Ayats Found (4)
Surah 71 : Ayat 17
وَٱللَّهُ أَنۢبَتَكُم مِّنَ ٱلْأَرْضِ نَبَاتًا
اور اللہ نے تم کو زمین سے عجیب طرح اگایا1
1 | یہاں زمین کے مادوں سے انسان کی پیدائش کو نباتات کے اگنے سے تشبیہ دی گئی ہے جس طرح کسی وقت اس کُرے پر نباتات موجود نہ تھیں اور پھر اللہ تعالی نے یہاں ان کو اگایا، اسی طرح ایک وقت تھا جب روئے زمین پر انسان کا کوئی وجود نہ تھا، پھر اللہ تعالی نے یہاں اس کی پَود لگائی |
Surah 2 : Ayat 36
فَأَزَلَّهُمَا ٱلشَّيْطَـٰنُ عَنْهَا فَأَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِيهِۖ وَقُلْنَا ٱهْبِطُواْ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّۖ وَلَكُمْ فِى ٱلْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَـٰعٌ إِلَىٰ حِينٍ
آخر کار شیطان نے ان دونوں کو اس درخت کی ترغیب دے کر ہمارے حکم کی پیروی سے ہٹا دیا اور انہیں اُس حالت سے نکلوا کر چھوڑا، جس میں وہ تھے ہم نے حکم دیا کہ، 1"اب تم سب یہاں سے اتر جاؤ، تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور تمہیں ایک خاص وقت تک زمین ٹھیرنا اور وہیں گزر بسر کرنا ہے"
1 | یعنی انسان کا دشمن شیطان، اور شیطان کا دشمن انسان ۔ شیطان کا دشمن انسان ہونا تو ظاہر ہے کہ وہ اسے اللہ کی فرماں برداری کے راستے سے ہٹانے اور تباہی میں ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔ رہا انسان کا دشمن شیطان ہونا، تو فی الواقع انسانیت تو اس سے دُشمنی ہی کی مقتضی ہے، مگر خواہشاتِ نفس کے لیے جو ترغیبات وہ پیش کرتا ہے ، ان سے دھوکا کھا کر آدمی اسے اپنا دوست بنا لیتا ہے۔ اس طرح کی دوستی کے معنی یہ نہیں ہیں کہ حقیقتًہ دشمنی دوستی میں تبدیل ہو گئی ، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ ایک دُشمن دُوسرے دُشمن سے شکست کھا گیا اور اس کے جال میں پھنس گیا |
Surah 7 : Ayat 24
قَالَ ٱهْبِطُواْ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّۖ وَلَكُمْ فِى ٱلْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَـٰعٌ إِلَىٰ حِينٍ
فرمایا، 1"اتر جاؤ، تم ایک دوسرے کے دشمن ہو، اور تمہارے لیے ایک خاص مدت تک زمین ہی میں جائے قرار اور سامان زیست ہے"
1 | یہ شبہ نہ کیا جائے کہ حضرت آدم وحوا علیہ السلام کو جنت سے اُتر جانے کا یہ حکم سزا کے طور پر دیا گیا تھا۔ قرآن میں متعدد مقامات پر اس کی تصریح کی گئی ہے کہ اللہ نے ان کی توبہ قبول کر لی اور انہیں معاف کر دیا۔ لہٰذا اس حکم میں سزا کا کوئی پہلو نہیں ہے بلکہ یہ اُس منشاء کی تکمیل ہے جس کے لیے انسان کو پیدا کیا گیا تھا۔(تشریح کے لیے ملا حظہ ہو سورة بقرہ، حاشیہ۴۸و۵۳) |
Surah 11 : Ayat 61
۞ وَإِلَىٰ ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَـٰلِحًاۚ قَالَ يَـٰقَوْمِ ٱعْبُدُواْ ٱللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَـٰهٍ غَيْرُهُۥۖ هُوَ أَنشَأَكُم مِّنَ ٱلْأَرْضِ وَٱسْتَعْمَرَكُمْ فِيهَا فَٱسْتَغْفِرُوهُ ثُمَّ تُوبُوٓاْ إِلَيْهِۚ إِنَّ رَبِّى قَرِيبٌ مُّجِيبٌ
اور ثمود کی طرف ہم نے ان کے بھائی صالحؑ کو بھیجا1 اُس نے کہا 2"اے میری قوم کے لوگو، اللہ کی بندگی کرو، اُ س کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے وہی ہے جس نے تم کو زمین سے پیدا کیا ہے اور یہاں تم کو بسایا ہے لہٰذا تم اس سے معافی چاہو 3اور اس کی طرف پلٹ آؤ، یقیناً میرا رب قریب ہے اور وہ دعاؤں کا جواب دینے والا ہے4"
