Ayats Found (3)
Surah 5 : Ayat 42
سَمَّـٰعُونَ لِلْكَذِبِ أَكَّـٰلُونَ لِلسُّحْتِۚ فَإِن جَآءُوكَ فَٱحْكُم بَيْنَهُمْ أَوْ أَعْرِضْ عَنْهُمْۖ وَإِن تُعْرِضْ عَنْهُمْ فَلَن يَضُرُّوكَ شَيْــًٔاۖ وَإِنْ حَكَمْتَ فَٱحْكُم بَيْنَهُم بِٱلْقِسْطِۚ إِنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ٱلْمُقْسِطِينَ
یہ جھوٹ سننے والے اور حرام کے مال کھانے والے ہیں1، لہٰذا اگر یہ تمہارے پاس (اپنے مقدمات لے کر) آئیں تو تمہیں اختیار دیا جاتا ہے کہ چاہو ان کا فیصلہ کرو ورنہ انکار کر دو انکار کر دو تو یہ تمہارا کچھ بگاڑ نہیں سکتے، اور فیصلہ کرو تو پھر ٹھیک ٹھیک انصاف کے ساتھ کرو کہ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے2
2 | یہودی اس وقت تک اسلامی حکومت کی باقاعدہ رعایا نہیں بنے تھے بلکہ اسلامی حکوت کے ساتھ ان کے تعلقات معاہدات پر مبنی تھے۔ ان معاہدات کی رُو سے یہودیوں کو اپنے اندر ونی معاملات میں آزادی حاصل تھی اور ان کے مقدمات کے فیصلے انہی کے قوانین کے مطابق اُن کے اپنے جج کرتے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یا آپ کے مقرر کردہ قاضیوں کے پاس اپنے مقدمات لانے کے لیے وہ ازرُوئے قانون مجبُور نہ تھے۔ لیکن یہ لوگ جن معاملات میں خود اپنے مذہبی قانون کے مطابق فیصلہ کرنا نہ چاہتے تھے اُن کا فیصلہ کرانے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس اُمید پر آجاتے تھے کہ شاید آپ کی شریعت میں ان کے لیے کوئی دُوسرا حکم ہو اور اس طرح وہ اپنے مذہبی قانون کی پیروی سے بچ جائیں۔ ()”“ یہاں خاص طور پر جس مقدمہ کی طرف اشارہ ہے وہ یہ تھا کہ خیبر کے معزز یہودی خاندانوں میں سے ایک عورت اور ایک مرد کے درمیان ناجائز تعلق پایا گیا ۔ توراۃ کی رُو سے ان کی سزا رجم تھی ، یعنی یہ کہ دونوں کو سنگسار کیا جائے ( استثناء – باب ۲۲ – آیت ۲۳ - ۲۴) لیکن یہودی اس سزا کو نافذ کرنا نہیں چاہتے تھے ۔ اس لیے انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اس مقدمہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پنچ بنایا جائے۔ اگر وہ رجم کے سوا کوئی اَور حکم دیں تو قبول کر لیا جائے اور رجم ہی کا حکم دیں تو نہ قبول کیا جائے۔ چنانچہ مقدمہ آپ کے سامنے لایا گیا۔ آپ نے رجم کا حکم دیا۔ انہوں نے اس حکم کو ماننے سے انکار کیا۔ اس پر آپ نے پوچھا تمہارے مذہب میں اس کی کیا سزا ہے؟ انہوں نے کہا کوڑے مارنا اور منہ کالا کر کے گدھے پر سوار کرنا۔ آپ نے ان کے علماء کو قسم دے کر اُ ن سے پوچھا ، کیا توراۃ میں شادی شدہ زانی اور زانیہ کی یہی سزا ہے؟ انہوں نے پھر وہ جھوٹا جواب دیا۔ لیکن ان میں سے ایک شخص ابن صوریا، جو خود یہودیوں کے بیان کے مطابق اپنے وقت میں توارۃ کا سب سے بڑا عالم تھا، خاموش رہا۔ آپ نے اُس سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ میں تجھے اُس خدا کی قسم دے کر پُوچھتا ہوں جس نے تم لوگوں کو فرعون سے بچایا اور طُور پر تمہیں شریعت عطا کی، کیا واقعی توراۃ میں زنا کی یہی سزا لکھی ہے؟ اس نے جواب دیا کہ ”اگر آپ مجھے ایسی بھاری قسم نہ دیتے تو میں نہ بتاتا۔ واقعہ یہ ہے کہ زنا کی سزا تو رجم ہی ہے مگر ہمارے ہاں جب زنا کی کثرت ہوئی تو ہمارے حُکّام نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ بڑے لوگ زنا کرتے تو انہیں چھوڑ دیا جاتا اور چھوٹے لوگوں سے یہی حرکت سرزد ہوتی تو انہیں رجم کر دیا جاتا۔ پھر جب اس سے عوام میں ناراضی پیدا ہونے لگی تو ہم نے توراۃ کے قانون کو بدل کر یہ قاعدہ بنا لیا کہ زانی اور زانیہ کو کوڑے لگائے جاِئیں اور انہیں مُنہ کالا کر کے گدھے پر اُلٹے مُنہ سوار کیا جائے۔“ اس کے بعد یہودیوں کے لیے کچھ بولنے کی گنجائش نہ رہی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے زانی اور زانیہ کو سنگسار کر دیا گیا |
