Ayats Found (50)
Surah 2 : Ayat 163
وَإِلَـٰهُكُمْ إِلَـٰهٌ وَٲحِدٌۖ لَّآ إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ٱلرَّحْمَـٰنُ ٱلرَّحِيمُ
تمہارا خدا ایک ہی خدا ہے، اُس رحمان اور رحیم کے سوا کوئی اور خدا نہیں ہے
Surah 3 : Ayat 2
ٱللَّهُ لَآ إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ٱلْحَىُّ ٱلْقَيُّومُ
اللہ، وہ زندہ جاوید ہستی، جو نظام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے، حقیقت میں اُس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے1
1 | تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سُورہ بقرہ، حاشیہ ۲۷۸۔ |
Surah 2 : Ayat 255
ٱللَّهُ لَآ إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ٱلْحَىُّ ٱلْقَيُّومُۚ لَا تَأْخُذُهُۥ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌۚ لَّهُۥ مَا فِى ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَمَا فِى ٱلْأَرْضِۗ مَن ذَا ٱلَّذِى يَشْفَعُ عِندَهُۥٓ إِلَّا بِإِذْنِهِۦۚ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْۖ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَىْءٍ مِّنْ عِلْمِهِۦٓ إِلَّا بِمَا شَآءَۚ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضَۖ وَلَا يَــُٔودُهُۥ حِفْظُهُمَاۚ وَهُوَ ٱلْعَلِىُّ ٱلْعَظِيمُ
اللہ، وہ زندہ جاوید ہستی، جو تمام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے، اُس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے 1وہ نہ سوتا ہے اور نہ اُسے اونگھ لگتی ہے2 زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے، اُسی کا ہے 3کون ہے جو اُس کی جناب میں اُس کی اجازت کے بغیر سفارش کر سکے4؟ جو کچھ بندوں کے سامنے ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ اُن سے اوجھل ہے، اس سے بھی وہ واقف ہے اور اُس کی معلومات میں سے کوئی چیز اُن کی گرفت ادراک میں نہیں آسکتی الّا یہ کہ کسی چیز کا علم وہ خود ہی اُن کو دینا چاہے5 اُس کی حکومت6 آسمانوں اور زمین پر چھائی ہوئی ہے اور اُن کی نگہبانی اس کے لیے کوئی تھکا دینے والا کام نہیں ہے بس وہی ایک بزرگ و برتر ذات ہے7
7 | یہ آیت ”آیت الکرسی“ کے نام سے مشہور ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی ایسی مکمل معرفت بخشی گئی ہے جس کی نظیر کہیں نہیں ملتی۔ اِسی بنا پر حدیث میں اس کو قرآن کی سب سے افضل آیت قرار دیا گیا ہے۔ اِس مقام پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہاں خداوندِ عالم کی ذات و صفات کا ذکر کس مناسبت سے آیا ہے؟ اس کو سمجھنے کے لیے ایک مرتبہ پھر اس تقریر پر نگاہ ڈال لیجیے، جو رکوع ۳۲ سے چل رہی ہے۔ پہلے مسلمانوں کو دینِ حق کے قیام کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرنے پر اُکسایا گیا ہے اور اُن کمزوریوں سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے جن میں بنی اسرائیل مبتلا ہو گئے تھے۔ پھر یہ حقیقت سمجھائی گئی ہے کہ فتح و کامیابی کا مدار تعداد اور سازو سامان کی کثرت پر نہیں، بلکہ ایمان، صبر و ضبط اور پختگیِ عزم پر ہے۔ پھر جنگ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی جو حکمت وابستہ ہے، اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، یعنی یہ کہ دُنیا کا انتظام برقرار رکھنے کے لیے وہ ہمیشہ انسانوں کے ایک گروہ کو دُوسرے گروہ کے ذریعے سے دفع کرتا رہتا ہے، ورنہ اگر ایک ہی گروہ کو غلبہ و اقتدار کا دائمی پٹہ مِل جاتا، تو دُوسروں کے لیے جینا دشوار ہو جاتا۔ پھر اس شبہہ کو دفع کیا گیا ہے ، جو ناواقف لوگوں کے دِلوں میں اکثر کھٹکتا ہے کہ اگر اللی نے اپنے پیغبر اختلافات کو مٹانے اور نزاعات کا سدِّ باب کرنے ہی کے لیے بھیجے تھے اور ان کی آمد کے باوجود نہ اخلافات مٹے ، نہ نزاعات ختم ہوئے، تو کیا اللہ ایسا ہی بے بس تھا کہ اُس نے اِن خرابیوں کو دُور کرنا چاہا اور نہ کر سکا۔ اس کے جواب میں بتا دیا گیا ہے کہ اختلافات کو بجز روک دینا اور نوعِ انسانی کو ایک خاص راستے پر بزور چلانا اللہ کی مشیّت ہی میں نہ تھا ، ورنہ انسان کی کیا مجال تھی کہ اُس کی مشیّت کے خلاف چلتا۔ پھر ایک فقرے میں اُس اصل مضمون کی طرف اشارہ کر دیا گیا ہے جس سے تقریر کی ابتدا ہوئی تھی۔ اس کے بعد اب یہ اشارہ ہو رہا ہے کہ انسانوں کو عقائد و نظریات اور مسالک و مذاہب خواہ کتنے ہی مختلف ہوں، بہرحال حقیقتِ نفس ُ الامری، جس پر زمین و آسمان کا نظام قائم ہے، یہ ہے، جو اس آیت میں بیان کی گئی ہے۔ انسانوں کی غلط فہمیوں سے اس حقیقت میں ذرہ برابر کوئی فرق نہیں آتا۔ مگر اللہ کا یہ منشا نہیں ہے کہ اس کے ماننے پر لوگوں کو زبر دستی مجبُور کیا جائے۔ جو اُسے مان لے گا، وہ خود ہی فائدے میں رہے گا اور جو اس سے منہ موڑے گا ، وہ آپ نقصان اُٹھائے گا |
6 | اصل میں لفظِ”کُرْسِی“ استعمال ہوا ہے ، جسے بالعمُوم حکومت و اقتدار کے لیے اِستعارے کے طور پر بولا جاتا ہے۔ اُردو زبان میں بھی اکثر کُرسی کا لفظ بول کر حاکمانہ اختیارات مُراد لیتے ہیں |
5 | اس حقیقت کے اظہار سے شرک کی بنیادوں پر ایک اور ضرب لگتی ہے۔ اُوپر کے فقروں میں اللہ تعالیٰ کی غیر محدُود حاکمیّت اور اس کے مطلق اختیارات کا تصوّر پیش کر کے یہ بتایا گیا ہے کہ اس کی حکومت میں نہ تو کوئی بالا ستقلال شریک ہے اور نہ کسی کا اس کے ہاں ایسا زور چلتا ہے کہ وہ اپنی سفارشوں سے اس کے فیصلوں پر اثر انداز ہو سکے۔ اب ایک دُوسری حیثیت سے یہ بتایا جا رہا ہے کہ کوئی دُوسرا اس کے کام میں دخل دے کیسے سکتا ہے ، جبکہ کسی دُوسرے کے پاس وہ علم ہی نہیں ہے جس سے وہ نظام ِ کائنات اور اس کی مصلحتوں کو سمجھ سکتا ہو۔ انسان ہوں یاجِن یا فرشتے یا دُوسری مخلوقات، سب کا عِلم ناقص اور محدُود ہے۔ کائنات کی تمام حقیقتوں پر کسی کی نظر بھی محیط نہیں۔ پھر اگر کسی چھوٹے سے چھوٹے جُز میں بھی کسی بندے کی ازادانہ مداخلت یا اٹل سفارش چل سکے تو سارا نظامِ عالم درہم برہم ہوجائے۔ نظامِ عالم تو رہا درکنار، بندے تو خود اپنی ذاتی مصلحتوں کوبھی سمجھنے کے اہل نہیں ہیں۔ ان کی مصلحتوں کو بھی خداوندِ عالم ہی پُوری طرح جانتا ہے اور اس کے لیے اِس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اُس خدا کی ہدایت و رہنمائی پر اعتماد کریں، جو علم کا اصلی سر چشمہ ہے |
4 | یہ اُن مشرکین کے خیالات کا ابطال ہے،جو بزرگ انسانوں یا فرشتوں یا دُوسری ہستیوں کے متعلق یہ گمان رکھتے ہیں کہ خدا کے ہاں ان کا بڑا زور چلتا ہے، جس بات پر اَڑ بیٹھیں، وہ منوا کر چھوڑتے ہیں ، اور جو کام چاہیں خدا سے لے سکتے ہیں۔ انہیں بتایا جا رہا ہے کہ زور چلانا تو درکنار، کوئی بڑے سے بڑا پیغمبر اور کوئی مقرّب ترین فرشتہ اُس پادشاہِ ارض و سما کے دربار میں بلا اجازت زبان تک کھولنے کی جُراٴت نہیں رکھتا |
3 | یعنی وہ زمین و آسمان کا اور ہر اُس چیز کا مالک ہے ، جو زمین و آسمان میں ہے۔ اس کی ملکیّت میں، اس کی تدبیر میں اور اُس کی پادشاہی و حکمرانی میں کسی کا قطعاً کوئی حصّہ نہیں۔ اس کے بعد کائنات میں جس دُوسری ہستی کا بھی تم تصوّر کر سکتے ہو، وہ بہرحال اِس کائنات کی ایک فرد ہی ہوگی، اور جو اس کائنات کر فر د ہے، وہ اللہ کا مملوک اور غلام ہے، نہ کہ اُس کا شریک اور ہمسر |
2 | یہ اُن لوگوں کے خیالات کی تردید ہے ، جو خداوندِ عالم کی ہستی کو اپنی ناقص ہستیوں پر قیاس کرتے ہیں اور اس کی طرف وہ کمزوریاں منسُوب کرتے ہیں ، جو انسانوں کے ساتھ مخصُوص ہیں۔ مثلاً بائیبل کا یہ بیان کہ خدا نے چھ دن میں زمین و آسمان کو پیدا کیا او ر ساتویں دن آرام کیا |
1 | یعنی نادان لوگوں نے اپنی جگہ چاہے کتنے ہی خدا اور معبُود بنا رکھے ہوں، مگرا صل واقعہ یہ ہے کہ خدائی پوری کی پوری بلا شرکتِ غیرے اس غیر فانی ذات کی ہے، جو کسی کی بخشی ہوئی زندگی سے نہیں، بلکہ آپ اپنی ہی حیات سے زندہ ہے اور جس کے بل بوتے ہی پر کائنات کا یہ سارا نظام قائم ہے۔ اپنی سلطنت میں خداوندی کے جملہ اختیارات کا مالک وہ خود ہی ہے ۔ کوئی دُوسرا نہ اس کی صفات میں اُس کا شریک ہے، نہ اس کے اختیارات میں اور نہ اس کے حقوق میں۔ لہٰذا اس کو چھوڑ کر یا اس کے ساتھ شریک ٹھیرا کر زمین یا آسمان میں کہاں بھی کسی اَور کو معبُود (الہٰ) بنایا جا رہا ہے، ایک جھوٹ گھڑا جا رہا ہے اور حقیقت کے خلاف جنگ کی جارہی ہے |
Surah 3 : Ayat 18
