Ayats Found (2)
Surah 2 : Ayat 283
۞ وَإِن كُنتُمْ عَلَىٰ سَفَرٍ وَلَمْ تَجِدُواْ كَاتِبًا فَرِهَـٰنٌ مَّقْبُوضَةٌۖ فَإِنْ أَمِنَ بَعْضُكُم بَعْضًا فَلْيُؤَدِّ ٱلَّذِى ٱؤْتُمِنَ أَمَـٰنَتَهُۥ وَلْيَتَّقِ ٱللَّهَ رَبَّهُۥۗ وَلَا تَكْتُمُواْ ٱلشَّهَـٰدَةَۚ وَمَن يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُۥٓ ءَاثِمٌ قَلْبُهُۥۗ وَٱللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ
اگر تم سفر کی حالت میں ہو اور دستاویز لکھنے کے لیے کوئی کاتب نہ ملے، تو رہن بالقبض پر معاملہ کرو1 اگر تم میں سے کوئی شخص دوسرے پر بھروسہ کر کے اس کے ساتھ کوئی معاملہ کرے، تو جس پر بھروسہ کیا گیا ہے، اسے چاہیے کہ امانت ادا کرے اور اللہ، اپنے رب سے ڈرے اور شہادت ہرگز نہ چھپاؤ2 جو شہادت چھپاتا ہے، اس کا دل گناہ میں آلودہ ہے اور اللہ تمہارے اعمال سے بے خبر نہیں ہے3
3 | یہ خاتمہء کلام ہے۔ اس لیے جس طرح سورت کا آغاز دین کی بنیادی تعلیمات سے کیا گیا تھا، اسی طرح سورت کو ختم کرتے ہوئے بھی اُن تمام اُصُولی اُمور کو بیان کر دیا گیا ہے جن پر دینِ اسلام کی اساس قائم ہے۔ تقابل کے لیے اس سورہ کے پہلے رکوع کو سامنے رکھ لیا جائے تو زیادہ مفید ہوگا |
2 | شہادت دینے سے گریز کرنا، یا شہادت میں صحیح واقعات کے اظہار سے پرہیز کرنا، دونو ں پر ”شہادت چھپانے“ کا اطلاق ہوتا ہے |
1 | یہ مطلب نہیں ہے کہ رہن کا معاملہ صرف سفر ہی میں ہو سکتا ہے، بلکہ ایسی صورت چونکہ زیادہ تر سفر میں پیش آتی ہے، اس لیے خاص طور پر اس کا ذکر کر دیا گیا ہے۔ نیز معاملہٴ رہن کے لیے یہ شرط بھی نہیں ہے کہ جب دستاویز لکھنا ممکن نہ ہو، صرف اسی صورت میں رہن کا معاملہ کیا جائے۔ اس کے علاوہ ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ جب محض دستاویز لکھنے پر کوئی قرض دینے کے لیے آمادہ نہ ہو، تو قرض کا طالب اپنی کوئی چیز رہن رکھ کر روپیہ لے لے۔ لیکن قرآن مجید چونکہ اپنے پیرووں کو فیاضی کی تعلیم دینا چاہتا ہے ، اور یہ بات بلند اخلاق سے فروتر ہے کہ ایک شخص مال رکھتا ہو اور وہ ایک ضرورت مند آدمی کو اس کی کو ئی چیز رہن رکھے بغیر قرض نہ دے، اس لیے قرآن نے قصداً اِس دوسری صورت کا ذکر نہیں کیا۔ اس سلسلے میں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ رہن بالقبض کا مقصد صرف یہ ہے کہ قرض دینے والے کو اپنے قرض کی واپسی کا اطمینان ہو جائے ۔ اسے اپنے دیے ہوئے مال کے معاوضے میں شے مرہونہ سے فائدہ اُٹھانے کا حق نہیں ہے ۔ اگر کوئی شخص رہن لیے ہوئے مکان میں خود رہتا ہے یا اس کا کرایہ کھاتا ہے ، تو دراصل سود کھاتا ہے ۔ قرض پر براہِ راست سُود لینے اور رہن لی ہوئی چیز سے فائدہ اُٹھانے میں اُصُولاً کوئی فرق نہیں ہے۔ البتہ اگر کوئی جانور رہن لیا گیا ہو تو اس کا دُودھ استعمال کیا جا سکتا ہے ، اور اس سے سواری و بار برداری کی خدمت لی جا سکتی ہے ، کیونکہ یہ دراصل اُس چارے کا معاوضہ ہے جو مرتہن اس جانور کو کھلاتا ہے |
