Ayats Found (1)
Surah 4 : Ayat 12
۞ وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَٲجُكُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّهُنَّ وَلَدٌۚ فَإِن كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ ٱلرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَۚ مِنۢ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَآ أَوْ دَيْنٍۚ وَلَهُنَّ ٱلرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّكُمْ وَلَدٌۚ فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ ٱلثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمۚ مِّنۢ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَآ أَوْ دَيْنٍۗ وَإِن كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلَـٰلَةً أَوِ ٱمْرَأَةٌ وَلَهُۥٓ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَٲحِدٍ مِّنْهُمَا ٱلسُّدُسُۚ فَإِن كَانُوٓاْ أَكْثَرَ مِن ذَٲلِكَ فَهُمْ شُرَكَآءُ فِى ٱلثُّلُثِۚ مِنۢ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَىٰ بِهَآ أَوْ دَيْنٍ غَيْرَ مُضَآرٍّۚ وَصِيَّةً مِّنَ ٱللَّهِۗ وَٱللَّهُ عَلِيمٌ حَلِيمٌ
اور تمہاری بیویوں نے جو کچھ چھوڑا ہو اس کا آدھا حصہ تمہیں ملے گا اگر وہ بے اولاد ہوں، ورنہ اولاد ہونے کی صورت میں ترکہ کا ایک چوتھائی حصہ تمہارا ہے جبکہ وصیت جو انہوں ں نے کی ہو پوری کر دی جائے، اور قرض جو اُنہوں نے چھوڑا ہو ادا کر دیا جائے اور وہ تمہارے ترکہ میں سے چوتھائی کی حق دار ہوں گی اگر تم بے اولاد ہو، ورنہ صاحب اولاد ہونے کی صورت میں اُن کا حصہ آٹھواں ہوگا1، بعد اس کے کہ جو وصیت تم نے کی ہو وہ پوری کر دی جائے اور جو قرض تم نے چھوڑا ہو وہ ادا کر دیا جائے اور اگر وہ مرد یا عورت (جس کی میراث تقسیم طلب ہے) بے اولاد بھی ہو اور اس کے ماں باپ بھی زندہ نہ ہوں، مگر اس کا ایک بھائی یا ایک بہن موجود ہو تو بھائی اور بہن ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا، اور بھائی بہن ایک سے زیادہ ہوں تو کل ترکہ کے ایک تہائی میں وہ سب شریک ہوں گے2، جبکہ وصیت جو کی گئی ہو پوری کر دی جائے، اور قرض جو میت نے چھوڑا ہو ادا کر دیا جائے، بشر طیکہ وہ ضرر رساں نہ ہو3 یہ حکم ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ دانا و بینا اور نرم خو ہے4
4 | یہاں اللہ تعالیٰ کی صفتِ علم کا اظہار دو وجوہ سے کیا گیا ہے: ایک یہ کہ اگر اس قانون کی خلاف ورزی کی گئی تو اللہ کی گرفت سے آدمی نہ بچ سکے گا۔ دوسرے یہ کہ اللہ نے جو حصّے جس طرح مقرر کیے ہیں وہ بالکل صحیح ہیں کیونکہ بندوں کی مصلحت جس چیز میں ہے اللہ اس کو خود بندوں سے زیادہ بہتر جانتا ہے ۔ اور اللہ کی صفتِ حِلم یعنی اس کی نرم خوئی کا ذکر اس لیے فرمایا کہ اللہ نے یہ قوانین مقرر کرنے میں سختی نہیں کی ہے کہ بلکہ ایسے قاعدے مقرر کیے ہیں جن میں بندوں کے لیے زیادہ سے زیادہ سہولت ہے تاکہ وہ مشقت اور تنگی میں مبتلا نہ ہوں |
3 | وصیّت میں ضرر رسانی یہ ہے کہ ایسے طور پر وصیّت کی جائے جس سے مستحق رشتہ داروں کے حقوق تلف ہوتے ہوں۔ اور قرض میں ضرر رسانی یہ ہے کہ محض حقداروں کو محرُوم کرنے کے لیے آدمی خواہ مخواہ اپنے اُوپر ایسے قرض کا اقرار کرے جو اس نے فی الواقع نہ لیا ہو، یا اور کوئی ایسی چال چلے جس سے مقصُود یہ ہو کہ حقدار میراث سے محرُوم ہو جائیں۔ اس قسم کے ضِرار کو گناہ ِ کبیرہ قرار دیا گیا ہے ۔ چنانچہ حدیث میں آیا ہے کہ وصیّت میں نقصان رسانی بڑے گناہوں میں سے ہے۔ اور ایک دُوسری حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ آدمی تمام اہلِ جنّت کے سے کام کرتا رہتا ہے مگر مرتے وقت وصیّت میں ضرر رسانی کر کے اپنی زندگی کو ایسے عمل پر ختم کر جاتا ہے جو اسے دوزخ کا مستحق بنا دیتا ہے ۔ یہ ضِرار اور حق تلفی اگرچہ ہر حال میں گناہ ہے، مگر خاص طور پر کَلالہ کے معاملہ میں اللہ تعالٰی نے اس کا ذکر اس لیے فرمایا کہ جس شخص کے نہ اولاد ہو نہ ماں باپ ہوں اس میں عموماً یہ میلان پیدا ہو جاتا ہے کہ اپنی جائداد کو کسی نہ کسی طرح تلف کر جائے اور نسبتاً دُور کے رشتہ داروں کو حصّہ پانے سے محرُوم کر دے |
2 | باقی 5/6 یا 2/3 جو بچتے ہیں ان میں اگر کوئی اور وارث موجود ہو تو اس کو حصّہ ملے گا ، ورنہ اس پُوری باقی ماندہ ملکیّت کے متعلق اس شخص کو وصیّت کرنے کا حق ہو گا۔ اس آیت کے متعلق مفسّرین کا اجماع ہے کہ اس میں بھائی اور بہنوں سے مراد اَخیافی بھائی اور بہن ہیں یعنی جو میّت کے ساتھ صرف ماں کی طرف سے رشتہ رکھتے ہوں اور باپ ان کا دُوسرا ہو۔ رہے سگے بھائی بہن ، اور وہ سوتیلے بھائی بہن جو باپ کی طرف سے میت کے ساتھ رشتہ رکھتے ہوں، تو ان کا حکم اِسی سُورہ کے آخر میں ارشاد ہوا ہے |
1 | عنی خواہ ایک بیوی ہو یا کئی بیویاں ہوں، اولاد ہونے کی صُورت میں وہ 1/8 کی اور اولاد نہ ہونے کی صُورت میں 1/4 کی حصّہ دار ہوں گی اور یہ 1/4 یا 1/8 سب بیویوں میں برابری کے ساتھ تقسیم کیا جائے گا |