَكَحَ آبَاؤُكُم مِّنَ النِّسَاءِ ‘‘ (اور جن عورتوں سے تمہارے باپوں نے نکاح کیا ہو ان سے نکاح نہ کرو) |