1 | یہاں خاص طور پر اُن کے مفتیوں اور قاضیوں کی طرف اشارہ ہے جو جُھوٹی شہادتیں لے کر اور جھُوٹی رودادیں سُن کر اُن لوگوں کے حق میں انصاف کے خلاف فیصلے کیا کرتے تھے جن سے انہیں رشوت پہنچ جاتی تھی یا جن کے ساتھ ان کے ناجائز مفاد وابستہ ہوتے تھے |
Surah 49 : Ayat 9
وَإِن طَآئِفَتَانِ مِنَ ٱلْمُؤْمِنِينَ ٱقْتَتَلُواْ فَأَصْلِحُواْ بَيْنَهُمَاۖ فَإِنۢ بَغَتْ إِحْدَٮٰهُمَا عَلَى ٱلْأُخْرَىٰ فَقَـٰتِلُواْ ٱلَّتِى تَبْغِى حَتَّىٰ تَفِىٓءَ إِلَىٰٓ أَمْرِ ٱللَّهِۚ فَإِن فَآءَتْ فَأَصْلِحُواْ بَيْنَهُمَا بِٱلْعَدْلِ وَأَقْسِطُوٓاْۖ إِنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ٱلْمُقْسِطِينَ
اور اگر اہل ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑ جائیں1 تو ان کے درمیان صلح کراؤ2 پھر اگر ان میں سے ایک گروہ دوسرے گروہ سے زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو3 یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آئے4 پھر اگر وہ پلٹ آئے تو ان کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کرا دو5 اور انصاف کرو کہ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے6
6 | یہ آیت مسلمانوں کی باہمی جنگ کے بارے میں شرعی قانون کی اصل بنیاد ہے۔ ایک حدیث کے سوا جس کا ہم آگے ذکر کریں گے، اس قانون کی کوئی تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت میں نہیں ملتی، کیونکہ حضور کے زمانے میں مسلمانوں کے درمیان جنگ کی کبھی نوبت ہی نہیں آئی کہ آپ کے عمل اور قول سے اس کے احکام کی تفصیلات معلوم ہوتیں۔ بعد میںاس قانون کی مستند تشریح اس وقت ہوئی جب حضرت علیؓ کے عہد خلافت میں خود مسلمانوں کے درمیان لڑائیاں ہوئیں۔ اس وقت چونکہ بکثرت صحابہ کرام موجود تھے، اس لیے ان کے عمل اور ان کے بیان کردہ احکام سے اسلامی قانون کے اس شعبی کا مفصل ضابطہ مرتب ہوا۔ خصوصیت کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اسوہ اس معاملہ میں تمام فقہاء کا اصل مرجع ہے۔ ذیل میں ہم اس ضابطہ کا ایک ضروری خلاصہ درج کرتے ہیں: 1)۔ مسلمانوں کی باہمی جنگ کی کئی صورتیں ہیں جن کے حکم الگ الگ ہیں۔ (الف) لڑنے والے دونوں گروہ کسی مسلمان حکومت کی رعایا ہوں۔ اس صورت میں ان کے درمیان صلح کرانا، یا یہ فیصلہ کرنا کہ ان میں سے زیادتی کرنے والا کون ہے، اور طاقت سے اس کو حق کی طرف رجوع پر مجبور کرنا حکومت کا فریضہ ہے۔ (ب) لڑنے والے فریقین دو بہت بڑے طاقت ور گروہ ہوں، یا دو مسلمان حکومتیں ہوں، اور دونوں کی لڑائی دنیا کی خاطر ہو۔ اس صورت میں اہل ایمان کا کام یہ ہے کہ اس فتنے میں حصہ لینے سے قطعی اجتناب کریں اور فریقین کو خدا کا خوف دلا کر جنگ سے باز رہنے کی نصیحت کرتے رہیں۔ (ج) لڑنے والے وہ فریقین جن کا اوپر (ب) میں ذکر کیا گیا ہے، ان میں سے ایک حق پر ہو اور دوسرا زیادتی کر رہا ہو، اور نصیحت سے اصلاح پر آمادہ نہ ہو رہا ہو۔ اس صورت میں اہل ایمان کا کام یہ ہے کہ زیادتی کرنے والے فریق کے خلاف بر سر حق فریق کا ساتھ دیں۔ (د) فریقین میں سے ایک گروہ رعیت ہو اور اس نے حکومت، یعنی مسلم حکومت کے خلاف خروج کیا ہو۔ فقہاء اپنی اصلاح استعمال کرتے ہیں۔ 2)۔ باغی، یعنی حکومت کے خلاف خروج کرنے والے گروہ بھی متعدد اقسام کے ہو سکتے ہیں: (الف) وہ جو محض فساد برپا کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں اور اپنے اس خروج کے لیے ان کے پاس کوئی شرعی تاویل نہ ہو۔ ان کے خلاف حکومت کی جنگ بالاتفاق جائز ہے اور اس کا ساتھ دینا اہل ایمان پر واجب ہے، قطع نظر اس سے کہ حکومت عادل ہو یا نہ ہو۔ (ب) وہ جو حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے خروج کریں،اور ان کے پاس کوئی شرعی تاویل نہ ہو، بلکہ ان کا ظاہر حال بتا رہا ہو کہ وہ ظالم و فاسق ہیں۔ اس صورت میں اگر حکومت عادل ہو تب تو اس کا ساتھ دینا بلا کلام واجب ہے، لیکن اگر وہ عادل نہ بھی ہو تو اس حکومت کو برقرار رکھنے کے لیے لڑنا واجب ہے جس کے ذریعہ سے فی الحال مملکت کا نظم قائم ہے۔ (ج) وہ جو کسی شرعی تاویل کی بنا پر حکومت کے خلاف خروج کریں، مگر ان کی تاویل باطل اور ان کا عقیدہ فاسد ہو مثلاً خوارج۔ اس صورت میں بھی، مسلم حکومت، خواہ وہ عادل ہو یا نہ ہو، ان سے جنگ کرنے کا جائز حق رکھتی ہے اور اس کا ساتھ دینا واجب ہے۔ (د) وہ جو ایک عادل حکومت کے خلاف خروج کریں جب کہ اس کے سربراہ کی امارت جائز طور پر قائم ہو چکی ہو۔ اس صورت میں خواہ ان کے پاس کوئی شرعی تاویل ہو یا نہ ہو، بہر حال ان سے جنگ کرنے میں حکومت حق بجانب ہے اور اس کا ساتھ دینا واجب۔ (ھ) وہ جو ایک ظالم حکومت کے خلاف خروج کریں جس کی امارت جبراً قائم ہوئی ہو اور جس کے امراء فاسق ہوں، اور خروج کرنے والے عدل اور حدود اللہ کی اقامت کے لیے اٹھے ہوں اور ان کا ظاہر حال یہ بتا رہا ہو کہ وہ خود صالح لوگ ہیں۔ اس صورت میں ان کو ’’باغی‘‘ یعنی زیادتی کرنے والا گروہ قرار دینے اور ان کے خلاف جنگ کو واجب قرار دینے میں فقہاء کے درمیان سخت اختلاف واقع ہو گیا ہے، جسے مختصراً ہم یہاں بیان کرتے ہیں۔ جمہور فقہاء اور اہل الحدیث کی راۓ یہ ہے کہ جس امیر کی امارت ایک دفعہ قائم ہو چکی ہو اور مملکت کا امن و امان نظم و نسق اس کے انتظام میں چل رہا ہو، وہ خواہ عادل ہو یا ظالم، اور اس کی امرت خواہ کسی طور پر قائم ہوئی ہو، اس کے خلاف خروج کرنا حرام ہے، الا یہ کہ وہ کفر صریح کا ارتکاب کرے۔ امام سر خسی لکھتے ہیں کہ ’’ جب مسلمان ایک فرمانروا پر مجتمع ہوں اور اس کی بدولت ان کو امن حاصل ہو اور راستے محفوظ ہوں، ایسی حالت میں اگر مسلمانوں کا کوئی گروہ اس کے خلاف خروج کرے تو جو شخص بھی جنگ کی طاقت رکھتا ہو اس پر واجب ہے کہ مسلمانوں کے اس فرمانروا کے ساتھ مل کر خرج کرنے والوں کے خلاف جنگ کرے ‘‘ (البسوط، باب الخوارج)۔ امام، لودِی شرح مسلم میں کہتے ہیں کہ ’’ ائمہ،یعنی مسلمان فرمانرواؤں کے خلاف خروج اور قتال حرام ہے، خواہ وہ فاسق اور ظالم ہی کیوں نہ ہوں‘‘۔ اس پر امام نودی اجماع کا دعویٰ کرتے ہیں۔ لیکن اس پر اجماع کا دعویٰ صحیح نہیں ہے۔ فقہاۓ اسلام کا ایک بڑا گروہ، جس میں اکابر اہل علم شامل ہیں، خروج کرنے والوں کو صرف اس صورت میں ’’باغی‘‘ قرار دیتا ہے جبکہ وہ امام عادل کے خلاف خروج کریں۔ ظالم و فاسق امراء کے خلاف صلحاء کے خروج کو وہ قرآن مجید کی اصطلاح کے مطابق ’’بغاوت‘‘ کا مصداق نہیں ٹھیراتے، اور نہ ان کے خلاف جنگ کو واجب قرار دیتے ہیں۔ امام ابو حنیفہ کا مسلک ظالم امراء کے خلاف قتال کے معاملہ میں اہل علم کو معلوم ہے۔ ابوبکر جصاص احکام القرآن میں صاف لکھتے ہیں کہ امام صاحب اس قتال کو نہ صرف جائز، بلکہ سازگار حالات میں واجب سمجھتے تھے (جلد اول، ص 81۔