Ayats Found (2)
Surah 6 : Ayat 151
۞ قُلْ تَعَالَوْاْ أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْۖ أَلَّا تُشْرِكُواْ بِهِۦ شَيْــًٔاۖ وَبِٱلْوَٲلِدَيْنِ إِحْسَـٰنًاۖ وَلَا تَقْتُلُوٓاْ أَوْلَـٰدَكُم مِّنْ إِمْلَـٰقٍۖ نَّحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْۖ وَلَا تَقْرَبُواْ ٱلْفَوَٲحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَۖ وَلَا تَقْتُلُواْ ٱلنَّفْسَ ٱلَّتِى حَرَّمَ ٱللَّهُ إِلَّا بِٱلْحَقِّۚ ذَٲلِكُمْ وَصَّـٰكُم بِهِۦ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ
اے محمدؐ! ان سے کہو کہ آؤ میں تمہیں سناؤں تمہارے رب نے تم پر کیا پابندیاں عائد کی ہیں1: یہ کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو2، اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو3، اور اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو، ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں اور ا ن کو بھی دیں گے اور بے شرمی کی باتوں کے قریب بھی نہ جاؤ 4خواہ وہ کھلی ہوں یا چھپی اور کسی جان کو جسے اللہ نے محترم ٹھیرایا ہے ہلاک نہ کرو مگر حق کے ساتھ5 یہ باتیں ہیں جن کی ہدایت اس نے تمہیں کی ہے، شاید کہ تم سمجھ بوجھ سے کام لو
5 | یعنی انسانی جان، جو فی الاصل خدا کی طرف سے حرام ٹھیرائی گئی ہے ، ہلاک نہ کی جائے گی مگر حق کے ساتھ۔ اب رہا یہ سوال کہ ”حق کے ساتھ“ کا کیا مفہُوم ہے، تو اس کی تین صُورتیں قرآن میں بیان کی گئی ہیں، اور دوصُورتیں اس پر زائد، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہیں۔ قرآن کی بیان کردہ صُورتیں یہ ہیں: (۱) انسان کسی دُوسرے انسان کے قتل ِ عمد کا مجرم ہو اور اس پر قصاص کا حق قائم ہو گیا ہو۔ (۲) دینِ حق کے قیام کی راہ میں مزاحم ہو اور اس سے جنگ کیے بغیر چارہ نہ رہا ہو۔ (۳) دار الاسلام کے حُدُود میں بد امنی پھیلائے یا اسلامی نظامِ حکومت کو اُلٹنے کی سعی کرے۔ باقی دو صُورتیں جو حدیث میں ارشاد ہوئی ہیں ، یہ ہیں: (۴) شادی شدہ ہونے کے باوجود زنا کرے۔ (۵) ارتداد اور خروج از جماعت کا مرتکب ہو۔ اِن پانچ صُورتوں کے سوا کسی صُورت میں انسان کا قتل انسان کے لیے حلال نہیں ہے ، خواہ وہ مومن ہو یا ذمّی یا عام کافر |
4 | اصل میں لفظ”فواحش“ استعمال ہوا ہے جس کا اطلاق اُن تمام افعال پر ہوتا ہے جن کی بُرائی بالکل واضح ہے۔ قرآن میں زنا ، عمل ِ قومِ لوط ، برہنگی، جھُوٹی تُہمت، اور باپ کی منکوحہ سے نکاح کرنے کو فحش افعال میں شمار کیا گیا ہے۔ حدیث میں چوری اور شراب نوشی اور بھیک مانگنے کو مِن جملۂ فواحش کہا گیا ہے ۔ اِسی طرح دُوسرے تمام شرمناک افعال بھی فواحش میں داخل ہیں اور ارشادِ الہٰی یہ ہے کہ اس قسم کے افعال نہ علانیہ کیے جائیں نہ چھُپ کر |
