Ayats Found (7)
Surah 17 : Ayat 35
وَأَوْفُواْ ٱلْكَيْلَ إِذَا كِلْتُمْ وَزِنُواْ بِٱلْقِسْطَاسِ ٱلْمُسْتَقِيمِۚ ذَٲلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلاً
پیمانے سے دو تو پورا بھر کر دو، اور تولو تو ٹھیک ترازو سے تولو1 یہ اچھا طریقہ ہے اور بلحاظ انجام بھی یہی بہتر ہے2
2 | یعنی دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ دنیا میں اس کا انجام اس لیے بہتر ہے کہ اس سے باہمی اعتماد قائم ہوتا ہے، بائع اور خریداری دونوں ایک دوسرے پر بھروسہ کرتے ہیں، اور یہ چیز انجام کار تجارت کے فروغ اور عام خوشحالی کی موجب ثابت ہوتی ہے۔ رہی آخرت، تو وہاں انجام کی بھلائی کا سارا دارومدار ہی ایمان اور خدا ترسی پر ہے۔ |
1 | یہ ہدایت بھی صرف افراد کے باہمی معاملات تک محدود نہ رہی، بلکہ اسلامی حکومت کے قیام کے بعد یہ حکومت کے فرائض میں داخل کی گئی کہ وہ منڈیوں اور بازاروں میں اوزان اور پیمانوں کی نگرانی کرے اور تطفیف کو بزور بند کردے۔ پھر اسی سے یہ وسیع اصول اخذ کیا گیا کہ تجارت اور معاشی لین دین میں ہر قسم کی بے ایمانیوں اور حق تلفیوں کا سد باب کرنا حکومت کے فرائض میں سے ہے۔ |
Surah 26 : Ayat 181
۞ أَوْفُواْ ٱلْكَيْلَ وَلَا تَكُونُواْ مِنَ ٱلْمُخْسِرِينَ
پیمانے ٹھیک بھرو اور کسی کو گھاٹا نہ دو
Surah 26 : Ayat 182
وَزِنُواْ بِٱلْقِسْطَاسِ ٱلْمُسْتَقِيمِ
صحیح ترازو سے تولو
Surah 26 : Ayat 183
وَلَا تَبْخَسُواْ ٱلنَّاسَ أَشْيَآءَهُمْ وَلَا تَعْثَوْاْ فِى ٱلْأَرْضِ مُفْسِدِينَ
اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دو زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو
Surah 55 : Ayat 8
أَلَّا تَطْغَوْاْ فِى ٱلْمِيزَانِ
اِس کا تقاضا یہ ہے کہ تم میزان میں خلل نہ ڈالو
Surah 55 : Ayat 9
وَأَقِيمُواْ ٱلْوَزْنَ بِٱلْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُواْ ٱلْمِيزَانَ
انصاف کے ساتھ ٹھیک ٹھیک تولو اور ترازو میں ڈنڈی نہ مارو1
1 | یعنی چونکہ تم ایک متوازن کائنات میں رہتے ہو جس کا سارا نظام عدل پر قائم کیا گیا ہے، اس لیے تمہیں بھی عدل پر قائم ہونا چاہیے۔ جس دائرے میں تمہیں اختیار دیا گیا ہے اس میں اگر تم بے انصافی کرو گے، اور جن حق داروں کے حقوق تمہارے ہاتھ میں دیے گۓ ہیں اگر تم ان کے حق مارو گے تو یہ فطرت کائنات سے تمہاری بغاوت ہو گی۔ اس کائنات کی فطرت ظلم و بے انصافی اور حق ماری کو قبول نہیں کرتی۔ یہاں ایک بڑا ظلم تو درکنار،ترازو میں ڈنڈی مار کر اگر کوئی شخص خریدار کے حصہ کی ایک تولہ بھر چیز بھی مار لیتا ہے تو میزان ِ عالم میں خلل برپا کر دیتا ہے۔ یہ قرآن کی تعلیم کا دوسرا اہم حصہ ہے جو ان تین آیتوں میں بیان کیا گیا ہے۔ پہلی تعلیم ہے توحید اور دوسری تعلیم ہے عدل۔ اس طرح چند مختصر فقروں میں لوگوں کو بتا دیا گیا ہے کہ انسان کی رہنمائی کے لیے خداۓ رحمان نے جو قرآن بھیجا ہے وہ کیا تعلیم لے کر آیا ہے |
Surah 57 : Ayat 25
لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِٱلْبَيِّنَـٰتِ وَأَنزَلْنَا مَعَهُمُ ٱلْكِتَـٰبَ وَٱلْمِيزَانَ لِيَقُومَ ٱلنَّاسُ بِٱلْقِسْطِۖ وَأَنزَلْنَا ٱلْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ وَمَنَـٰفِعُ لِلنَّاسِ وَلِيَعْلَمَ ٱللَّهُ مَن يَنصُرُهُۥ وَرُسُلَهُۥ بِٱلْغَيْبِۚ إِنَّ ٱللَّهَ قَوِىٌّ عَزِيزٌ
ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا، اور اُن کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں1، اور لوہا اتارا جس میں بڑا زور ہے اور لوگوں کے لیے منافع ہیں2 یہ اس لیے کیا گیا ہے کہ اللہ کو معلوم ہو جائے کہ کون اُس کو دیکھے بغیر اس کی اور اُس کے رسولوں کی مدد کرتا ہے یقیناً اللہ بڑی قوت والا اور زبردست ہے3
3 | یعنی اللہ کو اس مدد کی ضرورت کچھ اس وجہ سے نہیں ہے کہ وہ کمزور ہے ، اپنی طاقت سے یہ کام نہیں کر سکتا۔ بلکہ یہ طریق کار اس نے انسانوں کی آزمائش کے لیے اختیار فرمایا ہے اور اسی آزمائش سے گزر کر انسان اپنی ترقی اور فلاح کی راہ پر آگے بڑھ سکتا ہے ۔ اللہ تو ہر وقت یہ قدرت رکھتا ہے کہ جب چاہے اپنے ایک اشارے سے تمام کافروں کو مغلوب کر دے اور اپنے رسولوں کو ان پر غلبہ و تسلط عطا فرما دے ۔ مگر اس میں پھر رسولوں پر ایمان لانے والوں کا کیا کمال ہو گا جس کی بنا پروہ کسی انعام کے مستحق ہوں ؟ اسی لیے اللہ نے اس کام کو اپنی غالب قدرت سے انجام دینے کے بجاۓ طریق کار یہ اختیار فرمایا کہ اپنے رسولوں کو بینات اور کتاب اور میزان دے کر انسانوں کے درمیان مبعوث کر دیا۔ ان کو اس بات پر مامور فرمایا کہ لوگوں کے سامنے عدل کا راستہ پیش کریں اور ظلم و جور اور بے انصافی سے باز آ جانے کیا ان کو دعوت دیں ۔ انسانوں کو اس امر کا پورا اختیار دے دیا کہ ان میں سے جو چاہے رسولوں کی دعوت قبول کرے اور جو چاہے اسے رد کر دے ۔ قبول کرنے والوں کو پکارا کہ آؤ، اس عدل کے نظام کو قائم کرنے میں میرا اور میرے رسولوں کا ساتھ دو اور ان لوگوں کے مقابلہ میں جان توڑ جدو جہد کرو جو ظلم و جور کے نظام کو باقی رکھنے پر تلے ہوۓ ہیں ۔ اس طرح اللہ تعالیٰ یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ انسانوں میں سے کون ہیں جو انصاف کی بات کو رد کرتے ہیں ، اور کون ہیں جو انصاف کے مقابلے میں بے انصافی قائم رکھنے کے لیے اپنی جان لڑاتے ہیں ، اور کون ہیں جو انصاف کی بات قبول کر لینے کے بعد اس کی حمایت اور اس کی خاطر جد و جہد کرنے سے جی چراتے ہیں ، اور کون ہیں جو ان دیکھے خدا کی خاطر دنیا میں اس حق کو غالب کرنے کے لیے جان و مال کی بازی لگا دیتے ہیں ۔ اس امتحان سے جو لوگ کامیاب ہو کر نکلیں گے انہی کے لیے آئندہ ترقیوں کے دروازے کھلیں گے |
2 | لوہا اتارنے کا مطلب زمین میں لوہا پیدا کرنا ہے ، جیسا کہ ایک دوسری جگہ قرآن میں فرمایا سَاَنْزَلَ لَکُمْ مِّنَالْاَنْعَامِ ثَمَانِیَۃَاَزْوَاجٍ (الزمر، 6)۔ ’’ اس نے تمہارے لیے مویشیوں کی قسم کے آٹھ نر و مادہ اتارے ۔ ‘‘چونکہ زمیں میں جو کچھ پایا جاتا ہے وہ اللہ تعالٰی کے حکم سے یہاں آیا ہے ، خود بخود نہیں بن گیا ہے ، اس لیے ان کے پیدا کیے جانے کو قرآن مجید میں نازل کیے جانے سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ انبیاء علیہم السلام کے مشن کو بیان کرنے کے معاً بعد یہ فرمانا کہ ’’ ہم نے لوہا نازل کیا جس میں بڑا زور اور لوگوں کے لیے منافع ہیں ‘‘، خود بخود اس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہاں لوہے سے مراد سیاسی اور جنگی طاقت ہے ، اور کلام کا مدعا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو قیام عدل کی محض ایک اسکیم پیش کر دینے کے لیے مبعوث نہیں فرمایا تھا بلکہ یہ بات بھی ان کے مشن میں شامل تھی کہ اس کو عملاً نافذ کرنے کی کوشش کی جاۓ اور وہ قوت فراہم کی جاۓ جس سے فی الواقع عدل قائم ہو سکے ، اسے درہم برہم کرنے والوں کو سزا دی جا سکے اور اس کی مزاحمت کرنے والوں کا زور توڑا جا سکے |
1 | اس مختصر سے فقرے میں انبیاء علیہم السلام کے مشن کا پورا لب لباب بیان کر دیا گیا ہے جسے اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے ۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ دنیا میں خدا کے جتنے رسول بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آۓ وہ سب تین چیزیں لے کر آۓ تھے : (1) بینات، یعنی کھلی کھلی نشانیاں جو واضح کر رہی تھیں کہ یہ واقعی اللہ کے رسول ہیں ، بنے ہوۓ لوگ نہیں ہیں ۔ روشن دلائل جو اس بات کو ثابت کرنے کے لیے بالکل کافی تھے کہ جس چیز کو وہ حق کہہ رہے ہیں وہ واقعی حق ہے اور جس چیز کو وہ باطل قرار دے رہے ہیں وہ واقعی باطل ہے ۔ واضح ہدایات جن میں کسی اشتباہ کے بغیر صاف صاف بتا دیا گیا تھا کہ عقائد، اخلاق، عبادات اور معاملات میں لوگوں کے لیے راہ راست کیا ہے جسے وہ اختیار کریں اور غلط راستے کون سے ہیں جن سے وہ اجتناب کریں ۔ (2) کتاب، جس میں وہ ساری تعلیمات لکھ دی گئی تھیں جو انسان کی ہدایت کے لیے درکار تھیں تاکہ لوگ رہنمائی کے لیے اس کی طرف رجوع کر سکیں ۔ (3) میزان، یعنی وہ معیار حق و باطل جو ٹھیک ٹھیک ترازو کی تول تول کر یہ بتا دے کہ افکار، اخلاق اور معاملات میں افراط و تفریط کی مختلف انتہاؤں کے درمیان انصاف کی بات کیا ہے ۔ ان تین چیزوں کے ساتھ انبیاء علیہم السلام کو جس مقصد کے لیے بھیجا گیا وہ یہ تھا کہ دنیا میں انسان کا رویہ اور انسانی زندگی کا نظام، فرداً فرداً بھی اور اجتماعی طور پر بھی، عدل پر قائم ہو۔ ایک طرف ہر انسان اپنے خدا کے حقوق، اپنے نفس کے حقوق اور ان تمام بندگان خدا کے حقوق، جن سے اس کو کسی طور پر سابقہ پیش آتا ہے ، ٹھیک ٹھیک جان لے اور پورے انصاف کے ساتھ ان کو ادا کرے ۔ اور دوسری طرف اجتماعی زندگی کا نظام ایسے اصولوں پر تعمیر کیا جاۓ جن سے معاشرے میں کسی نوعیت کا ظلم باقی نہ رہے ، تمدن و تہذیب کا ہر پہلو افراط و تفریط سے محفوظ ہو، حیات اجتماعی کے تمام شعبوں میں صحیح صحیح توازن قائم ہو، اور معاشرے کے تمام عناصر انصاف کے ساتھ اپنے حقوق پائیں اور اپنے فرائض ادا کریں ۔ بالفاظ دیگر انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا مقصود عدل انفرادی بھی تھا اور عدل اجتماعی بھی۔ وہ ایک ایک فرد کی شخصی زندگی میں بھی عدل قائم کرنا چاہتے تھے تاکہ اس کے ذہن، اس کی سیرت، اس کے دردار اور اس کے برتاؤ میں توازن پیدا ہو۔ اور انسانی معاشرے کے پورے نظام کو بھی عدل پر قائم کرنا چاہتے تھے تاکہ فرد اور جماعت دونوں ایک دوسرے کی روحانی، اخلاقی اور مادی فلاح میں مانع و مزاحم ہونے کے بجاۓ معاون و مدد گار ہوں |