Ayats Found (1)
Surah 2 : Ayat 275
ٱلَّذِينَ يَأْكُلُونَ ٱلرِّبَوٲاْ لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ ٱلَّذِى يَتَخَبَّطُهُ ٱلشَّيْطَـٰنُ مِنَ ٱلْمَسِّۚ ذَٲلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوٓاْ إِنَّمَا ٱلْبَيْعُ مِثْلُ ٱلرِّبَوٲاْۗ وَأَحَلَّ ٱللَّهُ ٱلْبَيْعَ وَحَرَّمَ ٱلرِّبَوٲاْۚ فَمَن جَآءَهُۥ مَوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّهِۦ فَٱنتَهَىٰ فَلَهُۥ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُۥٓ إِلَى ٱللَّهِۖ وَمَنْ عَادَ فَأُوْلَـٰٓئِكَ أَصْحَـٰبُ ٱلنَّارِۖ هُمْ فِيهَا خَـٰلِدُونَ
مگر جو لوگ سود کھاتے ہیں1، اُ ن کا حال اُس شخص کا سا ہوتا ہے، جسے شیطان نے چھو کر باؤلا کر دیا ہو2 اور اس حالت میں اُن کے مبتلا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں: 3"تجارت بھی تو آخر سود ہی جیسی چیز ہے"، حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام4 لہٰذا جس شخص کو اس کے رب کی طرف سے یہ نصیحت پہنچے اور آئندہ کے لیے وہ سود خوری سے باز آ جائے، تو جو کچھ وہ پہلے کھا چکا، سو کھا چکا، اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے5 اور جو اِس حکم کے بعد پھر اسی حرکت کا اعادہ کرے، وہ جہنمی ہے، جہاں وہ ہمیشہ رہے گا
5 | یہ نہیں فرمایا کہ جو کچھ اس نے کھا لیا، اسے اللہ معاف کر دے گا، بلکہ ارشاد یہ ہو رہا ہے کہ اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے ۔ اس فقرے سے معلوم ہوتا ہے کہ ”جو کھا چکا سو کھا چکا“ کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو کھا چکا، اسے معاف کر دیا گیا، بلکہ اس سے محض قانونی رعایت مراد ہے۔ یعنی جو سود پہلے کھایا جا چکا ہے، اسے واپس دینے کا قانوناً مطالبہ نہیں کیا جائے گا ، کیونکہ اگر اس کا مطالبہ کیا جائے تو مقدمات کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو جائے گا جو کہیں جا کر ختم نہ ہو۔ مگر اخلاقی حیثیت سے اُس مال کی نجاست بدستور باقی رہے گی جو کسی نے سُودی کاروبار سے سمیٹا ہو۔ اگر وہ حقیقت میں خدا سے ڈرنے والا ہو گا اور اس کا معاشی و اخلاقی نقطہ ء نظر واقعی اسلام قبول کرنے سے تبدیل ہو چکا ہو گا ، تو وہ خود اپنی اس دولت کو ، جو حرام ذرائع سے آئی تھی، اپنی ذات پر خرچ کرنے سے پرہیز کرے گا اور کوشش کرے گا کہ جہاں تک ان حق داروں کا پتہ چلایا جا سکتا ہے ، جن کا مال اس کے پاس ہے ، اس حد تک ان کا مال ان کو واپس کر دیا جائے۔ یہی عمل اسے خدا کی سزا سے بچا سکے گا۔ رہا وہ شخص جو پہلے کمائے ہوئے مال سے بدستور لُطف اُٹھاتا رہے تو بعید نہیں کہ وہ اپنی اس حرام خوری کی سزا پا کر رہے |
