Ayats Found (2)
Surah 32 : Ayat 10
وَقَالُوٓاْ أَءِذَا ضَلَلْنَا فِى ٱلْأَرْضِ أَءِنَّا لَفِى خَلْقٍ جَدِيدِۭۚ بَلْ هُم بِلِقَآءِ رَبِّهِمْ كَـٰفِرُونَ
اور یہ لوگ کہتے ہیں1: "جب ہم مٹی میں رَل مِل چکے ہوں گے تو کیا ہم پھر نئے سرے سے پیدا کیے جائیں گے؟" اصل بات یہ ہے کہ یہ اپنے رب کی ملاقات کے منکر ہیں
2 | اوپر کے فقرے اور اس فقرے کے درمیان پوری ایک داستان کی داستان ہے جسے سامع کے ذہن پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ کفّار کا جو اعتراض پہلے فقرے میں نقل گیا ہے وہ اتنا مہمل ہے کہ اس کی تردید کی حاجت محسوس نہیں کی گئی۔ اس کا محض نقل کر دینا ہی اس کی لغویت ظاہر کرنے کے لیے کافی سمجھا گیا ۔ اس لیے کہ ان کا اعتراض جن دواجزاء پر مشتمل ہے وہ دونوں ہی سراسر غیر معقول ہیں۔ ان کا یہ کہنا کہ’’ہم مٹی میں رَل مِل چکے ہوں گے‘‘ آخر کیا معنی رکھتا ہے۔’’ہم‘‘ جس چیز کا نام ہے وہ مٹی میں کب رَ لتی مِلتی ہے؟(مٹی میں تو صرف وہ جسم ملتا ہے جس سے’’ہم‘‘نکل چکا ہوتا ہے۔ اس جسم کا نام ’’ہم‘‘ نہیں ہے۔ زندگی کی حالت میں جب اس جسم کے اعضاء کاٹے جاتے ہیں تو عضو پرعضو کٹتا چلا جاتا ہے مگر’’ہم‘‘ ہم پورا کا پورا اپنی جگہ موجود رہتا ہے۔ اس کا کوئی جُز بھی کسی کٹے ہوئے عضو کے ساتھ نہیں جاتا۔ اور جب یہ ’’ہم‘‘ کسی جسم میں سے نکل جاتا ہے تو پورا جسم موجود ہوتے ہوئے بھی اس پر اس ’’ہم‘‘ کے کسی ادنی شائبے تک کا اطلاق نہیں ہوتا۔اسی لیے تو ایک عاشق جاں نثار اپنے معشوق کے مُردہ جسم کو لے جا کر دفن کردیتا ہے، کیونکہ معشوق اس جسم سے نکل چکا ہوتا ہے۔ اور وہ معشوق نہیں بلکہ اس کا خالی جسم کو دفن کرتا ہے جس میں کبھی اس کا معشوق رہتا تھا۔ پس معترضین کے اعتراض کا پہلا مقدمہ ہی بے بنیاد ہے۔ رہا اس کا دوسرا جز: ’’کیا ہم پھر نئے سرے سے پیدا کیے جائیں گے‘‘؟تو یہ انکارو تعجب کے انداز کا سوال سرے سے پیدا ہی نہ ہوتا اگر معترضین نے بات کرنے سے پہلے اس ’’ ہم‘‘ اوراس کے پیدا کیے جانے کے مفہوم پرایک لمحہ کے لیے کچھ غور کرلیا ہوتا۔اس’’ہم‘‘ کی موجودہ پیدائش اس کے سوا کیا ہے کہیں لوہا اوراسی طرح کے دوسرے اجزاء جمع ہوئے اور اس کالبُد خاکی میں یہ ’’ہم‘‘ براجمان ہو گیا۔ پھر اس کی موت کے بعد کیا ہوتا ہے؟ اس لبدِ خاکی میں سے جب ’’ہم‘‘ نِکل جاتا ہے تو اس کا مکان تعمیر کرنے کے لیے جو اجزاء زمین کے مختلف حصوں سے فراہم کیے گئے تھے وہ سب اسی زمین میں واپس چلے جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جس نے پہلے اس ’’ہم‘‘کو یہ مکان بنا کر دیا تھا، کیا وہ دوبارہ اسی سر وسامان سے وہی مکان بنا کر اسے ازسر نواس میں نہیں بسا سکتا؟ یہ چیز جب پہلے ممکن تھی اور واقعہ کی صورت میں رونما ہو چکی ہے، تو دوبارہ اس کے ممکن ہونے اور واقعہ بننے میں آخر کیا امر مانع ہے؟ یہ باتیں ایسی ہیں جنہیں ذرا سی عقل آدمی استعمال کرے تو خود ہی سمجھ سکتا ہے۔ لیکن وہ اپنی عقل کواس رُخ پر کیوں نہیں جانے دیتا؟ کیا وجہ ہے کہ وہ بے سوچے سمجھے حیات بعد الموت اورآخرت پر اس طرح کے لا یعنی اعتراضات جڑتا ہے؟بیچ کی ساری بحث چھوڑ کراللہ تعالٰی دوسرے فقرے میں اسی فقرے میں اسی سوال کا جواب دیتا ہے کہ ’’دراصل یہ اپنے رب کی ملاقات کے منکر ہیں‘‘۔ یعنی اصل بات یہ نہیں ہے کہ دوبارہ پیدائش کوئی بڑی ہی انوکھی اور بعید ازامکان بات ہے جو ان کی سمجھ میں نہ آسکتی ہو، بلکہ دراصل جو چیز انہیں یہ بات سمجھنے سے روکتی ہے وہ ان کی یہ خواہش ہے کہ ہم زمین میں چھُوٹے پھریں اور دِل کھول کر گناہ کریں اور پھر نِلُوہ (Scot-ires)یہاں سے نکل جائیں۔ پھر ہم سے کوئی پوچھ کچھ نہ ہو۔ پھر اپنے کرتوتوں کا کوئی حساب ہمیں نہ دینا پڑے۔ |
