Ayats Found (2)
Surah 2 : Ayat 276
يَمْحَقُ ٱللَّهُ ٱلرِّبَوٲاْ وَيُرْبِى ٱلصَّدَقَـٰتِۗ وَٱللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ
اللہ سود کا مٹھ مار دیتا ہے اور صدقات کو نشو و نما دیتا ہے1 اور اللہ کسی ناشکرے بد عمل انسان کو پسند نہیں کرتا2
2 | ظاہر ہے کہ سُود پر روپیہ وُہی شخص چلا سکتا ہے جس کو دولت کی تقسیم میں اس کی حقیقی ضرورت سے زیادہ حصّہ ملا ہو۔ یہ ضرورت سے زیادہ حصّہ ، جو ایک شخص کو ملتا ہے، قرآن کے نقطہء نظر سے دراصل اللہ کا فضل ہے۔ اور اللہ کے فضل کا صحیح شکر یہ ہے کہ جس طرح اللہ نے اپنے بندے پر فضل فرمایا ہے، اسی طرح بندہ بھی اللہ کے دُوسرے بندوں پر فضل کرے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا، بلکہ اس کے برعکس اللہ کے فضل کو اس غرض کے لیے استعمال کرتا ہے کہ جو بندے دولت کی تقسیم میں اپنی ضرورت سے کم حصّہ پا رہے ہیں، ان کے قلیل حصّے میں سے بھی وہ اپنی دولت کے زور پر ایک جز اپنی طرف کھینچ لے، تو حقیقت میں وہ ناشکرا بھی ہے اور ظالم، جفا کار اور بدعمل بھی |
1 | ”اِ س آیت میں ایک ایسی صداقت بیان کی گئ ہے ، جو اخلاقی و رُوحانی حیثیت سے بھی سراسر حق ہے اور معاشی و تمدنی حیثیت سے بھی۔ اگرچہ بظاہر سُود سے دولت بڑھتی نظر آتی ہے اور صدقات سے گھٹتی ہوئی محسوس ہوتی ہے، لیکن درحقیقت معاملہ اس کے برعکس ہے۔ خدا کا قانونِ فطرت یہی ہے کہ سُود اخلاقی و رُوحانی اور معاشی و تمدّنی ترقی میں نہ صرف مانع ہوتا ہے بلکہ تنزّل کا ذریعہ بنتا ہے۔ اور اس کے برعکس صدقات سے (جن میں قرضِ حسن بھی شامل ہے) اخلاق و رُوحانیت اور تمدّن و معیشت ہر چیز کو نشونما نصیب ہوتا ہے۔ اخلاقی و رُوحانی حیثیت سے دیکھیے ، تو یہ بات بالکل واضح ہے کہ سُود دراصل خود غرضی، بخل ، تنگ دلی اور سنگ دلی جیسی صفات کا نتیجہ ہے اور وہ اِنہی صفات کو انسان میں نشونما بھی دیتا ہے۔ اس کے برعکس صدقات نتیجہ ہیں فیّاضی، ہمدردی ، فراخ دِلی اور عالی ظرفی جیسی صفات کا، اور صدقات پر عمل کرتے رہنے سے یہی صفات انسان کے اندر پرورش پاتی ہیں۔ کون ہے جو اخلاقی صفات کے ان دونوں مجموعوں میں سے پہلے مجموُ عے کو بدترین اور دُوسرے کو بہترین نہ مانتا ہو؟ تمدّنی حیثیت سے دیکھیے، تو بادنٰی تامّل یہ بات ہر شخص کی سمجھ میں آجائے گی کہ جس سوسائیٹی میں افراد ایک دُوسرے کے ساتھ خود غرضی کا معاملہ کریں ، کوئی شخص اپنی ذاتی غرض اور اپنے ذاتی فائدے کے بغیر کسی کے کام نہ آئے ، ایک آدمی کی حاجت مندی کو دُوسرا آدمی اپنے لیے نفع اندوزی کا موقع سمجھے اور اس کا پورا فائدہ اُٹھائے ، اور مالدار طبقوں کا مفاد عامُة الناس کے مفاد کی ضد ہو جائے، ایسی سوسا ئیٹی کبھی مستحکم نہیں ہو سکتی۔ اس کے افراد میں آپس کی محبت کے بجائے باہمی بغض و حسد اور بے دردی و بے تعلقی نشو نما پائے گی۔ اس کے اجزا ہمیشہ انتشار و پراگندگی کی طرف مائل رہیں گے۔ اور اگر دُوسرے اسباب بھی اِس صورت ِ حال کے لیے مددگار ہو جائیں، تو ایسی سوسائیٹی کے اجزا کا باہم متصادم ہو جانا بھی کچھ مشکل نہیں ہے۔ اس کے برعکس جس سوسائیٹی کا اجتماعی نظام آپس کی ہمدردی پر مبنی ہو، جس کے افراد ایک دُوسرے کے ساتھ فیاضی کا معاملہ کریں ، جس میں ہر شخص دُوسرے کی حاجت کے موقع پر فارخ دلی کے ساتھ مدد کا ہاتھ بڑھائے، اور جس میں با وسیلہ لوگ بے وسیلہ لوگوں سے ہمدردانہ اعانت یا کم از کم منصفانہ تعاون کا طریقہ برتیں ، ایسی سوسائیٹی میں آپس کی محبت ، خیر خواہی اور دلچسپی نشونما پائے گی۔ اس کے اجزا ایک دُوسرے کے ساتھ پیوست اور ایک دُوسرے کے پشتیبان ہوں گے۔ اس میں اندرونی نزاع و تصادم کو راہ پانے کا موقع نہ مل سکے گا ۔ اس میں باہمی تعاون اور خیر خواہی کی وجہ سے ترقی کی رفتار پہلی قسم کی سوسائیٹی کی بہ نسبت بہت زیادہ تیز ہوگی۔ اب معاشی حیثیت سے دیکھیے۔ معاشیات کے نقطہ ء نظر سے سُودی قرض کی دو قسمیں ہیں׃ایک وہ قرض جو اپنی ذاتی ضروریات پر خرچ کر نے کے لیے مجبُور اور حاجت مند لوگ لیتے ہیں۔ دوسرا وہ قرض جو تجارت و صنعت و حرفت اور زراعت وغیرہ کے کاموں پر لگانے کے لیے پیشہ ور لوگ لیتے ہیں۔ ان میں سے پہلی قسم کے قرض کو تو ایک دُنیا جانتی ہے کہ اس پر سُود وصول کرنے کا طریقہ نہایت تباہ کُن ہے ۔ دُنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں ہے جس میں مہاجن افراد اور مہاجنی ادارے اس ذریعے سے غریب مزدُور وں کا ، کاشتکاروں اور قلیل المعاش عوام کا خون نہ چُوس رہے ہوں۔ سوک کی وجہ سے اس قسم کا قرض ادا کرنا ان لوگوں کے لیے سخت مشکل، بلکہ بسا اوقات نا ممکن ہو جا تا ہے۔ پھر ایک قرض کو ادا کرنے کے لیے وہ دُوسرا اور تیسرا قرض لیتے چلے جاتے ہیں۔ اصل رقم سے کئی کئی گنا سُود دے چکنے پر بھی اصل رقم جُوں کی تُوں باقی رہتی ہے۔ محنت پیشہ آدمی کی آمدنی کا پیشتر حصّہ مہاجن لے جاتا ہے اور اس غریب کی اپنی کمائی میں سے اس کے پاس اپنا اور اپنے بچّوں کا پیٹ پانے لیے بھی کافی روپیہ نہیں بچتا۔ یہ چیز رفتہ رفتہ اپنے کام سے کارکنوں کی دلچسپی ختم کر دیتی ہے۔ کیونکہ جب ان کی محنت کا پھل دُوسرا لے اُڑے تو وہ کبھی دِل لگا کر محنت نہیں کر سکتے۔ پھر سُودی قرض کے جال میں پھنسے ہوئے لوگوں کو ہر وقت کی فکر اور پریشانی اس قدر گھُلا دیتی ہے ، اور تنگ دستی کی وجہ سے ان کے لیے صحیح غذا اور علاج اس قدر مشکل ہو جاتا ہے ، کہ ان کی صحتیں کبھی درُست نہیں رہ سکتیں۔ اس طرح سُودی قرض کا حاصل یہ ہوتا ہے کہ چند افراد تو لاکھوں آدمیوں کا خون چُوس چُوس کر موٹے ہوتے رہتے ہیں، مگر بحیثیت مجموعی پوری قوم کی پیدائشِ دولت اپنے امکانی معیار کی بہ نسبت بہت گھٹ جاتی ہے، اور مآلِ کار میں خود وہ خون چوسنے والے افراد بھی اس کے نقصانات سے نہیں بچ سکتے کیونکہ ان کی اس کو خود غرضی سے غریب عوام کو جو تکلیفیں پہنچتی ہیں ان کی بدولت مال دار لوگوں کے خلاف غصّے اور نفرت کا ایک طوفان دلوں میں اُٹھتا اور گھُٹتا رہتا ہے، اور کسی انقلابی ہیجان کے موقع پر جب یہ آتش فشاں پھٹتا ہے تو ان ظالم مالداروں کو اپنے مال کے ساتھ اپنی جان اور آبرو تک سے ہاتھ دھونا پڑ جاتا ہے۔ رہا دُوسری قسم کا قرض جو کاروبار میں لگانے کے لیے لیا جاتا ہے ، تو اس پر ایک مقرر شرحِ سُود کے عائد ہونے سے جو بے شمار نقصانات پہنچتے ہیں ان میں سے چند نمایاں ترین یہ ہیں : (١) جو کام رائج الوقت شرحِ سُود کے برابر نفع نہ لا سکتے ہوں ، چاہے ملک اور قوم کے لیے کتنے ہی ضروری اور مفید ہوں، ان پر لگانے کے لیے روپیہ نہیں ملتا اور ملک کے تمام مالی وسائل کا بہا ؤ ایسے کاموں کی طرف ہو جاتا ہے ، جو بازار کی شرحِ سُود کے برابر یا اس سے زیادہ نفع لاسکتے ہوں ، چاہے اجتماعی حیثیت سے ان کی ضرورت اور ان کافائدہ بہت کم ہو یا کچھ بھی نہ ہو۔ (۲) جن کاموں کے لیے سُود پر سرمایہ ملتا ہے، خواہ وہ تجارتی کام ہوں یا صنعتی یا زراعتی ، ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے ، جس میں اس امر کی ضمانت موجود ہو کہ ہمیشہ تمام حالات میں اس کا منافع ایک مقرر معیاد ، مثلاً پانچ، چھ یا دس فیصدی تک یا اس سے اُوپر اُوپر ہی رہے گا اور کبھی اس سے نیچے نہیں گرے گا۔ اِس کی ضمانت ہو نا تو درکنار ، کسی کاروبار میں سرے سے اِسی بات کی کوئی ضمانت موجود نہیں ہے کہ اس میں ضرور منافع ہی ہو گا، نقصان کبھی نہ ہوگا۔ لہٰذا کسی کاروبار میں ایسے سرمایے کا لگنا جس پر سرمایہ دار کو ایک مقرر شرح کے مطابق منافع دینے کی ضمانت دی گئی ہو، نقصان اور خطرے کے پہلو ؤ ں سے کبھی خالی نہیں ہو سکتا۔ (۳) چونکہ سرمایہ دینے والا کاروبار کے نفع و نقصان میں شریک نہیں ہوتا بلکہ صرف منافع اور وہ بھی ایک مقرر شرحِ منافع کی ضمانت پر روپیہ دیتا ہے ، اس وجہ سے کاروبار کی بھلائی اور بُرائی سے اس کو کسی قسم کی دلچسپی نہیں ہوتی۔ وہ انتہائی خٰود غرضی کے ساتھ صرف اپنے منافع پر نگاہ رکھتا ہے، اور جب کبھی اسے ذرا سا اندیشہ لاحق ہوجاتا ہے کہ منڈی پر کساد بازاری کا حملہ ہونے والا ہے ، تو وہ سب سے پہلے اپنا روپیہ کھینچنے کی فکر کرتا ہے۔ اِس طرح کبھی تو محض اس کے خود غرضانہ اندیشوں ہی کی بدولت دنیا پر کساد بازاری کا واقعی حملہ ہو جاتا ہے ، او ر کبھی اگر دُوسرے اسباب سے کساد بازاری آگئی ہو تو سرمایہ دار کی خود غرضی اس کو بڑھا کر انتہائی تباہ کُن حد تک پہنچا دیتی ہے۔ سُود کے یہ تین نقصانات تو ایسے صریح ہیں کہ کوئی شخص جو علم المعیشت سے تھوڑا سا مَس بھی رکھتا ہو ان کا انکار نہیں کر سکتا۔ اس کے بعد یہ مانے بغیر کیا چارہ ہے کہ فی الواقع اللہ تعالیٰ کے قانونِ فطرت کی رُو سے سود معاشی دولت کو بڑھاتا نہیں بلکہ گھٹاتا ہے۔ اب ایک نظر صدقات کے معاشی اثرات و نتائج کو بھی دیکھ لیجیے۔ اگر سوسائیٹی کے خوشحال افراد کا طریقِ کار یہ ہو کہ وہ اپنی حیثیت کے مطابق پُوری فراخ دلی کے ساتھ اپنی اور اپنے اہل و عیال کی ضروریات خریدیں، پھر جو روپیہ ان کے پاس ان کی ضروریات سے زیادہ بچے اسے غریبوں میں بانٹ دیں تاکہ وہ بھی اپنی ضروریات خرید سکیں، پھر اس پر بھی جو روپیہ بچ جائے اسے یا تو کاروباری لوگوں کو بلا سُود قرض دیں، یا شرکت کے اُصُول پر ان کے ساتھ نفع و نقصان میں حصّہ دار بن جائیں، یا حکومت کے پاس جمع کردیں کہ وہ اجتماعی خدمات کے لیے ان کو استعمال کرے، تو ہر شخص تھوڑے سے غور و فکر ہی سے اندازہ کر سکتا ہے کہ ایسی سوسائیٹی میں تجارت اور صنعت اور زراعت، ہر چیز کو بے انتہا فروغ حاصل ہوگا۔ اُس کے عام افراد کی خوشحالی کا معیار بلند ہوتا چلا جائے گا اور اس میں بحیثیت ِ مجموعی دولت کی پیداوار اُس سوسائیٹی کی بہ نسبت بدرجہا زیادہ ہوگی جس کے اندر سُود کا رواج ہو |
Surah 30 : Ayat 39
وَمَآ ءَاتَيْتُم مِّن رِّبًا لِّيَرْبُوَاْ فِىٓ أَمْوَٲلِ ٱلنَّاسِ فَلَا يَرْبُواْ عِندَ ٱللَّهِۖ وَمَآ ءَاتَيْتُم مِّن زَكَوٲةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ ٱللَّهِ فَأُوْلَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْمُضْعِفُونَ
جو سُود تم دیتے ہو تاکہ لوگوں کے اموال میں شامل ہو کر وہ بڑھ جائے، اللہ کے نزدیک وہ نہیں بڑھتا1، اور جو زکوٰۃ تم اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے ارادے سے دیتے ہو، اسی کے دینے والے در حقیقت اپنے مال بڑھاتے ہیں2
2 | اس بڑھوتری کےلیے کوئی حدمقررنہیں ہے۔جتنی خالص نیت اورجتنےگہرے جذبہٴ ایثاراورجس قدرشدیدطلب رضائے الٰہی کےساتھ کوئی شخص راہِ خدامیں مال صرف کرےگااسی قدراللہ تعالٰی اس کا زیادہ سےزیادہ اجردےگا۔چنانچہ ایک صحیح حدیث میں آیاہےکہ اگرایک شخص راہِ خدامیں ایک کھجوربھی دےتواللہ تعالٰی اس کوبڑھاکراُحدپہاڑکےبرابرکردیتاہے۔ |
