Ayats Found (10)
Surah 13 : Ayat 3
وَهُوَ ٱلَّذِى مَدَّ ٱلْأَرْضَ وَجَعَلَ فِيهَا رَوَٲسِىَ وَأَنْهَـٰرًاۖ وَمِن كُلِّ ٱلثَّمَرَٲتِ جَعَلَ فِيهَا زَوْجَيْنِ ٱثْنَيْنِۖ يُغْشِى ٱلَّيْلَ ٱلنَّهَارَۚ إِنَّ فِى ذَٲلِكَ لَأَيَـٰتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ
اور وہی ہے جس نے یہ زمین پھیلا رکھی ہے، اس میں پہاڑوں کے کھو نٹے گاڑ رکھے ہیں اور دریا بہا دیے ہیں اُسی نے ہر طرح کے پھلوں کے جوڑے پیدا کیے ہیں، اور وہی دن پر رات طاری کرتا ہے1 ان ساری چیزوں میں بڑی نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو غور و فکر سے کام لیتے ہیں
1 | اَجرامِ فلکی کے بعد عالمِ ارضی کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے اور یہاں بھی خدا کی قدرت اور حکمت کے نشانات سے اُنہی دونوں حقیقتوں (توحید اور آخرت) پر استشہاد کیا گیا ہے جن پر پچھلی آیات میں عالمِ سماوی کے آثار سے استشہاد کیا گیا تھا۔ ان دلائل کا خلاصہ یہ ہے: (۱) اجرامِ فلکی کے ساتھ زمین کا تعلق ، زمین کے ساتھ سورج اور چاند کا تعلق ، زمین کی بے شمار مخلوقات کی ضرورتوں سے پہاڑوں اور دریاؤں کا تعلق، یہ ساری چیزیں اس بات پر کھلی شہادت دیتی ہیں کہ ان کو نہ تو الگ الگ خداؤں نے بنایا ہے اور نہ مختلف با اختیار خدا ان کا انتظام کر رہے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو ان سب چیزوں میں باہم اتنی مناسبتیں اور ہم آہنگیاں اور موافقتیں نہ پیدا ہو سکتی تھیں اور نہ مسلسل قائم رہ سکتی تھیں ۔ الگ الگ خداؤں کے لیے یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ مل کر پوری کائنات کے لیے تخلیق و تدبیر کا ایسا منصوبہ بنا لیتے جس کی ہر چیز زمین سے لے کر آسمانوں تک ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ کھاتی چلی جائے اور کبھی ان کی مصلحتوں کے درمیان تصادم واقع نہ ہونے پائے۔ (۲) زمین کے اِس عظیم الشان کُرے کا فضائے بسیط میں معلق ہونا ، اس کی سطح پر اتنے بڑے بڑے پہاڑوں کا اُبھر آنا، اس کے سینے پر ایسے ایسے زبر دست دریاؤں کا جاری ہونا، اِس کی گود میں طرح طرح کے بے حد و حساب درختوں کا پھلنا ، اور پیہم انتہائی باقاعدگی کے ساتھ رات اور دن کے حیرت انگیز آثار کا طاری ہونا، یہ سب چیزیں اُ س خدا کی قدرت پر گواہ ہیں جس نے انہیں پیدا کیا ہے ۔ ایسے قادرِ مطلق کے یہ گمان کرنا کہ وہ انسان کو مرنے کے بعد دوبارہ زندگی عطا نہیں کر سکتا، عقل ودانش کی نہیں، حماقت و بلادت کی دلیل ہے۔ (۳) زمین کی ساخت میں، اُس پر پہاڑوں کی پیدائش میں ، پہاڑوں سے دریاؤں کی روانی کا انتظام کرنے میں ، پھلوں کی ہر قسم دو دوطرح کے پھل پیدا کرنے میں، اور رات کے بعد دن اور دن کے بعد رات باقاعدگی کے ساتھ لانے میں جو بے شمار حکمتیں اور مصلحتیں پائی جاتی ہیں وہ پکا ر پکار کر شہادت دےرہی ہیں کہ جس خدانے تخلیق کا یہ نقشہ بنایا ہے وہ کمال درجے کا حکیم ہے۔ یہ ساری چیزیں خبر دیتی ہیں کہ یہ نہ تو کسی بے ارادہ طاقت کی کار فرمائی ہے اور نہ کسی کھلنڈرے کا کھلونا ۔ ان میں سے ہر ہر چیز کے اندر ایک حکیم کی حکمت اور انتہائی بالغ حکمت کا م کرتی نظر آتی ہے ۔ یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد صرف ایک نادان ہی ہو سکتا ہے جو یہ گمان کرے کہ زمین پر انسان کو پیدا کرکے اور اُسے ایسی ہنگامہ آرائیوں کے مواقع دے کر وہ اس کو یونہی خاک میں گم کر دے گا |
Surah 15 : Ayat 19
وَٱلْأَرْضَ مَدَدْنَـٰهَا وَأَلْقَيْنَا فِيهَا رَوَٲسِىَ وَأَنۢبَتْنَا فِيهَا مِن كُلِّ شَىْءٍ مَّوْزُونٍ
ہم نے زمین کو پھیلایا، اُس میں پہاڑ جمائے، اس میں ہر نوع کی نباتات ٹھیک ٹھیک نپی تلی مقدار کے ساتھ اگائی1
1 | اس سے اللہ تعالیٰ کی قدرت و حکمت کے ایک اور اہم نشان کی طرف توجہ دلائی گئی ہے ۔ نباتات اور ہر نوع میں تناسُل کی اِس قدر زبردست طاقت ہے کہ اگر اس کے صرف ایک پودے ہی کی نسل کو زمین میں بڑھنے کا موقع مل جاتا تو چند سال کے اندر روئے زمین پر بس وہی وہ نظر آتی، کسی دوسری قسم کی نباتات کے لیے کوئی جگہ نہ رہتی ۔ مگر یہ ایک حکیم اور قادرِ مطلق کا سوچا سمجھا منصوبہ ہے جس کے مطابق بے حد و حساب اقسام کی نباتا ت اِس زمین پر اُگ رہی ہیں اور ہر نوع کی پیداوار اپنی ایک مخصوص حد پر پہنچ کر رُک جاتی ہے ۔ اِسی منظر کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ ہر نوع کی جسامت ، پھیلاؤ ، اٹھان اور نشونما کی ایک حد مقرر ہے جس سے نبات کی کوئی قسم بھی تجاوز نہیں کر سکتی ۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ کسی نے ہر درخت ، ہر پودے اور ہر بیل بوٹے کے لیے جسم ، قد ، شکل ، برگ و بار اور پیداوار کی ایک مقدار پورے ناپ تول اور حساب و شما ر کے ساتھ مقرر کر رکھی ہے |
Surah 16 : Ayat 15
وَأَلْقَىٰ فِى ٱلْأَرْضِ رَوَٲسِىَ أَن تَمِيدَ بِكُمْ وَأَنْهَـٰرًا وَسُبُلاً لَّعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ
اُس نے زمین میں پہاڑوں کی میخیں گاڑ دیں تاکہ زمین تم کو لے کر ڈھلک نہ جائے 1اس نے د ریا جاری کیے اور قدرتی راستے بنائے2 تاکہ تم ہدایت پاؤ
