Ayats Found (4)
Surah 6 : Ayat 152
وَلَا تَقْرَبُواْ مَالَ ٱلْيَتِيمِ إِلَّا بِٱلَّتِى هِىَ أَحْسَنُ حَتَّىٰ يَبْلُغَ أَشُدَّهُۥۖ وَأَوْفُواْ ٱلْكَيْلَ وَٱلْمِيزَانَ بِٱلْقِسْطِۖ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَاۖ وَإِذَا قُلْتُمْ فَٱعْدِلُواْ وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰۖ وَبِعَهْدِ ٱللَّهِ أَوْفُواْۚ ذَٲلِكُمْ وَصَّـٰكُم بِهِۦ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ
اور یہ کہ یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ مگر ایسے طریقہ سے جو بہترین ہو1، یہاں تک کہ وہ اپنے سن رشد کو پہنچ جائے اور ناپ تول میں پورا انصاف کرو، ہم ہر شخص پر ذمہ داری کا اتنا ہی بار رکھتے ہیں جتنا اس کے امکان میں ہے2، اور جب بات کہو انصاف کی کہو خواہ معاملہ اپنے رشتہ دار ہی کا کیوں نہ ہو، اور اللہ کے عہد کو پورا کرو3 ان باتوں کی ہدایت اللہ نے تمہیں کی ہے شاید کہ تم نصیحت قبول کرو
3 | اللہ کے عہد سے مراد وہ عہد بھی ہے جو انسان اپنے خدا سے کرے، اور وہ بھی جو خدا کا نام لے کر بندوں سے کرے، اور وہ بھی جو انسان اور خدا، اور انسان اور انسان کے درمیان اُسی وقت آپ سے آپ بندھ جاتا ہے جس وقت ایک شخص خدا کی زمین میں ایک انسانی سوسائیٹی کے اندر پیدا ہوتا ہے
پہلے دونوں عہد شعوری وارادی ہیں، اور یہ تیسرا عہد اہک فطری عہد (Natural Contract) ہے جس کے باندھنے میں اگرچہ انسان مکے ارادے کا کوئی دخل نہیں ہے، لیکن واجب الاحترم ہونے میں یہ پہلے دونوں عہدوں سے کسی طرح کم نہیں ہے۔ کسی شخص کا خدا کے بخشے ہوئے وجود سے، اس کی عطا کی ہوئی جسمانی و نفسانی قوتوں سے، اس کے دیے ہوئے جسمانی آلات سے، اور اس کی پیدا کی ہوئی زمین اور رزق اور ذرائع سے فائدہ اُٹھانا، اور اُن مواقع زندگی سے متمتع ہونا قوانین قدرت کی بدولت فراہم ہوتے ہیں، خود بخود فطرۃ خدا کے کچھ حقوق اس پر عائد کر دیتا ہے۔ اور اسی طرح آدمی کا ایک ماں کے پیٹ میں اس کے خون سے پرورش پانا، ایک باپ کی مختوں سے بسے ہوئے گھر میں پیدا ہونا، اور ایک اجتماعی زندگی کے بے شمار اداروں سے مختلف صُورتوں میں متمتع ہونا علی قدر مراتب اس کے ذمہ بہ سے افراد اور اجتماعی اداروں کے حقوق بھی عائد کر دیتا ہے۔ انسان کا خدا سے اور انسان کا سوسائیٹی سے یہ عہد کسی کاغذ پر نہیں لکھا گیا، مگر اس کے رونگٹے رونگٹے پرثبت ہے۔ انسان نے اسے شعُورو ارادہ کے ساتھ نہیں باندھا، مگر اس کا پورا وجود اسی عہد کا رہین منت ہے۔ اسی عہد کی سُورہ بقرہ آیت ۲۷ میں اشارہ کیا گیا ہے کہ فاسق وہ ہیں جو، اللہ کے عہد کو اس کی استواری کے بعد توڑتے ہیں، اور جسے اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے اسے کاٹتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں۔ اور اسی کا ذکر آگے چل کر سُورہ اعراف ۱۷۲ میں آتا ہے کہ اللہ نے ازل میں آدم کی پیٹھوں سے ان کی ذریت کو نکال کر ان سے شہادت کو نکال کر ان سے شہادت طلب کی تھی کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ اورانہوں نے اقرار کیا تھا کہ ہاں ہم گواہ ہیں۔ |
