Ayats Found (9)
Surah 17 : Ayat 44
تُسَبِّحُ لَهُ ٱلسَّمَـٰوَٲتُ ٱلسَّبْعُ وَٱلْأَرْضُ وَمَن فِيهِنَّۚ وَإِن مِّن شَىْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِۦ وَلَـٰكِن لَّا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْۗ إِنَّهُۥ كَانَ حَلِيمًا غَفُورًا
اُس کی پاکی تو ساتوں آسمان اور زمین اور وہ ساری چیزیں بیان کر رہی ہیں جو آسمان و زمین میں ہیں1 کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کر رہی ہو2، مگر تم ان کی تسبیح سمجھتے نہیں ہو حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا ہی بردبار اور درگزر کرنے والا ہے3
3 | یعنی اس کا علم اور اس کی شان غفاری ہے کہ تم اس کی جناب میں گستاخیوں پر گستاخیاں کیے جاتے ہو، اور اُس پر طرح طرح کے بہتان تراشتے ہو اور پھر بھی وہ درگزر کیے چلا جاتا ہے۔ نہ رزق بند کرتا ہے، نہ اپنی نعمتوں سے محروم کرتا ہے، اور نہ ہر گستاخ پر فوراً بجلی گرا دیتا ہے۔ پھر یہ بھی اس کی برد باری اور اس کے درگزر ہی کا ایک کرشمہ ہے کہ وہ افراد کو بھی اور قوموں کو بھی سمجھنے اور سنبھلنے کے لیے کافی مہلت دیتا ہے، انبیاء اور مصلحین اور مبلغین کو اُن کی فہمائش اور رہنمائی کے لیے بار بار اٹھاتا رہتا ہے، اور جو بھی اپنی غلطی کو محسوس کرکے سیدھا راستہ اختیار کر لے اس کی پچھلی غلطیوں کو معاف کر دیتا ہے۔ |
2 | حمد کے ساتھ تسبیح کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہر شے نہ صرف یہ کہ اپنے خالق اور رب کا عیوب و نقائص اور کمزوریوں سے پاک ہونا ظاہر کر رہی ہے، بلکہ اس کے ساتھ وہ اُس کا تمام کمالات سے متصف اور تمام تعریفوں کا مستحق ہونا بھی بیان کرتی ہے۔ ایک ایک چیز اپنے پورے وجود سے یہ بتا رہی ہے کہ اس کا صانع اور منتظم وہ ہے جس پر سارے کمالات ختم ہوگئے ہیں اور حمد اگر ہے تو بس اسی کے لیے ہے |
1 | یعنی ساری کائنات اورا س کی ہر شے اپنے پورے وجود سے اس حقیقت پر گواہی دے رہی ہے کہ جس نے اس کو پیدا کیا ہے اور جو اس کی پروردگاری و نگہبانی کر رہا ہے اس کی ذات ہر عیب اور نقص اور کمزوری سے منزہ ہے، اور وہ اس سے بالکل پاک ہے کہ خدائی میں کوئی اس کا شریک و سہیم ہو۔ |
Surah 23 : Ayat 17
وَلَقَدْ خَلَقْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعَ طَرَآئِقَ وَمَا كُنَّا عَنِ ٱلْخَلْقِ غَـٰفِلِينَ
اور تمہارے اوپر ہم نے سات راستے بنائے1، تخلیق کے کام سے ہم کچھ نابلد نہ تھے2