2 | یعنی وہ راستے جو ندی نالوں اور دریاؤں کے ساتھ بنتے چلے جاتے ہیں۔ ان قدرتی راستوں کی اہمیت خصوصیت کے ساتھ پہاڑی علاقوں میں محسوس ہوتی ہے، اگرچہ میدانی علاقوں میں بھی وہ کچھ کم اہم نہیں ہیں |
1 | اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سطحِ زمین پر پہاڑوں کے ابھار کا اصل فائدہ یہ ہے کہ اس کی وجہ سے زمین کی گردش اور اس کی رفتار میں انضباط پیدا ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر پہاڑوں کے اس فائدے کو نمایاں کر کے بتایا گیا ہے جس سے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ دوسرے تمام فائدے ضمنی ہیں اور اصل فائدہ یہی حرکت ِزمین کو اضطراب سے بچا کر منضبط (Regulate) کرنا ہے۔ |
Surah 21 : Ayat 31
وَجَعَلْنَا فِى ٱلْأَرْضِ رَوَٲسِىَ أَن تَمِيدَ بِهِمْ وَجَعَلْنَا فِيهَا فِجَاجًا سُبُلاً لَّعَلَّهُمْ يَهْتَدُونَ
اور ہم نے زمین میں پہاڑ جما دیے تاکہ وہ انہیں لے کر ڈھلک نہ جائے1 اور اس میں کشادہ راہیں بنا دیں2، شاید کہ لوگ اپنا راستہ معلوم کر لیں3
3 | ذو معنی فقرہ ہے ۔ یہ مطلب بھی ہے کہ لوگ زمین میں چلنے کے لیے راہ پائیں ، اور یہ بھی کہ وہ اس حکمت اور اس کاریگری اور اس انتظام کو دیکھ کر حقیقت تک پہنچنے کا راستہ پالیں |
2 | یعنی پہاڑوں کے درمیان ایسے درے رکھ دیے اور دریا نکال دیے جن کی وجہ سے پہاڑی علاقوں سے گزرنے اور زمین کے ایک خطے سے دوسرے خطے کی طرف عبور کرنے کے راستے نکل آتے ہیں ۔اسی طرح زمین کے دوسرے حصوں کی ساخت بھی ایسی رکھی ہے کہ ایک علاقے سے دوسرے علاقے تک پہنچنے کے لیے راہ بن جاتی ہے یا بنا لی جا سکتی ہے |
1 | اس کی تشریح سورہ نحل حاشیہ نمبر 12 میں گزر چکی ہے |
Surah 27 : Ayat 61
أَمَّن جَعَلَ ٱلْأَرْضَ قَرَارًا وَجَعَلَ خِلَـٰلَهَآ أَنْهَـٰرًا وَجَعَلَ لَهَا رَوَٲسِىَ وَجَعَلَ بَيْنَ ٱلْبَحْرَيْنِ حَاجِزًاۗ أَءِلَـٰهٌ مَّعَ ٱللَّهِۚ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ
اور وہ کون ہے جس نے زمین کو جائے قرار بنایا1 اور اس کے اندر دریا رواں کیے اور اس میں (پہاڑوں کی) میخیں گاڑ دیں اور پانی کے دو ذخیروں کے درمیان پردے حائل کر دیے؟ 2کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور خدا بھی (اِن کاموں میں شریک) ہے؟ نہیں، بلکہ اِن میں سے اکثر لوگ نادان ہیں