4 | تجارت اور سُود کا اُصُولی فرق ، جس کی بنا پر دونوں کی معاشی اور اخلاقی حیثیت ایک نہیں ہو سکتی، یہ ہے׃ (١) تجارت میں بائع اور مشتری کے درمیان منافع کا مساویانہ تبادلہ ہوتا ہے ، کیونکہ مشتری اس چیز سے نفع اُٹھاتا ہے جو اُس نے بائع سے خریدی ہے اور بائع اپنی اُس محنت ، ذہانت اور وقت کی اُجرت لیتا ہے، جس کو اس نے مشتری کے لیے وہ چیز مہیّا کرنے میں صرف کیا ہے۔ بخلاف اس کے سُودی لین دین میں منافع کا تبادلہ برابری کے ساتھ نہیں ہوتا۔ سُود لینے والا تو مال کی ایک مقرر مقدار لے لیتا ہے ، جو اس کے لیے بالیقین نفع بخش ہے ، لیکن اس کے مقابلے میں سُود دینے والے کو صرف مہلت ملتی ہے ، جس کا نفع بخش ہونا یقینی نہیں۔ اگر اس نے سرمایہ اپنی ذاتی ضروریات پر خرچ کرنے لیے لیا ہے تب تو ظاہر ہے کہ مُہلت اس کے لیے قطعی نافع نہیں ہے۔ اور اگر وہ تجارت یا زراعت یا صنعت و حرفت میں لگانے کے لیے سرمایہ لیتا ہے تب بھی مُہلت میں جس طرح اس کے لیے نفع کا امکان ہے اُسی طرح نقصان کا بھی امکان ہے۔ پس سود کا معاملہ یا تو ایک فریق کے فائدے اور دُوسرے کے نقصان پر ہوتا ہے، یا ایک یقینی اور متعین فائدے اور دُوسرے کے غیر یقینی اور غیر متعین فائدے پر۔ (۲)تجارت میں بائع مشتری سے خواہ کتنا ہی زائد منافع لے، بہرحال وہ جو کچھ لیتا ہے، ایک ہی بار لیتا ہے۔ لیکن سُود کے معاملے میں مال دینے والا اپنے مال پر مسلسل منافع وصُول کرتا رہتا ہے اور وقت کی رفتار کے ساتھ ساتھ اُس کا منافع بڑھتا چلا جاتا ہے ۔ مدیون نے اس کے مال سے خواہ کتنا ہی فائدہ حاصل کیا ہو، بہر طور اس کا فائدہ ایک خاص حد تک ہی ہو گا۔ مگر دائن اس فائدے کے بدلے میں جو نفع اُٹھاتا ہے، اس کے لیے کوئی حد نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ مدیون کی پُوری کمائی، اس کے تمام وسائل ِ معیشت ، حتّٰی کہ اس کے تن کے کپڑے اور گھر کے برتن تک ہضم کر لے اور پھر بھی اس کا مطالبہ باقی رہ جائے۔ (۳)تجارت میں شے اور اس کی قیمت کا تبادلہ ہونے کے ساتھ ہی معاملہ ختم ہو جاتا ہے ، اس کے بعد مشتری کو کوئی چیز بائع کو واپس دینی نہیں ہوتی ۔ مکان یا زمین یا سامان کے کرایے میں اصل شے ، جس کے استعمال کا معاوضہ دیا جاتا ہے، صَرف نہیں ہوتی، بلکہ برقرار رہتی ہے اور بجنسہ اکرایہ دار کو واپس دے دی جاتی ہے ۔ لیکن سُود کے معاملہ میں قرض دار سرمایہ کو صَرف کر چکتا ہے اور پھر اس کو وہ صرف شدہ مال دوبارہ پیدا کر کے اضافے کے ساتھ واپس دینا ہوتا ہے۔ (۳) تجارت اور صنعت و حرفت اور زراعت میں انسان محنت، ذہانت اور وقت صرف کر کے اس کا فائدہ لیتا ہے۔ مگر سُودی کاروبار میں وہ محض اپنا ضرورت سے زائد مال دے کر بلا کسی محنت و مشقت کے دُوسروں کی کمائی میں شریکِ غالب بن جاتا ہے۔ اس کی حیثیت اِصطلاحی ” شریک“ کی نہیں ہوتی جو نفع اور نقصان دونوں میں شریک ہوتا ہے، اور نفع میں جس کی شرکت نفع کے تناسب سے ہوتی ہے، بلکہ وہ ایسا شریک ہوتا ہے جو بلا لحاظ نفع و نقصان اور بلا لحاظِ تناسبِ نفع اپنے طے شدہ منافع کا دعوے دار ہوتا ہے۔ ان وجوہ سے تجارت کی معاشی حیثیت اور سُود کی معاشی حیثیت میں اتنا عظیم الشان فرق ہو جاتا ہے کہ تجارت انسانی تمدّن کی تعمیر کرنے والی قوت بن جاتی ہے اور اس کے برعکس سُود اس کی تخریب کرنے کا موجب بنتا ہے۔ پھر اخلاقی حیثیت سے یہ سُود کی عین فطرت ہے کہ وہ افراد میں بخل ، خود غرضی ، شقاوت ، بے رحمی اور زر پرستی کی صفات پیدا کرتا ہے ، اور ہمدردی و امداد باہمی کی رُوح کو فنا کر دیتا ہے۔ اس بنا پر سُود معاشی اور اخلاقی دونوں حیثیتوں سے نوع انسانی کے لیے تباہ کن ہے |
3 | ”یعنی ان کے نظریّے کی خرابی یہ ہے کہ تجارت میں اصل لاگت پر جو منافع لیا جاتا ہے ، اس کی نوعیت اور سُود کی نوعیت کا فرق وہ نہیں سمجھتے، اور دونوں کو ایک ہی قسم کی چیز سمجھ کر یُوں استدلال کرتے ہیں کہ جب تجارت میں لگے ہُوئے روپے کا منافع جائز ہے ، تو قرض پر دیے ہوئے روپے کا منافع کیوں ناجائز ہو۔ اِسی طرح کے دلائل موجودہ زمانے کو سُود خوار بھی سُود کے حق میں پیش کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک شخص جس روپے سے خود فائدہ اُٹھا سکتا تھا، اُسے وہ قرض پر دُوسرے شخص کے حوالہ کرتا ہے۔ وہ دُوسرا شخص بھی بہرحال اس سے فائدہ اُٹھاتا ہے۔ پھر آخر کیا وجہ ہے کہ قرض دینے والے کے روپے سے جو فائدہ اُٹھا رہا ہے ، اس میں سے ایک حصّہ وہ قرض دینے والے کو نہ ادا کرے؟ مگر یہ لوگ اس بات پر غور نہیں کرتے کہ دُنیا میں جتنے کاروبار ہیں ، خوا ہ وہ تجارت کے ہوں یا صنعت و حرف کے یا زرعت کے ، اور خواہ انھیں آدمی صرف اپنی محنت سے کرتا ہو یا اپنے سرمایے اور محنت ہر دو سے، اُن میں سے کوئی بھی ایسانہیں ہے، جس میں آدمی نقصان کا خطرہ(Risk ) مول نہ لیتا ہو اور جس میں آدمی کے لیے لازماً ایک مقرر منافع کی ضمانت ہو۔ پھر آخر پوری کاروباری دُنیا میں ایک قرض دینے والا سرمایہ دارہی کیوں ہو جو نقصان کے خطرے سے بچ کر ایک مقرر اور لازمی منافع کا حق دار قرار پائے؟ غیر نفع بخش اغراض کے لیے قرض لینے والے کا معاملہ تھوڑی دیر کے لیے چھوڑ دیجیے، اور شرح کی کمی بیشی کے مسئلے سے بھی قطع نظر کر لیجیے۔ معاملہ اُسی قرض کا سہی جو نفع بخش کاموں میں لگانے کے لیے لیا جائے، اور شرح بھی تھوڑی ہی سہی۔ سوال یہ ہے کہ جو لوگ ایک کاروبار میں اپنا وقت ، اپنی قابلیت اور اپنا سرمایہ رات دن کھپا رہے ہیں ، اور جن کی سعی اور کوشش کے بل پر ہی اس کاروبارکا بار آور ہونا موقوف ہے ، ان کے لیے تو ایک مقرر منافع کی ضمانت نہ ہو، بلکہ نقصان کا سارا خطرہ بالکل اُنہی کے سر ہو، مگر جس نے صرف اپنا روپیہ انھیں قرض دے دیا ہو وہ بے خطر ایک طے شُدہ منافع وُصُول کرتا چلا جائے! یہ آخر کس عقل ، کس منطق، کس اُصُولِ انصاف اور کس اُصُولِ معاشیات کی رُو سے درست ہے؟ اور یہ کس بنا پر صحیح ہے کہ ایک شخص ایک کارخانے کو بیس سال کے لیے ایک رقم قرض دے اور آج ہی یہ طے کر لے کہ آئندہ ۲۰ سال تک وہ برابر ۵ فیصدی سالانہ کے حساب سے اپنا منافع لینے کا حق دار ہو گا، حالانکہ وہ کارخانہ جو مال تیار کرتا ہے اس کے متعلق کسی کو بھی نہیں معلوم کہ مارکیٹ میں اس کی قیمتوں کے اندر آئندہ بیس سال میں کتنا اُتار چڑھا ؤ ہو گا؟ اور یہ کس طرح درست ہے کہ ایک قوم کے سارے ہی طبقے ایک لڑائی میں خطرات اور نقصانات اور قربانیاں برداشت کریں، مگر ساری قوم کے اند رسے صرف ایک قرض دینے والا سرمایہ دار ہی ایسا ہو جو اپنے دیے ہوئے جنگی قرض پر اپنی ہی قوم سے لڑائی کے ایک ایک صدی بعد تک سُودوصُول کرتا رہے |
2 | اہلِ عرب دیوانے آدمی کو”مجنُون“ (یعنی آسیب زدہ) کے لفظ سے تعبیر کرتے تھے، اور جب کسی شخص کے متعلق یہ کہنا ہوتا کہ وہ پاگل ہوگیا ہے ، تو یُوں کہتے کے اسے جِن لگ گیا ہے۔ اسی محاورہ کو استعمال کرتے ہوئے قرآن سُود خوار کو اُس شخص سے تشبیہ دیتا ہے جو مخبُوط الحواس ہو گیا ہو۔ یعنی جس طرح وہ شخص عقل سے خارج ہو کر غیر معتدل حرکات کرنے لگتا ہے، اسی طرح سُود خوار بھی روپے کے پیچھے دیوانہ ہو جاتا ہے اور اپنی خود غرضی کے جنُون میں کچھ پروا نہیں کر تا کہ اس کی سُود خواری سے کس کس طرح انسانی محبت، اخُوّت اور ہمدردی کی جڑیں کٹ رہی ہیں، اجتماعی فلاح و بہبُود پر کس قدر تباہ کُن اثر پرڑ رہا ہے ، اور کتنے لوگوں کی بدحالی سے وہ اپنی خوشحالی کا سامان کر رہا ہے۔ یہ اس کی دیوانگی کا حال اِس دُنیا میں ہے۔ اور چونکہ آخرت میں انسان اُسی حالت میں اُٹھایا جائے گا جس حالت پر اُس نے دنیا میں جان دی ہے، اِس لیے سُود خوار آدمی قیامت کے روز ایک با ؤلے ، مخبوط الحواس انسان کی صُورت میں اُٹھے گا |
1 | صل میں لفظ”رِبٰوا“استعمال ہوا ہے ، کس کے معنی عربی میں زیادتی اور اضافے کے ہیں۔ اِصطلاحاً اہلِ عرب اِس لفظ کو اُس زائد رقم کے لیے استعمال کرتے تھے جو ایک قرض خواہ اپنے قرض دار سے ایک طے شدہ شرح کے مطابق اصل کے علاوہ وُصُول کرتا ہے۔ اِسی کو ہماری زبان میں سُود کہتے ہیں۔ نزُولِ قرآن کے وقت سُودی معاملات کی اور شکلیں رائج تھیں اور جنہیں اہلِ عرب ”رِبٰوا“ کے لفظ سے تعبیر کرتے تھے وہ یہ تھیں کہ مثلاً دُوسرے شخص کے ہاتھ کوئی چیز فروخت کرتا اور ادائے قیمت کے لیے ایک مدّت مقرر کر دیتا۔ اگر وہ مدّت گزر جاتی اور قیمت ادا نہ ہوتی ، تو پھر وہ مزید مہلت دیتا اور قیمت میں اضافہ کر دیتا۔ یا مثلاً ایک شخص دُورے شخص کو قرض دیتا اور اس سےطے کر لیتا کہ اتنی مدّت میں اتنی رقم اصل سے زائد ادا کرنی ہو گی۔ یا مثلاً قرض خواہ اور قرض دار کے درمیان ایک خاص مدّت کے لیے ایک شرح طے ہو جاتی تھی اور اگر اس مدّت میں اصل رقم مع اضافہ کے ادا نہ ہوتی ، تو مزید مہلت پہلے سے زائد شرح پر دی جاتی تھی۔ اِسی نوعیت کے معاملات کا حکم یہاں بیان کیا جا رہا ہے |