2 | دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے : ’’ اور مخلوقات کی طرف سے ہم غافل نہ تھے ، یا نہیں ہیں ‘‘۔ متن میں جو مفہوم لیا گیا ہے اس کے لحاظ سے آیت کا مطلب یہ ہے کہ یہ سب کچھ جو ہم نے بنایا ہے ، یہ بس یونہی کسی اناڑی کے ہاتھوں الل ٹپ نہیں بن گیا ہے ، بلکہ اسے ایک سوچے سمجھے منصوبے پر پورے علم کے ساتھ بنایا گیا ہے ، اہم قوانین اس میں کار فرما ہیں ، ادنیٰ سے لے کر اعلیٰ تک سارے نظام کائنات میں ایک مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے ، اور اس کار گاہ عظیم میں ہر طرف ایک مقصدیت نظر آتی ہے جو بنانے والے کی حکمت پر دلالت کر رہی ہے۔ دوسرا مفہوم لینے کی صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ اس کائنات میں جتنی بھی مخلوقات ہم نے پیدا کی ہے اس کی کسی حاجت سے ہم کبھی غافل ، اور کسی حالت سے کبھی بے خبر نہیں رہے ہیں۔ کسی چیز کو ہم نے اپنے منصوبے کے خلاف بننے اور چلنے نہیں دیا ہے۔ کسی چیز کی فطری ضروریات فراہم کرنے میں ہم نے کوتاہی نہیں کی ہے۔ اور ایک ایک ذرے اور پتے کی حالت سے ہم با خبر رہے ہیں |
1 | اصل میں لفظ : طرائق استعمال ہوا ہے جس کے معنی راستوں کے بھی ہیں اور طبقوں کے بھی۔ اگر پہلے معنی لیے جائیں تو غالباً اس سے مراد سات سیاروں کی گردش کے راستے ہیں ، اور چونکہ اس زمانے کا انسان سبع سیارہ ہی سے واقف تھا، اس لیے سات ہی راستوں کا ذکر کیا گیا۔ اس کے معنی بہر حال یہ نہیں ہیں کہ ان کے علاوہ اور دوسرے راستے نہیں ہیں اور اگر دوسرے معنی لیے جائیں تو : سَبْعَ طَرَآئِقَ کا وہی مفہوم ہو گا جو سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَقاً (سات آسمان طبق بر طبق کا مفہوم ہے۔ اور یہ جو فرمایا کہ’’ تمہارے اوپر‘‘ ہم نے سات راستے بنائے ، تو اس کا ایک تو سیدھا سادھا مطلب وہی ہے جو ظاہر الفاظ سے ذہن میں آتا ہے ، اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ تم سے بھی زیادہ بڑی چیز ہم نے یہ آسمان بنائے ہیں ، جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : لَخَلٰقَ السَّمٰوٰ تٍ وَالْاَرْضِ اَکْبَرُ مِنْ کَلْقِ النَّاسِ۔’’آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا انسانوں کو پیدا کرنے سے زیادہ بڑا کام ہے ‘‘ (المومن۔ آیت 57 ) |
Surah 23 : Ayat 86
قُلْ مَن رَّبُّ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ ٱلسَّبْعِ وَرَبُّ ٱلْعَرْشِ ٱلْعَظِيمِ
ان سے پوچھو، ساتوں آسمانوں اور عرش عظیم کا مالک کون ہے؟
Surah 65 : Ayat 12
ٱللَّهُ ٱلَّذِى خَلَقَ سَبْعَ سَمَـٰوَٲتٍ وَمِنَ ٱلْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ يَتَنَزَّلُ ٱلْأَمْرُ بَيْنَهُنَّ لِتَعْلَمُوٓاْ أَنَّ ٱللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ وَأَنَّ ٱللَّهَ قَدْ أَحَاطَ بِكُلِّ شَىْءٍ عِلْمَۢا
اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان بنائے اور زمین کی قسم سے بھی اُنہی کے مانند1 ان کے درمیان حکم نازل ہوتا رہتا ہے (یہ بات تمہیں اس لیے بتائی جا رہی ہے) تاکہ تم جان لو کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے، اور یہ کہ اللہ کا علم ہر چیز پر محیط ہے