1 | رسالت اور توحید پر کفار کے اعتراضات کا جواب دینے کے بعد اب اسلام کے تیسرے بُنیادی عقیدے یعنی آخرت پر اُن کے اعتراض کو لے کراس کا جواب دیا جاتا ہے۔ آیت میں وَقَالُوْا کا واؤ عطف مضمونِ ماسبق سے اس پیراگراف کا تعلق جوڑتا ہے۔ گویا ترتیب کلام یوں ہے کہ’’وہ کہتے ہیں محمدؐ اللہ کے رسول نہیں ہیں‘‘اور’’ وہ کہتے ہیں کہ ہم مر کردوبارہ نہ اُٹھیں گے‘‘۔ |
Surah 32 : Ayat 11
۞ قُلْ يَتَوَفَّـٰكُم مَّلَكُ ٱلْمَوْتِ ٱلَّذِى وُكِّلَ بِكُمْ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ
اِن سے کہو 1"موت کا وہ فرشتہ جو تم پر مقرر کیا گیا ہے تم کو پورا کا پورا اپنے قبضے میں لے لے گا اور پھر تم اپنے رب کی طرف پلٹا لائے جاؤ گے"
1 | یعنی تمہارا ’’ہم‘‘ مِٹی میں رَل مِل نہ جائے گا، بلکہ اس کی مہلتِ عمل ہوتے ہی خدا کا فرشتہ، موت آئے گا اور اُسے جسم سے نکال کر سَمُوچا اپنے قبضے میں لے لے گا۔ اُس کا کوئی ادنٰی جُز بھی جسم کے ساتھ مِٹی میں نہ جا سکے گا۔ اور وہ پورا کا پورا حراست(Cuatody)میں لے لیا جائے گا اور اپنے رب کے حضور پیش کردیا جائے گا۔ اس مختصر سی آیت میں بہت سے حقائق پر روشنی ڈالی گئی ہے جن پر سے سرسری طور پر نہ گزر جائیے : ۱)اس میں تصریح ہے کہ موت کچھ یوں ہی نہیں آ جاتی کہ ایک گھڑی چل رہی تھی، کُوک ختم ہوئی اور وہ چلتے چلتے یکایک بند ہو گئی۔ بلکہ دراصل اس کام کے لیے اللہ تعالٰی نے ایک خاص فرشتہ مقرر کررکھا ہے جوآ کر باقاعدہ رُوح کو ٹھیک اُسی طرح وصول کرتا ہے جس طرح ایک سرکاری امین (Official Receiver)کسی چیز کو اپنے قبضے میں لے لیتا ہے۔ قرآن کے دوسرے مقامات پراس کی مزید تفصیلات جو بیان کی گئی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس افسرموت کے ماتحت فرشتوں کا ایک پورا عملہ ہے جو موت وارد کرنے اور روح کو جسم سے نکالنے اور اس کو قبضے میں لینے کی بہت سی مختلف النوع خدمات انجام دیتا ہے۔ نیز یہ کہ اس عملے کا برتاؤ مجرم روح کے ساتھ کچھ اَور ہوتا ہے اور مومنِ صالح رُوح کے ساتھ کچھ اور۔(اِن تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ نساء، آیت ۹۷۔الانعام، ۹۳۔ النحل ، ۲۸۔ الواقعہ، ۸۳۔۹۴۔ ۲)۔اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ موت سے انسان معدوم نہیں ہو جاتا بلکہ اس کی روح جسم سے نکل کر باقی ر ہتی ہے۔ قرآن کے الفاظ ’’موت کا فرشتہ تم کو پورا کا پورا اپنے قبضے میں لے لیگا ۔ ‘‘ اسی حقیقت پر دلالت کرتے ہیں کیونکہ کوئی معدوم چیز قبضے میں لینے کا تو مطلب ہی یہ ہے کہ مقبوضہ چیز قابض کے پاس رہے۔ ۳) اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ موت کے وقت جو چیز قبضے میں لی جاتی ہے وہ آدمی کی حیوانی زندگی (Biological life)نہیں بلکہ اس کی وہ خود ی‘ اس کی وہ اَنا (Ego)ہے جو’’میں‘‘ اور’’ہم‘‘ اور’’تم‘‘ کے الفاظ تعبیر کی جاتی ہے ۔یہ انا دنیا میں کام کر کے جیسی کچھ شخصیت بھی بنتی ہے وہ پوری جوں کی توں (Intact)نکال لی جاتی ہے بغیر اس کے کہ اس کے اوصاف میں کو ئی کمی بیشی ہو۔ اور یہی چیز موت کے بعد اپنے رب کی طرف پلٹا ئی جاتی ہے۔ اسی کو آخرت میں نیا جنم اور نیا جسم دیا جائے گا اُسی پر مقدمہ قائم کیا جائے گا‘ اسی سے حساب لیا جائے گا اوراسی کو جزا وسزا دیکھنی ہو گی۔ |