Ayats Found (1)
Surah 24 : Ayat 2
ٱلزَّانِيَةُ وَٱلزَّانِى فَٱجْلِدُواْ كُلَّ وَٲحِدٍ مِّنْهُمَا مِاْئَةَ جَلْدَةٍۖ وَلَا تَأْخُذْكُم بِهِمَا رَأْفَةٌ فِى دِينِ ٱللَّهِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِٱللَّهِ وَٱلْيَوْمِ ٱلْأَخِرِۖ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَآئِفَةٌ مِّنَ ٱلْمُؤْمِنِينَ
زانیہ عورت اور زانی مرد، دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو1 اور ان پر ترس کھانے کا جذبہ اللہ کے دین کے معاملے میں تم کو دامن گیر نہ ہو اگر تم اللہ تعالیٰ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہو2 اور ان کو سزا دیتے وقت اہل ایمان کا ایک گروہ موجود رہے3
3 | یعنی سزا علی الاعلان عام لوگوں کے سامنے دی جاۓ ، تاکہ ایک طرف مجرم کو فضیحت ہو اور دوسری طرف عوام الناس کو نصیحت۔ اس سے اسلام کے نظریہ سزا پر واضح روشنی پڑتی ہے۔ سورہ مائدہ میں چوری کی سزا بیان کرتے ہوۓ فرمایا تھا : جَزَآءًمبِمَا کَسَبَا نَکَا لًامِّنَ اللہِ۔ ’’ ان کے کیے کا بدلا اور اللہ کی طرف سے جرم کو روکنے والی سزا‘‘(آیت 38) اور اب یہاں ہدایت کی جار ہی ہے کہ زانی کو علانیہ لوگوں کے سامنے عذاب دیا جاۓ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اسلامی قانون میں سزا کے تین مقصد ہیں۔ اول یہ کہ مجرم سے اس زیادتی کا بدلہ لیا جاۓ اور اس کو اس برائی کا مزا چکھایا جاۓ جواس نے کسی دوسرے شخص یا معاشرے کے ساتھ کی تھی۔ دوم یہ کہ اسے اعادہ جرم سے باز رکھا جاۓ۔ سوم یہ کہ اس کی سزا کو ایک عبرت بنا دیا جاۓ تاکہ معاشرے میں جو دوسرے لوگ برے میلانات رکھنے والے ہوں ان کے دماغ کا آپریشن ہو جاۓ اور وہ اس طرح کے کسی جرم کی جرأت نہ کر سکیں۔ اس کے علاوہ علانیہ سزا دینے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس صورت میں حکام سزا دینے میں بے جا رعایت یا بے جا سختی کرنے کی کم ہی جرأت کر سکتے ہیں |
2 | اولین چیز جو اس آیت میں قابل توجہ ہے وہ یہ کہ یہاں فوجداری قانون کو ’’ دین اللہ‘‘ فر مایا جا رہا ہے۔ معلوم ہوا کہ صرف نماز اور روزہ اور حج و زکوٰۃ ہی دین نہیں ہیں ، مملکت کا قانون بھی دین ہے۔ دین کو قائم کرنے کا مطلب صرف نماز ہی قائم کرنا نہیں ہے بلکہ اللہ کا قانون اور نظام شریعت قائم کرنا بھی ہے۔ جہاں یہ چیز قائم نہ ہو وہاں نماز اگر قائم ہو بھی تو گویا ادھورا دین قائم ہوا۔ جہاں اس کو رد کر کے دوسرا کوئی قانون اختیار کیا جاۓ وہاں دین اللہ رد کر دیا گیا۔ دوسری چیز جو اس میں قابل توجہ ہے وہ اللہ تعالیٰ کی یہ تنیہ ہے کہ زانی اور زانیہ پر میری تجویز کردہ سزا نافذ کرنے میں مجرم کے لیے رحم اور شفقت کا جذبہ تمہارا ہاتھ نہ پکڑے۔ اس بات کو اور زیادہ کھول کر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس حدیث میں بیان فرمایا : یؤتیٰ بوالٍ نقص من الحد سو طافیقال لہ لِمَ فعلت ذٰلک ؟ فیقول رحمۃ لعبادک فیال لہ انت ارحم بہم منی؟ فیومر بہٖ الی النار۔ و یؤتیٰ بمن زاد سو طافیقال لہ لم فعلت ذاک؟ فیقول لینتھوا عن معاصیک۔ فیقول انت احکم بہم منی؟ فیومربہٖ الی النار۔ ’’ قیامت کے روز ایک حاکم لایا جاۓ گا جس نے حد میں سے ایک کوڑا کم کر دیا تھا۔ پوچھا جاۓ گا یہ حرکت تو نے کیوں کی تھی؟ وہ عرض کرے گا آپ کے بندوں پر رحم کھا کر۔ ارشاد ہو گا اچھا، تو ان کے حق میں مجھ سے زیادہ رحیم تھا ! پھر حکم ہو گا لے جاؤ اسے دوزخ میں۔ ایک اور حاکم لایا جاۓ گا جس نے حد پر ایک کوڑے کا اضافہ کر دیا تھا۔ پوچھا جاۓ گا تو نے یہ کس لیے کیا تھا ؟ وہ عرض کرے گا تاکہ لوگ آپ کی نافرمانیوں سے باز رہیں۔ ارشاد ہو گا اچھا، تو ان کے معاملے میں مجھ سے زیادہ حکیم تھا ! پھر حکم ہو گا لے جاؤ اسے دوزخ میں ‘‘ (تفسیر کبیر۔ ج 6۔ ص 225) یہ تو اس صورت میں ہے جب کہ کمی بیشی کا عمل رحم یا مصلحت کی بنا پر ہو۔ لیکن اگر کہیں احکام میں رد و بدل مجرموں کے مرتبے کی بنا پر ہونے لگے تو پھر یہ ایک بد ترین جرم ہے۔ صحیحین میں سے حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے خبطہ میں فرمایا ’’ لوگو، تم سے پہلے جو امتیں گزری ہیں وہ ہلاک ہو گئیں اس لیے کہ جب ان میں کوئی عزت والا چوری کرتا تو وہ اسے چھوڑ دیتے تھے اور جب کوئی کمزور آدمی چوری کرتا تو اس پر حد جاری کرتے تھے ‘‘ ایک اور روایت میں ہے کہ حضورؐ نے فرمایا ’’ایک حد جاری کرنا اہل زمین کے لیے چالیس دن کی بارش سے زیادہ مفید ہے ‘‘ (نسائی و ابن ماجہ)۔ بعض مفسرین نے اس آیت کا مطلب یہ لیا ہے کہ مجرم کو جرم ثابت ہونے کے بعد چھوڑ نہ دیا جاۓ اور نہ سزا میں کمی کی جاۓ ، بلکہ پورے سو کوڑے مارے جائیں۔ اور بعض نے یہ مطلب لیا ہے کہ ہلکی مار نہ ماری جاۓ جس کی کوئی تکلیف ہی مجرم محسوس نہ کرے۔ آیت کے الفاظ دونوں مفہوموں پر حاوی ہیں ، بلکہ حق یہ ہے کہ دونوں ہی مراد معلوم ہوتے ہیں۔ اور مزید براں یہ مراد بھی ہے کہ زانی کو وہی سزا دی جاۓ جو اللہ نے تجویز فرمائی ہے ، اسے کسی اور سزا سے نہ بدل دیا جاۓ۔ کوڑوں کے بجاۓ کوئی اور سزا دینا اگر رحم اور شفقت کی بنا پر ہو تو معصیت ہے ، اور اگر اس خیال کی بنا پر ہو کہ کوڑوں کی سزا یک وحشیانہ سزا ہے تو یہ قطعی کفر ہے جو ایک لمحہ کے لیے بھی ایمان کے ساتھ ایک سینے میں جمع نہیں ہو سکتا۔ خدا کو خدا بھی ماننا اور اس کو معاذ اللہ وحشی بھی کہنا صرف ان ہی لوگوں کے لیے ممکن ہے جو ذلیل ترین قسم کے منافق ہیں |
1 | اس مسئلے کے بہت سے قانونی، اخلاقی اور تاریخی پہلو تشریح طلب ہیں جن کو اگر تفصیل کے ساتھ بیان نہ کیا جاۓ تو موجودہ زمانے میں ایک آدمی کے لیے اس تشریعِ الٰہی کا سمجھنا مشکل ہے۔ اس لیے ذیل میں ہم اس کے مختلف پہلوؤں پر سلسلہ وار روشنی ڈالیں گے : ۱): زنا کا عام مفہوم، جس سے ہر شخص واقف ہے ، یہ ہے کہ’’ ایک مرد اور ایک عورت ، بغیر اس کے کہ ان کے درمیان جائز رشتہ زن و شو ہو، باہم مباشرت کا ارتکاب کریں ‘‘۔ اس فعل کا اخلاقاً برا ہونا ، یا مذہباً گناہ ہونا، یا معاشرتی حیثیت سے معیوب اور قابل اعتراض ہونا، ایک ایسی چیز ہے جس پر قدیم ترین زمانے سے آج تک تمام انسانی معاشرے متفق رہے ہیں ، اور اس میں بجز ان متفرق لوگوں کے جنہوں نے اپنی عقل کو اپنی جنس پرستی کے تبع کر دیا ہے ، یا جنہوں نے خبطی پن کی اپچ کو فلسفہ طرازی سمجھ رکھا ہے ،کسی نے آج تک اختلاف نہیں کیا ہے۔ اس عالمگیر اتفاق راۓ کی وجہ یہ ہے کہ انسانی فطرت خود زنا کی حرمت کا تقاضا کرتی ہے۔ نوع انسانی کا بقاء اور انسانی تمدن کا قیام ، دونوں اس بات پر منحصر ہیں کہ عورت اور مرد محض لطف اور لذت کے لیے ملنے اور پھر الگ ہو جانے میں آزاد نہ ہوں ، بلکہ ہر جوڑے کا باہمی تعلق ایک ایسے مستقل اور پائیدار عہد وفا پر استوار ہو جو معاشرے میں معلوم و معروف بھی ہو اور جسے معاشرے کی ضمانت بھی حاصل ہو۔ اس کے بغیر انسانی نسل ایک دن کے لیے بھی نہیں چل سکتی ، کیونکہ انسان کا بچہ اپنی زندگی اور اپنے انسانی نشو نما کے لیے کئی برس کی درد مندانہ نگہداشت اور تربیت کا محتاج ہوتا ہے ، اور تنہا عورت اس بار کو اٹھانے کے لیے کبھی تیار نہیں ہو سکتی جب تک کہ وہ مرد اس کا ساتھ نہ دے جو اس بچے کے وجود میں آنے کا سبب بنا ہو۔ اسی طرح اس معاہدے کے بغیر انسانی تمدن بھی برقرار نہیں رہ سکتا ، کیونکہ تمدن کی تو پیدائش ہی ایک مرد اور ایک عورت کے مل کر رہنے ، ایک گھر اور ایک خاندان وجود میں لانے ، اور پھر خاندانوں کے درمیان رشتے اور رابطے پیدا ہونے سے ہوئی ہے۔ اگر عورت اور مرد گھر اور خاندان کی تخلیق سے قطع نظر کر کے محض لطف و لذت کے لیے آزادانہ ملنے لگیں تو سارے انسان بکھر کر رہ جائیں ، اجتماعی زندگی کی جڑ کٹ جاۓ ، اور وہ بنیاد ہی باقی نہ رہے جس پر تہذیب و تمدن کی یہ عمارت اٹھی ہے۔ ان وجوہ سے عورت اور مرد کا ایسا آزادانہ تعلق جو کسی معلوم و معروف او مسلم عہد وفا پر مبنی نہ ہو، انسانی فطرت کے خلاف ہے۔ ان ہی وجوہ سے انسان اس کو ہر زمانے میں ایک سخت عیب، ایک بڑی بد اخلاقی، اور مذہبی اصطلاح میں ایک شدید گناہ سمجھتا رہا ہے۔ اور ان ہی وجوہ سے ہر زمانے میں انسانی معاشروں نے نکاح کی ترویج کے ساتھ ساتھ زنا کے سد باب کی بھی کسی نہ کسی طور پر ضرور کوشش کی ہے ، البتہ اس کوشش کی شکلوں میں مختلف قوانین اور اخلاقی و تمدنی اور مذہبی نظاموں میں فرق رہا ہے ، جس کی بنیاد در اصل اس فرق پر ہے کہ نوع اور تمدن کے لیے زنا کے نقصان دہ ہونے کا شعور کہیں کم ہے اور کہیں زیادہ کہیں واضح ہے اور کہیں دوسرے مسائل سے الجھ کر رہ گیا ہے۔ ۲): زنا کی حرمت پر متفق ہونے کے بعد اختلاف جس امر میں ہوا ہے وہ اس کے جرم ، یعنی قانوناً مستلزم سزا ہونے کا مسئلہ ہے ، اور یہی وہ مقام ہے جہاں سے اسلام اور دوسرے مذاہب اور قوانین کا اختلاف شروع ہوتا ہے۔ انسانی فطرت سے قریب جو معاشرے رہے ہیں ، انہوں نے ہمیشہ زنا، یعنی عورت اور مرد کے ناجائز تعلق کو بجاۓ خود ایک جرم سمجھا ہے اور اس کے لیے سخت سزائیں رکھی ہیں۔ لیکن جوں جوں انسانی معاشروں کو تمدن خراب کرتا گیا ہے ، رویہ نرم ہوتا چلا گیا ہے۔ اس معاملے میں اولین تساہُل ، جس کا ارتکاب بالعموم کیا گیا، یہ تھا کہ ’’ محض زنا‘‘ (Fornication) اور ’’زنا بزنِ غیر‘‘ (Adultery) میں فرق کر کے ، اول الذکر کو یک معمولی سی غلطی ، اور صرف مؤخر کو جرم مستلزم سزا قرار دیا گیا۔ محض زنا کی تعریف جو مختلف قوانین میں پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ ’’ کوئی مرد ، خواہ وہ کنوارا ہو یا شادی شدہ، کسی ایسی عورت سے مباشرت کرے جو کسی دوسرے شخص کی بیوی نہ ہو ‘‘۔ اس تعریف میں اصل اعتبار مرد کی حالت کا نہیں ، بلکہ عورت کی حالت کا کیا گیا ہے۔ عورت اگر بے شوہر ہے تو اس سے مباشرت محض زنا ہے ، قطع نظر اس سے کہ مرد بیوی رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو۔ قدیم مصر ، بابل ، آشور (اسیریا) اور ہندوستان کے قوانین میں اس کی سزا بہت ہلکی تھی۔ اسی قاعدے کو یونان اور روم نے اختیار کیا ، اور اسی سے آخر کار یہودی بھی متاثر ہوۓ۔ بائیبل میں یہ صرف ایک ایسا قصور ہے جس سے مرد پر محض مالی تاوان واجب آتا ہے۔ کتاب ’’خروج‘‘ میں اس کے متعلق جو حکم ہے اس کے الفاظ یہ ہیں : ’’اگر کوئی آدمی کسی کنواری کو ، جس کی نسبت (یعنی منگنی) نہ ہوئی ہو ، پھسلا کر اس سے مباشرت کر لے تو وہ ضرور ہی اسے مہر دے کر اس سے بیاہ کر لے ، لیکن اگر اس کا باپ ہر گز راضی نہ ہو کہ اس لڑکی کو اسے دے ، تو وہ کنواریوں کے مہر کے موافق (یعنی جتنا مہر کسی کنواری لڑکی کو دیا جاتا ہو) اسے نقدی دے ‘‘(باب 22۔ آیت 16۔ 17)۔ کتاب ’’اِستثناء‘‘ میں یہی حکم ذرا مختلف الفاظ میں بیان ہوا ہے ، اور پھر تصریح کی گئی ہے کہ مرد سے لڑکی کے باپ کو پچاس مثقال چاندی (تقریباً 55 روپے ) تاوان دلوایا جاۓ (باب 22۔ آیت 28۔ 29)۔ البتہ اگر کوئی شخص کاہن(یعنی پروہت ،(Priest کی بیٹی سے زنا کرے تو اس کے یہودی قانون میں پھانسی کی سزا ہے ، اور لڑکی کے لیے زندہ جلانے کی) (Everyman’s Talmud, p. 319.20۔ یہ تخیل ہندوؤں کے تخیل سے کس قدر مشابہ ہے اس کا اندازہ کرنے کے لیے منو کی دھرم شاستر سے مقابلہ کر کے دیکھیے۔ وہاں لکھا ہے کہ : ’’جو شخص اپنی ذات کی کنواری لڑکی سے اس کی رضا مندی کے ساتھ زنا کرے وہ کسی سزا کا مستحق نہیں ہے۔ لڑکی کا باپ راضی ہو تو وہ اس کو معاوضہ دے کر شادی کر لے۔ البتہ اگر لڑکی اونچی ذات کی ہو اور مرد نیچ ذات کا تو لڑکی کو گھر سے نکال دینا چاہیے اور مرد کو قطع اعضا کی سزا دینی چاہیے ‘‘ (ادھیاے 8 اشلوک 325 ، 366) اور یہ سزا زندہ جلا دیے جانے کی سزا میں تبدیل کی جا سکتی ہے جبکہ لڑکی برہمن ہو (اشلوک 377)۔ در اصل ان سب قوانین میں زنا بزنِ غیر ہی اصلی اور بڑا جرم تھا یعنی یہ کہ کوئی شخص (خواہ وہ شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ) کسی ایسی عورت سے مباشرت کرے جو دوسرے شخص کی بیوی ہو۔ اس فعل کے جرم ہونے کی بنیاد یہ نہ تھی کہ ایک مرد اور عورت نے زنا کا ارتکاب کیا ہے ، بلکہ یہ تھی کہ ان دونوں نے مل کر ایک شخص کو اس خطرے میں مبتلا کر دیا ہے کہ اسے کسی ایسے بچے کو پالنا پڑے جو اس کا نہیں ہے۔ گویا زنا نہیں بلکہ اختلاط نسب کا خطرہ اور ایک کے بچے کا دوسرے کے خرچ پر پلنا اور اس کا وارث ہونا اصل بناۓ جرم تھا جس کی وجہ سے عورت اور مرد دونوں مجرم قرار پاتے تھے۔ مصریوں کے ہاں اس کی سزا یہ تھی کہ مرد کو لاٹھیوں سے خوب پیٹا جاۓ اور عورت کی ناک کاٹ دی جاۓ۔ قریب اریب ایسی ہی سزائیں بابل ، اشور، اور قدیم ایران میں بھی رائج تھیں۔ ہندوؤں کے ہاں عورت کی سزا یہ تھی کہ اس کو کتوں سے پھڑوا دیا جاۓ اور مرد کی یہ کہ اسے لوہے کے گرم پلنگ پر لٹا کر چاروں طرف آگ جلادی جاۓ۔ یونان اور روم میں ابتداءً ایک مرد کو یہ حق حاصل تھا کہ اگر وہ اپنی بیوی کے ساتھ کسی کو زنا کرتے دیکھ لے تو اسے قتل کر دے ، یا چاہے تو اس سے مالی تاوان وصول کر لے۔ پھر پہلی صدی قبل مسیح میں قیصر آگسٹس نے یہ قانون مقرر کیا کہ مرد کی آدھی جائداد ضبط کر کے اسے جلا وطن کر دیا جاۓ ، اور عورت کا آدھا مہر ساقط اور اس کی 3/1 جائداد ضبط کر کے اسے بھی مملکت کے کسی دور دراز حصے میں بھیج دیا جاۓ۔ قسطنطین نے اس قانون کو بدل کر عورت اور مرد دونوں کے لیے سزاۓ موت مقرر کی۔ لیو(LEO) اور (Marcian) کے دور میں اس سزا کو حبس دوام میں تبدیل کر دیا گیا۔ پھر قیصر قسْطنِطین نے اس میں مزید تخفیف کر کے یہ قاعدہ مقرر کر دیا کہ عورت کو کوڑوں سے پیٹ کر کسی راہب خانے میں ڈال دیا جاۓ اور اس کے شوہر کو یہ حق دیا جاۓ کہ چاہے تو دو سال کے اندر اسے نکلوا لے ، ورنہ ساری عمر وہیں پڑا رہنے دے۔ یہودی قانون میں زنا بزن غیر کے متعلق جو احکام پاۓ جاتے ہیں وہ یہ ہیں : ’’اگر کوئی کسی ایسی عورت سے صحبت کرے جو لونڈی اور کسی شخص کی منگیتر ہو اور نہ تو اس کا فدیہ ہی دیا گیا ہو اور نہ وہ آزاد کی گئی ہو، تو ان دونوں کو سزا ملے ، لیکن وہ جان سے نہ مارے جائیں اس لیے کہ عورت آزاد نہ تھی‘‘۔ (احبار 19۔ 20۔ ) ’’ جو شخص دوسرے کی بیوی سے ، یعنی اپنے ہمساۓ کی بیوی سے زنا کرے وہ زانی اور زانیہ دونوں ضرور جان سے مار دیے جائیں ’’۔ (احبار 20۔ 10)۔ ’’اگر کوئی مرد کسی شوہر والی عورت سے زنا کرتے پکڑا جاۓ تو وہ دونوں مار ڈالے جائیں ‘‘۔ (استثناء 22۔ 22) ’’اگر کوئی کنواری لڑکی کسی شخص سے منسوب ہو گئی ہو(یعنی اس کی منگنی ہو) اور کوئی دوسرا آدمی اسے شہر میں پاکر اس سے صحبت کرے تو تم ان دونوں کو اس شہر کے پھاٹک پر نکال لانا اور ان کو تم سنگسار کر دینا کہ وہ مر جائیں۔ لڑکی کو اس لیے کہ وہ شہر میں ہوتے ہوۓ نہ چلّائی اور مرد کو اس لیے کہ اس نے اپنے ہمساۓ کی بیوی کو بے حرمت کیا۔ پر اگر اس آدمی کو وہی لڑکی جس کی نسبت ہو چکی ہو، کسی میدان میں یا کھیت میں مل جاۓ اور وہ آدمی جبر اً اس سے صحبت کرے تو فقط وہ آدمی ہی جس نے صحبت کی مار ڈالا جاۓ پر اس لڑکی سے کچھ نہ کرنا‘‘(استثناء 22۔ 23تا 26)۔ لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے عہد سے بہت پہلے یہودی علماء ، فقہاء، امراء اور عوام ، سب اس قانون کو عملاً منسوخ کر چکے تھے۔ یہ اگر چہ بائیبل میں لکھا ہوا تھا اور خدائی حکم اسی کو سمجھا جاتا تھا، مگر اسے عملاً نافذ کرنے کا کوئی روا دار نہ تھا ، حتیٰ کہ یہودیوں کی تاریخ میں اس کی کوئی نظیر تک نہ پائی جاتی تھی کہ یہ حکم کبھی نافذ کیا گیا ہو۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جب دعوت حق لے کر اٹھے اور علماء یہود نے دیکھا کہ اس سیلاب کو روکنے کی کوئی تدبیر کار گر نہیں ہو رہی ہے تو وہ ایک چال کے طور پر ایک زانیہ عورت کو آپ کے پاس پکڑ لاۓ اور کہا اس کا فیصلہ فرمائیے (یوحنا باب 8۔ آیت 1۔ 11)۔ اس سے ان کا مقصود یہ تھا کہ حضرت عیسیٰ کو کنویں یا کھائی، دونوں میں سے کسی ایک میں کودنے پر مجبور کر دیں۔ اگر آپ رجم کے سوا کوئی اور سزا تجویز کریں تو آپ کو یہ کہ ہ کر بدنام کیا جاۓ کہ لیجیے ، یہ نرالے پیغمبر صاحب تشریف لاۓ ہیں جنہوں نے دنیوی مصلحتوں کی خاطر خدائی قانون بدل ڈالا۔ اور اگر آپ رجم کا حکم دیں تو ایک طرف رومی قانون سے آپ کو ٹکرا دیا جاۓ اور دوسری طرف قوم سے کہا جاۓ کہ مانو ان پیغمبر صاحب کو، دیکھ لینا، اب توراۃ کی پوری شریعت تمہاری پیٹھوں اور جانوں پر برسے گی۔ لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ایک ہی فقرے میں ان کی چال کو ان ہی پر الٹ دیا۔ آپ نے فرمایا تم میں سے جو خود پاک دامن ہو وہ آگے بڑھ کر اسے پتھر مارے۔ یہ سنتے ہیں فقیہوں کی ساری بھیڑ چھٹ گئی، یکایک منہ چھپا کر رخصت ہو گیا اور ’’ حاملان شع متین‘‘ کی اخلاقی حالت بالکل برہنہ ہو کر رہ گئی۔ پھر جب عورت تنہا کھڑی رہ گئی تو آپ نے اسے نصیحت فرمائی اور توبہ کر ا کے رخصت کر دیا، کیونکہ نہ آپ قاضی تھے کہ اس کے مقدمے کا فیصلہ کرتے ، نہ اس پر کوئی شہادت قائم ہوئی تھی، اور نہ کوئی اسلامی حکومت قانون الٰہی نافذ کرنے کے لیے موجود تھی۔ حضرت عیسیٰؐ کے اس واقعہ سے اور آپ کے چند اور متفرق اقوال سے جو مختلف مواقع پر آپ نے ارشاد فرماۓ ، عیسائیوں نے غلط استنباط کر کے زنا کے جرم کا ایک اور تصور قائم کر لیا۔ ان کے ہاں زنا اگر غیر شادی شدہ کرد ، غیر شادی شدہ عورت سے کرے تو یہ گناہ تو ہے ، مگر جرم مستلزم سزا نہیں ہے۔ اور اگر اس فعل کا کوئی ایک فریق ، خواہ وہ عورت ہو یا مرد، شادی شدہ ہو، یا دونوں شادی شدہ ہوں تو یہ جرم ہے ، مگر اس کو جرم بنانے والی چیز در اصل ’’عہد شکنی ‘‘ ہے نہ کہ محض زنا۔ ان کے نزدیک جس نے بھی شادی شدہ ہو کر زنا کا ارتکاب کیا وہ اس لیے مجرم ہے کہ اس نے اس عہد وفا کو توڑ دیا جو قربان گاہ کے سامنے اس نے پادری کے توسط سے اپنی بیوی یا اپنے شوہر کے ساتھ باندھا تھا۔ مگر اس جرم کی کوئی سزا اس کے سوا نہیں ہے کہ زانی مرد کی بیوی اپنے شوہر کے خلاف بے وفائی کا دعویٰ کر کے تفریق کی ڈگری حاصل کر لے اور زانیہ عورت کا شوہر ایک طرف اپنی بیوی پر دعویٰ کر کے تفریق کی ڈگری لے اور دوسری طرف اس شخص سے بھی تاوان لینے کا حق دار ہو جس نے اس کی بیوی کو خراب کیا۔ بس یہ سزا ہے جو مسیحی قانون شادی شدہ زانیوں اور زانیات کو دیتا ہے ، اور غضب یہ ہے کہ یہ سزا بھی دو دھاری تلوار ہے۔ اگر ایک عورت اپنے شوہر کے خلاف ’’ نے وفائی‘‘ کا دعویٰ کر کے تفریق کی ڈگری حاصل کر لے تو وہ بے وفا شوہر سے تو نجات حاصل کر لے گی ، لیکن مسیحی قانون کی رو سے پھر وہ عمر بھر کوئی دوسرا نکاح نہ کر سکے گی۔ اور ایسا ہی حشر اس مرد کا بھی ہو گا جو بیوی پر ’’بے وفائی‘‘ کا دعویٰ کر کے تفریق کی ڈگری لے ، کیونکہ مسیحی قانون اس کو بھی نکاح ثانی کا حق نہیں دیتا۔ گویا زوجین میں سے جس کو بھی تمام عمر راہب بن کر رہنا ہو وہ اپنے شریک زندگی کی بے وفائی کا شکوہ مسیحی عدالت میں لے جاۓ۔ موجودہ زمانے کے مغربی قوانین ، جن کی پیروی اب خود مسلمانوں کے بھی بیشتر ممالک کر رہے ہیں ،انہی مختلف تصورات پر مبنی ہیں۔ ان کے نزدیک زنا، عیب یا بد اخلاقی یا گناہ جو کچھ بھی ہو، جرم بہر حال نہیں ہے۔ اسے اگر کوئی چیز جرم بنا سکتی ہے تو وہ جبر ہے ، جبکہ فریق ثانی کی مرضی کے خلاف زبر دستی اس سے مباشرت کی جاۓ۔ رہا کسی شادی شدہ مرد کا ارتکاب زنا، تو وہ اگر وجہ شکایت ہے تو اس کی بیوی سے طلاق اور زانی مرد سے تاوان وصول کر سکتا ہے۔ ۳) : اسلامی قانون ان سب تصورات کے برعکس زنا کو بجاۓ خود ایک جرم مستلزم سزا قرار دیتا ہے اور شادی شدہ ہو کر زنا کرنا اس کے نزدیک جرم کی شدت کو اور زیادہ بڑھا دیتا ہے ، نہ اس بنا پر کہ مجرم نے کسی سے ’’عہد شکنی‘‘ کی، یا کسی دوسرے کے بستر پر دست درازی کی، بلکہ اس بنا پر کہ اس کے لیے اپنی خواہشات کو پورا کرنے کا ایک جائز ذریعہ موجود تھا اور پھر بھی اس نے ناجائز ذریعہ اختیار کیا۔ اسلامی قانون زنا کو اس نقطۂ نظر سے دیکھتا ہے کہ یہ وہ فعل ہے جس کی اگر آزادی ہو جاۓ تو ایک طرف نوع انسانی کی اور دوسری طرف تمدن انسانی کی جڑ کٹ جاۓ۔ نوع کے بقاء اور تمدن کے قیام دونوں کے لیے ناگزیر ہے کہ عورت اور مرد کا تعلق صرف قانون کے مطابق قابل اعتماد رابطے تک محدود ہو۔ اور اسے محدود رکھنا ممکن نہیں ہے اگر اس کے ساتھ ساتھ آزادانہ تعلق کی بھی کھلی گنجائش موجود رہے۔ کیونکہ گھر اور خاندان کی ذمہ داریوں کا بوجھ سنبھالے بغیر جہاں لوگوں کو خواہشات نفس کی تسکین کے مواقع حاصل رہیں ، وہاں ان سے توقع نہیں کی جا سکتی کہ ان ہی خواہشات کی تسکین کے لیے وہ پھر اتنی بھاری ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے پر آمادہ ہوں گے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے ریل میں بیٹھنے کے لیے ٹکٹ کی شرط بے معنی ہے اگر بلا ٹکٹ سفر کرنے کی آزادی بھی لوگوں کو حاصل رہے۔ ٹکٹ کی شرط اگر ضروری ہے تو اسے مؤثر بنانے کے لیے بلا ٹکٹ سفر کو جرم ہونا چاہیے۔ پھر اگر کوئی شخص پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے بے ٹکٹ سفر کرے تو کم درجے کا مجرم ہے ، اور مالدار ہوتے ہوۓ بھی یہ حرکت کرے تو جرم اور زیادہ سخت ہو جاتا ہے۔ ۴): اسلام انسانی معاشرے کو زنا کے خطرے سے بچانے کے لیے صرف قانونی تعزیر کے ہتھیار پر انحصار نہیں کرتا، بلکہ اس کے لیے وسیع پیمانے پر اصلاحی اور انسدادی تدابیر استعمال کرتا ہے ، اور یہ قانونی تعزیر اس نے محض ایک آخری چارۂ کار کے طور پر تجویز کی ہے۔ اس کا منشا یہ نہیں ہے کہ لوگ اس جرم کا ارتکاب کرتے رہیں اور شب و روز ان پر کوڑے برسانے کے لیے ٹکٹکیاں لگی رہیں ، بلکہ اس کا منشا یہ ہے کہ لوگ اس کا ارتکاب نہ کریں اور کسی کو اس پر سزا دینے کی نوبت ہی نہ آنے پاۓ۔ وہ سب سے پہلے آدمی کے نفس کی اصلاح کرتا ہے ، اس کے دل میں علام الغیب اور ہمہ گیر طاقت کے مالک خدا کا خوف بٹھاتا ہے ، اسے آخرت کی باز پرس کا احساس دلاتا ہے جس سے مر کر بھی آدمی کا پیچھا نہیں چھوٹ سکتا ، اس میں قانون الٰہی کی اطاعت کا جذبہ پیدا کرتا ہے جو ایمان کا لازمی تقاضا ہے ، اور پھر اسے بار بار متنبہ کرتا ہے کہ زنا اور بے عصمتی ان بڑے گناہوں میں سے ہے جن پر اللہ تعالیٰ سخت باز پرس کرے گا۔ یہ مضمون سارے قرآن میں جگہ جگہ آپ کے سامنے آتا ہے۔ اس کے بعد وہ آدمی کے لیے نکاح کی تمام ممکن آسانیاں پیدا کرتا ہے۔ ایک بیوی سے تسکین نہ ہو تو چار چار تک سے جائز تعلق کا موقع دیتا ہ۔ دل نہ ملیں تو مرد کے لیے طلاق اور عورت کے لیے خلع کی سہولتیں بہم پہنچاتا ہے۔ اور نا موافقت کی صورت میں خاندانی پنچایت سے لے کر سرکاری عدالت تک سے رجوع کا راستہ کھول دیتا ہے تاکہ یا تو مصالحت ہو جاۓ ، یا پھر زوجین ایک دوسرے سے آزاد ہو کر جہاں دل ملے نکاح کر لیں۔ یہ سب کچھ آپ سورہ بقرہ ، سورہ نساء، اور سورہ طلاق میں دیکھ سکتے ہیں۔ اور اسی سورہ نور میں آپ ابھی دیکھیں گے کہ مردوں اور عورتوں کے بن بیاہے بیٹھے رہنے کونا پسند کیا گیا ہے۔ اور صاف حکم دے دیا گیا ہے کہ ایسے لوگوں کے نکاح کر دیے جائیں ، حتیٰ کہ لونڈیوں اور غلاموں کو بھی مجرد نہ چھوڑا جاۓ۔ پھر وہ معاشرے سے ان اسباب کا خاتمہ کرتا ہے جو زنا کی رغبت دلانے والے ، اس کی تحریک کرنے والے ، اور اس کے لیے مواقع پیدا کرنے والے ہو سکتے ہیں۔ زنا کی سزا بیان کرنے سے ایک سال پہلے سورہ احزاب میں عورتوں کو حکم دے دیا گیا تھا کہ گھر سے نکلیں تو چادریں اوڑھ کر اور گھونگھٹ ڈال کر نکلیں ، اور مسلمان عورتوں کے یے جس نبی کا گھر نمونے کا گھر تھا اس کی عورتوں کو ہدایت کر دی گئی تھی کہ گھروں میں وقار و سکینت کے کے ساتھ بیٹھو، اپنے حسن اور بناؤ سنگھار کی نمائش نہ کرو، اور باہر کے مرد تم سے کوئی چیز لیں تو پردے کے پیچھے سے لیں۔ یہ نمونہ دیکھتے دیکھتے ان تمام صاحب ایمان عورتوں میں پھیل گیا جن کے نزدیک زمانہ جاہلیت کی بے حیا عورتیں نہیں بلکہ نبیؐ کی بیویاں اور بیٹیاں تقلید کے لائق تھیں۔ اس طرح فوجداری قانون کی سزا مقرر کرنے سے پہلے عورتوں اور مردوں کی خلط ملط معاشرت بند کی گئی، بنی سنوری عورتوں کا باہر نکلنا بند گیا گیا، اور ان اسباب و ذرائع کا دروازہ بند کر دیا گیا جو زنا کے مواقع اور اس کی آسانیاں بہم پہنچاتے ہیں۔ ان سے کے بعد جب زنا کی فوجداری سزا مقرر کی گئی تو آپ دیکھتے ہیں کہ اس کے ساتھ ساتھ اسی سورہ نور میں اشاعت فحش کو بھی روکا جا رہا ہے۔ قحبہ گری (Prostitution) کی قانونی بندش بھی کی جا رہی ہے ، عورتوں اور مردوں پر بد کاری کے بے ثبوت الزام لگانے اور ان کے چرچے کرنے کے لیے بھی سخت سزا تجویز کی جا رہی ہے ، غضِّ بصر کا حکم دے کر نگاہوں پر پہرے بھی بٹھاۓ جا رہے ہیں تاکہ دیدہ بازی سے حسن پرستی تک اور حسن پرستی سے عشق بازی تک نوبت نہ پہنچے ،اور عورتوں کی یہ حکم بھی دیا جا رہا ہے کہ اپنے گھروں میں محرم اور غیر محرم رشتہ داروں کے درمیان تمیز کریں اور غیر محرموں کے سامنے بن سنور کر نہ آئیں۔ اس سے آپ اس پوری اصلاحی سکیم کو سمجھ سکتے ہیں جس کے ایک جز کے طور پر زنا کی قانونی سزا مقرر کی گئی ہے ، یہ سزا اس لیے ہے کہ تمام داخلی و خارجی تدابیر اصلاح کے باوجود جو شریر النفس لوگ کھلے ہوۓ جائز مواقع کو چھوڑ کر نا جائز طریقے سے ہی اپنی خواہش نفس پوری کرنے پر اصرار کریں ان کیکھال اُدھیڑ دی جاۓ ، اور ایک بد کار کو سزا دے کر معاشرے کے ان بہت سے لوگوں کا نفسیاتی آپریشن کر دیا جاۓ جو اس طرح کے میلانات رکھتے ہوں۔ یہ سزا محض ایک مجرم کی عقوبت ہی نہیں ہے بلکہ اس امر کا بالفعل اعلان بھی ہے کہ مسلم معاشرہ بد کاروں کی تفریح گاہ نہیں ہے جس میں ذوّاقین اور ذوّاقات اخلاقی قیود سے آزاد ہو کر مزے لوٹتے پھریں۔ اس نقطہ النظر سے کوئی شخص اسلام می اس اصلاحی اسکیم کو سمجھے تو وہ بآسانی محسوس کر لے گا کہ اس پوری اسکیم کا ایک جز بھی اپنی جگہ سے نہ ہٹایا جا سکتا ہے اور نہ کم و بیش کیا جا سکتا ہے۔ اس میں رد و بدل کا خیال یا تو وہ نادان کر سکتا ہے جو اسے سمجھنے کی صلاحیت رکھے بغیر مصلح بن کر بیٹھا ہو، یا پھر وہ مفسد ایسا کر سکتا ہے جس کی اصل نیت اس مقصد کو بدل دینے کی ہو جس کے لیے یہ اسکیم حکیم مطلق نے تجویز کی ہے۔ ۵) : زان کو قابل سزا فعل تو 3 ھ میں ہی قرار دے دیا گیا تھا ، لیکن اس وقت یہ ایک ’’ قانونی ‘‘ جرم نہ تھا جس پر ریاست کی پولیس اور عدالت کوئی کار روائی کرے ، بلکہ اس کی حیثیت ایک ’’ معاشرتی‘‘ یا ’’خاندانی ‘‘ جرم کی سی تھی جس پر اہل خاندان ہی کو بطور خود سزا دے لینے کا اختیار تھا۔ حکم یہ تھا کہ اگر چار گواہ اس امر کی شہادت دے دیں کہ انہوں نے ایک مرد اور ایک عورت کو زنا کرتے دیکھا ہے تو دونوں کو مارا پیٹا جاۓ ، اور عورت کو گھر میں قید کر دیا جاۓ۔ اس کے ساتھ یہ اشارہ بھی کر دیا گیا تھا کہ یہ قاعدہ ’’ تا حکم ثانی‘‘ ہے ، اصل قانون بعد میں آنے والا ہے ، (ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول ، صفحہ 331)۔ اس کے ڈھائی تین سال بعد یہ حکم نازل ہوا جو آپ اس آیت میں پا رہے ہیں ، اور اس نے حکم سابق کو منسوخ کر کے زنا کو ایک قانونی جرم قابل دست اندازی سرکار (Cognizable Offene) قرار دے دیا۔ ۶) : اس آیت میں زنا کی جو سزا مقرر کی گئی ہے وہ در اصل ’’محض زنا ‘‘ کی سزا ہے ، زنا بعد احصان(یعنی شادی شدہ ہونے کے بعد زنا کے ارتکاب) کی سزا نہیں ہے جو اسلامی قانون کی نگاہ میں سخت تر جرم ہے۔ یہ بات خود قرآن ہی کے ایک اشارے سے معلوم ہوتی ہے کہ وہ یہاں اس زنا کی سزا بیان کر رہا ہے جس کے فریقین غیر شادی شدہ ہوں۔ سورہ نساء میں پہلے ارشاد ہوا کہ : وَالّٰتِیْ یَاْ تِیْنَ الْفَاحِشَۃَ مِنْ نِّسَآئِکُمْ ........... اَوْ یَجْعَلَ اللہُ لَھُنَّ سَبِیْلاً O (آیت 15 ) ’’ تمہارے عورتوں میں سے جو بد کاری کی مرتکب ہوں ان پر اپنے میں سے چار آدمیوں کی گواہی لو، اور اگر وہ گواہی دے دیں تو ان کو گھروں میں بند رکھو یہاں تک کہ انہیں موت آ جاۓ یا اللہ ان کے لیے کوئی راستہ نکال دے۔ ‘‘ اس کے بعد تھوڑی دور آگے چل کر پھر فرمایا: وَمَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ مِنْکُمْ طَوٰ لاً اَنْ یَّنْکِحَ الْمُحْصَنٰتٍ الْمُؤْ مِنٰتٍ فَمِنْ مَّا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ مِنْ نَتَیٰتِکُمُ الْمُؤْ مِنٰتٍ ........ فَاِذَآ اُحْصِنَّ فَاِنْ بِفَاحِشَۃٍ فَعَلَیْھِنَّ نِصْفُ مَ عَلَی الْمُحْصَنٰتٍ مِنَ الْعَذَابِ (آیت 25) ’’اور تم میں سے جو لوگ اتنی مقدرت نہ رکھتے ہوں کہ مومنوں میں سے مُحْصَنٰت کے ساتھ نکاح کر لیں ............. پھر اگر وہ (لونڈیاں ) مُحْصَنَہ ہو جانے کے بعد کسی بد چلنی کی مرتکب ہوں تو ان پر اس سزا کی بہ نسبت آدھی سزا ہے جو محصَنٰت کو (ایسے جرم پر) دی جاۓ۔ ان میں سے پہلی آیت میں توقع دلائی گئی ہے کہ زانیہ عورتیں جن کو سر دست قید کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے ، ان کے لیے اللہ تعالیٰ بعد میں کوئی سبیل پیدا کرے گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ سورہ نور کا یہ دوسرا حکم وہی چیز ہے جس کا وعدہ سورہ نساء کی مذکورہ بالا آیت میں کیا گیا تھا۔ دوسری آیت میں شادی شدہ لونڈی کے ارتکاب زنا کی سزا بیان کی گئی ہے۔ یہاں ایک ہی آیت اور ایک ہی سلسلہ بیان میں دو جگہ محصنات کا لفظ استعمال ہوا ہے اور لا محالہ یہ ماننا پڑے گا کہ دونوں جگہ اس کے ایک ہی معنی ہیں۔ اب آغاز کے فقرے کو دیکھیے تو وہاں کہا جا رہا ہے کہ جو لوگ’’ محصنات سے نکاح کرنے کی مقدرت نہ رکھتے ہوں ‘‘ ظاہر ہے کہ اس سے مراد شدی شدہ عورت نہیں ہو سکتی بلکہ ایک آزاد خاندان کی بن بیاہی عورت ہی ہو سکتی ہے۔ اس کے بعد اختتام کے فقرے میں فرمایا جاتا ہے کہ لونڈی منکوحہ ہونے کے بعد اگر زنا کرے تو اس کو اس سزا سے آدھی سزا دی جاۓ جو محصنات کو اس جرم پر ملنی چاہیے۔ سیاق عبارت صاف بتاتا ہے کہ اس فقرے میں بھی محصنات کے معنی وہی ہیں جو پہلے فقرے میں تھے ، یعنی شادی شدہ عورت نہیں بلکہ آزاد خاندان کی حفاظت میں رہنے والی بن بیاہی عورت۔ اس طرح سورہ نساء کی یہ دونوں آیتیں مل کر اس امر کی طرف اشارہ کر دیتی ہیں کہ سورہ نور کا یہ حکم، جس کا وہاں وعدہ کیا گیا تھا، غیر شادی شدہ لوگوں کے ارتکاب زنا کی سزا بیان کرتا ہے (مزید توضیع کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول ، النساء، حاشیہ 46)۔ ۷) : یہ امر کہ زنا بعد احصان کی سزا کیا ہے ، قرآن مجید نہیں بتاتا بلکہ اس کا علم ہمیں حدیث سے حاصل ہوتا ہے بکثرت معتبر روایات سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے نہ صرف قولاً اس کی سزا رجم(سنگساری) بیان فرمائی ہے ، بلکہ عملاً آپ نے متعدد مقدمات میں یہی سزا نافذ بھی کی ہے۔ پھر آپ کے بعد چاروں خلفاۓ راشدین نے اپنے اپنے دور میں یہی سزا نافذ کی اور اسی کے قانونی سزا ہونے کا بار بار اعلان کیا۔ صحابہ کرام اور تابعین میں یہ مسئلہ بالکل متفق علیہ تھا۔ کسی ایک شخص کا بھی کوئی قول ایسا موجود نہیں ہے جس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکے کہ قرن اول میں کسی کو اس کے ایک ثابت شدہ حکم شرعی ہونے میں کوئی شک تھا۔ ان کے بعد تمام زمانوں اور ملکوں کے فقہاۓ اسلام اس بات پر متفق رہے ہیں کہ یہ ایک سنت ثابتہ ہے ، کیونکہ اس کی صحت کے اتنے متواتر اور قوی ثبوت موجود ہیں جن کے ہوتے کوئی صاحب علم اس سے انکار نہیں کر سکتا۔ امت کی پوری تاریخ میں بجز خوارج اور بعض معتزلہ کے کسی نے بھی اس سے انکار نہیں کیا ہے ، اور ان کے انکار کی بنیاد بھی یہ نہیں تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے اس حکم کے ثبوت میں وہ کسی کمزوری کی نشان دہی کر سکے ہوں ، بلکہ وہ اسے ’’ قرآن کے خلاف‘‘ قرار دیتے تھے۔ حالانکہ یہ ان کے اپنے فہم قرآن کو قصور تھا۔ وہ کہتے تھے کہ قرآن : الزّانی و الذّانیۃ کے مطلق الفاظ استعمال کر کے اس کی سزا سو کوڑے بیان کرتا ہے ، لہٰذا قرآن کی رو سے ہر قسم کے زانی اور زانیہ کی سزا یہی ہے اور اس سے زانی محصِن کو الگ کر کے اس کی کوئی سزا تجویز کرنا قانون خداوند کی خلاف ورزی ہے ، مگر انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ قرآن کے الفاظ جو قانونی وزن رکھتے ہیں وہی قانونی وزن ان کی اس تشریح کا بھی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے کی ہو، بشرطیکہ وہ آپ سے ثابت ہو۔ قرآن نے ایسے ہی مطلق الفاظ میں : السّارق و السّارقۃ کا حکم بھی قطع ید بیان کیا ہے۔ اس حکم کو اگر ان تشریحات سے مقید نہ کیا جاۓ جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہیں تو اس کے الفاظ کی عمومیت کا تقاضا یہ ہے کہ آپ ایک بیر کی چوری پر بھی آدمی کو سارق قرار دیں اور پھر پکڑ کر اس کا ہاتھ شانے کے پاس سے کات دین۔ دوسری طرف لاکھوں روپے کی چوری کرنے والا بھی اگر گرفتار ہوتے ہیں کہ ہ دے کہ میں نے اپنے نفس کی اصلاح کر لی ہے اور اب میں چوری سے توبہ کرتا ہوں تو آپ کو اسے چھوڑ دینا چاہیے کیونکہ قرآن کہتا ہے : فَمَنْ تَابَ مِنْمبَعْدِ ظُلْمِہٖ وَاَصْلَحَ فَاِنَّ اللہَ یَتُوْ بُ عَلَیْہِ (المائدہ۔ آیت 39)۔ اسی طرح قرآن کے خلاف ہونی چاہیے۔ قرآن صرف دو بہنوں کے جمع کرنے سے منع کرتا ہے۔ خالہ اور بھانجی ، اور پھوپھی اور بھتیجی کے جمع کرتے کو شخص حرام کہے اس پر قرآن کے خلاف حکم لگانے کا الزام عائد ہونا چاہیے۔ قرآن صرف اس حالت میں سوتیلی بیٹی کو حرام کرتا ہے جب کہ اس نے سوتیلے باپ کے گھر میں پرورش پائی ہو۔ مطلقاً اس کی حرمت خلاف قرآن قرار پانی چاہیے۔ قرآن صرف اس وقت رہن کی اجازت دیتا ہے جب کہ آدمی سفر میں ہو اور قرض کی دستاویز لکھنے والا کاتب میسر نہ آۓ۔ حضر میں ، اور کاتب کے قابل حصول ہونے کی صورت میں رہن کا جواز قرآن کے خلاف ہونا چاہیے۔ قرآن عام لفظوں میں حکم دیتا ہے : وَاَشْھِدُوْآ اَذَاَتَبا یَعْتُمْ (گواہ بناؤ جب کہ آپس میں خرید و فروخت کرو)۔ اب وہ تمام خرید و فروخت ناجائز ہونی چاہیے جو رات دن ہماری دکانوں پر گواہی کے بغیر ہو رہی ہے۔ یہ صرف چند مثالیں ہیں جن پر ایک نگاہ ڈال لینے سے ہی ان لوگوں کے استدلال کی غلطی معلوم ہو جاتی ہے جو رجم کے حکم کو خلاف قرآن کہتے ہیں۔ نظام شریعت میں نبی کا یہ منصب ناقابل انکار ہے کہ وہ خدکا حکم پہنچانے کے بعد ہی میں بتاۓ کہ اس حکم کا منشا کیا ہے ، اس پر عمل کرنے کا طریقہ کیا ہے ، کن معاملات پر اس کا اطلاق ہو گا، اور کن معاملات کے لیے دوسرا حکم ہے۔ اس منصب کا انکار صرف اصول دین ہی کے خلاف نہیں ہے بلکہ اس سے اتنی عملی قباحتیں لازم آتی ہیں کہ ان کا شمار نہیں ہو سکتا۔ ۸) َ: زنا کی قانونی تعریف میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ حنفیہ اس کی تعریف یہ کرتے ہیں کہ ’’ایک مرد کا کسی ایسی عورت سے قُبُل میں مباشرت کرنا جو نہ تو اس کے نکاح یا ملک یمین میں ہو اور نہ اس امر کا شبہ کی کوئی معقول وجہ ہو کہ اس نے منکوحہ یا مملوکہ سمجھتے ہوۓ اس سے مباشرت کی ہے ’’۔ اس تعریف کی رو سے وطی فی الدُبُر ، عمل قومِ لوط ، بہائم سے مجامعت وغیرہ، ماہیتِ زنا سے خارج ہو جاتے ہیں اور صرف عورت سے قُبُل میں مباشرت ہی پر اس کا اطلاق ہوتا ہے جب کہ شرعی حق یا اس کے شبہ کے بغیر یہ فعل کیا گیا ہو۔ بخلاف اس کے شافعیہ اس کی تعریف یوں بیان کرتے ہیں ’’شرمگاہ کو ایسی شرمگاہ میں داخل کرنا جو شرعاً حرام ہو مگر طبعاً جس کی طرف رغبت کی جا سکتی ہو‘‘۔ اور مالکیہ کے نزدیک اس کی تعریف یہ ہے ’’ شرعی حق یا اس کے شبہ کے بغیر قُبُل یا دُبُر میں مرد یا عورت سے وطی کرنا‘‘۔ ان دونوں تعریفوں کی رو سے عمل قوم لوط بھی زنا میں شمار ہو جاتا ہے۔ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ یہ دونوں تعریفیں لفظ زنا کے معروف معنوں سے ہٹی ہوئی ہیں۔ قرآن مجید ہمیشہ الفاظ کو ان کے معروف اور عام فہم معنی میں استعمال کرتا ہے۔ الا یہ کہ وہ کسی لفظ کو اپنی اصطلاح خاص بنا رہا ہو، اور اصطلاح خاص بنانے کی صورت میں وہ خود اپنے مفہوم خاص کو ظاہر کر دیتا ہے۔ یہاں ایسا کوئی قرینہ نہیں ہے کہ لفظ زنا کو کسی مخصوص معنی میں استعمال کیا گیا ہو، لہٰذا سے معروف معنی ہی میں لیا جاۓ گا، اور وہ عورت سے فطری مگر نا جائز تعلق تک ہی محدود ہے ، شہوت رانی کی دوسری صورتوں تک وسیع نہیں ہوتا۔ علاوہ بریں یہ بات معلوم ہے کہ عمل قوم لوط کی سزا کے بارے میں صحابہ کرام کے درمیان اختلاف ہوا ہے۔ اگر اس فعل کا شمار بھی اسلامی اصطلاح کی رو سے زنا میں ہوتا تو ظاہر ہے کہ اختلاف راۓ کی کوئی وجہ نہ تھی۔ ۹) : قانوناً ایک فعل زنا کو مستلزم سزا قرار دینے کے لیے صرف اِدخال حشفہ کافی ہے۔ پورا ادخال یا تکمیل فعل اس کے لیے ضروری نہیں ہے۔ اس کے برعکس اگر ادخال حشفہ نہ ہو تو محض ایک بستر پر یکجا پایا جانا، یا ملاعبت کرتے ہوۓ دیکھا جانا، یا برہنہ پایا جانا کسی کو زانی قرار دینے کے لیے کافی نہیں ہے۔ اور اسلامی شریعت اس حد تک بھی نہیں جاتی کہ کوئی جوڑا ایسی حالت میں پایا جاۓ تو اس کا ڈاکٹری معائنہ کرا کے زنا کا ثبوت بہم پہنچایا جاۓ اور پھر اس پر حد زنا جاری کی جاۓ۔ جو لوگ اس طرح کی بے حیائی میں مبتلا پاۓ جائیں ان پر صرف تعزیر ہے۔ جس کا فیصلہ حالات کے لحاظ سے حاکم عدالت خود کرے گا، یا جس کے لیے اسلامی حکومت کی مجلس شوریٰ کوئی سزا تجویز کرنے کی مجاز ہو گی۔ یہ تعزیر اگر کوڑوں کی شکل میں ہو تو دس کوڑوں سے زیادہ نہیں لگاۓ جا سکتے ، کیونکہ حدیث میں تصریح ہے کہ : لا یجلد فوق عشر جلداتٍ اِلَّا فی حدٍّ من حدود اللہ۔ ’’اللہ کی مقرر کردہ حدود کے سوا کسی اور جرم میں دس کوڑوں سے زیادہ نہ مارے جائیں ‘‘(بخاری، مسلم، ابو داؤد)۔ اور اگر کوئی شخص پکڑا نہ گیا ہو بلکہ خود نادم ہو کر ایسے کسی قصور کا اعتراف کرے تو اس کے لیے صرف توبہ کی تلقین کافی ہے۔ عبداللہ بن مسعودؓ کی روایت ہے کہ ایک شخص نے حاضر ہو کر عرض کیا کہ ’’ شہر کے باہر میں ایک عورت سے سب کچھ کر گزرا بجز جماع کے۔ اب حضور جو چاہیں مجھے سزا دیں ‘‘۔ حضرت عمرؓ نے کہا ’’ جب خدا نے پردہ ڈال دیا تھا تو تو بھی پردہ بڑا رہنے دیتا‘‘۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم خاموش رہے اور وہ شخص چلا گیا۔ پھر آپ نے اسے واپس بلایا اور یہ آیت پڑھی : اَقِمِ الصَّلوٰۃ طَرَفَی النَّھَارِ وَ زُلَفاً مِّنَالَّیْلِ م اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْھِبُنَ السَّیِّاٰتِ O ’’نماز قائم کر دن کے دونوں سروں پر اور کچھ رات گزرنے پر ، نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں ‘‘ (ہود ، آیت 114)۔ ایک شخص نے پوچھا’’ کیا یہ اسی کے لیے خاص ہے ‘‘؟ حضورؐ نے فرمایا ’’ نہیں ، سب کے لیے ہے ‘‘(مسلم،ترمذی، ابو داؤد، نسائی)۔ یہی نہیں بلکہ شریعت اس کو بھی جائز نہیں رکھتی کہ کوئی شخص اگر جرم کی تصریح کے بغیر اپنے مجرم ہونے کا اعتراف کرے تو کھوج لگا کر اس سے پوچھا جاۓ کہ تو نے کونسا جرم کیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں ایک شخص نے حاضر ہو کر عرض کیا ’’ یا رسول اللہ میں حد کا مستحق ہو گیا ہوں ، مجھ پر حد جاری فرمائیے ‘‘ مگر آپ نے اس سے نہیں پوچھا کہ تو کس حد کا مستحق ہوا ہے۔ پھر نماز سے فارغ ہو کر وہ شخص پھر اٹھا اور کہنے لگا کہ میں مجرم ہوں مجھے سزا دیجیے۔ آپ نے فرمایا’’ کیا تو نے ابھی ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی ہے ‘‘؟ اس نے عرض کیا ، ’’ جی ہاں ‘‘۔ فرمایا ’’بس تو اللہ نے تیرا قصور معاف کر دیا‘‘۔ (بخاری ، مسلم ، احمد)۔ ۱۰) : کسی شخص (مرد یا عورت) کو مجرم قرار دینے لیے صرف یہ امر کافی نہیں ہے کہ اس سے فعل زان صادر ہوا ہے ، بلکہ اس کے لیے مجرم میں کچھ شرطیں پائی جانی چاہییں۔ یہ شرطیں زناۓ محض کے معاملے میں اور ہیں ، اور زنا بعد احصان کے معاملہ میں اور۔ زناۓ محض کے معاملے میں شرط یہ ہے کہ مجرم عاقل ہو اور بالغ ہو۔ اگر کسی مجنون یا کسی بچے سے یہ فعل سرزد ہو تو وہ حد زنا کا مستحق نہیں ہے۔ اور زنا بعد اِحصان کے لیے عقل اور بلوغ کے علاوہ چند مزید شرطیں بھی ہیں جن کو ہم ذیل میں بیان کرتے ہیں : پہلی شرط یہ ہے کہ مجرم آزاد ہو۔ اس شرط پر سب کا اتفاق ہے ، کیونکہ قرآن خود اشارہ کرتا ہے کہ غلام کو رجم کیسز نہیں دی جاۓ گی۔ ابھی یہ بات گزر چکی ہے کہ لونڈی اگر نکاح کے بعد زنا کی مرتکب ہو تو اسے غیر شادی شدہ آزاد عورت کی بہ نسبت آدھی سزا دینی چاہیے۔ فقہاء نے تسلیم کیا ہے کہ قرآن کا یہی قانون غلام پر بھی نافذ ہو گا۔ دوسری شرط یہ ہے کہ مجرم باقاعدہ شادی شدہ ہو۔ یہ شرط بھی متفق علیہ ہے ، اور اس شرط کی رو سے کوئی ایسا شخص جو ملک یمین کی بنا پر تمتع کر چکا ہو، یا جس کا نکاح کسی فاسد طریقے سے ہوا ہو، شادی شدہ قرار نہیں دیا جاۓ گا، یعنی اس سے اگر زنا کا صدور ہو تو اس کو رجم کی نہیں بلکہ کوڑوں کی سزا دی جاۓ گی۔ تیسری شرط یہ ہے کہ اس کا محض نکاح ہی نہ ہوا ہو بلکہ نکاح کے بعد خلوت صحیحہ بھی ہو چکی ہو۔ صرف عقد نکاح کسی مرد کو محصِن، یا عورت کو مُحصَنہ نہیں بنا دیتا کہ زنا کے ارتکاب کی صورت میں اس کو رجم کر دیا جاۓ۔ اس شرط پر بھی اکثر فقہا متفق ہیں۔ مگر امام ابو حنیفہ اور امام محمد اس میں اتنا اضافہ اور کرتے ہیں کہ ایک مرد یا ایک عورت کو محصن صرف اسی صورت میں قرار دیا جاۓ گا جب کہ نکاح اور خلوت صحیحہ کے وقت زوجین آزاد، بالغ اور عاقل ہوں۔ اس مزید شرط سے جو فرق واقع ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اگر ایک مرد کا نکاح ایسی عورت سے ہوا ہو جو لونڈی ہو، یا نابالغ ہو، یا مجنون ہو، تو خواہ وہ اس حالت میں اپنی بیوی سے لذت اندوز ہو بھی چکا ہو، پھر بھی وہ مرتکب زنا ہونے کی صورت میں رجم کا مستحق نہ ہو گا۔ یہی معاملہ عورت کا بھی ہے اگر اس کو اپنے نابالغ یا مجنون یا غلام شوہر سے لذت اندوز ہونے کا موقع مل چکا ہو، پھر بھی وہ مرتکب زنا ہونے کی صورت میں رجم کی مستحق نہ ہو گی۔ غور کیا جاۓ تو محسوس ہوتا ہے کہ یہ ایک بہت ہی معقول اضافہ ہے جو ان دونوں بالغ النظر بزرگوں نے کیا ہے۔ چوتھی شرط یہ ہے کہ مجرم مسلمان ہو۔ اس میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ امام شافعی، امام ابو یوسف اور امام احمد اس کو نہیں مانتے۔ اس کے نزدیک ذِمّی بھی اگر زنا بعد احصان کا مرتکب ہو گا تو رجم کیا جاۓ گا۔ لیکن امام ابو حنیفہ اور امام مالک اس امر پر متفق ہیں کہ زنا بعد احصان کی سزا رجم صرف مسلمان کے لیے ہے۔ اس کے دلائل میں سے سب سے زیادہ معقول اور وزنی دلیل یہ ہے کہ ایک آدمی کو سنگساری جیسی خوفناک سزا دینے کے لیے ضروری ہے کہ وہ مکمل ’’احصان ‘‘ کی حالت میں ہو اور پھر بھی زنا کے ارتکاب سے باز نہ آۓ۔ احصان کا مطلب ہے ’’اخلاقی قلعہ بندی ‘‘، اور اس کی تکمیل تین حصاروں سے ہوتی ہے۔ اولین حصار یہ ہے کہ آدمی خدا پر ایمان رکھتا ہو، آخرت کی جواب دہی کا قائل ہو اور شریعت خداوندی کو تسلیم کرتا ہو۔ دوسرا حصار یہ ہے وہ معاشرے کا آزاد فرد ہو، کسی دوسرے کی غلامی میں نہ ہو جس کی پابندیاں اسے اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے جائز تدابیر اختیار کرنے میں مانع ہوتی ہیں ، اور لا چاری و مجبوری اس سے گناہ کرا سکتی ہے ، اور کوئی خاندان اسے اپنے اخلاق اور اپنی عزت کی حفاظت میں مدد دینے والا نہیں ہوتا۔ تیسرا حصار یہ ہے کہ اس کا نکاح ہو چکا ہو اور اسے تسکین نفس کا جائز ذریعہ حاصل ہو۔ یہ تینوں حصار جب پاۓ جاتے ہوں تب ’’قلع بندی‘‘ مکمل ہوتی ہے اور تب ہی وہ شخص بجا طور پر سنگساری کا مستحق قرار پا سکتا ہے جس نے نا جائز شہوت رانی کی خاطر تین تین حصار توڑ ڈالے۔ لیکن جہاں پہلا اور سب سے بڑا حصار ، یعنی خدا اور آخرت اور قانون خداوندی پر ایمان ہی موجود نہ ہو وہاں یقیناً قلعہ بندی مکمل نہیں ہے اور اس بنا پر فجور کا جرم بھی اس شدت کو پہنچا ہوا نہیں ہے جو اسے انتہائی سزا کا مستحق بنا دے۔ اس دلیل کی تائید ابن عمر کی وہ روایت کرتی ہے جسے اسحاق بن رہویہ نے اپنی مُسند میں اور دار قطنی نے اپنی سُنَن میں نقل کیا ہے کہ : من اشرک باللہ فلیس بمحصن ’’جس نے خدا کے ساتھ شرک کیا وہ محصن نہیں ہے ‘‘۔ اگر چہ اس امر میں اختلاف ہے کہ آیا ابن عمر نے اس روایت میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا قول نقل کیا ہے ، یا یہ ان کا اپنا فتویٰ ہے۔ لیکن اس کمزوری کے باوجود اس کا مضمون اپنے معنی کے لحاظ سے نہایت قوی ہے۔ اس کے جواب میں اگر یہودیوں کے اس مقدمے سے استدلال کیا جاۓ جس میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے رجم کا حکم نافذ فرمایا تھا، تو ہم کہیں گے کہ یہ استدلال صحیح نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس مقدمے کے متعلق تمام معتبر روایات کو جمع کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ان پر اسلام کا ملکی قانون(Law of the land) نہیں بلکہ انکا اپنا مذہبی قانون (Personal law) نافذ فرمایا تھا۔ بخاری و مسلم کی متفقہ روایت ہے کہ جب یہ مقدمہ آپ کے پاس لایا گیا تو آپ نے یہودیوں سے پوچھا کہ : ما تجدون فی التوراۃ فی شان الرحم یا ما تجدون فی کتابکم، یعنی تمہاری کتاب توراۃ میں اس کا کیا حکم ہے ‘‘؟ پھر جب یہ بات ثابت ہو گئی کہ ان کے ہاں رجم کا حکم ہے تو حضورؐ نے فرمایا : فانی احکم نمافی التوراۃ ’’ میں وہی فیصلہ کرتا ہوں جو توراۃ میں ہے ‘‘۔ اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے اس مقدمے کا فیصلہ کرتے ہوۓ فرمایا اللھم انی اول من احیا امرک اذا ماتوہ، ’’ خداوندا، میں پہلا شخص ہوں جس نے تیرے حکم کو زندہ کیا جب کہ انہوں نے اسے مردہ کر دیا تھا۔ ‘‘ (مسلم، ابو داؤد، احمد)۔ ۱۱) : فعل زنا کے مرتکب کو مجرم قرار دینے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اس نے اپنی آزاد مرضی سے یہ فعل کیا ہو۔ جبر و ا کراہ سے اگر کسی شخص کو اس فعل کے ارتکاب پر مجبور کیا گیا ہو تو ہو نہ مجرم ہے نہ سزا کا مستحق۔ اس معاملے پر شریعت کا صرف یہ عام قاعدہ ہی منطبق نہیں ہوتا کہ ’’آدمی جبراً کراۓ ہوۓ کاموں ی ذمہ داری سے بری ہے ’’۔ بلکہ آگے چل کر اسی سورے میں خود قرآن ان عورتوں کی معافی کا اعلان کرتا ہے جن کو زنا پر مجبور کیا گیا ہو۔ نیز متعدد احادیث میں تصریح ہے کہ زنا بالجبر کی صورت میں صرف زانی جابر کو سزا دی گئی اور جس پر جب کیا گیا تھا اسے چھوڑ دیا گیا۔ ترمذی و ابو داؤد کی روایت ہے کہ ایک عورت اندھیرے میں نماز کے لیے نکلی۔ راستے میں ایک شخص نے اس کو گرا لیا اور زبردستی اس کی عصمت دری کر دی۔ اس کے شور مچانے پر لوگ آ گۓ اور زانی پکڑا گیا۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو رجم کرا دیا اور عورت کو چھوڑ دیا۔ بخاری کی روایت ہے کہ حضرت عمرؓ کے زمانہ خلافت میں ایک شخص نے ایک لڑکی سے زنا بالجبر کا ارتکاب کیا۔ آپ نے اسے کوڑے لگواۓ اور لڑکی کو چھوڑ دیا۔ ان دلائل کی بنا پر عورت کے معاملہ میں تو قانون متفق علیہ ہے۔ لیکن اختلاف اس امر میں ہوا ہے کہ آیا مرد کے معاملے میں بھی جبر و اکراہ معتبر ہے یا نہیں۔ امام ابو یوسفؒ ، امام محمدؒ ، امام شافعیؒ اور امام حسؒن بن صالح کہتے ہیں کہ مرد بھی اگر زنا کرنے پر مجبور کیا گیا ہو تو معاف کیا جاۓ گا۔ امام زُفَرؒ کہتے ہیں کہ اسے معاف نہیں کیا جاۓ گا، کیونکہ وہ انتشار عضو کے بغیر اس فعل کا ارتکاب نہیں کر سکتا ، اور انتشار عضو اس امر کی دلیل ہے کہ اس کی اپنی شہوت اس کی محرک ہوئی تھی۔ امام ابو حنیفہ کہتے ہیں کہ اگر حکومت یا اس کے کسی حاکم نے آدمی کو زنا پر مجبور کیا ہو تو سزا نہیں دی جاۓ گی، کیونکہ جب خود حکومت ہی جرم پر مجبور کرنے والی ہو تو اسے سزا دینے کا حق نہیں رہتا۔ لیکن اگر حکومت کے سوا کسی اور نے مجبور کیا ہو تو زانی کو سزا دی جاۓ گی، کیونکہ ارتکاب زنا بہر حال وہ اپنی شہوت کے بغیر نہ کر ستا تھا اور شہوت جبراً پیدا نہیں کی جا سکتی۔ ان تینوں اقوال میں سے پہلا قول ہی زیادہ صحیح ہے ، اور اس کی دلیل یہ ہے کہ انتشار عضو چاہے شہوت کی دلیل ہو مگر رضاؤ رغبت کی لازمی دلیل نہیں ہے۔ فرض کیجیے کہ ایک ظالم کسی شریف آدمی کو زبردستی پکڑ کر قید کر دیتا ہے اور اس کے ساتھ ایک جوان ، خوبصورت عورت کو بھی برہنہ کر کے ایک ہی کمرے میں بند رکھتا ہے اور اسے اس وقت تک رہا نہیں کرتا جب تک کہ وہ زنا کا مرتکب نہ ہو جاۓ۔ اس حالت میں اگر یہ دونوں زنا کے مرتکب ہو جائیں اور وہ ظالم اس کے چار گواہ بنا کر انہیں عدالت میں پیش کر دے تو کیا یہ انصاف ہو گا کہ ان کے حالات کو نظر انداز کر کے انہیں سنگسار کر دیا جاۓ یا ان پر کوڑے برساۓ جائیں ؟ اس طرح کے حالات میں عقلاً یا عادتاً ممکن ہیں جن میں شہوت لاحق ہو سکتی ہے ، بغیر اس کے کہ اس میں آدمی کی اپنی رضا و رغبت کا دخل ہو۔ اگر کسی شخص کو قید کر کے شراب کے سوا پینے کو کچھ نہ دیا جاۓ ، اور اس حالت میں وہ شراب پی لے تو کیا محض اس دلیل سے اس کو سزا دی جا سکتی ہے کہ حالات تو واقعی اس کے لیے مجبوری کے تھے مگر حلق سے شراب کا گھونٹ وہ اپنے ارادے کے بغیر نہ اتار سکتا تھا؟ جرم کے متحقق ہونے کے لیے محض ارادے کا پایا جانا کافی نہیں ہے بلکہ اس کے یے آزاد ارادہ ضروری ہے۔ جو شخص زبردستی ایسے حالات میں مبتلا کیا گیا ہو کہ وہ جرم کا ارادہ کرنے پر مجبور ہو جاۓ وہ بعض صورتوں میں تو قطعی مجرم نہیں ہوتا ، اور بعض صورتوں میں اس کا جرم بہت ہلکا ہو جاتا ہے۔ ۱۲): اسلامی قانون حکومت کے سوا کسی کو یہ اختیار نہیں دیتا کہ وہ زانی اور زانیہ کے خلاف کار روائی کرے ، اور عدالت کے سوا کسی کو یہ حق نہیں دیتا کہ وہ اس پر سزا دے۔ اس امر پر تمام امت کے فقہاء کا اتفاق ہے کہ آیت زیر بحث میں حکم فاجلدوا (ان کو کوڑے مارو) کے مخاطب عوام نہیں ہیں بلکہ اسلامی حکومت کے حکام اور قاضی ہیں۔ البتہ غلام کے معاملے میں اختلاف ہے کہ اس پر اس کا آقا حد جاری کرنے کا مجاز ہے یا نہیں۔ مذہب حنفی کے تمام ائمہ اس پر متفق ہیں کہ وہ اس کا مجاز نہیں ہے۔ شافعیہ کہتے ہیں ہ مجاز ہے۔ اور مالکیہ کہتے ہیں کہ آقا کو سرقہ میں ہاتھ کاٹنے کا تو حق نہیں ہے مگر زنا ، قذف اور شراب نوشی پر وہ حد جاری کر سکتا ہے۔ ۱۳) : اسلامی قانون زنا کی سزا کو قانون مملکت کا ایک حصہ قرار دیتا ہے اس لیے مملکت کی تمام رعایا پر یہ حکم جاری ہو گا خواہ وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم۔ اس سے امام مالک کے سوا غالباً ائمہ میں سے کسی نے اختلاف نہیں کیا ہے۔ رجم کی سزا غیر مسلموں پر جاری کرنے میں امام ابو حنیفہ کا اختلاف اس بنیاد پر نہیں ہے کہ یہ قانون ممکلت نہیں ہے ، بلکہ اس بنیاد پر ہے کہ ان کے نزدیک رجم کی شرائط میں سے ایک شرط زانی کا پورا محصن ہونا ہے اور احصان کی تکمیل اسلام کے بغیر نہیں ہوتی ، اس وجہ سے وہ غیر مسلم زانی کو رجم کی سزا سے مستثنیٰ قرار دیتے ہیں۔ بخلاف اس کے امام مالک کے نزدیک اس حکم کے مخاطب مسلمان میں نہ کہ کافر، اس لیے وہ حد زان کو مسلمانوں کے شخصی قانون (پرسنل لا) کا ایک جز قرار دیتے ہیں۔ رہا مستامن (جو کسی دوسرے ملک سے دار الاسلام میں اجازت لے کر آیا ہو) تو امام شافعیؒ اور امام ابو یوسفؒ کے نزدیک وہ بھی اگر دار الاسلام میں زنا کرے تو اس پر حد جاری کی جاۓ گی۔ لیکن امام ابو حنیفہ اور امام محمد کہتے ہیں کہ ہم اس پر حد جاری نہیں کر سکتے۔ ۱۴) : اسلامی قانون یہ لازم نہیں کرتا کہ کوئی شخص اپنے جرم کا خود اقرار کرے ، یا جو لوگ کسی شخص کے جرم زنا پر مطلع ہوں وہ ضرور ہی اس کی خبر حکام تک پہنچائیں۔ البتہ جب حکام اس پر مطلع ہو جائیں تو پھر اس جرم کے لیے معافی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : من اتی شیئا من ھٰذاہ القادو وات فلیستتربستر اللہ فان ابدیٰ لنا صفحۃ القمنا علیہ کتاب اللہ (احکام القرآن ، للجصاص)۔ ’’ تم میں سے جو ش |