3 | نیک سلوک میں ادب ، تعظیم، اطاعت، رضا جوئی، خدمت ، سب داخل ہیں۔ والدین کے اس حق کو قرآن میں ہر جگہ توحید کے حکم کے بعد بیان فرمایا گیا ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ خدا کے بعد بندوں کے حقوق میں سب سے مقدم حق انسان پر اس کے والدین کا ہے |
2 | یعنی نہ خدا کی ذات میں کسی کو اس کا شریک ٹھیراؤ ، نہ اس کی صفات میں ، نہ اس کے اختیارات میں، اور نہ اس کے حقوق میں۔ ذات میں شرک یہ ہے کہ جو ہرِ اُلُوہیّت میں کسی کو حصّہ دار قرار دیا جائے۔ مثلاً نصاریٰ کا عقیدۂ تثلیث ، مشرکین عرب کا فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں قرار دینا، اور دُوسرے مشرکین کا اپنے دیوتاؤں اور دیویوں کو اور اپنے شاہی خاندانوں کو جنسِ آلہہ کے افراد قرار دینا۔ یہ سب شرک فی الذّات ہیں۔ صفات میں شرک یہ ہے کہ خدائی صفات جیسی کہ وہ خدا کے لیے ہیں، ویسا ہی اُن کو یا اُن میں سے کسی صفت کو کسی دُوسرے کے لیے قرار دینا ۔ مثلاً کسی کے متعلق یہ سمجھنا کہ اس پر غیب کی ساری حقیقتیں روشن ہیں، یا وہ سب کچھ سُنتا اور دیکھتا ہے، یا وہ تمام نقائص اور تمام کمزوریوں سے منزَّہ اور بالکل بے خطا ہے۔ اختیارات میں شرک یہ ہے کہ خدا ہونے کی حیثیت سے جو اختیارات صرف اللہ کے لیے خاص ہیں اُن کو یا ان میں سے کسی کو اللہ کے سوا کسی اور کے لیے تسلیم کیا جائے۔ مثلاً فوق الفطری طریقے سے نفع و ضرر پہنچانا ، حاجت روائی و دستگیری کرنا ، محافظت و نگہبانی کرنا، دُعائیں سُننا اور قسمتوں کو بنانا اور بگاڑنا ۔ نیز حرام و حلال اور جائز و ناجائز کی حُدُود مقرر کرنا اور انسانی زندگی کے لیے قانون و شرع تجویز کرنا۔ یہ سب خدا وندی کے مخصُوص اختیارات ہیں جن میں سے کسی کو غیر اللہ کے لیے تسلیم کرنا شرک ہے۔ حقوق میں شرک یہ ہے کہ خدا ہونے کی حیثیت سے بندوں پر خدا کےجو مخصوص حقوق ہیں وہ یا ان میں سے کوئی حق خدا کے سوا کسی اور کے لیے مانا جائے ۔ مثلاً رکوع و سجود، دست بستہ قیام، سلامی وآستانہ بوسی، شکرِ نعمت یا اعترافِ برتری کے لیے نذر و نیاز اور قربانی ، قضائے حاجات اور رفع مشکلات کے لیے مَنّت، مصائب و مشکلات میں مدد کے لیے پکارا جانا، اور ایسی ہی پرستش و تعظیم و تمجید کی دُوسری تمام صُورتیں اللہ کے مخصُوص حقوق میں سے ہیں۔ اسی طرح ایسا محبُوب ہونا کہ اس کی محبت پر دُوسری سب محبتیں قربان کی جائیں ، اور ایسا مستحق تقویٰ و خشیت ہونا کہ غیب و شہادت میں اس کی ناراضی اور اس کے حکم کی خلاف ورزی سے ڈرا جائے، یہ بھی صرف اللہ کا حق ہے۔ اور یہ بھی اللہ ہی کا حق ہے کہ اس کی غیر مشروط اطاعت کی جائے ، اور اس کی ہدایت کو صحیح و غلط کا معیار مانا جائے ، اور کسی ایسی اطاعت کا حلقہ اپنی گردن میں نہ ڈالا جائے جو اللہ کی اطاعت سے آزاد ایک مستقل اطاعت ہو اور جس کے حکم کے لیے اللہ کے حکم کی سند نہ ہو۔ ان حقوق میں سے جو حق بھی دُوسرے کو دیا جائے گا وہ اللہ کا شریک ٹھیرے گا خوا ہ اس کو خدائی ناموں سے کوئی نام دیا جائے یا نہ دیا جائے |
