Ayats Found (3)
Surah 25 : Ayat 63
وَعِبَادُ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى ٱلْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ ٱلْجَـٰهِلُونَ قَالُواْ سَلَـٰمًا
رحمان کے (اصلی) بندے1 وہ ہیں جو زمین پر نرم چال چلتے ہیں2 اور جاہل ان کے منہ کو آئیں تو کہہ دیتے ہیں کہ تم کو سلام3
3 | جاہل سے مراد ان پڑھ یا بے علم آدمی نہیں ، بلکہ وہ شخص ہے جو جہالت پر اتر آئے اور کسی شریف آدمی سے بد تمیزی کا برتاؤ کرنے لگے ۔ رحمان کے بندوں کا طریقہ یہ ہے کہ وہ کالی کا جواب گالی کا جواب گالی سے اور بہتان کا جواب بہتان سے اور اسی طرح کی ہر بیہودگی کا جواب ویسی ہی بیہودگی سے نہیں دیتے بلکہ جوان کے ساتھ یہ رویہ اختیار کرتا ہے وہ اس کو سلام کر کے الگ ہو جاتے ہیں ۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا: وَاِذَ ا سَمِعُو ا اللَّغْوَ اَعْرَضُوْ اعَنْہُ وَقَالُوْ الَنَا اَعْمَا لُنا وَلَکُمْ اَعْمَالُکُمْ، سَلَامٌ عَلَیْکُمْ لَا نَبْتَغِی الْجَاھِلِیْنَ O (القصص آیت 55) ’’ اور جب وہ کوئی بیہودہ بات سنتے ہیں تو اسے نظر انداز کر دیتے ہیں ، کہتے ہیں بھائی ہمارے اعمال ہمارے لیے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لیے ، سلام ہے تم کو ، ہم جاہلوں کے منہ نہیں لگتے ‘‘۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم ، القصص، حواشی 72 ۔ 78 ) |
2 | یعنی تکبر کے ساتھ اکڑتے اور اینٹھتے ہوۓ نہیں چلتے ، جبّاروں اور مفسدوں کی طرح اپنی رفتار سے اپنا زور جتانے کی کوشش نہیں کرتے ، بلکہ ان کی چال ایک شریف اور سلیم الطبع اور نیک مزاج آدمی کی سی چال ہوتی ہے ۔ ’’نرم چال‘‘ سے مراد ضعیفانہ اور مریضانہ چال نہیں ہے ، اور نہ وہ چال ہے جو ایک ریا کار آدمی اپنے انکسار کی نمائش کرنے یا اپنی خدا ترسی کا مظاہرہ کرنے کے لیے تصنع سے اختیار کرتا ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم خود اس طرح مضبوط قدم رکھتے ہوئے چلتے تھے کہ گویا نشیب کی طرف اتر رہے ہیں ۔ حضرت عمر کے متعلق روایات میں آیا ہے کہ انہوں نے ایک جواب آدمی کو مَریَل چال چلتے دیکھا تو روک کر پوچھا کیا تم بیمار ہو؟ اس نے عرض کیا نہیں ۔ آپ نے درہ اٹھا کر اسے دھمکایا اور بولے ۔ قوت کے ساتھ چلو۔ اس سے معلوم ہوا کہ نرم چال سے مراد ایک بھلے مانس کی سی فطری چال ہے نہ کہ وہ جو بناوٹ سے منکسرانہ بنائی گئی ہو یا جس سے خواہ مخواہ کی مسکنت اور ضعیفی ٹپکتی ہو۔ مگر غور طلب پہلو یہ ہے کہ آدمی کی چال میں آخر وہ کیا اہمیت ہے جس کی وجہ سے اللہ کے نیک بندوں کی خصوصیات گناتے ہوئے سب سے پہلے اس کا ذکر کیا گیا؟ اس سوال کو ذرا تامل کی نگاہ سے دیکھا جاۓ تو معلوم ہوتا ہے کہ آدمی کی چال محض اس سکے انداز رفتار ہی کا نام نہیں ہے بلکہ در حقیقت وہ اس کے ذہن اور اس کی سیرت و کردار کی اولین ترجمان بھی ہوتی ہے ۔ ایک عیار آدمی کی چال، ایک غنڈے بد معاش کی چال، ایک ظالم و جابر کی چال، ایک خود پسند متکبر کی چال، ایک با وقار مہذب آدمی کی چال ، ایک غریب مسکین کی چال، اور اسی طرح مختلف اقسام کے دوسرے انسانوں کی چالیں ایک دوسرے سے اس قدر مختلف ہوتی ہیں کہ ہر ایک کو دیکھ کر بآسانی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کس چال کے پیچھے کس طرح کی شخصیت جلوہ گر ہے ۔ پس آیت کا مدعا یہ ہے کہ رحمان کے بندوں کو تو تم عام آدمیوں کے درمیان چلتے پھرتے دیکھ کر ہی بغیر کسی سابقہ تعارف کے الگ پہچان لو گے کہ یہ کس طرز کے لوگ ہیں ۔ اس بندگی نے ان کی ذہنیت اور ان کی سیرت کو جیسا کچھ بنا دیا ہے اس کا اثر ان کی چال تک میں نمایاں ہے ۔ ایک آدمی انہیں دیکھ کر پہلی نظر میں جان سکتا ہے کہ یہ شریف اور حلیم اور ہمدرد لوگ ہیں ، ان سے کسی شر کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم، بنی اسرائیل ، حاشیہ 43 ۔ جلد چہارم، لقمان ، حاشیہ 33) |
1 | یعنی جس رحمان کو سجدہ کرنے کے لیے تم سے کہا جا رہا ہے اور تم اس سےانحراف کر رہے ہو اس کے پیدائشی بندے تو سب ہی ہیں ، مگر اس کے محبوب و پسندیدہ بندے وہ ہیں جو شعوری طور پر بندگی اختیار کر کے یہ اور یہ صفات اپنے اندر پیدا کرتے ہیں ۔ نیز یہ کہ وہ سجدہ جس کی تمہیں دعوت دی جا رہی ہے اس کے نتائج یہ ہیں جو اس کی بندگی قبول کرنے والوں کی زندگی میں نظر آتے ہیں ، اور اس سے انکار کے نتائج وہ ہیں جو تم لوگوں کی زندگی میں عیاں ہیں ۔ اس مقام پر اصل مقصود سیرت و اخلاق کے دو نمونوں کا تقابل ہے ۔ ایک وہ نمونہ جو محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی پیروی قبول کرنے والوں میں پیدا ہو رہا تھا، اور دوسرا وہ جو جاہلیت پر جمے ہوئے لوگوں میں ہر طرف پایا جاتا تھا۔ لیکن اس تقابل کے لیے طریقہ یہ اختیار کیا گیا ہے کہ صرف پہلے نمونے کی نمایاں خصوصیات کو سامنے رکھ دیا، اور دوسرے نمونے کو ہر دیکھنے والی آنکھ اور سوچنے والے ذہن پر چھوڑ دیا کہ وہ آپ ہی مقابل کی تصویر کو دیکھے اور آپ ہی دونوں کا موازنہ کر لے ۔ اس کے بیان کی حاجت نہ تھی، کیونکہ ہو گرد و پیش سارے معاشرے میں موجود تھا۔ |
Surah 25 : Ayat 68
وَٱلَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ ٱللَّهِ إِلَـٰهًا ءَاخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ ٱلنَّفْسَ ٱلَّتِى حَرَّمَ ٱللَّهُ إِلَّا بِٱلْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَۚ وَمَن يَفْعَلْ ذَٲلِكَ يَلْقَ أَثَامًا
جو اللہ کے سوا کسی اور معبود کو نہیں پکارتے، اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق ہلاک نہیں کرتے، اور نہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں1 یہ کام جو کوئی کرے وہ اپنے گناہ کا بدلہ پائے گا
1 | یعنی وہ ان تین بڑے گناہوں سے پرہیز کرتے ہیں جن میں اہل عرب کثرت سے مبتلا ہیں ۔ ایک شرک باللہ ، دوسرے قتل ناحق ، تیسرے زنا۔ اسی مضمون کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بکثرت احادیث میں بیان فرمایا ہے ۔ مثلاً عبداللہ بن مسعود کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ آپ سے پوچھا گیا، سب سے بڑا گناہ کیا ہے ۔ فرمایا : اَنْ تَجْعَلَ لِلہِ نِدًّ ا وَّ ھُوَخَلَقَکَ ’’ یہ کہ تو کسی کو اللہ کا مد مقابل اور ہمسر ٹھیرائے ، حالانکہ تجھے پیدا اللہ نے کیا ہے ‘‘ ۔ پوچھا گیا اس کے بعد فرمایا ان تقتل ولد کا خشیۃ ان یطعَمَ معک، ’’ یہ کہ تو اپنی بچے کو اس خوف سے قتل کر ڈالے کہ وہ تیرے ساتھ کھانے میں شریک ہو جائے گا‘‘۔ پوچھا گیا پھر۔ فرمایا اَنْ تزانی حلیلۃ جارک، ’’ یہ کہ تو اپنے ہمسائے کی بیوی سے زنا کرے ‘‘ (بخاری، مسلم ، ترمذی، نسائی، احمد )۔ اگرچہ کبیرہ گناہ اور بھی بہت سے ہیں ، لیکن عرب کی سوسائیٹی پر اس وقت سب سے زیادہ تسلط انہی تین گناہوں کا تھا، اس لیے مسلمانوں کی اس خصوصیت کو نمایاں کیا گیا کہ پورے معاشرے میں یہ چند لوگ ہیں جو ان برائیوں سے بچ گئے ہیں ۔ یہاں یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ مشرکین کے نزدیک تو شرک سے پرہیز کرنا ایک بہت بڑا عیب تھا ، پھر اسے مسلمانوں کی ایک خوبی کی حیثیت سے ان کے سامنے پیش کرنے کی کونسی معقول وجہ ہو سکتی تھی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اہل عرب اگرچہ شرک میں مبتلا تھے اور سخت تعصب کی حد تک مبتلا تھے ، مگر در حقیقت اس کی جڑیں اوپری سطح ہی تک محدود تھیں ، کچھ گہری اتری ہوئی نہ تھیں ، اور دنیا میں کبھی کہیں بھی شرک کی جڑیں انسانی فطرت میں گہری اتری ہوئی نہیں ہوتیں ۔ اس کے برعکس خالص خدا پرستی کی عظمت ان کے ذہن کی گہرائیوں میں رچی ہوئی موجود تھی جس کو ابھارنے کے لیے اوپر کی سطح کو بس ذرا زور سے کھرچ دینے کی ضرورت تھی۔ جاہلیت کی تاریخ کے متعدد واقعات ان دونوں باتوں کی شہادت دیتے ہیں ۔ مثلاً اَبرھہ کے حملے کے موقع پر قریش کا بچہ بچہ یہ جانتا تھا کہ اس بلا کو وہ بت نہیں ٹال سکتے جو خانۂ کعبہ میں رکھے ہوئے ہیں بلکہ صرف اللہ تعالیٰ ہی ٹال سکتا ہے جس کا یہ گھر ہے ۔ آج تک وہ اشعار اور قصائد محفوظ ہیں جو اصحاب الفیل کی تباہی پر ہم عصر شعراء نے کہے تھے ۔ ان کا لفظ لفظ گواہی دیتا ہے کہ وہ لوگ اس واقعہ کو محض اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کرشمہ سمجھتے تھے اور اس امر کا ادنیٰ سا گمان بھی نہ رکھتے تھے کہ اس میں ان کے معبودوں کا کوئی دخل ہے ۔ اسی موقع پر شرک کا یہ بد ترین کرشمہ بھی قریش اور تمام مشرکین عرب کے سامنے آیا تھا کہ ابرہہ جب مکے کی طرف جاتے ہوئے طائف کے قریب پہنچا تو اہل طائف نے اس اندیشے سے کہ یہ کہیں ان کے معبود ’’لات‘‘ کے مندر کو بھی نہ گرا دے ، اپنی خدمات کعبے کو منہدم کرنے کے لیے اس کے آگے پیش کر دیں اور اپنے بدرقےاس کے ساتھ کر دیے تاکہ وہ پہاڑی راستوں سے اس کے لشکر کو بخیریت مکہ تک پہنچادیں۔ اس واقعہ کی تلخ یا مدتوں تک قریش کو ستاتی رہی اور سالہا سال تک وہ اُس شخص کی قبر پر سنگ باری کرتے رہے جو طائف کے بدرقے کا سردار تھا۔ علاوہ بریں قریش اور دوسرےاہل عرب اپنے دین کو حضرت ابرہیم کی طرف منسوب کرتے تھے، اپنے بہت سے مزہبی اورمعاشرتی مراسم اورخصوصاََ مناسک حج کو دین ابراہیمی ہی کے اجزا قرار دیتے تھے ، اور یہ بھی مانتے تھے کہ حضرت ابراہیم خالص خدا پرست تھے ، بتوں کی پرستش انہوں نے کبھی نہیں کی ۔ ان کے ہاں کی روایات میں یہ تفصیلات بھی محفوظ تھیں کہ بت پرستی ان کے ہاں کب سے رائج ہوئی اور کون سا بت کب ، کہاں سے ، کون لایا ۔ اپنے معبودوں کی جیسی کچھ عزت ایک عام عرب کے دل میں تھی اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ جب کبھی اس کی دعاؤں اور تمناؤں کے خلاف کوئی واقعہ ظہور میں آ جاتا تو بسا اوقات وہ معبود صاحب کی توہین بھی کر ڈالتا تھا اور اس کی نذر و نیاز سے ہاتھ کھینچ لیتا تھا۔ ایک عرب اپنے باپ کے قاتل سے بدلہ لینا چاہتا تھا۔ ذولْخَلَصَہ نامی بت کے آستانے پر جا کر اس نے فال کھلوائی۔ جواب نکلا یہ کام نہ کیا جا ۔اس پر عرب طیش میں آگیا۔ کہنے لگا : لو کنت یا ذالخلص الموتورا مثلی وکان شیخک المقبورا لم تنہ عن قتل العداۃ زورا یعنی اے ذولخلصہ ! اگر میری جگہ تو ہوتا اور تیرا باپ مارا گیا ہوتا تو ہر گز تو یہ جھوٹی بات نہ کہتا کہ ظالموں سے بدلہ نہ لیا جائے ۔ ایک اور عرب صاحب اپنے اونٹوں کا گلہ اپنے معبود سعد نامی کے آستانے پر لے گئے تاکہ ان کے لیے برکت حاصل کریں ۔ یہ ایک لمبا تڑنگا بت تھا جس پر قربانیوں کا خون لتھڑا ہوا تھا۔ اونٹ اسے دیکھ کر بھڑک گئے اور ہر طرف بھاگ نکلے ۔ عرب اپنے اونٹوں کو اس طرح تتر بتر ہوتے دیکھ کر غصے میں آگیا۔ بت پر پتھر مارتا جاتا تھا اور کہتا جاتا تھا کہ ’’ خدا تیرا ستیاناس کرے ۔ میں آیا تھا برکت لینے کے لیے اور تو نے میرے رہے سہے اونٹ بھی بھگا دیے ‘‘۔ متعدد بت ایسے تھے جن کی اصلیت کے متعلق نہایت گندے قصے مشہور تھے ۔ مثلاً اَسف اور نائلہ جن کے مجسمے صفا اور مروہ پر رکھے ہوئے تھے ، ان کے بارے میں مشہور تھا کہ یہ دونوں در اصل ایک عورت اور ایک مرد تھے جنہوں نے خانہ کعبہ میں زنا کا ارتکاب کیا تھا اور خدا نے ان کو پتھر بنا دیا ۔ یہ حقیقت جن معبودوں کی ہو، ظاہر ہے کہ ان کی کوئی حقیقی عزت تو عابدوں کے دلوں میں نہیں ہو سکتی ۔ ان مختلف پہلوؤں کو نگاہ میں رکھا جائے تو یہ بات بآسانی سمجھ میں آ جاتی ہے کہ خالص خدا پرستی کی ایک گہری قدر و منزلت تو دلوں میں موجود تھی، مگر ایک طرف جاہلانہ قدامت پرستی نے اس کو دبا رکھا تھا، اور دوسری طرف قریش کے پروہت اس کے خلاف تعصبات بھڑکاتے رہتے تھے ، کیونکہ بتوں کی عقیدت ختم ہو جانے سے ان کو اندیشہ تھا کہ عرب میں ان کو جو مرکزیت حاصل ہے وہ ختم ہو جائے گی اور ان کی آمدنی میں بھی فرق آ جائے گا۔ ان سہاروں پر جو مذہب شرک قائم تھا وہ توحید کی دعوت کے مقابلے میں کسی وقار کے ساتھ کھڑا نہیں ہو سکتا تھا۔ اسی لیے قرآن نے خود مشرکین کو خطاب کر کے بے تکلف کہا کہ تمہارے معاشرے میں محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے پیروؤں کو جن وجوہ سے برتری حاصل ہے ان میں سے ایک اہم ترین وجہ ان کا شرک سے پاک ہونا اور خالص خدا پرستی پر قائم ہو جاتا ہے ۔ اس پہلو سے مسلمانوں کی برتری کو زبان سے ماننے کے لیے چاہے مشرکین تیار نہ ہوں ، مگر دلوں میں وہ اس کا وزن محسوس کرتے تھے |
Surah 25 : Ayat 69
يُضَـٰعَفْ لَهُ ٱلْعَذَابُ يَوْمَ ٱلْقِيَـٰمَةِ وَيَخْلُدْ فِيهِۦ مُهَانًا
قیامت کے روز اس کو مکرّر عذاب دیا جائے گا1 اور اسی میں وہ ہمیشہ ذلت کے ساتھ پڑا رہے گا
1 | اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ عذاب کا سلسلہ ٹوٹنے نہ پائے گا، بلکہ پے در پے جاری رہے گا۔ دوسرے یہ کہ جو شخص کفر یا شرک یا دہریت و الحاد کے ساتھ قتل اور زنا اور دوسری معصیتوں کا بوجھ لیے ہوئے جائے گا اس کو بغاوت کی سزا الگ ملے گی اور ایک ایک جرم کی سزا الگ الگ ۔ اس کا ہر چھوٹا بڑا قصور حساب میں آئے گا۔ کوئی ایک خطا بھی معاف نہ ہو گی۔ قتل کی سزا ایک نہیں ہو گی بلکہ ہر فعل قتل کی الگ سزا اس کو بھگتنی ہو گی۔ زنا کی سزا بھی ایک نہیں ہو گی بلکہ جتنی بار وہ اس جرم کا مرتکب ہوا اس کی جدا گانہ سزا پائے گا۔ اور یہی حال دوسرے تمام جرائم اور معاصی کے معاملے میں بھی ہو گا |