شَهِدَ ٱللَّهُ أَنَّهُۥ لَآ إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ وَٱلْمَلَـٰٓئِكَةُ وَأُوْلُواْ ٱلْعِلْمِ قَآئِمَۢا بِٱلْقِسْطِۚ لَآ إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ٱلْعَزِيزُ ٱلْحَكِيمُ
اللہ نے خود شہادت دی ہے کہ اس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے1، او ر (یہی شہادت) فرشتوں اور سب اہل علم نے بھی دی ہے2 وہ انصاف پر قائم ہے اُس زبردست حکیم کے سوا فی الواقع کوئی خدا نہیں ہے
2 | اللہ کے بعد سب سے زیادہ معتبر شہادت فرشتوں کی ہے، کیونکہ وہ سلطنتِ کائنات کے انتظامی اہلِ کار ہیں اور وہ براہِ راست اپنے ذاتی عِلم کی بنا پر شہادت دے رہے ہیں کہ اس سلطنت میں اللہ کے سوا کسی کا حکم نہیں چلتا اور اس کے سوا کوئی ہستی ایسی نہیں ہے ، جس کی طرف زمین وآسمان کے انتظامی معاملات میں وہ رُجوع کرتے ہوں۔ اس کے بعد مخلوقات میں سے جن لوگوں کو بھی حقائق کا تھوڑا یا بہت علم حاصل ہوا ہے ، ان سب کی ابتدا ئے آفرینش سے آج تک یہ متفقہ شہادت رہی ہے کہ ایک ہی خدا اس پوری کائنات کا مالک و مُدبّر ہے |
1 | یعنی اللہ جو کائنات کی تمام حقیقتوں کا براہِ راست علم رکھتا ہے، جو تمام موجودات کو بے حجاب دیکھ رہا ہے، جس کی نگا ہ سے زمین و آسمان کی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ، یہ اُس کی شہادت ہے۔۔۔۔ اور اس سے بڑھ کر معتبر عینی شہادت اور کس کی ہوگی۔۔۔۔ کہ پورے عالمِ وجود میں اس کی اپنی ذات کے سوا کوئی ایسی ہستی نہیں ہے ، جو خدائی کی صفات سے متصف ہو، خدائی کے اقتدار کی مالک ہو، اور خدائی کے حقوق کی مستحق ہو |
Surah 64 : Ayat 13
ٱللَّهُ لَآ إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَۚ وَعَلَى ٱللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ ٱلْمُؤْمِنُونَ
اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی خدا نہیں، لہٰذا ایمان لانے والوں کو اللہ ہی پر بھروسا رکھنا چاہیے1
1 | یعنی خدائی کے سارے اختیارات تنہا اللہ تعالٰی کے ہاتھ میں ہیں۔ کوئی دوسرا سرے سے یہ اختیار رکھتا ہی نہیں ہے کہ تمہاری اچھی یا بری تقدیر بنا سکے۔ اچھا وقت آ سکتا ہے تو اسی کے لاۓ آ سکتا ہے، اور برا وقت ٹل سکتا ہے تو اسی کے ٹالے ٹل سکتا ہے۔ لہٰذا جو شخص سچے دل سے اللہ کو خداۓ واحد مانتا ہو اس کے لیے اس کے سوا سرے سے کوئی راستہ ہی نہیں ہے کہ وہ اللہ پر بھروسا رکھے اور دنیا میں ایک مومن کی حیثیت سے اپنا فرض اس یقین کے ساتھ انجام دیتا چلا جاۓ کہ خیر بہر حال اسی راہ میں ہے جس کی طرف اللہ نے رہنمائی فرمائی ہے۔ اس راہ میں کامیابی نصیب ہو گی تو اللہ ہی کی مدد اور تائید و توفیق سے ہو گی، کوئی دوسری طاقت مدد کرنے والی نہیں ہے۔ اور اس راہ میں اگر مشکلات و مصائب اور خطرات و مہالک سے سابقہ پیش آۓ گا تو ان سے بھی وہی بچاۓ گا، کوئی دوسرا بچانے والا نہیں ہے |