1 | اُنہی کے مانند‘‘ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جتنے آسمان بناۓ اُتنی ہی زمینیں بھی بنائیں، بلکہ مطلب یہ ہے کہ جیسے متعدد آسمان اس نے بناۓ ہیں ویسی ہی متعدد زمینیں بھی بنائی ہیں۔ اور ’’ زمین کی قسم سے ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح یہ زمین جس پر انسان رہتے ہیں، اپنی موجودات کے لیے فرش اور گہوارہ بنی ہوئی ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے کائنات میں اور زمینیں بھی تیار کر رکھی ہیں جو اپنی اپنی آبادیوں کے لیے فرش اور گہوارہ ہیں۔ بلکہ بعض مقامات پر تو قرآن میں یہ اشارہ بھی کر دیا گیا ہے کہ جاندار مخلوقات صرف زمین ہی پر نہیں ہیں، عالم بالا میں بھی پائی جاتی ہیں (مثال کے طور پر ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم۔الشوریٰ، آیت 29، حاشیہ 50)۔ بالفاظ دیگر آسمان میں یہ جو بے شمار تارے اور سیارے نظر آتے ہیں، یہ سب ڈھنڈار پڑے ہوۓ نہیں ہیں بلکہ زمین کی طرح ان میں بھی بکثرت ایسے ہیں جن میں دنیائیں آباد ہیں۔ قدیم مفسرین میں سے صرف ابن عباسؓ ایک ایسے مفسر ہیں جنہوں نے اس دور میں اس حقیقت کو بیان کیا تھا جب آدمی اس کا تصور تک کرنے کے لیے تیار نہ تھا کہ کائنات میں اس زمین کے سوا کہیں اور بھی ذی عقل مخلوق بستی ہے۔ آج اس زمانے کے سائنس دانوں تک کو اس کے امر واقعہ ہونے میں شک ہے، کجا کہ 14 سو برس پہلے کے لوگ اسے بآسانی باور کر سکتے۔ اسی لیے ابن عباس رضی اللہ عنہ عام لوگوں کے سامنے یہ بات کہتے ہوۓ ڈرتے تھے کہ کہیں اس سے لوگوں کے ایمان متزلزل نہ ہو جائیں۔ چنانچہ مجاہد کہتے ہیں کہ ان سے جب اس آیت کا مطلب پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا ’’ اگر میں اس کی تفسیر تم لوگوں سے بیان کروں تو تم کافر ہو جاؤ گے اور تمہارا کفر یہ ہوگا کہ اسے جھٹلاؤ گے ‘‘۔ قریب قریب یہی بات سعید بن جبیر سے بھی منقول ہے کہ ابن عباس نے فرمایا ’’ کیا بھروسا کیا جاسکتا ہے کہ اگر میں تمہیں اس کا مطلب بتاؤں تو تم کافر نہ ہو جاؤ گے ‘‘۔(ابن جریر۔ عبد بن حمید)۔ تاہم ابن جریر، ابن ابی حاتم اور حاکم نے، اور شعب الایمان اور کتاب الاسماء و الصفات میں بیہقی نے ابو الضحٰی کے واسطے سے باختلاف الفاظ ابن عباس کی یہ تفسیر نقل کی ہے کہ : فی کلِّ ارضٍ نبیٌّ کنبیِّکم و اٰدمُ کَاٰ دَمَ و نوحٌ کنوجٍ و ابراہیم کا ابراھیم و عیسیٰ کعیسیٰ‘‘۔ ان میں سے ہر زمین میں نبی ہے تمہارے نبیؐ جیسا اور آدم ہے تمہارے آدمؑ جیاسا اور نوح ہے تمہارے نوحؑ جیسا، اور ابراہیم ہے تمہارے ابراہیمؑ جیسا اور عیسیٰ ہے تمہارے عیسیٰؑ جیسا‘‘۔ اس روایت کو ابن حجرؒ نے فتح لاباری میں اور ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں بھی نقل کیا ہے۔ اور امام ذہنی نے کہا ہے کہ اس کی سند صحیح ہے البتہ میرے علم میں ابو الضحٰی کے سوا کسی نے اسے روایت نہیں کیا ہے، اس لیے یہ بالکل شاذ روایت ہے۔ بعض دوسرے علماء نے اسے کذب اور موضوع قرار دیا ہے اور ملا علی قاری نے اس کو موضوعات کبیر(ص 19) میں موضوع کہتے ہوۓ کہا ہے کہ اگر یہ ابن عباس ہی کی روایت ہے تب بھی اسرائیلیات میں سے ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسے رد کرنے کی اصل وجہ لوگوں کا اسے بعید از عقل و فہم سمجھنا ہے، ورنہ بجاۓ خود اس میں کوئی بات بھی خلاف عقل نہیں ہے۔ چنانچہ علامہ آلوسی اپنی تفسیر میں اس پر بحث کرتے ہوۓ لکھتے ہیں:’’ اس کو صحیح ماننے میں نہ عقلاً کوئی چیز مانع ہے نہ شرعاً۔ مراد یہ ہے کہ ہر زمین میں ایک مخلوق ہے جو ایک اصل کی طرف اسی طرح راجع ہوتی ہے جس طرح بنی آدم ہماری زمین میں آدم علیہ السلام کی طرف راجع ہوتے ہیں۔ اور ہر زمین میں ایسے افراد پاۓ جاتے ہیں جو اپنے ہاں دوسروں کی بہ نسبت اسی طرح ممتاز ہیں جس طرح ہمارے ہاں نوح اور ابراہیم علیہ السلام ممتاز ہیں‘‘۔ آگے چل کر علامہ موصوف کہتے ہیں’’ ممکن ہے کہ زمینیں سات سے زیادہ ہوں اور اسی طرح آسمان بھی صرف سات ہی نہ ہوں۔ سات کے عدد پ، جو عدد تام ہے، اکتفا کرنا اس بات کو مستلزم نہیں کہ اس سے زائد کی نفی ہو‘‘۔ پھر بعض احادیث میں ایک ایک آسمان کی درمیانی مسافت جو پانچ پانچ سو برس بیان کی گئی ہے اس کے متعلق علامہ موصوف کہتے ہیں : ھومن باب التقریب لِلا فْھام، یعنی اس سے مراد ٹھیک ٹھیک مسافت کی پیمائش بیان کرنا نہیں ہے، بلکہ مقصود بات کو اس طرح بیان کرنا ہے کہ وہ لوگوں کی سمجھ سے قریب تر ہو۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ حال میں امریکہ کے رانڈ کارپوریشن(Rand Corporation) نے فلکی مشاہدات سے اندازہ لگایا ہے کہ زمین جس کہکشاں (Galaxy) میں واقع ہے صرف اسی کے اندر تقریباً 60 کروڑ ایسے سیارے پاۓ جاتے ہیں جن کے طبعی حالات ہماری زمین سے بہت کچھ ملتے چلتے ہیں اور امکان ہے کہ ان کے اندر بھی جاندار مخلوق آباد ہو (اکانومسٹ، لندن۔ مورخہ 26 جولائی 1969ء) |
Surah 67 : Ayat 3
ٱلَّذِى خَلَقَ سَبْعَ سَمَـٰوَٲتٍ طِبَاقًاۖ مَّا تَرَىٰ فِى خَلْقِ ٱلرَّحْمَـٰنِ مِن تَفَـٰوُتٍۖ فَٱرْجِعِ ٱلْبَصَرَ هَلْ تَرَىٰ مِن فُطُورٍ
جس نے تہ بر تہ سات آسمان بنائے1 تم رحمان کی تخلیق میں کسی قسم کی بے ربطی نہ پاؤ2 گے پھر پلٹ کر دیکھو، کہیں تمہیں کوئی خلل3 نظر آتا ہے؟
3 | اصل میں لفظ فطور استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں دراڑ، شگاف، رخنہ، پھٹا ہوا ہونا، ٹوٹا پھوٹا ہونا۔ مطلب یہ ہے کہ پوری کائنات کی بندش ایسی چست ہے، اور زمین کے ایک ذرے سے لے کر عظیم الشان کہکشانوں تک ہر چیز ایسی مربطو ہے کہ کہیں نظم کائنات کا تسلسل نہیں ٹوٹتا۔ تم خواہ کتنی ہی جستجو کر لو، تمہیں اس میں کسی جگہ کوئی رخنہ نہیں مل سکتا (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد پنجم، تفسیر سورہ ق، حاشیہ 8 |
