Ayats Found (1)
Surah 4 : Ayat 92
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ أَن يَقْتُلَ مُؤْمِنًا إِلَّا خَطَــًٔاۚ وَمَن قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَــًٔا فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ وَدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ إِلَىٰٓ أَهْلِهِۦٓ إِلَّآ أَن يَصَّدَّقُواْۚ فَإِن كَانَ مِن قَوْمٍ عَدُوٍّ لَّكُمْ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍۖ وَإِن كَانَ مِن قَوْمِۭ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُم مِّيثَـٰقٌ فَدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ إِلَىٰٓ أَهْلِهِۦ وَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍۖ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ تَوْبَةً مِّنَ ٱللَّهِۗ وَكَانَ ٱللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا
کسی مومن کا یہ کام نہیں ہے کہ دوسرے مومن کو قتل کرے، الا یہ کہ اُس سے چوک ہو جائے1، اور جو شخص کسی مومن کو غلطی سے قتل کر دے تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ ایک مومن کو غلامی سے آزاد کرے2 اور مقتول کے وارثوں کو خونبہا دے3، الا یہ کہ وہ خونبہا معاف کر دیں لیکن اگر وہ مسلمان مقتول کسی ایسی قوم سے تھا جس سے تمہاری دشمنی ہو تو اس کا کفارہ ایک مومن غلام آزاد کرنا ہے اور اگر وہ کسی ایسی غیرمسلم قوم کا فرد تھا جس سے تمہارا معاہدہ ہو تو اس کے وارثوں کو خون بہا دیا جائے گا اور ایک مومن غلام کو آزاد کرنا ہوگا4 پھر جو غلام نہ پائے وہ پے در پے دو مہینے کے روزے رکھے5 یہ اِس گناہ پر اللہ سے توبہ کرنے کا طریقہ ہے6 اور اللہ علیم و دانا ہے
6 | یعنی یہ”جُرمانہ“نہیں بلکہ”توبہ“ اور ”کَفّارہ“ ہے۔ جرمانہ میں ندامت و شرمساری اور اصلاحِ نفس کی کوئی روح نہیں ہوتی بلکہ عموماً وہ سخت ناگواری کے ساتھ مجبوراً دیا جاتا ہے اور بیزاری و تلخی اپنے پیچھے چھوڑ جاتا ہے۔ برعکس اس کے اللہ تعالٰی چاہتا ہے کہ جس بندے سے خطا ہوئی ہو وہ عبادت اور کارِ خیر اور ادائے حقوق کے ذریعہ سے اس کا اثر اپنی رُوح پر سے دھودے، اور شرمساری و ندامت کے ساتھ اللہ کی طرف رجوع کرے ، تاکہ نہ صرف یہ گناہ معاف ہو بلکہ آئندہ کے لیے اس کا نفس ایسی غلطیوں کے اعادہ سے بھی محفوظ رہے۔ کفارہ کے لغوی معنی ہیں”چھپانے والی چیز“۔ کسی کارِ خیر کو گناہ کا ”کفارہ“قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ یہ نیکی اُس گناہ پر چھا جاتی ہے اور اسے ڈھانک لیتی ہے، جیسے کسی دیوار پر داغ لگ گیا ہو اور اس پر سفیدی پھیر کر داغ کا اثر مٹا دیا جائے |
5 | یعنی روزے مسلسل رکھے جائیں ، بیچ میں ناغہ نہ ہو۔ اگر کوئی شخص عذر شرعی کے بغیر ایک روزہ بھی بیچ میں چھوڑ دے تو ازسرِ نو روزوں کا سلسلہ شروع کرنا پڑے گا |
4 | اس آیت کے احکام کا خلاصہ یہ ہے: اگر مقتول دارالاسلام کا باشندہ ہوتو اس کے قاتل کو خوں بہا بھی دینا ہوگا اور خدا سے اپنے قصور کی معافی مانگنے کے لیے ایک غلام بھی آزاد کرنا ہوگا۔ اگر وہ دارالحرب کا باشندہ ہو تو قاتل کو صرف غلام آزاد کرنا ہوگا۔ اس کا خوں بہا کچھ نہیں ہے۔ اگر وہ کسی ایسے دارالکفر کا باشندہ ہو جس سے اسلامی حکومت کا معاہدہ ہے تو قاتل کو ایک غلام آزاد کرنا ہوگا اور اس کے علاوہ خوں بہا بھی دینا ہوگا، لیکن خوں بہا کی مقدار وہی ہوگی جتنی اُس معاہد قوم کے کسی غیر مسلم فرد کو قتل کردینے کی صورت میں ازروئے معاہدہ دی جانی چاہیے |
3 | نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خوں بہا کی مقدار سو اونٹ ، یا دوسو گائیں ، یا دو ہزار بکریاں مقرر فرمائی ہے۔ اگر دوسری کسی شکل میں کوئی شخص خوں بہا دینا چاہے تو اس کی مقدار انہی چیزوں کی بازاری قیمت کے لحاظ سے معَیّن کی جائے گی۔ مثلاً نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں نقد خوں بہا دینے والوں کے لیے ۸ سو دینار یا ۸ ہزار درہم مقرر تھے۔ جب حضرت عمر ؓ کا زمانہ آیا تو انہوں نے فرمایا کہ اونٹوں کی قیمت اب چڑھ گئی ہے ، لہٰذا اب سونے کے سکے میں ایک ہزار دینار، یا چاندی کے سکے مین ۱۲ ہزار درہم خوں بہا دِلوایا جائے گا۔ مگر واضح رہے کہ خوں بہا کی یہ مقدار جو مقرر کی گئی ہے قتلِ عمد کی صورت کے لیے نہیں ہے بلکہ قتل ِ خطا کی صُورت کے لیے ہے |
2 | چونکہ مقتول مومن تھا اس لیے اس کے قتل کا کفارہ ایک مومن غلام کی آزادی قرار دیا گیا |
1 | :یہاں اُن منافق مسلمانوں کا ذکر نہیں ہے جن کے قتل کی اوپر اجازت دی گئی ہے، بلکہ اُن مسلمانوں کا ذکر ہے جو یا تو دار الاسلام کے باشندے ہوں، یا اگر دارالحرب یا دارالکفر میں بھی ہوں تو دشمنانِ اسلام کی کارروائیوں میں اُن کی شرکت کا کوئی ثبوت نہ ہو۔ اُس وقت بکثرت لوگ ایسے بھی تھے جو اسلام قبول کرنے کے بعد اپنی حقیقی مجبوریوں کی بنا پر دشمن اسلام قبیلوں کے درمیان ٹھیرے ہوئے تھے۔ اور اکثر ایسے اتفاقات پیش آجاتے تھے کہ مسلمان کسی دشمن قبیلہ پر حملہ کرتے اور وہاں نادانستگی میں کوئی مسلمان ان کے ہاتھ سے مارا جاتا تھا۔ اس لیے اللہ تعالٰی نے یہاں اس صُورت کا حکم بیان فرمایا ہے جبکہ غلطی سے کوئی مسلمان کسی مسلمان کے ہاتھ سے مارا جائے |