Ayats Found (1)
Surah 21 : Ayat 3
لَاهِيَةً قُلُوبُهُمْۗ وَأَسَرُّواْ ٱلنَّجْوَى ٱلَّذِينَ ظَلَمُواْ هَلْ هَـٰذَآ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْۖ أَفَتَأْتُونَ ٱلسِّحْرَ وَأَنتُمْ تُبْصِرُونَ
دِل ان کے (دوسری ہی فکروں میں) منہمک ہیں اور ظالم آپس میں سرگوشیاں کرتے ہیں کہ 1"یہ شخص آخر تم جیسا ایک بشر ہی تو ہے، پھر کیا تم آنکھوں دیکھتے جادُو کے پھندے میں پھنس جاؤ گے؟"
1 | پھنسے جاتے ہو‘‘ بھی ترجمہ ہو سکتا ہے ، اور دونوں ہی مطلب صحیح ہیں ۔ سرگوشیاں کفار مکہ کے وہ بڑے بڑے سردار آپ میں بیٹھ بیٹھ کر کیا کرتے تھے جن کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت کا مقابلہ کرنے کی بڑی فکر لاحق تھی وہ کہتے تھےکہ یہ شخص بہر حال نبی تو ہو نہیں سکتا ، کیونکہ ہم ہی جیسا انسان ہے ، کھاتا ہے ، پیتا ہے ، بازاروں میں چلتا پھرتا ہے ،بیوی بچے رکھتا ہے ۔ آخر اس میں وہ نرالی بات کیا ہے جو اس کو ہم سے ممتاز کرتی ہو اور ہماری بہ نسبت اس کو خدا سے ایک غیر معمولی تعلق کا مستحق بناتی ہو ؟ البتہ اس شخص کی باتوں میں اوراس کی شخصیت میں ایک جادو ہے کہ جو اس کی بات کان لگا سنتا ہے اور اس کے قریب جاتا ہے وہ اس کا گرویدہ ہوجاتا ہے اس اگر اپنی خیر چاہتے ہو تو نہ اس کی سنو اور نہ اس سے میل جول رکھو، کیونکہ اس کی باتیں سننا اور اس کے قریب جانا گویا آنکھوں دیکھتے جادو کے پھندے میں پھنسنا ہے ۔ جس چیز کی وجہ سے وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر ’’ سحر ‘‘ کا الزام چسپاں کرتے تھے اس کی چند مثالیں آپ کے قدیم ترین سیرت نگار محمد بن اسحاق (متوفی 152 ھ) نے بیان کی ہیں ۔ وہ لکھتا ہے کہ ایک دفعہ عُتْبَہ بن رَبیعہ (ابو سفیان کے خسر، ہند جگر خور کے باپ) نے سرداران قریش سے کہا، اگر آپ لوگ پسند کریں تو میں جا کر محمدؐ سے ملوں اور اسے سمجھانے کی کوشش کروں ۔ یہ حضرت حمزہؓ کے اسلام لانے کے بعد کا واقعہ ہے جبکہ بنی صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کی تعداد روز بروز بڑھتی دیکھ کر اکابر قریش سخت پریشان ہو رہے تھے ۔ لوگوں نے کہا ابو الولید ، تم پر پورا اطمینان ہے ، ضرور جا کر اس سے بات کرو ۔ وہ حضورؐ کے پاس پہنچا اورت کہنے لگا، ’’ بھتیجے ، ہمارے ہاں تم کو جو عزت حاصل تھی، تم خود جانتے ہو، ور نسب میں بھی تم ایک شریف ترین گھرانے کے فرد ہو۔ تم اپنی قوم پر یہ کیا مصیبت لے آئے ہو ؟ تم نے جماعت میں تفرقہ ڈال دیا۔ ساری قوم کو بے وقوف ٹھیرایا ۔ اس کے دین اور اس کے معبودوں کی برائی کی۔ باپ دادا جو مر چکے ہیں ان سب کو تم نے گمراہ اور کافر بنا یا ۔ بھتیجے ، اگر ان باتوں سے تمہارا مقصد دنیا میں اپنی بڑائی قائم کرنا ہے تو آؤ ہم سب مل کر تم کو اتنا روپیہ دے دیتے ہیں کہ تم سب سے زیادہ مال دار ہو جاؤ ۔ سرداری چاہتے ہو تو ہم تمہیں سردار مانے لیتے ہیں ۔ بادشاہی چاہتے ہو تو بادشاہ بنا دیتے ہیں ۔ اور اگر تمہیں کوئی بیماری ہو گئی ہے جس کی وجہ سے تم کو واقعی سوتے یا جاگتے میں کچھ نظر آنے لگا ہے تو ہم سب مل کر بہترین طبیبوں سے تمہارا علاج کراۓ دیتے ہیں ۔‘‘ یہ باتیں وہ کرتا رہا اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم خاموش سنتے رہے ۔ جب وہ خوب بول چکا تو آپ نے فرمایا ’’ ابولولید ، جو کچھ آپ کہنا چاہتے تھے کہہ چکے ہیں ، یا اور کچھ کہنا ہے ‘‘۔ اس نے کہا بس مجھے جو کچھ کہنا تھا میں نے کہہ دیا۔ آپ نے فرمایا اچھا اب میری سنو ۔ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْمِ ، حٰمٓ ، تَنْزِیْلٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ اس کے بعد کچھ دیر تک مسلسل آپا سورہ حٰم السجدہ کی تلاوت فرماتے رہے اور عتبہ پیچھے زمین پر ہاتھ ٹیکے غور سے سنتا رہا ۔ اڑتیسویں آیت پر پہنچ کر آپ نے سجدہ کیا، اور پھر سر اٹھا کر عتبہ سے فرمایا ، ’’ابو الولید ، جو کچھ مجھے کہنا تھا وہ آپ نے سن لیا ، اب آپ جانیں اور آپ کا کام۔ ‘‘ عتبہ یہاں سے اٹھ کر سرداران قریش کی طرف پلٹا تو لوگوں نے دور سے ہی اس کو آتے دیکھ کر کہا ’’ خدا کی قسم ، ابولولید کا چہرا بدلا ہوا ہے ۔ یہ وہ صورت نہیں ہے جسے لے کر وہ گیا تھا۔‘‘ اس کے پہنچتے ہی لوگوں نے سوال کیا، ’’کہو ابولولید ، کیا کر آئے ہو‘‘؟ اس نے کہا ’’ خدا کی قسم ، آج میں نے ایسا کلام سنا ہے کہ اس سے پہلے کبھی نہ سنا تھا۔ واللہ یہ شعر نہیں ہے ، نہ سحر ہے اور نہ کہانت ۔ اے معشر قریش ، میری بت مانو اور اس شخص کو اس کے حال پر چھوڑ دو۔ اس کی باتیں جو میں نے سنی ہیں رنگ لا کر رہیں گی۔ اگر عرب اس پر غالب آ گئے تو اپنے بھائی کا خون تمہاری گردن پر نہ ہو گا، دوسروں پر ہو گا۔ اور اگر یہ عرب پر غالب آگیا تو اس کی حکومت تمہاری حکومت ہو گی۔ اور اس کی عزت تمہاری عزت ‘‘۔ لوگوں نے کہا ’’ واللہ، ابولولید تم پر بھی اس کا جادو چل گیا۔‘‘ اس نے کہا ’’ یہ میری راۓ ہے ، اب تم جانو اور تمہارا کام‘‘۔ (ابن ہشام، جلد اول ، ص 313 ۔ 314)۔ بیہقی نے اس واقعہ کے متعلق جو روایات جمع کی ہیں ان میں سے ایک روایت میں یہ اضافہ ہے کہ جب حضورؐ سورہ حٰم سجدہ کی تلاوت کرتے ہوۓ اس آیت پر پہنچے کہ : فَاِنْ اَگْرَجُوْ ا فَقُلْاَنْذَرْتُکُمْ صٰعِقَۃً مِّثْلَ صَاعِقَۃ، عَادٍ وَّ ثَمُوْدٍ ، تو عتبہ نے بے اختیار آگے بڑھ کر آپ کے منہ پر ہات رکھ دیا اور کہنے لگا کہ خدا کے لیے اپنی قوم پر رحم کرو۔ دوسرا واقعہ ابن اسحاق نے یہ بیان کیا ہے کہ ایک دفعہ قبیلہ اَرَاش کا ایک شخص کچھ اونٹ لے کر مکہ آیا ۔ ابو جہل نے اس کے اونٹ خرید لیے اور جب اس نے قیمت طلب کی تو ٹال مٹول کرنے لگا۔ اَرَشی نے تنگ آ کر ایک روز حرم کعبہ میں قریش کے سرداروں کو جا پکڑا اور مجمع عام میں فریاد شروع کر دی۔ دوسری طرف حرم کے ایک گوشے میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم تشریف فرما تھے ۔ سرداران قریش نے اس شخص سے کہا کہ ’’ ہم کچھ نہیں کر سکتے ، دیکھو، وہ صاحب جو اس کونے میں بیٹھے ہیں ، ان سے جا کر کہو، وہ تم کو تمہارا روپیہ دلوا دیں گے ۔ ‘‘ اَرَشی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف چلا، اور قریش کے سرداروں نے آپس میں کہا ’’ آج لطف آۓ گا ‘‘ ۔ اراشی نے جا کر حضور سے اپنی شکایت بیان کی ۔ آپ اسی وقت اٹھ کھڑے ہوۓ اور اسے ساتھ لے کر ابو جہل کے مکان کی طرف روانہ ہو گئے ۔ سرداروں نے پیچھے ایک آدمی لگا دیا کہ جو کچھ گزرے اس کی خبر لا کر دے ۔ ۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سیدھے ابو جہل کے دروازے پر پہنچے اور کنڈی کھٹکھٹائی ۔ اس نے پوچھا ’’ کون‘‘؟ آپ نے جواب دیا ’’محمدؐ‘‘ وہ حیران ہو کر باہر نکل آیا۔ آپ نے اس سے کہا ’’ اس شخص کا حق ادا کر دو۔‘‘ اس نے جواب میں کوئی چوں و چرا نہ کی، اندر گیا اور اس کے اونٹوں کی قیمت لا کر اس کے ہاتھ میں دے دی۔ قریش کا مخبر یہ حال دیکھ کر حرم کی طرف دوڑا اور سرداروں کو سارا ماجرا سنا دیا اور کہنے لگا کہ واللہ آج وہ عجیب معاملہ دیکھا ہے جو کبھی نہ دیکھا تھا، حَکَم بن ہشام (ابو جہل) جب نکلا ہے تو محمدؐ کو دیکھتے ہی اس کا رنگ فق ہو گیا اور جب محمدؐ نے اس سے کہا کہ اس کا حق ادا کر دو تو یہ معلوم ہوتا تھا کہ جیسے حکم بن ہشام کے جسم میں جان نہیں ہے ۔ (ابن ہشام، جلد 2 ، ص 29 ۔30 ) ۔ یہ تھا شخصیت اور سیرت و کردار کا اثر اور وہ تھا کلام کا اثر ، جس کو وہ لوگ جادو قرار دیتے تھے اور ناواقف لوگوں کو یہ کہہ کہہ کر ڈراتے تھے کہ اس شخص کے پاس نہ جانا ورنہ جادو کر دے گا |