2 | اصل میں تفاوت کا لفظ استعمال ہوا ہے، جس کے معنی ہیں، عدم تناسب۔ ایک چیز کا دوسری چیز سے میل نہ کھانا۔ انمل بے جوڑ ہونا۔ پس اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ پوری کائنات میں تم کہیں بد نظمی، بے ترتیبی اور بے ربطی نہ پاؤ گے۔ اللہ کی پیدا کردہ اس دنیا میں کوئی چیز انمل بے جوڑ نہیں ہے۔ اس کے تمام اجزاء باہم مربوط ہیں اور ان میں کمال درجے کا تناسب پایا جاتا ہے |
1 | تشریح کے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، البقرہ، حاشیہ 34۔ جلد دوم، الرعد، حاشیہ 2۔ الحجر، حاشیہ 8۔ جلد سوم، الحج، حاشیہ 113۔ المومنون ، حاشیہ 15۔ جلد چہارم ، الصافات، حاشیہ 5، المومن، حاشیہ 90 |
Surah 71 : Ayat 15
أَلَمْ تَرَوْاْ كَيْفَ خَلَقَ ٱللَّهُ سَبْعَ سَمَـٰوَٲتٍ طِبَاقًا
کیا دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے کس طرح سات آسمان تہ بر تہ بنائے
Surah 32 : Ayat 11
۞ قُلْ يَتَوَفَّـٰكُم مَّلَكُ ٱلْمَوْتِ ٱلَّذِى وُكِّلَ بِكُمْ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ
اِن سے کہو 1"موت کا وہ فرشتہ جو تم پر مقرر کیا گیا ہے تم کو پورا کا پورا اپنے قبضے میں لے لے گا اور پھر تم اپنے رب کی طرف پلٹا لائے جاؤ گے"
1 | یعنی تمہارا ’’ہم‘‘ مِٹی میں رَل مِل نہ جائے گا، بلکہ اس کی مہلتِ عمل ہوتے ہی خدا کا فرشتہ، موت آئے گا اور اُسے جسم سے نکال کر سَمُوچا اپنے قبضے میں لے لے گا۔ اُس کا کوئی ادنٰی جُز بھی جسم کے ساتھ مِٹی میں نہ جا سکے گا۔ اور وہ پورا کا پورا حراست(Cuatody)میں لے لیا جائے گا اور اپنے رب کے حضور پیش کردیا جائے گا۔ اس مختصر سی آیت میں بہت سے حقائق پر روشنی ڈالی گئی ہے جن پر سے سرسری طور پر نہ گزر جائیے : ۱)اس میں تصریح ہے کہ موت کچھ یوں ہی نہیں آ جاتی کہ ایک گھڑی چل رہی تھی، کُوک ختم ہوئی اور وہ چلتے چلتے یکایک بند ہو گئی۔ بلکہ دراصل اس کام کے لیے اللہ تعالٰی نے ایک خاص فرشتہ مقرر کررکھا ہے جوآ کر باقاعدہ رُوح کو ٹھیک اُسی طرح وصول کرتا ہے جس طرح ایک سرکاری امین (Official Receiver)کسی چیز کو اپنے قبضے میں لے لیتا ہے۔ قرآن کے دوسرے مقامات پراس کی مزید تفصیلات جو بیان کی گئی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس افسرموت کے ماتحت فرشتوں کا ایک پورا عملہ ہے جو موت وارد کرنے اور روح کو جسم سے نکالنے اور اس کو قبضے میں لینے کی بہت سی مختلف النوع خدمات انجام دیتا ہے۔ نیز یہ کہ اس عملے کا برتاؤ مجرم روح کے ساتھ کچھ اَور ہوتا ہے اور مومنِ صالح رُوح کے ساتھ کچھ اور۔(اِن تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ نساء، آیت ۹۷۔