Ayats Found (2)
Surah 33 : Ayat 4
مَّا جَعَلَ ٱللَّهُ لِرَجُلٍ مِّن قَلْبَيْنِ فِى جَوْفِهِۦۚ وَمَا جَعَلَ أَزْوَٲجَكُمُ ٱلَّــٰٓــِٔى تُظَـٰهِرُونَ مِنْهُنَّ أُمَّهَـٰتِكُمْۚ وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَآءَكُمْ أَبْنَآءَكُمْۚ ذَٲلِكُمْ قَوْلُكُم بِأَفْوَٲهِكُمْۖ وَٱللَّهُ يَقُولُ ٱلْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِى ٱلسَّبِيلَ
اللہ نے کسی شخص کے دھڑ میں دو دِل نہیں رکھے ہیں1، نہ اس نے تم لوگوں کی اُن بیویوں کو جن سے تم ظہار کرتے ہو تمہاری ماں بنا دیا ہے2، اور نہ اس نے تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا حقیقی بیٹا بنایا ہے3 یہ تو وہ باتیں ہیں جو تم لوگ اپنے منہ سے نکال دیتے ہو، مگر اللہ وہ بات کہتا ہے جو مبنی بر حقیقت ہے، اور وہی صحیح طریقے کی طرف رہنمائی کرتا ہے
3 | یہ اصل مقصود کلام ہے۔ اوپر کے دونوں فقرے اسی تیسری بات کو ذہن نشین کرنے کے لئے بطور دلیل ارشاد ہوئے تھے۔ |
2 | ’’ظِہار‘‘ عرب کی ایک خاص اصطلاح ہے۔ قدیم زمانے میں عرب کے لوگ بیوی سے لڑتے ہوئے کبھی یہ کہہ بیٹھتے تھے کہ ’’تیری پیٹھ میرے لئے میری ماں کی پیٹھ جیسی ہے‘‘۔ اور یہ بات جب کسی کے منہ سے نکل جاتی تھی تو یہ سمجھا جاتا تھا کہ اب یہ عورت اس پر حرام ہو گئی ہے کیوں کہ وہ اسے ماں سے تشبیہ دے چکا ہے۔ اس کے متعلق اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ بیوی کو ماں کہنے یا ماں کے ساتھ تشبیہ دے دینے سے وہ ماں نہیں بن جاتی۔ ماں تو وہی ہے جس نے آدمی کو جنا ہے۔ محض زبان سے ماں کہہ دینا حقیقت کو نہیں بدل دیتا کہ جو بیوی تھی وہ تمہارے کہنے سے ماں بن جائے۔ (یہاں ظِہار کی متعلق شریعت کا قانون بیان کرنا مقصود نہیں ہے۔ اس کا قانون سورہ مجادلہ۔ آیات ۲۔ ۴ میں بیان کیا گیا ہے)۔ |
1 | یعنی ایک آدمی بیک وقت مومن اور منافق ، سچا اور جھوٹا ، بدکار اور نیکو کار نہیں ہو سکتا۔ اس کے سینے میں دو دِل نہیں ہیں کہ ایک دِل میں اخلاص ہو اور دوسرے میں خدا سے بے خوفی۔ لہٰذا ایک وقت میں آدمی کی ایک ہی حیثیت ہو سکتی ہے۔ یا تو وہ مومن ہو گا یا منافق۔ یا تو وہ کافر ہو گا یا مسلم۔ اب اگر تم کسی مومن کو منافق کہہ دو یا منافق کو مومن تو اس سے حقیقتِ نفس الامری نہ بدل جائے گی۔ اس شخص کی اصل حیثیت لازماً ایک ہی رہے گی۔ |
Surah 33 : Ayat 5
ٱدْعُوهُمْ لِأَبَآئِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ ٱللَّهِۚ فَإِن لَّمْ تَعْلَمُوٓاْ ءَابَآءَهُمْ فَإِخْوَٲنُكُمْ فِى ٱلدِّينِ وَمَوَٲلِيكُمْۚ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَآ أَخْطَأْتُم بِهِۦ وَلَـٰكِن مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْۚ وَكَانَ ٱللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا
منہ بولے بیٹوں کو ان کے باپوں کی نسبت سے پکارو، یہ اللہ کے نزدیک زیادہ منصفانہ بات ہے1 اور اگر تمہیں معلوم نہ ہو کہ ان کے باپ کون ہیں تو وہ تمہارے دینی بھائی اور رفیق ہیں2 نا دانستہ جو بات تم کہو اس کے لیے تم پر کوئی گرفت نہیں ہے، لیکن اُس بات پر ضرور گرفت ہے جس کا تم دل سے ارادہ کرو3 اللہ درگزر کرنے والا اور رحیم ہے4
4 | اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ پہلے اس سلسلے میں جو غلطیاں کی گئی ہیں ان کو اللہ نے معاف کیا۔ ان پر اب کوئی باز پُرس نہ ہو گی۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ نا دانستہ افعال پر گرفت کرنے والا نہیں ہے۔ اگر بِلا ارادہ کوئی ایسی بات کی جائے جس کی ظاہری صورت ایک ممنوع فعل کی سی ہو، مگر اس میں درحقیقت اس ممنوع فعل کی نیت نہ ہو، تو محض فعل کی ظاہری شکل پر اللہ تعالٰی سزا نہ دے گا۔ |
3 | مطلب یہ ہے کہ کسی کو پیار سے بیٹا کہہ دینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ اسی طرح ماں، بیٹی، بہن،بھائی وغیرہ الفاظ میں بھی اگر کسی کے لیے محض اخلاقاً استعمال کر لیے جائیں تو کوئی گناہ نہیں۔ لیکن اس ارادے سے یہ بات کہنا کہ جسے بیٹا یا بیٹی وغیرہ کہا جائے اس کو واقعی وہی حیثیت دے دی جائے جو اِن رشتوں کی ہے، اور اس کے لیے وہی حقوق ہوں جو اِن رشتہ داروں کے ہیں، اور اس کے ساتھ ویسے ہی تعلقات ہوں جیسے ان رشتہ داروں کے ساتھ ہوتے ہیں، یہ یقیناً قابلِ اعتراض ہے اور اس پر گرفت ہو گی۔ |
2 | یعنی اس صورت میں بھی یہ درست نہ ہو گا کہ کسی شخص سے خواہ مخواہ اس کا نسب ملایا جائے |
1 | اس حکم کی تعمیل میں سب سے پہلے جو اصلاح نافذ کی گئی وہ یہ تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے منہ بولے بیٹے حضرت زید کو زید بن محمدؐ کہنے کے بجائے ان کے حقیقی باپ کی نسبت سے زید بن حارثہ کہنا شروع کر دیا گیا۔ بخاری‘ مسلم‘ ترمذی‘ اور نسائی نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے یہ روایات نقل کی ہے کہ زید بن حارثہ کو پہلے سب لوگ زید بن محمدؐ کہتے تھے۔ یہ آیت نازل ہونے کے بعد انہیں زید بن حارثہ ؓ کہنے لگے۔ مزید برآں اس آیت کے نزول کے بعد یہ بات حرام قرار دے دی گئی کہ کو ئی شخص اپنے حقیقی باپ کے سوا کسی اور کی طرف اپنا نسب منسوب کرے۔ بخاری و مسلم اور ابو داؤد نے حضرت سعد بن ابی وقاص کی روایت نقل کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : من ادعیٰ الیٰ غیر ابیہ وھویعلم انہ غیر ابیہ فالجنتہ علیہ حرام۔’’جس نے اپنے آپ کو اپنے باپ کے سوا کسی اور کا بٹیا کہا‘ درآن حالیکہ وہ جانتا ہو کہ وہ شخص اس کا باپ نہیں ہے‘ اس پر جنت حرام ہے‘‘۔ اسی مضمون کی دوسری روایات بھی احادیث میں ملتی ہیں۔جن میں اس فعل کو سخت گناہ قرار دیا گیا ہے۔ |