جلد دوم،ص 39) بنی امیہ کے خلاف زید بن علی کے خروج میں انہوں نے نہ صرف خود مالی مدد دی، بلکہ دوسروں کو بھی اس کی تلقین فرمائی(الجصاص،ج 1 ص 81)۔ منصور کے خلاف نفس زکیہ کے خروج میں وہ پوری سرگرمی کے ساتھ نفس زکیہ کی حمایت کرتے رہے اور اس جنگ کو انہوں نے کفار کے خلاف جہاد سے افضل قرار دیا(الجصاص،ج1،ص 81۔ مناقب ابی حنیفہ للکردری،ج2،ص71۔72)۔ پھر فقہاۓ حنفیہ کا بھی متفقہ مسلک وہ نہیں ہے جو امام سرخسی نے بیان کیا ہے۔ ابن ہُمام ہدایہ کی شرح فتح القدیر میں لکھتے ہیں کہ الباغی فی عرف الفقھاْالخارج عن طاعۃ امام الحق، ’’ فقہاء کے عرف میں باغی وہ ہے جو امام حق کی اطاعت سے نکل جاۓ‘‘۔ حنابلہ میں سے ابن عقیل اور ابن لجوزی امام غیر عادل کے خلاف خروج کو جائز ٹھیراتے ہیں اور اس پر حضرت حسین کے خروج سے استدلال کرتے ہیں (الانصاف، ج 10، باب قتال اہل البغی)۔ امام شافعی کتاب الام میں باغی اس شخص کو قرار دیتے ہیں جو امام عادل کے خلاف جنگ کرے (ج 4،ص135)۔ امام مالک کا مسلک المدونہ میں یہ نقل کیا گیا ہے کہ’’ خروج کرنے والے اگر امام عدل کے خلاف جنگ کرنے کے لیے نکلیں تو ان کے خلاف مقاتلہ کیا جاۓ‘‘(جلد اول،ص 407)۔ قاضی ابوبکر ابن العربی احکام القرآن میں ان کا یہ قول نقل کرتے ہیں: ’’ جب کوئی شخص عمر بن عبدالعزیز جیسے امام عدل کے خلاف خروج کرے تو اس کی دفع کرنا واجب ہے، رہا کسی دوسری قسم کا امام تو اسے اس کے حال پر چھوڑ دو، اللہ کسی دوسرے ظالم کے ذریعہ سے اس کو سزا دے گا اور پھر کسی تیسرے ظالم کے ذریعہ سے ان دونوں کو سزا دے گا‘‘۔ ایک اور قول امام مالکؒ کا انہوں نے یہ نقل کیا ہے : ’’ جب ایک امام سے بیعت کی جا چکی ہو اور پھر اس کے بھائی اس کے مقابلے پر کھڑے ہو جائیں تو ان سے جنگ کی جاۓ گی اگر وہ امام عادل ہو۔ رہے ہمارے زمانے کے ائمہ تو ان کے لیے کوئی بیعت نہیں ہے، کیونکہ ان کی بیعت زبردستی لی گئی ہے ‘‘ پھر مالکی علماء کا جو مسلک سَحْنون کے حوالہ سے قاضی صاحب نے بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ جنگ تو صرف امام عدل کے ساتھ مل کر کی جاۓ گی، خواہ پہلا امام عادل ہو یا وہ شخص جس نے اس کے خلاف خروج کیا ہو۔ لیکن اگر دونوں عادل نہ ہوں تو دونوں سے الگ رہو۔ البتہ اگر تمہاری اپنی جان پر حملہ کیا جاۓ یا مسلمان ظلم کے شکار ہو رہے ہوں تو مدافعت کرو‘‘۔ یہ مسالک نقل کرنے کے بعد قاضی ابو بکر کہتے ہیں : لا نقاتل الامع امامٍ عادل یقدمہ اھل الحق لا نفسہم۔‘‘ ہم جنگ نہیں کریں گے مگر اس امام عادل کے ساتھ جسے اہل حق نے اپنی امامت کے لیے آگے بڑھا یا ہو‘‘۔ 3)۔ خروج کرنے والے اگر قلیل التعداد ہوں اور ان کی پشت پر کوئی بڑی جماعت نہ ہو، نہ وہ کچھ زیادہ جنگی سر و سامان رکھتے ہوں، تو ان پر قانون بغاوت کا اطلاق نہ ہوگا، بلکہ ان کے ساتھ عام قانون تعزیرات کے مطابق برتاؤ کیا جاۓ گا، یعنی وہ قتل کریں گے تو ان سے قصاص لیا جاۓ گا اور مال کا نقصان کریں گے تو اس کا تاوان ان پر عائد ہوگا۔ قانون بغاوت کا اطلاق صرف ان باغیوں پر ہوتا ہے جو کوئی بڑی طاقت رکھتے ہوں، اور کثیر جمیعت اور جنگی سرو سامان کے ساتھ خروج کریں۔ 4)۔ خروج کرنے والے جب تک محض اپنے فاسد عقائد، یا حکومت اور اس کے سربراہ کے خلاف باغیانہ اور معاندانہ خیالات کا اظہار کرتے رہیں،ان کو قتل یا قید نہیں کیا جا سکتا۔ جنگ ان کے خلاف صرف اس وقت کی جاۓ گی جب وہ عملاً مسلح بغاوت کر دیں اور خونریزی کی ابتدا کر بیٹھیں۔