1 | یعنی تمہارے ربّ کے عائد کی ہوئی پابندیاں وہ نہیں ہیں جن میں تم گرفتار ہو، بلکہ اصل پابندیاں یہ ہیں جو اللہ نے انسانی زندگی کو منضبط کرنے کے لیے عائد کی ہیں اور جو ہمیشہ سے شرائع الٰہیہ کی اصل الاُصُول رہی ہیں۔ (تقابل کے لیے ملاحظہ ہو بائیبل کی کتاب خروج ، باب ۲۰) |
Surah 17 : Ayat 31
وَلَا تَقْتُلُوٓاْ أَوْلَـٰدَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَـٰقٍۖ نَّحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُمْۚ إِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْــًٔا كَبِيرًا
اپنی اولاد کو افلاس کے اندیشے سے قتل نہ کرو ہم انہیں بھی رزق دیں گے اور تمہیں بھی در حقیقت اُن کا قتل ایک بڑی خطا ہے1
1 | یہ آیت اُن معاشی بنیادوں کو قطعی منہدم کر دیتی ہے جن پر قدیم زمانے سے آج تک مختلف ادوار میں ضبطِ ولادت کی تحریک اُٹھتی رہی ہے۔ افلاس کا خوف قدیم زمانے میں قتلِ اطفال اور اسقاطِ حمل کا محرک ہوا کرتا تھا، اور آج وہ ایک تیسری تدبیر، یعنی منع حمل کی طرف دنیاکو دھکیل رہا ہے۔ لیکن منشور اسلامی کی یہ دفعہ انسان کو ہدایت کرتی ہے کہ وہ کھانے والوں کو گھٹانے کی تخریبی کوشش چھوڑ کر اُن تعمیری مساعی میں اپنی قوتیں اور قابلیتیں صرف کرے جن سے اللہ کے بنائے ہوئے قانونِ فطرت کےمطابق رزق میں افزائش ہوا کرتی ہے۔ اس دفعہ کی رو سے یہ بات انسان کی بڑی غلطیوں میں سے ایک ہے کہ وہ بار بار معاشی ذرائع کی تنگی کے اندیشے سے افزائش ِ نسل کا سلسلہ روک دینے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ یہ انسان کو متنبہ کرتی ہے کہ رزق رسانی کا انتظام تیرے ہاتھ میں نہیں ہے، بلکہ اس خدا کے ہاتھ میں ہے جس نے تجھے زمین میں بسایا ہے۔ جس طرح وہ پہلے آنے والوں کو روزی دیتا رہا ہے، بعد کے آنے والوں کو بھی دے گا۔ تاریخ کا تجربہ بھی یہی بتاتا ہے کہ دنیا کے مختلف ملکوں میں کھانے والی آبادی جتنی بڑھتی گئی ہے، اُتنے ہی، بلکہ بارہا اس سے بہت زیادہ معاشی ذائع وسیع ہوتے چلے گئے ہیں۔ لہٰذا خدا کے تخلیقی انتظامات میں انسان کی بے جا دخل اندازیاں حماقت کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ یہ اسی تعلیم کا نتیجہ ہے کہ نزول قرآن کے دور سے لے کر آج تک کسی دور میں بھی مسلمانوں کے اندر نسل کشی کا کوئی عام میلان پیدا نہیں ہونے پایا۔ |