Surah 20 : Ayat 8
ٱللَّهُ لَآ إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَۖ لَهُ ٱلْأَسْمَآءُ ٱلْحُسْنَىٰ
وہ اللہ ہے، اس کے سوا کوئی خدا نہیں، اس کے لیے بہترین نام ہیں1
1 | یعنی وہ بہترین صفات کا مالک ہے۔ |
Surah 4 : Ayat 87
ٱللَّهُ لَآ إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَۚ لَيَجْمَعَنَّكُمْ إِلَىٰ يَوْمِ ٱلْقِيَـٰمَةِ لَا رَيْبَ فِيهِۗ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ ٱللَّهِ حَدِيثًا
اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے، وہ تم سب کو اُس قیامت کے دن جمع کرے گا جس کے آنے میں کوئی شبہہ نہیں، اور اللہ کی بات سے بڑھ کر سچی بات اور کس کی ہوسکتی ہے1
1 | یعنی کافر اور مشرک اور ملحد اور دہریے جو کچھ کر رہے ہیں اس سے خدا کی خدائی کا کچھ نہیں بگڑتا۔ اُس کا خدائے واحد اور خدائے مطلق ہونا ایک ایسی حقیقت ہے جو کسی کے بدلے بدل نہیں سکتی۔ پھر ایک دن وہ سب انسانوں کو جمع کر کے ہر ایک کو اس کے عمل کا نتیجہ دکھا دے گا۔ اس کی قدرت کے احاطہ سے بچ کر کوئی بھاگ بھی نہیں سکتا۔ لہٰذا خدا ہر گز اس بات کا حاجت مند نہیں ہے کہ اس کی طرف سے کوئی اس کے باغیوں پر جلے دل کا بخار نکالتا پھرے اور کج خُلقی و ترش کلامی کوزخمِ دل کا مرہم بنائے۔ یہ تو اس آیت کا تعلق اوپر کی آیت سے ہے ۔ لیکن یہی آیت اس پورے سلسلۂ کلام کا خاتمہ بھی ہے جو پچھلے دو تین رکوعوں سے چلا آرہا ہے۔ اس حیثیت سے آیت کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی زندگی میں جو شخص جس طریقے پر چاہے چلتا رہے اور جس راہ میں اپنی کوشش اور محنتیں صرف کرنا چاہتا ہے کیے جائے ، آخرکار سب کو ایک دن اس خدا کے سامنے حاضر ہونا ہے جس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے، پھر ہر ایک اپنی سعی و عمل کے نتائج دیکھ لے گا |
Surah 7 : Ayat 158
قُلْ يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ إِنِّى رَسُولُ ٱللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا ٱلَّذِى لَهُۥ مُلْكُ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضِۖ لَآ إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ يُحْىِۦ وَيُمِيتُۖ فَـَٔـامِنُواْ بِٱللَّهِ وَرَسُولِهِ ٱلنَّبِىِّ ٱلْأُمِّىِّ ٱلَّذِى يُؤْمِنُ بِٱللَّهِ وَكَلِمَـٰتِهِۦ وَٱتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ
اے محمدؐ، کہو کہ 1"اے انسانو، میں تم سب کی طرف اُس خدا کا پیغمبر ہوں جو زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے، اُس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے، وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے، پس ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے بھیجے ہوئے نبی اُمی پر جو اللہ اور اس کے ارشادات کو مانتا ہے، اور پیروی اختیار کرو اُس کی، امید ہے کہ تم راہ راست پا لو گے"