(المبسوط، باب الخوارج۔ فتح القدیر، باب البغاۃ۔ احکام القرآن للجصاص)۔ 5)۔ باغیوں کے خلاف جنگ کا آغاز کرنے سے پہلے ان کو قرآن مجید کی ہدایت کے مطابق دعوت دی جاۓ گی کہ وہ بغاوت کی روش چھوڑ کر عدل کی راہ اختیار کریں۔ اگر ان کے کچھ شبہات و اعتراضات ہوں تو انہیں سمجھانے کی کوشش کی جاۓ گی۔اس پر بھی وہ باز نہ آئیں اور مقاتلہ کا آغاز ان کی طرف سے ہو جاۓ، تب ان کے خلاف تلوار اٹھائی جاۓ گی۔ (فتح القدیر۔ احکام القرآن للجصاص)۔ 6)۔ باغیوں سے لڑائی میں جن ضوابط کو ملحوظ رکھا جاۓ گا وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشاد پر مبنی ہیں جسے حضرت عبداللہ بن عمر کے حوالہ سے حاکم، بزار اور الجصاص نے نقل کیا ہے۔: حضورؐ نے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے پوچھا اے ابن ام عبد، جانتے ہو اس امت کے باغیوں کے بارے میں اللہ کا کیا حکم ہے؟ انہوں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ فرمایا ان کے زخمیوں پر ہاتھ نہیں ڈالا جاۓ گا، ان کے اسیر کو قتل نہیں کیا جاۓ گا، ان کے بھاگنے والے کا پیچھا نہیں کیا جاۓ گا، اور ان کا مال غنیمت کے طور پر تقسیم نہیں کیا جاۓ گا۔‘‘ اس ضابطہ کا دوسرا ماخذ،جس پر تمام فقہاۓ اسلام نے اعتماد کیا ہے، حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول اور عمل ہے۔ آپ نے جنگ جمَل میں فتح یاب ہونے کے بعد اعلان کیا کہ بھاگنے والے کا تعاقب نہ کرو، زخمی پر حملہ نہ کرو، گرفتار ہو جانے والوں کو قتل نہ کرو، جو ہتھیار ڈال دے اس کو امان دو، لوگوں کے گھروں میں نہ گھسو، اور عورتوں پر دست درازی نہ کرو،خواہ وہ تمہیں گالیاں ہی کیوں نہ دے رہی ہوں۔ آپ کی فوج کے بعض لوگوں نے مطالبہ کیا کہ مخالفین کو اور ان کے بال بچوں کو غلام بنا کر تقسیم کر دیا جاۓ۔ اس پر غضب ناک ہو کر آپ نے فرمایا۔ تم میں سے کون امّ المومنین عائشہ کو اپنے حصہ میں لینا چاہتا ہے؟ 7)۔ باغیوں کے اموال کا حکم، جو حضرت علیؓ کے اسوہ حسنہ سے ماخوذ ہے، یہ ہے کہ ان کا کوئی مال، خواہ وہ ان کے لشکر میں ملا ہو یا ان کے پیچھے ان کے گھروں پر ہو، اور وہ خواہ زندہ ہوں یا مارے جا چکے ہوں، بہر حال اسے مال غنیمت قرار دیا جاۓ گا اور نہ فوج میں تقسیم کیا جاۓ گا۔ البتہ جس مال کا نقصان ہو چکا ہو، اسکا کوئی ضِمان لازم نہیں آتا۔ جنگ ختم ہونے اور بغاوت کا زور ٹوٹ جانے کے بعد ان کے مال ان ہی کو واپس دے دیے جائیں گے۔ ان کے اسلحہ اور سواریاں جنگ کی حالت میں اگر ہاتھ آ جائیں تو انہی ان کے خلاف استعمال کیا جاۓ گا، مگر فاتحین کی ملکیت بنا کر مال غنیمت کے طور پر تقسیم نہیں کیا جاۓ گا، اور اگر ان سے پھر بغاوت کا اندیشہ نہ ہو تو ان کی یہ چیزیں بھی واپس دے دی جائیں گی۔ صرف امام ابو یوسف کے راۓ یہ ہے کہ حکومت اسے غنیمت قرار دے گی (المبسوط، فتح القدیر۔الحصاص)۔ 8 )۔ ان کے گرفتار شدہ لوگوں کو یہ عہد لے کر کہ وہ پھر بغاوت نہ کریں گے، رہا کر دیا جاۓ گا۔ (المبسوط)۔ 9 )۔ باغی مقتولوں کے سر کاٹ کر گشت کرانا سخت مکروہ فعل ہے، کیونکہ یہ مُثلہ ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے منع فرمایا ہے۔ حضرت ابو بکرؓ کے پاس رومی بطیق کا سر کاٹ کر لایا گیا تو آپ نے اس پر شدید ناراضی کا اظہار کیا اور فرمایا ہمارا کا رومیوں اور ایرانیوں کی پیروی کرنا نہیں ہے۔ یہ معاملہ جب کفار تک سے کرنا روا نہیں ہے تو مسلمانوں کے ساتھ تو یہ بدرجہ اولیٰ ممنوع ہونا چاہیے۔(المبسوط)۔ 10 )۔ جنگ کے دوران میں باغیوں کے ہاتھوں جان و مال کا جو نقصان ہوا ہو، جنگ ختم ہونے اور امن قائم ہو جانے کے بعد اس کا کوئی قصاص اور ضمان ان پر عائد نہ ہوگا۔ نہ کسی مقتول کا بدلہ ان سے لیا جاۓ گا اور نہ کسی مال کا تاوان ان پر ڈالا جاۓ گا، تاکہ فتنے کی آگ پھر نہ بھڑک اٹھے۔ صحابہ کرام کی باہمی لڑائیوں میں یہی ضابطہ ملحوظ رکھا گیا تھا (المبسوط۔ الجصاص۔ احکام القرآن ابن العرنی)۔ 11 )۔ جن علاقوں پر باغیوں کا قبضہ ہو گیا ہو اور وہاں انہوں نے اپنا نظم و نسق قائم کر کے زکوٰۃ اور دوسرے محصولات وصول کر لیے ہوں حکومت ان علاقہ پر دو بارہ قبضہ کرنے کے بعد لوگوں سے از سر نو اس زکوٰۃ اور ان محصولات کا مطالبہ نہیں کرے گی۔ اگر باغیوں نے یہ اموال شرعی طریقے پر صرف کر دیے ہوں گو عند اللہ بھی وہ ادا کرنے والوں پر سے ساقط ہو جائیں گے۔ لیکن اگر انہوں نے غیر شرعی طریقے پر تصرف کیا ہو، تو یہ ادا کرنے والوں کے اور ان کے خدا کے درمیان معاملہ ہے۔ وہ خود چاہیں تو اپنی زکوٰۃ دوبارہ ادا کر دیں (فتح القدیر۔ الجصاص۔ابن العربی)۔ 12)۔ باغیوں نے اپنے زیر تصرف علاوہ میں جو عدالتیں قائم کی ہوں، اگر ان قاضی اہل عدل میں سے ہوں اور شریعت کے مطابق انہوں نے فیصلے کیے ہوں، تو وہ بر قرار رکھے جائیں گے اگرچہ ان کے مقرر کرنے والے بغاوت کے مجرم ہی کیوں نہ ہوں۔ البتہ اگر ان کے فیصلے غیر شرعی ہوں اور بغاوت فرو ہونے کے بعد وہ حکومت کی عدالتوں کے سامنے لاۓ جائیں تو وہ نافذ نہیں کیے جائیں گے۔ علاوہ بریں باغیوں کی قائم کی ہوئی عدالتوں کی طرف سے کوئی وارنٹ یا پروانہ امر حکومت کی عدالتوں میں قبول نہ کیا جاۓ گا (المبسوط۔ الجصاص)۔ 13)۔ باغیوں کی شہادت اسلامی عدالتوں میں قابل قبول نہ ہو گی کیونکہ اہل عدل کے خلاف جنگ کرنا فسق ہے۔ امام محمد کہتے ہیں کہ جب تک وہ جنگ نہ کریں اور اہل عدل کے خلاف عملاً خروج کے مرتکب نہ ہوں، ان کی شہادت قبول کی جاۓ گی، مگر جب وہ جنگ کر کے ہوں تو پھر میں ان کی شہادت قبول نہ کروں گا (الجصاص)۔ ان احکام سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کفار کے خلاف جنگ اور مسلمان باغیوں کے خلاف جنگ کے قانون میں کیا فرق ہے |
5 | محض صلح کرا دینے کا حکم نہیں ہے بلکہ عدل و انصاف کے ساتھ صلح کرانے کا حکم ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں وہ صلح کوئی قابل قدر چیز نہیں ہے جو حق اور باطل کے فرق کو نظر انداز کر کے محض لڑائی روکنے کے لیے کرائی جاۓ اور جس میں بر سر حق گروہ کو دبا کر زیادتی کرنے والے گروہ کے ساتھ بے جا رعایت برتی جاۓ۔ صلح وہی صحیح ہے جو انصاف پر مبنی ہو۔ اسی سے فساد ٹلتا ہے، ورنہ حق والوں کو دبانے اور زیادتی کرنے والوں کی ہمت افزائی کرنے کا نتیجہ لازماً یہ ہوتا ہے کہ خرابی کے اصل اسباب جوں کے توں باقی رہتے ہیں، بلکہ ان میں اور اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے، اور اس سے بار بار فساد بر پا ہونے کی نوبت پیش آتی ہے |
4 | اس سے معلوم ہوا کہ یہ لڑائی باغی (زیادتی کرنے والے گروہ) کو بغاوت (زیادتی) کی سزا دینے کے لیے نہیں ہے بلکہ اسے اللہ کے حکم کی طرف پلٹنے پر مجبور کرنے کے لیے ہے۔ اللہ کے حکم سے مراد یہ ہے کہ کتاب اللہ و سنت رسول اللہ کی رو سے جو بات حق ہو اسے یہ باغی گروہ قبول کر لینے پر آمادہ ہو جاۓ اور جو طرز عمل اس میزان حق کی رو سے زیادتی قرار پاتا ہے اس کو چھوڑ دے۔ جوں ہی کہ کوئی باغی گروہ اس حکم کی پیروی پر راضی ہو جاۓ، اس کے خلاف طاقت کا استعمال بند ہو جانا چاہیے، کیونکہ یہی قتال کا مقصود اور اس کی آخری حد ہے۔ اس کے بعد مزید دست درازی کرنے والا خود زیادتی کا مرتکب ہو گا۔ اب رہی یہ بات کہ کتاب اللہ و سنت رسول اللہ کی رو سے ایک نزاع میں حق کیا ہے اور زیادتی کیا، تو لا محالہ اس کو طے کرنا ان لوگوں کا کام ہے جو امت میں اور علم اور بصیرت کے لحاظ سے اس کی تحقیق کرنے کے اہل ہوں |