الانعام، ۹۳۔ النحل ، ۲۸۔ الواقعہ، ۸۳۔۹۴۔ ۲)۔اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ موت سے انسان معدوم نہیں ہو جاتا بلکہ اس کی روح جسم سے نکل کر باقی ر ہتی ہے۔ قرآن کے الفاظ ’’موت کا فرشتہ تم کو پورا کا پورا اپنے قبضے میں لے لیگا ۔ ‘‘ اسی حقیقت پر دلالت کرتے ہیں کیونکہ کوئی معدوم چیز قبضے میں لینے کا تو مطلب ہی یہ ہے کہ مقبوضہ چیز قابض کے پاس رہے۔ ۳) اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ موت کے وقت جو چیز قبضے میں لی جاتی ہے وہ آدمی کی حیوانی زندگی (Biological life)نہیں بلکہ اس کی وہ خود ی‘ اس کی وہ اَنا (Ego)ہے جو’’میں‘‘ اور’’ہم‘‘ اور’’تم‘‘ کے الفاظ تعبیر کی جاتی ہے ۔یہ انا دنیا میں کام کر کے جیسی کچھ شخصیت بھی بنتی ہے وہ پوری جوں کی توں (Intact)نکال لی جاتی ہے بغیر اس کے کہ اس کے اوصاف میں کو ئی کمی بیشی ہو۔ اور یہی چیز موت کے بعد اپنے رب کی طرف پلٹا ئی جاتی ہے۔ اسی کو آخرت میں نیا جنم اور نیا جسم دیا جائے گا اُسی پر مقدمہ قائم کیا جائے گا‘ اسی سے حساب لیا جائے گا اوراسی کو جزا وسزا دیکھنی ہو گی۔ |
Surah 32 : Ayat 11
۞ قُلْ يَتَوَفَّـٰكُم مَّلَكُ ٱلْمَوْتِ ٱلَّذِى وُكِّلَ بِكُمْ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ
اِن سے کہو 1"موت کا وہ فرشتہ جو تم پر مقرر کیا گیا ہے تم کو پورا کا پورا اپنے قبضے میں لے لے گا اور پھر تم اپنے رب کی طرف پلٹا لائے جاؤ گے"
1 | یعنی تمہارا ’’ہم‘‘ مِٹی میں رَل مِل نہ جائے گا، بلکہ اس کی مہلتِ عمل ہوتے ہی خدا کا فرشتہ، موت آئے گا اور اُسے جسم سے نکال کر سَمُوچا اپنے قبضے میں لے لے گا۔ اُس کا کوئی ادنٰی جُز بھی جسم کے ساتھ مِٹی میں نہ جا سکے گا۔ اور وہ پورا کا پورا حراست(Cuatody)میں لے لیا جائے گا اور اپنے رب کے حضور پیش کردیا جائے گا۔ اس مختصر سی آیت میں بہت سے حقائق پر روشنی ڈالی گئی ہے جن پر سے سرسری طور پر نہ گزر جائیے : ۱)اس میں تصریح ہے کہ موت کچھ یوں ہی نہیں آ جاتی کہ ایک گھڑی چل رہی تھی، کُوک ختم ہوئی اور وہ چلتے چلتے یکایک بند ہو گئی۔ بلکہ دراصل اس کام کے لیے اللہ تعالٰی نے ایک خاص فرشتہ مقرر کررکھا ہے جوآ کر باقاعدہ رُوح کو ٹھیک اُسی طرح وصول کرتا ہے جس طرح ایک سرکاری امین (Official Receiver)کسی چیز کو اپنے قبضے میں لے لیتا ہے۔ قرآن کے دوسرے مقامات پراس کی مزید تفصیلات جو بیان کی گئی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس افسرموت کے ماتحت فرشتوں کا ایک پورا عملہ ہے جو موت وارد کرنے اور روح کو جسم سے نکالنے اور اس کو قبضے میں لینے کی بہت سی مختلف النوع خدمات انجام دیتا ہے۔ نیز یہ کہ اس عملے کا برتاؤ مجرم روح کے ساتھ کچھ اَور ہوتا ہے اور مومنِ صالح رُوح کے ساتھ کچھ اور۔