2 | یعنی میٹھے اورکھارے پانی کے ذخیرے جواسی زمین پرموجود ہیں مگر باہم خلط ملط نہیں ہوتے۔ زیر زمین پانی کی سوتیں بسااوقات ایک ہی علاقے میں کھاری پانی الگ اورمیٹھا پانی الگ لےکرچلتی ہیں۔ کھاری پانی کے سمندر تک میں بعض مقامات پرمیٹھے پانی کےچشمے رواں ہوتے ہیں اوران کی دھار سمندر کے پانی سے اس طرح الگ ہوتی ہے کہ بحری مسافر اس میں سے ملنے پانی حاصل کرسکتے ہیں۔ (تفصیلی بحث کےلیے ملاحظہ ہوتفہیم القرآن، سورہ الفرقان ، حاشیہ۶۸) |
1 | زمین کا اپنی بحدوحساب مختلف النوع آبادی کےلیےجائے قرار ہونا بھی کوئی سادہ سی بات نہیں ہے۔اس کرہ خاکی کو جن حکیمانہ مناسبتوں کے ساتھ قائم کیا گیا ہے ان کی تفصیلات پرآدمی غور کرے تو اس کی عقل دنگ رہ جاتی ہے اوراسے محسوس ہوتا ہے کہ یہ مناسبتیں ایک حکیم ودانائی قادر مطلق کی تدبیر کے بغیر قائم نہ ہوسکتی تھیں۔ یہ کرہ فضائے بسیط میں معلق ہے کسی چیز پرٹکا ہوانہیں ہے مگر اس کے باوجود اس میں کوئی اضطراب اوراہتزا نہیں ہے۔ اگر اس میں ذرا سا بھی اہتزا ہوتا، جس کے خطرناک نتائج کا ہم کبھی زلزکے آجانے سے بآسانی اندازہ لگاسکتے ہیں، تو یہاں کوئی آبادی ممکن نہ تھی۔ یہ کرہ باقاعدگی کے ساتھ سورج کے سامنے آتا اورچھپتا ہے جس سے رات اور دن کا اکختلاف رونما ہوتا ہے۔ اگراس کا ایک رُخ ہر وقت سورج کےسامنے رہتا اور دوسرا رُخ ہر وقت چھپارہتا تو ہیاں کوئی آبادی ممکن نہ ہوتی کیونکہ ایک رُخ کوسردی اوربےنوری نباتات اورحیوانات کی پیدائش کے قابل نہ رکھتی اور دوسرے رُخ کوگرمی کی شدت بےآب وگیا اورغیرآبادی بنادیتی۔ اس کرہ پرپانچ سو میل کی بلندی تک ہوا کا ایک کثیف ردّاچڑھادیا گیا ہے جوشہادتوں کی خوفناک بم باری سے اسے بچائے ہوئے ہے ورنہ روزانہ دوکروڑ شہاب، جو۳۰میل فی سیکنڈ کی رفتار سے زمین کی طرف گرتے ہیں، یہاں وہ تباہی مچاتے کہ کوئی انسان،حیوان یا درخت جیتا نہ رہ سکتا تھا۔ یہی دہوا درجہ حرارت کوقابو میں رکھتی ہے، یہی سمندورںسےبادل اُٹھاتی اورزمین کے مختلف حصوں تک آب رسانی کی خدمت انجام دیتی ہے اور یہی انسان اورحیوان اورنباتات کی زندگی کومطلوبہ گیسیں فراہم کرتی ہے۔ یہ نہ ہوتی تب بھی زمین کسی آبادی کےلیے جائے قرار نہ بن سکتی۔ اُس کرے کی سطح سے بالکل متصل وہ معدنیات اورمختلف قسم کے کیماوی اجزاء بڑے پیمانے پرفراہم کردیے گئے ہیں جونباتی، حیوانی اورانسانی زندگی کےلیے مطلوب ہیں۔ جس جگہ یہ سروسامان مفقود ہوتا ہے وہاں کی زمین کسی زندگی کوسہارنے کےلائق نہیں ہوتی۔ اس کُر پر سمندروں، دریاؤں جھیلون،چشموں اورزیرزمین سوتوں کی شکل میں پانی کا بڑا عظیم الشان زخیرہ فراہم کردیا گیا کسی زندگی کا امکان نہ تھا۔ پھر اس پانی، ہواورتمام اُن اشیاء کوجوزمین پرپائی جاتی ہیں، سمیٹے رکھنے کےلیے اس کُرے میں نہایت ہی مناسب کشش رکھ دی گئی ہے ۔ یہ کشش اگر کم ہوتی تو ہوا اورپانی، دونوں کونہ روک سکتی اوردرجہ حرارت اتنا زیادہ آبی کا اُٹھنا مشکل ہوتا اوربارشیں نہ ہوسکتیں، سردی زیادہ ہوتی، زمین کے بہت کم رقبے آبادی کے قابل ہوتے، بلکہ کشش ثقل بہت زیادہ ہونے کی صورت میں انسان اورحیوانات کی جسامت بہت کم ہوتی اوران وزن اتنا زیادہ ہوتا کہ نقل وحرکت بھی ان کےلیے مشکل ہوتی۔ علاوہ بریں، اس کُرے کوسورج سے ایک خاص فاصلے پررکھا گیا ہے جو آبادی کےلیے مناسب ترین ہے۔ اگر اس کافاصلہ زیادہ ہوتا تو سورج سے اس کو حرارت کم ملتی،سردی بہت زیادہ ہوتی، موسم بہت لمبے ہوتے، اورمشکل ہی سے یہ آبادی کے قابل ہوتا۔ اوراگر فاصلہ کم ہوتا تو اس کے برعکس گرمی کی زیادتی اوردوسری بہت سی چیزیں مل جل کراسے انسان جیسی مخلوق کی سکونت کے قابل نہ رہنے دیتیں۔ یہ صرف چند وہ مناسبتیں ہیں جن کی بدولت زمین اپنی موجودہ آبادی کےلیے جائے قرار بنی ہے۔ کوئی شخص عقل رکھتا ہو اور ان امور کونگاہ میں رکھ کرسوچے تو وہ ایک لمحہ کےلیے بھی نہ یہ تصّور کرسکتا ہے کہ کسی خالق حکیم کی منصوبہ سازی کے بغیر یہ مناسبتیںمحض ایک حادثہ کے نتیجے میں خود بخود قائم ہوگئی ہیں، اورنہ یہ گمان کرسکتا ہے کہ اس عظیم الشان تخلیقی منصوبے کوبنانا اور روبعمل لانے میں کسی دیوی دیوتا، یا جن ، یانبی وولی، یا فرشتے کاکوئی دخل ہے۔ |
Surah 31 : Ayat 10
خَلَقَ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَاۖ وَأَلْقَىٰ فِى ٱلْأَرْضِ رَوَٲسِىَ أَن تَمِيدَ بِكُمْ وَبَثَّ فِيهَا مِن كُلِّ دَآبَّةٍۚ وَأَنزَلْنَا مِنَ ٱلسَّمَآءِ مَآءً فَأَنۢبَتْنَا فِيهَا مِن كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ
اس نے آسمانوں کو پیدا کیا1 بغیر ستونوں کے جو تم کو نظر آئیں2 اُس نے زمین میں پہاڑ جما دیے تاکہ وہ تمہیں لے کر ڈھلک نہ جائے3 اس نے ہر طرح کے جانور زمین میں پھیلا دیے اور آسمان سے پانی برسایا اور زمین میں قسم قسم کی عمدہ چیزیں اگا دیں
3 | تشریح کے لئے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد ۲ ، صفحہ ۵۳۰، حاشیہ نمبر ۱۲ |