Surah 4 : Ayat 58
۞ إِنَّ ٱللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّواْ ٱلْأَمَـٰنَـٰتِ إِلَىٰٓ أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ ٱلنَّاسِ أَن تَحْكُمُواْ بِٱلْعَدْلِۚ إِنَّ ٱللَّهَ نِعِمَّا يَعِظُكُم بِهِۦٓۗ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ سَمِيعَۢا بَصِيرًا
مسلمانو! اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو، اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو1، اللہ تم کو نہایت عمدہ نصیحت کرتا ہے اور یقیناً اللہ سب کچھ سنتا اور دیکھتا ہے
1 | یعنی تم اُن برائیوں سے بچے رہنا جن میں بنی اسرائیل مبتلا ہو گئے ہیں۔ بنی اسرائیل کی بُنیادی غلطیوں میں سے ایک یہ تھی کہ انہوں نے اپنے انحطاط کے زمانہ میں امانتیں، یعنی ذمہ داری کے منصب اور مذہبی پیشوائی اور قومی سرداری کے مرتبے (Positions of trust) ایسے لوگوں کو دینے شروع کر دیے جو نا اہل ، کم ظرف، بد اخلاق، بد دیانت اور بدکار تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بُرے لوگوں کی قیادت میں ساری قوم خراب ہوتی چلی گئی۔ مسلمانوں کو ہدایت کی جارہی ہے کہ تم ایسا نہ کرنا بلکہ امانتیں ان لوگوں کے سپرد کرنا جو ان کے اہل ہوں ، یعنی جن میں بارِ امانت اُٹھانے کی صلاحیت ہو۔ بنی اسرائیل کی دُوسری بڑی کمزوری یہ تھی کہ و ہ انصاف کی رُوح سے خالی ہو گئے تھے۔ وہ شخصی اور قومی اغراض کے لیے بے تکلف ایمان نِگل جاتے تھے۔ صریح ہٹ دھرمی برت جاتے تھے۔ انصاف کے گلے پر چُھری پھیرنے میں انہیں ذراتامل نہ ہوتا تھا۔ ان کی بے انصافی کا تلخ ترین تجربہ اُس زمانہ میں خود مسلمانوں کو ہو رہا تھا۔ ایک طرف ان کے سامنے محمد رسُول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان پر ایمان لانے والوں کی پاکیزہ زندگیاں تھیں۔ دُوسری طرف وہ لوگ تھے جو بُتوں کو پُوج رہے تھے، بیٹیوں کو زندہ گاڑتے تھے، سوتیلی ماؤں تک سے نکاح کر لیتے تھے اور کعبہ کے گرد مادر زاد ننگے ہو کر طواف کرتے تھے۔ نہ نام نہاد اہل کتاب ان میں سے دُوسرے گروہ کو پہلے گروہ پر ترجیح دیتے تھے اور ان کو یہ کہتے ہوئے ذرا شرم نہ آتی تھی کہ پہلے گروہ کے مقابلہ میں یہ دُوسرا گروہ زیادہ صحیح راستہ پر ہے۔ اللہ تعالٰی ان کی اس بے انصافی پر تنبیہ کرنے کے بعد اب مسلمانوں کو ہدایت کرتا ہے کہ تم کہیں ایسے بے انصاف نہ بن جانا ۔ خواہ کسی سے دوستی ہو یا دشمنی ، بہر حال بات جب کہو انصاف کی کہو اور فیصلہ جب کرو عدل کے ساتھ کرو |