4 | یہ مشرکین کی ایک بہت بڑی غلط فہمی کا رد ہے جو بالعموم ان سب میں پائی جاتی ہے اور اُن اہم اسباب میں سے ایک ہے جنہوں نے ہر زمانہ میں انسان کو شرک میں مبتلا کیا ہے۔ یہ لوگ اللہ کو اپنے راجوں مہاراجوں اور بادشاہوں پر قیاس کرتے ہیں جو رعیت دور اپنے محلوں میں داد عیش دیا کرتے ہیں ، جن کے دربار تک عام رعایا میں سے کسی کی رسائی نہیں ہو سکتی، جن کے حضور میں کوئی درخواست پہنچانی ہو تو مقربین بارگاہ میں سے کسی کا دامن تھامنا پڑتا ہے اور پھر اگر خوش قسمتی سے کسی کی درخواست ان کے آستانہ ٔ بلند پر پہنچ بھی جاتی ہے تو ان کا پندارِ خدائی یہ گوارا نہیں کرتا کہ خود اس کو جواب دیں، بلکہ جواب دینے کا کام مقربین ہی میں سے کسی کے سپرد کیا جاتا ہے۔ اس غلط گمان کی وجہ سے یہ لوگ ایسا سمجھتے ہیں اور ہوشیار لوگوں نے ان کو ایسا سمجھانے کی کوشش بھی کی ہے کہ خداوند عالم کا آستانۂ قدس عام انسانوں کی دست رس سے بہت ہی دور ہے۔ اس کے دربار تک بھلا کسی عام کی پہنچ کیسے ہو سکتی ہے۔ وہاں تک دعاؤں کا پہنچنا اور پھر ان کا جواب ملنا تو کسی طرح ممکن ہی نہیں ہو سکتا جب تک کہ پاک روحوں کا وسیلہ نہ ڈھونڈ ا جائے اور اُن مذہبی منصب داروں کی خدمات نہ حاصل کی جائیں جو اوپر تک نذریں، نیازیں اور عرضیاں پہنچانے کے ڈھب جانتے ہیں۔ یہی وہ غلط فہمی ہے جس نے بندے اور خدا کے درمیان بہت سے چھوٹے بڑے معبودوں اور سفارشیوں کا ایم جم غفیر کھڑا کر دیا ہے اور س کے ساتھ مہنت گری(Priesthood ) کا وہ نظام پید کیا ہے جس کے توسط کے بغیر جاہلی مذاہب کے پیرو پیدائش سے لے کر موت تک اپنی کوئی مذہبی رسم بھی انجام نہیں دے سکتے تھے۔ حضرت صالح ؑ جاہلیت کے اس پورے طلسم کو صرف دو لفظوں سے توڑ پھینکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ اللہ قریب ہے۔ دوسرے یہ ہے کہ وہ مجیب ہے ۔ یعنی تمہارا یہ خیال بھی غلط ہے کہ وہ تم سے دور ہے ، اور یہ بھی غلط ہے ہے کہ تم براہِ رست اس کی پکار کر اپنی دعاؤں کا جواب حاصل نہیں کر سکتے۔ وہ اگرچہ بہت بالا و برتر ہے مگر اسکے باوجود وہ تم سے بہت قریب ہے ۔ تم میں سے ایک ایک شخص اپنے پاس ہی ا س کو پا سکتا ہے ، ا س سے سرگوشی کر سکتا ہے، خلوت اور جلوت دونوں میں علانیہ بھی اور بصیغۂ راز بھی اپنی عرضیاں خود اس کے حضور پیش کرسکتا ہے۔ اور پھر وہ براہِ راست اپنے ہر بندے کی دعاؤں کا جواب خود دیتا ہے۔ پس جب سلطان ِ کائنات کا دربارِ عام ہر وقت ہر شخص کے لیے کھلا ہے اور ہر شخص کے قریب ہی موجود ہے تو یہ تم کس حماقت میں پڑے ہو کہ اس کے لیے واسطے اور وسیلے ڈھونڈتے پھرتے ہو۔ (نیز ملاحظہ ہو سورۂ بقرہ کا حاشیہ نمبر ۱۸۸) |
3 | یعنی اب تک جو تم دوسروں کی بندگی و پرستش کرتے رہے ہو اس جرم کی اپنے رب سے معافی مانگو |
2 | یہ دلیل ہے اس دعوے کی جو پہلے فقرے میں کیا گیا تھا کہ اللہ کےسوا تمہارا کوئی خدا اور کوئی حقیقی معبود نہیں ہے۔ مشرکین خود بھی اس بات کو تسلیم کرتے تھے کہ ان کا خالق اللہ ہی ہے۔ اسی مسلمہ حقیقت پر بنائے استدلال قائم کر کے حضرت صالح ان کو سمجھاتے ہیں کہ جب وہ اللہ ہی ہے جس نے زمین کے بے جان مادّوں کی ترکیب سے تم کو یہ انسانی وجود بخشا، اور وہ بھی اللہ ہی ہے جس نے زمین میں تم کو آباد کیا، تو پھر اللہ کے سوا خدائی اور کس کی ہو سکتی ہے اور کسی دوسرے کو یہ حق کیسے حاصل ہو سکتا ہے کہ تم اس کی بندگی و پرستش کرو |
1 | سورۂ اعراف رکوع ۱۰ کے حواشی پیشِ نظر رہیں |