2 | اصل الفاظ ہیں بِغَیْرِ عَمَدٍتَرَوْ نَھَا۔اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ایک یہ کہ ’’تم خود دیکھ رہے ہو کہ وہ بغیر ستونوں کے قائم ہیں۔‘‘ دوسرا مطلب یہ کہ ’’وہ ایسے ستونوں پر قائم ہیں جو تم کو نظر نہیں آتے‘‘۔ابن عباسؓ اور مجاہد نے دوسرا مطلب لیا ہے، اور بہت سے دوسرے مفسّرین پہلا مطلب لیتے ہیں۔موجودہ زمانے کے علومِ طبیعی کے لحاظ سے اگر اس کا مفہوم بیان کیا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہےتمام عالمِ افلاک میں یہ بے حدو احسان عظیم الشان تارے اور سیاّرے اپنے اپنے مقام و مدار پر غیر مرئی سہاروں سے قائم کئے گئے ہیں۔کوئی تار نہیں ہیں جنھوں نے ان کو ایک دوسرے سے باندھ رکھا ہو۔کوئی سلاخیں نہیں ہیں جو ان کو ایک دوسرے پر گر جانے سے روک رہی ہوں۔صرف قانونِ جذب و کشش ہے جو اس نظام کو تھامے ہوئے ہے۔یہ تعبیر ہمارے آج کے علم کے لحاظ سے ہے۔ہو سکتا ہے کہ کل ہمارے علم میں کچھ اور اضافہ ہو اور اس سے زیادہ لگتی ہوئی کوئی دوسری تعبیر اس حقیقت کی کی جا سکے۔ |
1 | اوپر کے تمہیدی فقروں کے بعد اب اصل مدّعا، یعنی تردیدِ شرک اور دعوتِ توحید پر کلام شروع ہوتا ہے۔ |
Surah 32 : Ayat 10
وَقَالُوٓاْ أَءِذَا ضَلَلْنَا فِى ٱلْأَرْضِ أَءِنَّا لَفِى خَلْقٍ جَدِيدِۭۚ بَلْ هُم بِلِقَآءِ رَبِّهِمْ كَـٰفِرُونَ
اور یہ لوگ کہتے ہیں1: "جب ہم مٹی میں رَل مِل چکے ہوں گے تو کیا ہم پھر نئے سرے سے پیدا کیے جائیں گے؟" اصل بات یہ ہے کہ یہ اپنے رب کی ملاقات کے منکر ہیں
2 | اوپر کے فقرے اور اس فقرے کے درمیان پوری ایک داستان کی داستان ہے جسے سامع کے ذہن پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ کفّار کا جو اعتراض پہلے فقرے میں نقل گیا ہے وہ اتنا مہمل ہے کہ اس کی تردید کی حاجت محسوس نہیں کی گئی۔ اس کا محض نقل کر دینا ہی اس کی لغویت ظاہر کرنے کے لیے کافی سمجھا گیا ۔ اس لیے کہ ان کا اعتراض جن دواجزاء پر مشتمل ہے وہ دونوں ہی سراسر غیر معقول ہیں۔ ان کا یہ کہنا کہ’’ہم مٹی میں رَل مِل چکے ہوں گے‘‘ آخر کیا معنی رکھتا ہے۔’’ہم‘‘ جس چیز کا نام ہے وہ مٹی میں کب رَ لتی مِلتی ہے؟(مٹی میں تو صرف وہ جسم ملتا ہے جس سے’’ہم‘‘نکل چکا ہوتا ہے۔ اس جسم کا نام ’’ہم‘‘ نہیں ہے۔ زندگی کی حالت میں جب اس جسم کے اعضاء کاٹے جاتے ہیں تو عضو پرعضو کٹتا چلا جاتا ہے مگر’’ہم‘‘ ہم پورا کا پورا اپنی جگہ موجود رہتا ہے۔ اس کا کوئی جُز بھی کسی کٹے ہوئے عضو کے ساتھ نہیں جاتا۔ اور جب یہ ’’ہم‘‘ کسی جسم میں سے نکل جاتا ہے تو پورا جسم موجود ہوتے ہوئے بھی اس پر اس ’’ہم‘‘ کے کسی ادنی شائبے تک کا اطلاق نہیں ہوتا۔اسی لیے تو ایک عاشق جاں نثار اپنے معشوق کے مُردہ جسم کو لے جا کر دفن کردیتا ہے، کیونکہ معشوق اس جسم سے نکل چکا ہوتا ہے۔ اور وہ معشوق نہیں بلکہ اس کا خالی جسم کو دفن کرتا ہے جس میں کبھی اس کا معشوق رہتا تھا۔ پس معترضین کے اعتراض کا پہلا مقدمہ ہی بے بنیاد ہے۔ رہا اس کا دوسرا جز: ’’کیا ہم پھر نئے سرے سے پیدا کیے جائیں گے‘‘؟تو یہ انکارو تعجب کے انداز کا سوال سرے سے پیدا ہی نہ ہوتا اگر معترضین نے بات کرنے سے پہلے اس ’’ ہم‘‘ اوراس کے پیدا کیے جانے کے مفہوم پرایک لمحہ کے لیے کچھ غور کرلیا ہوتا۔اس’’ہم‘‘ کی موجودہ پیدائش اس کے سوا کیا ہے کہیں لوہا اوراسی طرح کے دوسرے اجزاء جمع ہوئے اور اس کالبُد خاکی میں یہ ’’ہم‘‘ براجمان ہو گیا۔ پھر اس کی موت کے بعد کیا ہوتا ہے؟ اس لبدِ خاکی میں سے جب ’’ہم‘‘ نِکل جاتا ہے تو اس کا مکان تعمیر کرنے کے لیے جو اجزاء زمین کے مختلف حصوں سے فراہم کیے گئے تھے وہ سب اسی زمین میں واپس چلے جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جس نے پہلے اس ’’ہم‘‘کو یہ مکان بنا کر دیا تھا، کیا وہ دوبارہ اسی سر وسامان سے وہی مکان بنا کر اسے ازسر نواس میں نہیں بسا سکتا؟ یہ چیز جب پہلے ممکن تھی اور واقعہ کی صورت میں رونما ہو چکی ہے، تو دوبارہ اس کے ممکن ہونے اور واقعہ بننے میں آخر کیا امر مانع ہے؟ یہ باتیں ایسی ہیں جنہیں ذرا سی عقل آدمی استعمال کرے تو خود ہی سمجھ سکتا ہے۔ لیکن وہ اپنی عقل کواس رُخ پر کیوں نہیں جانے دیتا؟ کیا وجہ ہے کہ وہ بے سوچے سمجھے حیات بعد الموت اورآخرت پر اس طرح کے لا یعنی اعتراضات جڑتا ہے؟بیچ کی ساری بحث چھوڑ کراللہ تعالٰی دوسرے فقرے میں اسی فقرے میں اسی سوال کا جواب دیتا ہے کہ ’’دراصل یہ اپنے رب کی ملاقات کے منکر ہیں‘‘۔ یعنی اصل بات یہ نہیں ہے کہ دوبارہ پیدائش کوئی بڑی ہی انوکھی اور بعید ازامکان بات ہے جو ان کی سمجھ میں نہ آسکتی ہو، بلکہ دراصل جو چیز انہیں یہ بات سمجھنے سے روکتی ہے وہ ان کی یہ خواہش ہے کہ ہم زمین میں چھُوٹے پھریں اور دِل کھول کر گناہ کریں اور پھر نِلُوہ (Scot-ires)یہاں سے نکل جائیں۔ پھر ہم سے کوئی پوچھ کچھ نہ ہو۔ پھر اپنے کرتوتوں کا کوئی حساب ہمیں نہ دینا پڑے۔ |
1 | رسالت اور توحید پر کفار کے اعتراضات کا جواب دینے کے بعد اب اسلام کے تیسرے بُنیادی عقیدے یعنی آخرت پر اُن کے اعتراض کو لے کراس کا جواب دیا جاتا ہے۔ آیت میں وَقَالُوْا کا واؤ عطف مضمونِ ماسبق سے اس پیراگراف کا تعلق جوڑتا ہے۔ گویا ترتیب کلام یوں ہے کہ’’وہ کہتے ہیں محمدؐ اللہ کے رسول نہیں ہیں‘‘اور’’ وہ کہتے ہیں کہ ہم مر کردوبارہ نہ اُٹھیں گے‘‘۔ |
Surah 50 : Ayat 7
وَٱلْأَرْضَ مَدَدْنَـٰهَا وَأَلْقَيْنَا فِيهَا رَوَٲسِىَ وَأَنۢبَتْنَا فِيهَا مِن كُلِّ زَوْجِۭ بَهِيجٍ