2 | یہ اگرچہ شریعتِ الہٰی کا ایک مستقل اُصُول ہے ، لیکن یہاں اس کے بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جو شخص اپنی حد تک تاپ تول اور لین دین کے معاملات میں راستی و انصاف سے کام لینے کی کوشش کرے وہ اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو جائے گا۔ بھُول چوک یا نادانستہ کمی وہ بیشی ہو جانے پر اس سے باز پُرس نہ ہوگی |
1 | یعنی ایسا طریقہ جو زیادہ سے زیادہ بے غرضی، نیک نیتی اور یتیم کی خیر خواہی پر مبنی ہو، اور جس پر خدا اور خلق کسی کی طرف سے بھی تم اعتراض کے مستحق نہ ہو |
Surah 7 : Ayat 85
وَإِلَىٰ مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًاۗ قَالَ يَـٰقَوْمِ ٱعْبُدُواْ ٱللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَـٰهٍ غَيْرُهُۥۖ قَدْ جَآءَتْكُم بَيِّنَةٌ مِّن رَّبِّكُمْۖ فَأَوْفُواْ ٱلْكَيْلَ وَٱلْمِيزَانَ وَلَا تَبْخَسُواْ ٱلنَّاسَ أَشْيَآءَهُمْ وَلَا تُفْسِدُواْ فِى ٱلْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَـٰحِهَاۚ ذَٲلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
اور مدین1 والوں کی طرف ہم نے ان کے بھائی شعیبؑ کو بھیجا اس نے کہا 2"اے برادران قوم، اللہ کی بندگی کرو، اُس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے تمہارے پاس تمہارے رب کی صاف رہنمائی آ گئی ہے، لہٰذا وزن اور پیمانے پورے کرو، لوگوں کو اُن کی چیزوں میں گھاٹا نہ دو، اور زمین میں فساد برپا نہ کرو جب کہ اس کی اصلاح ہو چکی ہے3، اسی میں تمہاری بھلائی ہے اگر تم واقعی مومن ہو4
4 | اس فقرے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ لوگ خود مدعی ایمان تھے۔ جیسا کہ اوپر ہم ارشاد ر چکے ہیں ، یہ دراصل بگڑے ہوئے مسلمان تھے اور اعتقادی و اخلاقی فساد میں مبتلا ہونے کے با وجود ان کے اندر نہ صرف ایمان کا دعویٰ باقی تھا بلکہ اس پر انہیں فخر بھی تھا۔ اسی لیے حضرت شعیب نے فرمایا کہ اگرتم مومن ہو تو تمہارے نزدیک خیر اور بھلائی راستبازی اور دیانت میں ہونی چاہیے اور تمہارے میارِ خیر و شر اُن دنیا پرستوں سے مختلف ہونا چاہیے جو خدا اور آخرت کو نہیں مانتے |
3 | اس فقرے کی جامع تشریح اس سورة اعراف کے حواشی ۴۴،۴۵ میں گزر چکی ہے ۔ یہاں خصوصیت کے ساتھ حضرت شعیب کے اس قول کا ارشاد اس طرح ہے کہ دینِ حق اور اخلاق صالحہ پر زندگی کا جو نظام انبیائے سابقین کی ہدایت و رہنما ئی قائم ہو چکا تھا، اب تم اسے اپنی اعتقادی گمراہیوں اور اخلاقی بد راہیوں سے خراب نہ کرو |
2 | اس سے معلوم ہوا کہ اس قوم میں دو بڑی خرابیاں پائی جاتی تھی۔ ایک شرک ، دوسرے تجارتی معاملا ت میں بد دیانتی ۔ اور انہی دونوں چیزوں کی اصلاح کے لیے حضرت شعیب مبعوث ہوئے تھے |
1 | مَدیَن کا اصل علاقہ حجاز کے شمال مغرب اور فلسطین کے جنوب میں بحِراحمر اور خلیج عقبہ کے کنارے پر واقع تھا مگر جزیرہ نما ئے سینا کے مشرقی ساحل پر بھی اس کا کچھ سلسلہ پھیلا ہوا تھا۔ یہ ایک بڑی تجارت پیشہ قوم تھی۔ قدیم زمانہ میں جو تجارتی شاہ راہ بحِر احمر کے کنارے یمن سے مکہ اور یَنبوع ہوتی ہوئی شام تک جاتی تھی، اور ایک دوسری تجارتی شاہ راہ جو عراق سے مصر کی طرف جاتی تھی، اس کے عین چوراہے پر اس قوم کی بستیاں واقع تھیں۔ اسی بناء پر عرب کا بچہ بچہ مَدیَن سے واقف تھا اور اس کے مٹ جانے کے بعد بھی عرب میں اس کی شہرت برقرار رہی ۔ کیونکہ عربوں کے تجارتی قافلے مصر اور شام کی طرف جاتے ہوئے رات دن اس کے آثارِ قدیمہ کے درمیان سے گزرتے تھے۔ اہل مَد یَن کے متعلق ایک اور ضروری بات ، جس کو اچھی طرح ذہن نشین کر لینا چاہیے، یہ ہے کہ یہ لوگ دراصل حضرت ابراہیم علیہ السلام کے صاحبزادے مِد یان کی طرف منسوب ہیں جو ان کی تیسری بیوی قَطُوراء کے بطن سے تھے۔ قدیم زمانہ کے قاعدے کے مطابق جو لوگ کسی بڑے آدمی کے ساتھ وابستہ ہو جاتے تھے وہ رفتہ رفتہ اسی کی آل اولاد میں شمار ہو کر بنی فلاں کہلانے لگتے تھے، اسی قاعدے پر عرب کی آبادی کا بڑا حِصہ بنی اسماعیل کہلایا۔ اور اولاد یعقوب کے ہاتھ پر مشرف باسلام ہونے والے لوگ سب کے سب بنی اسرائیل کے جامع نام کے تحت کھپ گئے۔ اسی طرح مَد یَن کے علاقے کی ساری آبادی بھی جو مد یان بن ابراہیم علیہ السلام کے زیر اثر آئی، بنی مدیان کہلائی اور ان کے ملک کا نام ہی مَد یَن یا مَد یان مشہور ہو گیا۔ اس تاریخی حقیقت کو جان لینے کےبعد یہ گمان کرنے کی کوئی وجہ باقی نہیں رہتی کہ اس قوم کو دین ِحق کی آواز پہلی مرتبہ حضرت شعیب کے ذریعہ سے پہنچی تھی۔ درحقیقت بنی اسرائیل کی طرح ابتداء ً وہ بھی مسلمان ہی تھے اور شعیب علیہ السلام کے ظہور کے وقت ان کی حالت ایک بگڑی ہوئی مسلمان قوم کی سی تھی جیسی ظہور موسیً علیہ السلام کے وقت بنی اسرائیل کی حالت تھی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد چھ سات سو برس تک مشرک اور بد اخلاق قوموں کے درمیان رہتے رہتے یہ لوگ شرک بھی سیکھ گئے تھے اور بد اخلاقیوں میں بھی مبتلا ہو گئے تھے، مگر اس کے با وجود ایمان کا دعویٰ اور اس پر فخر بر قرار تھا |
Surah 11 : Ayat 74
فَلَمَّا ذَهَبَ عَنْ إِبْرَٲهِيمَ ٱلرَّوْعُ وَجَآءَتْهُ ٱلْبُشْرَىٰ يُجَـٰدِلُنَا فِى قَوْمِ لُوطٍ
پھر جب ابراہیمؑ کی گھبراہٹ دور ہو گئی اور (اولاد کی بشارت سے) اس کا دل خوش ہو گیا تو اس نے قوم لوط کے معاملے میں ہم سے جھگڑا شروع کیا1
1 | ’’جھگڑے کا لفظ اس موقع پر اُس انتہائی محبت اور ناز کے تعلق کو ظاہر کرتا ہے جو حضرت ابراہیمؑ اپنے خدا کے ساتھ رکھتے تھے اس لفٓظ سے یہ تصویر آنکھوں کے سامنے پھر جاتی ہے کہ بندے اور خدا کے درمیان بڑی دیر تک رددکد جاری رہتی ہے۔بندہ اصرار کر رہا ہے کہ کسی طرح قوم لوطؑ پر سے عذاب ٹال دیا جائے۔خدا جواب میں کہہ رہا ہے کہ یہ قوم اب خیر سے با لکل خالی ہو چکی ہے اور اس کے جرائم اس حد سے گزر چکے ہیں کہ اس کے ساتھ کوئی رعایت کی جا سکےمگر بندہ ہے کہ پھریہی کہے جاتا ہ کہ’’پروردگار‘‘اگر کچھ تھوڑی سی بھلائی بھی اس میں باقی ہو تو اسے اور ذرا مہلت دیدے،شاید کہ وہ بھلائی پھل لے آئے بائیبل میں اس جھگڑے کی کچھ تشریح بھی بیان ہوئی ہے لیکن قرآن کا مجمل بیان اپنے اندراس سے زیادہ معنوی وسعت رکھتا ہے۔(تقابل کے لیے ملاحظہ ہو کتاب پیدائش،باب۱۸۔آیت۲۳۔۳۲) |
Surah 11 : Ayat 75
إِنَّ إِبْرَٲهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّٲهٌ مُّنِيبٌ
حقیقت میں ابراہیمؑ بڑا حلیم اور نرم دل آدمی تھا اور ہر حال میں ہماری طرف رجوع کرتا تھا