Ayats Found (2)
Surah 17 : Ayat 33
وَلَا تَقْتُلُواْ ٱلنَّفْسَ ٱلَّتِى حَرَّمَ ٱللَّهُ إِلَّا بِٱلْحَقِّۗ وَمَن قُتِلَ مَظْلُومًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيِّهِۦ سُلْطَـٰنًا فَلَا يُسْرِف فِّى ٱلْقَتْلِۖ إِنَّهُۥ كَانَ مَنصُورًا
قتل نفس کا ارتکاب نہ کرو جسے اللہ نے حرام کیا ہے 1مگر حق کے ساتھ2 اور جو شخص مظلومانہ قتل کیا گیا ہو اس کے ولی کو ہم نے قصاص کے مطالبے کا حق عطا کیا ہے3، پس چاہیے کہ وہ قتل میں حد سے نہ گزرے4، اُس کی مدد کی جائے گی5
5 | چونکہ اس وقت تک اسلامی حکومت قائم نہ ہوئی تھی اس لیے اس بات کو نہیں کھولاگیا کہ اس کی مدد کون کریگا۔ بعد میں جب اسلامی حکومت قائم ہو گئی تو یہ طے کر دیا گیا کہ اس کی مدد کرنا اس کے قبیلے یا اس کے حلیفوں کا کام نہیں بلکہ اسلامی حکومت اور اس کے نظام ِعدالت کا کام ہے۔ کوئی شخص یا گروہ بطورِ خود قتل کا انتقام لینے کا مجاز نہیں ہے بلکہ یہ منصب اسلامی حکومت کا ہے کہ حصولِ انصاف کےلیے اس سے مدد مانگی جائے۔ |
4 | قتل میں حد سے گزر نے کی متعدد صورتیں ہو سکتی ہیں اور وہ سب ممنوع ہیں۔ مثلاً جوش انتقام میں مجرم کے علاوہ دوسروں کو قتل کرنا،یا مجرم کو عذاب دے دے کر مارنا،یا مار دینے کے بعد اس کی لعش پر غصہ نکالنا،یا خوں بہالینے کے بعد پھر اسے قتل کرنا وغیرہ۔ |
3 | اصل الفاظ ہیں”اس کے ولی کو ہم نے سلطان عطا کیا ہے“۔ سلطان سے مراد یہاں ”حجت “ہے جس کی بنا پر وہ قصاص کا مطالبہ کر سکتا ہے۔ اس سے اسلامی قانون کا یہ اصول نکلتا ہے کہ قتل کے مقدمے میں اصل مدعی حکومت نہیں بلکہ اولیائے مقتول ہیں، اور وہ قاتل کو معاف کرنے اور قصاص کے بجائے خوں بہا لینے پر راضی ہو سکتے ہیں |
2 | بعد میں اسلامی قانون نے قتل با لحق کو صرف پانچ صورتوں میں محدود کر دیا: ایک قتلِ عمد کے مجرم سے قصاص دوسرے دینِ حق کے راستے میں مزاحمت کرنے والوں سے جنگ ۔ تیسرے اسلامی نظامِ حکومت کو اُلٹنے کی سعی کرنے والوں کو سزا۔ چوتھے شادی شدہ مرد یا عورت کو ارتکاب زنا کی سزا۔ پانچویں ارتداد کی سزا۔ صرف یہی پانچ صورتیں ہیں جن میں انسانی جان کی حرمت مرتفع ہو جاتی ہے اور اسے قتل کرنا جائز ہو جاتا ہے۔ |
