Ayats Found (3)
Surah 23 : Ayat 8
وَٱلَّذِينَ هُمْ لِأَمَـٰنَـٰتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَٲعُونَ
اپنی امانتوں اور اپنے عہد و پیمان کا پاس رکھتے ہیں1
1 | امانات‘‘ کا لفظ جامع ہے ان تمام امانتوں کے لیے جو خداوند عالم نے ،یا معاشرے نے ، یا افراد نے کسی شخص کے سپرد کی ہوں۔ اور عہد و پیمان میں وہ سارے معاہدے داخل ہیں جو انسان اور خدا کے درمیان، یا انسان اور انسان کے درمیان، یا قوم اور قوم کے درمیان استوار کیے گۓ ہوں۔ مومن کی صفت یہ ہے کہ وہ کبھی امانت میں خیانت نہ کرے گا، اور کبھی اپنے قول و قرار سے نہ پھرے گا۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اکثر اپنے خطبوں میں فرمایا کرتے تھے : لا ایمان لمن لا امانۃ لہٗ ولا دین لمن لا عھد لہٗ ’’ جو امانت کی صفت نہیں رکھتا وہ ایمان نہیں رکھتا ، اور جو عہد کا پاس نہیں رکھتا وہ دین نہیں رکھتا‘‘ (بیہقی فی شعب الایمان)۔ بخاری و مسلم کی متفق علیہ روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا ’’ چار خصلتیں ہیں کہ جس میں وہ چاروں پائی جائیں وہ خالص منافق ہے اور جس میں کوئی ایک پائی جائے اس کے اندر نفاق کی ایک خصلت ہے جب تک کہ وہ اسے چھوڑ نہ دے۔ جب کوئی امانت اس کے سپرد کی جائے تو خیانت کرے۔ جب بولے تو جھوٹ بولے ، جب عہد کرے تو توڑ دے۔ اور جب کسی سے جھگڑے تو (اخلاق و دیانت کی ) ساری حدیں پھاند جائے |
Surah 70 : Ayat 32
وَٱلَّذِينَ هُمْ لِأَمَـٰنَـٰتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَٲعُونَ
جو اپنی امانتوں کی حفاظت اور اپنے عہد کا پاس کرتے ہیں1
1 | امانتوں سے مراد وہ امانتیں بھی ہیں جو اللہ تعالٰی نے بندوں کے سپرد کی ہیں اور وہ امانتیں بھی جو انسان کسی دوسرے انسان پر اعتماد کر کے اس کے حوالے کرتا ہے۔ اسی طرح عہد سے مراد وہ عہد بھی ہیں جو بندہ اپنے خدا سے کرتا ہے، اوروہ عہد بھی جو بندے ایک دوسرے سے کرتے ہیں۔ ان دونوں قسم کی امانتوں اور دونوں قسم کے عہد و پیمان کا پاس و لحاظ ایک مومن کی سیرت کے لازمی خصائص میں سے ہے۔ حدیث میں حضرت انس ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے سامنے جو تقریر بھی فرماتے اس میں یہ بات ضرور ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ الا، لا ایمان لمن لا امانۃ لہ ولا دین لمن لا عھد لہ۔ ’’خبر دار رہو، جس میں امانت نہیں اس کا کوئی ایمان نہیں، اور جو عہد کا پابند نہیں اس کا کوئی دین ہیں‘‘۔ (بہقی فی شعب الایمان) |
Surah 33 : Ayat 72
إِنَّا عَرَضْنَا ٱلْأَمَانَةَ عَلَى ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضِ وَٱلْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَن يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا ٱلْإِنسَـٰنُۖ إِنَّهُۥ كَانَ ظَلُومًا جَهُولاً
ہم نے اس امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو وہ اُسے اٹھانے کے لیے تیار نہ ہوئے اور اس سے ڈر گئے، مگر انسان نے اسے اٹھا لیا، بے شک وہ بڑا ظالم اور جاہل ہے1