(اِن تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ نساء، آیت ۹۷۔الانعام، ۹۳۔ النحل ، ۲۸۔ الواقعہ، ۸۳۔۹۴۔ ۲)۔اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ موت سے انسان معدوم نہیں ہو جاتا بلکہ اس کی روح جسم سے نکل کر باقی ر ہتی ہے۔ قرآن کے الفاظ ’’موت کا فرشتہ تم کو پورا کا پورا اپنے قبضے میں لے لیگا ۔ ‘‘ اسی حقیقت پر دلالت کرتے ہیں کیونکہ کوئی معدوم چیز قبضے میں لینے کا تو مطلب ہی یہ ہے کہ مقبوضہ چیز قابض کے پاس رہے۔ ۳) اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ موت کے وقت جو چیز قبضے میں لی جاتی ہے وہ آدمی کی حیوانی زندگی (Biological life)نہیں بلکہ اس کی وہ خود ی‘ اس کی وہ اَنا (Ego)ہے جو’’میں‘‘ اور’’ہم‘‘ اور’’تم‘‘ کے الفاظ تعبیر کی جاتی ہے ۔یہ انا دنیا میں کام کر کے جیسی کچھ شخصیت بھی بنتی ہے وہ پوری جوں کی توں (Intact)نکال لی جاتی ہے بغیر اس کے کہ اس کے اوصاف میں کو ئی کمی بیشی ہو۔ اور یہی چیز موت کے بعد اپنے رب کی طرف پلٹا ئی جاتی ہے۔ اسی کو آخرت میں نیا جنم اور نیا جسم دیا جائے گا اُسی پر مقدمہ قائم کیا جائے گا‘ اسی سے حساب لیا جائے گا اوراسی کو جزا وسزا دیکھنی ہو گی۔ |
Surah 2 : Ayat 27
ٱلَّذِينَ يَنقُضُونَ عَهْدَ ٱللَّهِ مِنۢ بَعْدِ مِيثَـٰقِهِۦ وَيَقْطَعُونَ مَآ أَمَرَ ٱللَّهُ بِهِۦٓ أَن يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِى ٱلْأَرْضِۚ أُوْلَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْخَـٰسِرُونَ
اللہ کے عہد کو مضبوط باندھ لینے کے بعد توڑ دیتے ہیں اللہ نے جسے جوڑنے کا حکم دیا ہے اُسے کاٹتے ہیں2، اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں 3حقیقت میں یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں
3 | ان تین جُملوں میں فسق اور فاسق کی مکمل تعریف بیان کر دی گئی ہے۔ خدا اور بندے کے تعلق اور انسان اور انسان کے تعلق کو کاٹنے یا بگاڑنے کا لازمی نتیجہ فساد ہے، اور جو اس فساد کو برپا کرتا ہے، وہی فاسق ہے |
2 | یعنی جن روابط کے قیام اور استحکام پر انسان کی اجتماعی و انفرادی فلاح کا انحصار ہے ، اور جنہیں درست رکھنے کا اللہ نے حکم دیا ہے، ان پر یہ لوگ تیشہ چلاتے ہیں۔ اس مختصر سے جملہ میں اس قدر وسعت ہے کہ انسانی تمدّن و اخلاق کی پوری دُنیا پر ، جو دو آدمیوں کے تعلق سے لے کر عالمگیر بین الاقوامی تعلّقات تک پھیلی ہوئی ہے ، صرف یہی ایک جملہ حاوی ہو جاتا ہے ۔ روابط کو کاٹنے سے مُراد محض تعلّقاتِ انسانی کا اِنقطاع ہی نہیں ہے، بلکہ تعلقات کی صحیح اور جائز صُورتوں کے سوا جو صورتیں بھی اختیار کی جائیں گی، وہ سب اسی ذیل میں آجائیں گی، کیونکہ ناجائز اور غلط روابط کا انجام وہی ہے ، جو قطعِ روابط کا ہے ، یعنی بین الانسانی معاملات کی خرابی اور نظامِ اخلاق و تمدّن کی بردباری |