1 | قرآن مجید میں یہ پہلی آیت ہےجوسود کی مذمت میں نازل ہوئی۔اس میں صرف اتنی بات فرمائی گئی ہے کہ تم لوگ توسود یہ سمجھتے ہوئےدیتے ہوکہ جس کوہم یہ زائدمال دےرہےہیں اس کی دولت بڑھےگی،لیکن درحقیقت اللہ کےنزدیک سود سےدولت کی افزائش نہیں ہوتی بلکہ زکوٰۃ سےہوتی ہے۔آگےچل کرجب مدینہ طیبہ میں سود کی حرمت کاحکم نازل کیاگیا تواس پرمزید یہ بات ارشاد فرمائی گئی کہ یَمحَقُ اللہُ الّرِبٰووَ یُربِی الصَّدَقٰتِ،’’اللہ سود کامَٹھ ماردیتاہےاورصدقات کونشوونمادیتاہے‘‘۔(بعد کےاحکام کےلیےملاحظہ ہوآل عمران،آیت ۱۳۰۔البقرہ،آیت ۷۵ تا۲۸۱)۔اس آیت کی تفسیرمیں مفسرین کےدواقوال ہیں۔ایک گروہ کہتا ہےکہ یہاں ربٰوسےمرادوہ سود نہیں ہےجوشرعًاحرام کیاگیا ہے،بلکہ وہ عطیہ یاہدیہ وتحفہ ہےجواِس نیت سےدیاجائے کہ لینے والا بعد میں اس سےزیادہ واپس کرےگا،یامُعطی کےلیےکوئی مفید خدمت انجام دےگا،یااس کاخوشحال ہوجانامعطی کی اپنی ذات کےلیےنافع ہوگا۔یہ ابنِ عباسؓ،مجاہدؓ،ضحاکؓ،قتادہ،عِکرِمَہ،محمدبن کَعُب القَرظِی اورشعبِی کاقول ہے۔اورغالبًایہ تفسیراِن حضرات نےاس بناپرفرمائی ہےکہ آیت میں اِس فعل کانتیجہ صرف اتناہی بتایاگیاہےکہ اللہ کےہاں اس دولت کوکوئی افزائش نصیب نہ ہوگی،حالانکہ اگرمعاملہ اُس سود کاہوتاجسےشریعت نےحرام کیاہےتومثبت طورپرفرمایاجاتا کہ اللہ کے ہاں اس پرسخت عذاب دیاجائےگا۔دوسراگروہ کہتاہےکہ نہیں اس سےمراد وہی معروف ربٰوہےجسےشریعت نےحرام کیا ہے۔یہ رائےحضرت حسن بصری اورسُدّی کی ہےاورعلامہ آلوسی کاخیال ہےکہ آیت کاظاہری مفہوم یہی ہے،کیونکہ عربی زبان میں ربٰوکالفظ اسی معنی کےلیےاستعمال ہوتاہے۔اسی تاویل کومفسرنیسابوری نےبھی اختیارکیاہے۔ہمارے خیال میں بھی یہی دوسری تفسیرصحیح ہے،اس لیےکہ معروف معنی کوچھوڑنے کےلیےوہ دلیل کافی نہیں ہےجواوپرتفسیرِاول کےحق میں بیان ہوئی ہے۔سورہ روم کانزول جس زمانے میں ہوا ہےاُس وقت قرآن مجید میں سود کی حرمت کااعلان نہیں ہواتھا۔یہ اعلان اس کےکئی برس بعد ہُواہے۔قرآن مجید کاطریقہ یہ ہےکہ جس چیزکوبعدمیں کسی وقت حرام کرناہوتاہے،اس کےلیےوہ پہلےسےذہنوں کوتیارکرناشروع کردیتاہے۔شراب کےمعاملے میں بھی پہلےصرف اتنی بات فرمائی گئی تھی کہ وہ پاکیزہ رزق نہیں ہے(النحل آیت ۶۷)پھرفرمایاکہ اس کاگناہ اس کےفائدےسےزیادہ ہے(البقرہ ۲۱۹)،پھرحکم دیاگیا کہ نشےکی حالت میں نمازکےقریب نہ جاؤ(النساء ۴۳)،پھراس کی قطعی حرمت کافیصلہ کردیاگیا۔اسی طرح یہاں سود کےمتعلق صرف اتنا کہنےپراکتفاکیاگیاہےکہ یہ وہ چیزنہیں ہےجس سےدولت کی افزائش ہوتی ہو،بلکہ حقیقی افزائش زکٰوۃ سے ہوتی ہے۔اس کےبعد سود درسودکومنع کیاگیا(آل عمران،آیت ۱۳۰)۔اورسب سےآخرمیں بجائےخود سود ہی کی قطعی حرمت کافیصلہ کردیاگیا(البقرہ،آیت ۵)۔ |