3 | یعنی مسلمانوں کا یہ کام بھی نہیں ہے کہ وہ زیادتی کرنے والے کو زیادتی کرنے دیں اور جس پر زیادتی کی جاہی ہو اسے اس کے حال پر چھوڑ دیں، یا الٹا زیادتی کرنے والے کا ساتھ دیں۔ بلکہ ان کا فرض یہ ہے کہ اگر لڑنے والے فریقین میں صلح کرانے کی تمام کوششیں ناکام ہو جائیں، تو پھر یہ دیکھیں کہ ح پر کون ہے اور زیادتی کرنے والا کون۔ جو حق پر ہو اس کا ساتھ دیں اور جو زیادتی کرنے والا ہو اس سے لڑیں۔ اس لڑائی کا چونکہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اس لیے یہ واجب ہے اور جہاد کے حکم میں ہے اس کا شمار اس فتنے میں نہیں ہے جس کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے کہ القائم فیھَا خیرٌ من الماشی والقاعد فیھا خیر من القائم (اس میں کھڑا رہنے والا چلنے والے سے، اور بیٹھ جانے والا کھڑا رہنے والے سے بہتر ہے )۔ کیونکہ اس فتنے سے مراد تو مسلمانوں کی وہ باہمی لڑائی ہے جس میں فریقین عصبیت اور حمیت جاہلیہ اور طلب دنیا کے لیے لڑ رہے ہوں اور دونوں میں سے کوئی بھی حق پر نہ ہو۔ رہی یہ لڑائی جو زیادتی کرنے والے گروہ کے مقابلہ میں بر سر حق گروہ کی حمایت کے لیے لڑی جاۓ، تو یہ فتنے میں حصہ لینا نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل ہے۔ تمام فقہاء کا اس کے وجوب پر اتفاق ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ میں اس کے واجب ہونے پر کوئی اختلاف نہ تھا (احکام القرآن للجصاص)۔ بلکہ بعض فقہاء تو اسے جہاد سے بھی افضل قرار دیتے ہیں اور ان کا استدلال یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنا پورا زمانہ خلافت کفار سے جہاد کرنے کے بجاۓ باغیوں سے لڑنے میں صرف کر دیا (روح المعانی)۔ اس کے واجب نہ ہونے پر اگر کوئی شخص اس بات سے استدلال کرے کہ حضرت علیؓ کی ان لڑائیوں میں حضرت عبداللہ بن عمر اور بعض دوسرے صحابہ نے حسہ نہیں لیا تھا تو وہ غلطی پر ہے۔ ابن عمر خود فرماتے ہیں کہ :ماوجدت فی نفسی من شئ ما وجدت من ھٰذہِ اِلاٰ یۃ اَنّی لم اقاتل ھٰذہ الفئۃ کما امرنی اللہ تعالیٰ، (المستدرک للحاکم، کتاب معرفۃ الصحابہ، باب الدفع عمن قعدوا عن بیعۃ علی) ’’مجھے اپنے دل میں کسی بات پر اتنی زیادہ کھٹک نہیں ہوئی جتنی اس آیت کی وجہ سے ہوئی کہ میں نے اللہ کے حکم کے مطابق اس باغی گروہ سے جنگ نہ کی‘‘ زیادتی کرنے والے گروہ سے ’’قتال‘‘ کرنے کا حکم لازماً یہی معنی نہیں رکھتے کہ اس کے خلاف ہتھیاروں سے جنگ کی جاۓ اور ضرور اس کو قتل ہی کیا جاۓ۔ بلکہ اس سے مراد اس کے خلاف طاقت کا استعمال کرنا چاہیے، اور اصل مقصود اس کی زیادتی کا ازالہ ہے۔ اس مقصد کے لیے جس طاقت کا استعمال نا گزیر ہو اسے استعمال کرنا چاہیے اور جتنی طاقت کا استعمال کافی ہو، نہ اس سے کم استعمال کرنی چاہیے نہ اس سے زیادہ۔ اس حکم کے مخاطب وہ لوگ ہیں جو طاقت استعمال کر کے زیادتی کا ازالہ کرنے پر قادر ہوں |
2 | اس حکم کے مخاطب وہ تمام مسلمان ہیں جو ان دونوں گروہوں میں شامل نہ ہوں، اور جن کے لیے ان کے درمیان صلح کی کوشش کرنا ممکن ہو۔ دوسرے الفاظ میں، اللہ تعالیٰ کے نزدیک مسلمانوں کا یہ کام نہیں ہے کہ ان کی اپنی ملت کے دو گروہ آپس میں لڑ رہے ہوں اور وہ بیٹھے ان کی لڑائی کا تماشا دیکھتے رہیں۔ بلکہ یہ افسوسناک صورت حال جب بھی پیدا ہو، تمام اہل ایمان کو اس پر بے چین ہو جانا چاہیے اور ان کے باہمی معاملات کی اصلاح کے لیے جس کے بس میں جو کوشش بھی ہو وہ اسے صرف کر ڈالنی چاہیے۔ فریقین کو لڑائی سے باز رہنے کی تلقین کی جاۓ۔ انہیں خدا سے ڈرایا جاۓ۔ با اثر لوگ فریقین کے ذمہ دار آدمیوں سے جا کر ملیں۔ نزاع کے اسباب معلوم کریں۔ اور اپنی حد تک ہر وہ کوشش کریں جس سے ان کے درمیان مصالحت ہو سکتی ہو |
1 | یہ نہیں فرمایا کہ ’’جب اہل ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑیں‘‘، بلکہ فرمایا یہ ہے کہ اگر اہل ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑ جائیں ‘‘۔ ان الفاظ سے یہ بات خود بخود نکلتی ہے کہ آپس میں لڑنا مسلمانوں کا معمول نہیں ہے اور نہیں ہونا چاہیے۔ نہ ان سے یہ امر متوقع ہے کہ وہ مومن ہوتے ہوۓ آپس میں لڑا کریں گے۔ البتہ اگر کبھی ایسا ہو جاۓ تو اس صورت میں وہ طریق کار اختیار کرنا چاہیے جو آگے بیان کیا جا رہا ہے۔ علاوہ بریں گروہ کے لیے بھی ’’ فرقہ‘‘ کے بجاۓ ’’طائفہ‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ عربی زبان میں فرقہ بڑے گروہ کے لیے اور طائفہ چھوٹے گروہ کے لیے بولا جاتا ہے اس سے بھی یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰٰٰٰٰ کی نگاہ میں یہ ایک انتہائی ناپسندیدہ حالت ہے جس میں مسلمانوں کی بڑی بڑی جماعتوں کا مبتلا ہو جانا متوقع نہیں ہونا چاہیے |
Surah 60 : Ayat 8
لَّا يَنْهَـٰكُمُ ٱللَّهُ عَنِ ٱلَّذِينَ لَمْ يُقَـٰتِلُوكُمْ فِى ٱلدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَـٰرِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوٓاْ إِلَيْهِمْۚ إِنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ٱلْمُقْسِطِينَ
اللہ تمیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم ان لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتاؤ کرو جنہوں نے دین کے معاملہ میں تم سے جنگ نہیں کی ہے اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہیں نکالا ہے اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے1
1 | اس مقام پر ایک شخص کے ذہن میں یہ شبہ پیدا ہو سکتا ہے کہ دشمنی نہ کرنے والے کافروں کے ساتھ نیک برتاؤ تو خیر ٹھیک ہے، مگر کیا انصاف بھی صرف انہی کے لیے مخصوص ہے؟ اور کیا دشمن کافروں کے ساتھ بے انصافی کرنی چاہیے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس سیاق و سباق میں در اصل انصاف ایک خاص مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص تمہارے ساتھ عداوت نہیں برتتا، انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ تم بھی اس کے ساتھ عداوت نہ برتو۔ دشمن اور غیر دشمن کو ایک درجہ میں رکھنا اور دونوں سے ایک ہی سلوک کرنا انصاف نہیں ہے۔ تمہیں ان لوگوں کے ساتھ سخت رویہ اختیار کرنے کا حق ہے جنہوں نے ایمان لانے کی پاداش میں تم پر ظلم توڑے اور تم کو وطن سے نکل جانے پر مجبور کیا، اور نکالنے کے بعد بھی تمہارا پیچھا نہ چھوڑا۔ مگر جن لوگوں نے اس ظلم میں کوئی حصہ نہیں لیا، انصاف یہ ہے کہ تم ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو اور رشتے اور برادری کے لحاظ سے ان کے جو حقوق تم پر عائد ہوتے ہیں انہیں ادا کرنے میں کمی نہ کرو |