1 | کلام کو ختم کرتے ہوئے اللہ تعالٰی انسان کو یہ احساس دلانا چاہتا ہے کہ دُنیا میں اس کی حقیقی حیثیت کیا ہے اور اس حیثیت میں ہوتے ہوئے اگر وہ دُنیا کی زندگی کو محض ایک کھیل سمجھ کر بے فکری کے ساتھ غلط رویہّ اختیار کرتا ہے تو کس طرح اپنے ہاتھوں خود اپنا مستقبل خراب کرتا ہے۔ اس جگہ ’’امانت‘‘ سے مر اد وہی ’’خلافت‘‘ ہے جو قرآن مجید کی رُو سے انسان کو زمین میں عطا کی گئی ہے۔ اللہ تعالٰی نے انسان کو طاقت و معصیت کی جو آزادی بخشی ہے، اور اس آزادی کو استعمال کرنے کے لیے اُسے اپنی بے شمار مخلوقات پر تصرّف کے جو اختیارات عطا کیے ہیں اُن کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ انسان خود اپنے اختیاری اعمال کا ذمہ دار قرار پائے اور اپنے صحیح طرز عمل پر اجر کا اور غلط طرز عمل پر سزا کا مستحق بنے۔ یہ اختیار ات چونکہ انسان نے خود حاصل نہیں کیے ہیں بلکہ اللہ نے اسے دیے ہیں، اور ان کے صحیح و غلط استعمال پر وہ للہ کے سامنے جواب دہ ہے، اس لیے قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر ان کو ’’خلافت‘‘ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے، اور یہاں انہی کے لیے ’’ امانت‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ یہ امانت کتنی اہم اور گراں بار ہے،اس کا تصور دلانے کے لیے اللہ تعالٰی نے بتایا ہے کہ آسمان و زمین اپنی ساری عظمت کے باوجود اور پہاڑ اپنی زبردست جسامت و متانت کے باوجود اس کے اٹھانے کی طاقت اور ہمت نہ رکھتے تھے، مگر انسان ضعیف البنیان نے اپنی ذرا سی جان پر یہ بھا ری بوجھ اٹھا لیا ہے۔ زمین و آسمان کے سامنے اس بارِ امانت کا پیش کیا جانا ، اور ان کا اسے اٹھانے سے انکار کرنا اور ڈر جانا ہو سکتا ہے کہ لغوی معنی میں ہو، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ بات استعارے کی زبان میں ارشاد ہو ئی ہو۔ اللہ تعالٰی کا اپنی مخلوقات کے ساتھ جو تعلق ہے اسے ہم نہ جان سکتے ہیں نہ سمجھ سکتے ہیں زمین اور سورج اور چاند اور پہاڑ جس طرح ہمارے لیے گونگے، بہرے اور بے جان ہیں، ضروری نہیں ہے کہ اللہ کے لیے بھی وہ ایسے ہی ہوں۔ اللہ اپنی ہر مخلوق سے بات کر سکتا ہے اور وہ اس کو جواب دے سکتی ہے۔ اس کی کیفیت کا سمجھنا ہمارے فہم و ادراک سے بالا تر ہے۔ اس لیے یہ بالکل ممکن ہے کہ فی الواقع اللہ نے ان کے سامنے یہ بارِ گراں پیش کیا ہو اور وہ اسے دیکھ کر کانپ اٹھے ہوں اور انہوں نے اپنے مالک و خالق سے یہ عرض کیا ہو کہ ہم تو سرکار کے بے اختیار خادم ہی بن کر رہنے میں اپنی خیر پاتے ہیں، ہماری ہمت نہیں کے نافرمانی کی آزادی لے کر اس کا حق ادا کر سکیں اور حق ادا نہ کرنے کی صورت میں حضورؐ کی سزا برداشت کر سکیں۔ اسی طرح یہ بھی بالکل ممکن ہے ہماری موجودہ زندگی سے پہلے پوری نوعِ انسانی کو اللہ تعالٰی نے کسی اور نوعیت کا وجود بخش کر اپنے سامنے حاضر کیا ہو اور اس نے یہ اختیارات سنبھالنے پر خود آمادگی ظاہر کی ہو۔ اس بات کو ناممکن قرار دینے کے لیے ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ اس کو دائرۂ امکان سے خارج قرار دینے کا فیصلہ تو وہی شخص کر سکتا ہے جو اپنے ذہن و فکر کی استعداد کا غلط اندازہ لگا بیٹھا ہو۔ البتہ یہ امر بھی اتنا ہی ممکن ہے کہ اللہ تعالٰی نے یہ بات محض تمثیلی انداز میں فرمائی ہو اور صورت معاملہ کی غیر معمولی اہمیت کا تصور دلانے کے لیے اسی طرح کا نقشہ پیش کیا گیا ہو کہ گویا ایک طرف زمین و آسمان اور ہمالہ جیسے پہاڑ کھڑے ہیں اور دوسری طرف ۵۔۶فیٹ کا آدمی کھڑا ہوا ہے۔ اللہ تعالٰی پوچھتا ہے کہ : ’’میں اپنی ساری مخلوقات میں سے کسی ایک کو یہ طاقت بخشنا چاہتا ہوں کہ وہ میری خدائی میں رہتے ہوئے خود اپنی رضا و رغبت سے میری بالا تری کا اقرار اور میرے احکام اطاعت کرنا چاہے تو کرے، ورنہ وہ میرا انکار بھی کر سکے گا اور میرے خلاف بغاوت کا جھنڈا بھی لے کر اٹھ سکے گا۔ یہ آزادی دے کر میں اس سے اس طرح چھپ جاؤں گا کہ گویا میں کہیں موجود نہیں ہوں۔ اور اس آزادی کو عمل میں لانے کے لیے میں اس کو وسیع اختیارات دوں گا، بڑی قابلیتیں عطا کروں گا، اور اپنی بے شمار مخلوقات پر اس کو بلا دستی بخش دوں گا، تاکہ وہ کائنات میں جو ہنگامہ بھی برپا کرنا چاہے کر سکے۔ اس کے بعد میں ایک وقت خاص پر اس کا حساب لوں گا جس نے میری بخشی ہوئی آزادی کو غلط استعمال کیا ہو گا اسے وہ سزا دوں گا جو میں نے کبھی اپنی کسی مخلوق کو نہیں دی ہے، اور جس نے نافر نی کے سارے مواقع پاکر بھی میری فرمانبرداری ہی اختیار کی ہو گی اسے وہ بلند مرتبے عطا کروں گا جو میری کسی مخلو ق کو نصیب نہیں ہوئے ہیں۔ اب بتاؤ تم میں سے کون اس امتحان گاہ میں اتر نے کو تیار ہے ‘‘؟ یہ تقریر سن کر پہلے ساری کائنات میں سنا ٹا چھا جاتا ہے۔ پھر ایک سے ایک بڑھ کر گراں ڈیل مخلوق گھٹنے ٹیک کر التجا کر تی چلی جاتی ہے کہ اسے اس کڑے امتحان سے معاف رکھا جائے۔ آخر کاریہ مشتِ استخواں اٹھا ہے اور کہتا ہے کہ اے میرے رب میں یہ امتحان دینے کے لیے تیار ہوں۔ اس امتحان کو پاس کر کے تیری سلطنت کا سب سے اونچا عہدہ مل جانے کی جو امید ہے اس کی بنا پر میں ان سب خطرات کو انگیز کر جاؤں گا جو اس آزادی و خود مختاری میں پوشیدہ ہیں۔ یہ نقشہ اپنی چشم تصور کے سامنے لا کر ہی آدمی اچھی طرح اندازہ کر سکتا ہے کہ وہ کائنات میں کس نازک مقام پر کھڑا ہوا ہے۔ اب جو شخص اس امتحان گاہ میں بے فکر ا بن کر رہتا ہے اور کوئی احساس نہیں رکھتا کہ وہ کتنی بڑی ذمہ داری کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے ، اور دنیا کی زندگی میں اپنے لیے کوئی رویہ انتخاب کرتے وقت جو فیصلے وہ کر تا ہے ان کے صحیح یا غلط ہو نے سے کیا نتائج نکلنے والے ہیں، اسی کو اللہ تعالٰی اس آیت میں ظلوم و جہول قرار دے رہا ہے۔ وہ جہول ہے، کیونکہ اس احمق نے اپنے آپ کو غیر ذمہ دار سمجھ لیا ہے۔ اور وہ ظلوم ہے، کیونکہ وہ خود اپنی تباہی کا سامان کر رہا ہے اور اپنے ساتھ نہ معلوم کتنے اور لوگوں کو لے ڈوبنا چاہتا ہے۔ |