اور زمین کو ہم نے بچھایا اور اس میں پہاڑ جمائے اور اُس کے اندر ہر طرح کی خوش منظر نباتات اگا دیں1
1 | تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم، النحل، حواشی 12۔13۔14۔ جلد سوم، النمل، حواشی 73۔74۔ جلد چہارم، الزخرف، حاشیہ 7 |
Surah 77 : Ayat 27
وَجَعَلْنَا فِيهَا رَوَٲسِىَ شَـٰمِخَـٰتٍ وَأَسْقَيْنَـٰكُم مَّآءً فُرَاتًا
اور اس میں بلند و بالا پہاڑ جمائے، اور تمہیں میٹھا پانی پلایا1؟
1 | یہ آخرت کے ممکن اور معقول ہونے پرایک دلیل ہے۔ یہی ایک کرہ زمین ہے جوکروڑوں اوراربوں سال سے بے حدوحساب مخلوقات کو اپنی گود میں لیے ہوئے ہے، ہر قسم کی نباتات، ہر قسم کے حیوانات اور انسان اس پر جی رہے ہیں اور سب کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اس کے پیٹ میں سے طرح طرح کے اتھاہ خزانے نکلتے چلےآرہے ہیں۔ پھر یہی زمین ہے جس پران تمام اقسام کی مخلوقات کے بے شمارافراد روز مرتے ہیں، مگر ایسا بے نظیر انتظام کر دیا گیا ہے کہ سب کے لاشے اسی زمین میں ٹھکانے لگ جاتے ہیں اور یہ پھر ہرمخلوق کے نئےافراد کے جینےاوربسنے کے لیے تیارہوجاتی ہے۔ اس زمین کو سپاٹ گیند کی طرح بھی بنا کر نہیں رکھ دیا گیا ہے بلکہ اس میں جگہ جگہ پہاڑی سلسلے اور فلک بوس پہاڑ قائم کیے گئے ہیں جن کا موسموں کے تغیرات میں،بارشوں کے برسنے میں، دریاؤں کی پیدائش میں، زرخیزوادیوں کےوجود میں، بڑے بڑے شہتیر فراہم کرنے والے درختوں کے اگنے میں، قسم قسم کی معدنیات اورطرح طرح کے پتھروں کی فراہمی میں بہت بڑا دخل ہے۔ پھراس زمین کے پیٹ میں بھی میٹھا پانی پیدا کیا گیا ہے، اس کی پیٹھ پر بھی میٹھےپانی کی نہریں بہا دی گئی ہیں اور سمندر کے کھاری پانی سے صاف ستھرے بخارات اٹھا کر بھی نتھراہوا پانی آسمان سے برسانے کا انتظام کیا گیا ہے۔ کیا یہ سب اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ ایک قا درِمطلق نے یہ سب کچھ بنایا ہے، اور محض قادر ہی نہیں ہے بلکہ علیم وحکیم بھی ہے؟ اب اگر اس قدرت اورحکمت ہی سے یہ زمین اس سرد سامان کے ساتھ اوران حکمتوں کے ساتھ بنی ہے تو ایک صاحبِ عقل آدمی کو یہ سمجھنے میں کیوں مشکل پیش آتی ہے کہ اسی کی قدرت اس دنیا کی بساط لپیٹ کر پھر ایک دوسری دنیا نئے طرز پر بنا سکتی ہے، اور اس کی حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اس کے بعد ایک دوسری دنیا بنائے تاکہ انسان سے ان اعمال کا حساب لے جو اس نے اس دنیا میں کیے ہیں |
Surah 79 : Ayat 32
وَٱلْجِبَالَ أَرْسَـٰهَا
اور پہاڑ اس میں گاڑ دیے