1 | اصل سلسلہ کلام بنی اسرائیل سے متعلق چل رہا تھا ۔ بیچ میں موقع کی مناسبت سے رسالت محمدی پر ایمان لانے کی دعوت بطور جملہ معترضہ آگئی۔ اب پھر تقریر کا رخ اسی مضمون کی طرف پھر رہا ہے جو پچھلے کئی رکوعوں سے بیان ہورہا ہے |
Surah 6 : Ayat 103
لَّا تُدْرِكُهُ ٱلْأَبْصَـٰرُ وَهُوَ يُدْرِكُ ٱلْأَبْصَـٰرَۖ وَهُوَ ٱللَّطِيفُ ٱلْخَبِيرُ
نگاہیں اس کو نہیں پا سکتیں اور وہ نگاہوں کو پا لیتا ہے، وہ نہایت باریک بیں اور باخبر ہے
Surah 6 : Ayat 107
وَلَوْ شَآءَ ٱللَّهُ مَآ أَشْرَكُواْۗ وَمَا جَعَلْنَـٰكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًاۖ وَمَآ أَنتَ عَلَيْهِم بِوَكِيلٍ
اگر اللہ کی مشیت ہوتی تو (وہ خود ایسا بندوبست کرسکتا تھا کہ) یہ لوگ شرک نہ کرتے تم کو ہم نے ان پر پاسبان مقرر نہیں کیا ہے اور نہ تم ان پر حوالہ دار ہو1
1 | مطلب یہ ہے کہ تمھیں داعی اور مبلّغ بنایا گیا ہے، کوتوال نہیں بنایا گیا۔ تمہارا کام صرف یہ ہے کہ لوگوں کے سامنے اِس روشنی کو پیش کردو اور اظہارِ حق کا حق ادا کرنے میں اپنی حد تک کوئی کسر اُٹھا نہ رکھو۔ اب اگر کوئی اس حق کو قبول نہیں کرتا تو نہ کرے۔ تم کو نہ اس کام پر مامور کیا گیا ہے کہ لوگوں کو حق پرست بنا کر ہی رہو، اور نہ تمہاری ذمّہ داری وہ جواب دہی میں یہ بات شامل ہے کہ تمہارے حلقۂ نبوّت میں کوئی شخص باطل پر ست نہ رہ جائے۔ لہٰذا اس فکر میں خواہ مخواہ اپنے ذہن کو پریشان نہ کرو کہ اندھوں کو کس طرح بینا بنایا جائے اور جو آنکھیں کھول کر نہیں دیکھنا چاہتے انہیں کیسے دکھایا جائے۔ اگر فی الواقع حکمت ِ الٰہی کا تقاضا یہی ہوتا کہ دنیا میں کوئی شخص باطل پرست نہ رہنے دیا جائے تو اللہ کو یہ کام تم سے لینے کی کیا ضرورت تھی؟ کیا اس کا ایک ہی تکوینی اشارہ تمام انسانوں کو حق پرست نہ بنا سکتا تھا؟ مگر وہاں تو مقصُود سرے سے یہ ہے ہی نہیں۔ مقصُود تو یہ ہے کہ انسان کے لیے حق اور باطل کے انتخاب کی آزادی باقی رہے اور پھر حق کی روشنی اس کے سامنے پیش کر کے اُس کی آزمائش کی جائے کہ وہ دونوں چیزوں میں سے کس کو انتخاب کرتا ہے ۔ پس تمہارے لیے صحیح طرزِ عمل یہ ہے کہ جو روشنی تمھیں دکھا دی گئی ہے اُس کے اُجالے میں سیدھی راہ پر خود چلتے رہو اور دُوسروں کو اُس کی دعوت دیتے رہو۔ جو لوگ اس دعوت کو قبول کر لیں انھیں سینے سے لگاؤ اور ان کا ساتھ نہ چھوڑو خواہ وہ دنیا کی نگاہ میں کیسے ہی حقیر ہوں۔ اور جو اسے قبول نہ کریں ان کے پیچھے نہ پڑو۔ جس انجامِ بد کی طرف وہ خود جانا چاہتے ہیں اور جانے پر مُصِر ہیں اس کی طرف جانے کے لیے انھیں چھوڑ دو |