1 | قتلِ نفس سے مراد صرف دوسرے انسان کا قتل ہی نہیں ہے، بلکہ خود اپنے آپ کو قتل کرنا بھی ہے۔ اس لیے کہ نفس،جس کو اللہ نے ذی حرمت ٹھیرایا ہے، اس کی تعریف میں دوسرے نفوس کی طرح انسان کا اپنا نفس بھی داخل ہے۔ لہٰذا جتنا بڑا جرم اور گناہ قتلِ انسان ہے، اتنا ہی بڑا جرم اور گناہ خود کشی بھی ہے۔ آدمی کو بڑی غلط فہمیوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ اپنےآپ کو اپنی جان کا مالک، اور اپنی اس ملکیت کو با ختیارِ خود تلف کر دینے کا مجاز سمجھتا ہے۔ حالانکہ یہ جان اللہ کی ملکیت ہے، اور ہم اس کے اتلاف تو درکنار، اس کے کسی بے جا استعمال کے بھی مجاز نہیں ہیں۔ دنیا کی اس امتحان گاہ میں اللہ تعالٰی جس طرح بھی ہمارا امتحان لے، اسی طرح ہمیں آخر وقت تک امتحان دیتے رہنا چاہیے، خواہ حالاتِ امتحان اچھے ہوں یا بُرے۔ اللہ کے دیے ہوئے وقت کو قصداً ختم کر کے امتحان گاہ سے بھاگ نکلنے کی کوشش بجائے خود غلط ہے، کجا کہ یہ فرار بھی ایک ایسے جرمِ عظیم کے ذریعہ سے کیا جائے جسے اللہ نے صریح الفاظ میں حرام قرار دیا ہے۔ اس کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ آدمی دنیا کی چھوٹی چھوٹی تکلیفوں اور ذلتوں اور رسوائیوں سے بچ کر عظیم تر اور ابدی تکلیف و رسوائی کی طرف بھاگتا ہے۔ |
Surah 22 : Ayat 60
۞ ذَٲلِكَ وَمَنْ عَاقَبَ بِمِثْلِ مَا عُوقِبَ بِهِۦ ثُمَّ بُغِىَ عَلَيْهِ لَيَنصُرَنَّهُ ٱللَّهُۗ إِنَّ ٱللَّهَ لَعَفُوٌّ غَفُورٌ
یہ تو ہے اُن کا حال، اور جو کوئی بدلہ لے، ویسا ہی جیسا اس کے ساتھ کیا گیا، اور پھر اس پر زیادتی بھی کی گئی ہو، تو اللہ اس کی مدد ضرور کرے گا1 اللہ معاف کرنے والا اور درگزر کرنے والا ہے2
2 | اس آیت دو مطلب ہو سکتے ہیں اور غالباً دونوں ہی مراد ہیں۔ ایک یہ کہ ظلم کے مقابلے میں جو کشت و خون کیا جائے وہ اللہ کے ہاں معاف ہے ، اگرچہ کشت و خون بجائے خود اچھی چیز نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ اللہ جس کے تم بندے ہو، عفو و در گزر کرنے والا ہے ، اس لیے تم کو بھی، جہاں تک بھی تمہارے بس میں ہو، عفو و در گزر سے کام لینا چاہیے۔ اہل ایمان کے اخلاق کا زیور یہی ہے کہ وہ حلیم، علی ظرف اور متحمل ہوں۔ بدلہ لینے کا حق انہیں ضرور حاصل ہے ، مگر بالکل منتقمانہ ذہنیت اپنے اوپر طری کر لینا ان کے لیے موزوں نہیں ہے |
1 | پہلے ان مظلوموں کا ذکر تھا جو ظلم کے مقابلے میں کوئی جوابی کار روائی نہ کر سکے ہوں ، اور یہاں ان کا ذکر ہے جو ظالموں کے مقابلے میں قوت استعمال کریں۔ امام شافعیؒ نے اس آیت سے یہ استدلال کیا ہے کہ قصاص اسی شکل میں لیا جائے گا جس شکل میں ظلم کیا گیا ہو۔ مثلاً کسی شخص نے اگر آدمی کو ڈبو کر مارا ہے تو اسے بھی ڈبو کر مارا جائے گا،اور کسی نے جلا کر مارا ہے تو اسے بھی جلا کر مارا جائے گا۔ لیکن حنفیہ س بات کے قائل ہیں کہ قاتل نے قتل خواہ کسی طریقے سے کیا ہو، اس سے قصاص ایک ہی معروف طریقے پر لیا جائے گا |