Ayats Found (1)
Surah 4 : Ayat 11
يُوصِيكُمُ ٱللَّهُ فِىٓ أَوْلَـٰدِكُمْۖ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ ٱلْأُنثَيَيْنِۚ فَإِن كُنَّ نِسَآءً فَوْقَ ٱثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَۖ وَإِن كَانَتْ وَٲحِدَةً فَلَهَا ٱلنِّصْفُۚ وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَٲحِدٍ مِّنْهُمَا ٱلسُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِن كَانَ لَهُۥ وَلَدٌۚ فَإِن لَّمْ يَكُن لَّهُۥ وَلَدٌ وَوَرِثَهُۥٓ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ ٱلثُّلُثُۚ فَإِن كَانَ لَهُۥٓ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ ٱلسُّدُسُۚ مِنۢ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِى بِهَآ أَوْ دَيْنٍۗ ءَابَآؤُكُمْ وَأَبْنَآؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًاۚ فَرِيضَةً مِّنَ ٱللَّهِۗ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا
تمہاری اولاد کے بارے میں اللہ تمہیں ہدایت کرتا ہے کہ: مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے، اگر1 (میت کی وارث) دو سے زائد لڑکیاں ہوں تو انہیں ترکے کا دو تہائی دیا جائے2، اور اگر ایک ہی لڑکی وارث ہو تو آدھا ترکہ اس کا ہے اگر میت صاحب اولاد ہو تواس کے والدین میں سے ہر ایک کو ترکے کا چھٹا حصہ ملنا چاہیے3 اور اگر وہ صاحب اولاد نہ ہو اور والدین ہی اس کے وارث ہو ں تو ماں کو تیسرا حصہ دیا جائے4 اور اگر میت کے بھائی بہن بھی ہوں تو ماں چھٹے حصہ کی حق دار ہوگی5 (یہ سب حصے اُس وقت نکالے جائیں) جبکہ وصیت جو میت نے کی ہو پوری کر دی جائے اور قرض جو اُس پر ہو ادا کر دیا جائے6 تم نہیں جانتے کہ تمہارے ماں باپ اور تمہاری اولاد میں سے کون بلحاظ نفع تم سے قریب تر ہے یہ حصے اللہ نے مقرر کر دیے ہیں، اور اللہ یقیناً سب حقیقتوں سے واقف اور ساری مصلحتوں کا جاننے والا ہے7
7 | یہ جواب ہے اُن سب نادانوں کو جو میراث کے اس خدائی قانون کو نہیں سمجھتے اور اپنی ناقص عقل سے اس کسر کو پورا کرنا چاہتے ہیں جو ان کے نزدیک اللہ کے بنائے ہوئے قانون میں رہ گئی ہے |
6 | وصیت کا ذکر قرض پر مقدم اس لیے کیا گیا ہے کہ قرض کا ہونا ہر مرنے والے کے حق میں ضروری نہیں ہے، اور وصیت کرنا اس کے لیے ضروری ہے۔ لیکن حکم کے اعتبار سے اُمّت کا اس پر اجماع ہے کہ قرض وصیت پر مقدم ہے۔ یعنی اگر میت کے ذمہ قرض ہو تو سب سے پہلے میت کے ترکہ میں سے وہ ادا کیا جائے گا ، پھر وصیت پوری کی جائے گی، اور اس کے بعد وراثت تقسیم ہو گی۔ وصیت کے متعلق سُورہٴ بقرہ حاشیہ نمبر ١۸٦ میں ہم بتا چکے ہیں کہ آدمی کو اپنے کُل مال کے 1/3 حصّہ کی حد تک وصیّت کرنے کا اختیار ہے ، اور یہ وصیّت کا قاعدہ اس لیے مقرر کیا گیا ہے کہ قانونِ وراثت کی رُو سے جن عزیزوں کو میراث میں سے حصّہ نہیں پہنچتا ان میں سے جس کو یا جس جس کو آدمی مدد کا مستحق پاتا ہو اس کے لیے اپنے اختیارتمیزی سے حصّہ مقرر کر دے۔ مثلاً کوئی یتیم پوتا یا پوتی موجود ہے ، یا کسی بیٹے کی بیوہ مصیبت کے دن کاٹ رہی ہے ، یا کوئی بھائی یا بہن یا بھاوج یا بھتیجا یا بھانجا یا اور کوئی عزیز ایسا ہے جو سہارے کا محتاج نظر آتا ہے ، تو اس کے حق میں وصیّت کے ذریعہ سے حصّہ مقرر کیا جا سکتا ہے۔ اور اگر رشتہ داروں میں کوئی ایسا نہیں ہے تو دُوسرے مستحقین کے لیے یا کسی رفاہِ عام کے کام میں صرف کرنے کے لیے وصیّت کی جا سکتی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ آدمی کی کُل ملکیت میں سے 2/3 یا اس سے کچھ زائد کے متعلق شریعت نے میراث کا ضابطہ بنا دیا ہے جس میں سے شریعت کے نامزد کردہ وارثوں کو مقررہ حصّہ ملے گا۔ اور 1/3 یا اس سے کچھ کم کو خود اس کی صوابدید پر چھوڑا گیا ہے کہ اپنے مخصُوص خاندانی حالات کے لحاظ سے (جو ظاہر ہے کہ ہر آدمی کے معاملہ میں مختلف ہوں گے) جس طرح مناسب سمجھے تقسیم کرنے کی وصیّت کر دے۔ پھر اگر کوئی شخص اپنی وصیّت میں ظلم کرے، یا بالفاظِ دیگر اپنے اختیارِ تمیزی کو غلط طور پر اس طرح استعمال کرے جس سے کسی کے جائز حقوق متاثر ہوتے ہوں تو اس کے لیے یہ چارہ کار رکھ دیا گیا ہےکہ خاندان کے لوگ باہمی رضامندی سے اس کی اصلاح کر لیں یا قاضی شرعی سے مداخلت کی درخواست کی جائے اور وہ وصیّت کو درست کر دے۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو میرا رسالہ” یتیم پوتے کی وراثت“ |
5 | بھائی بہن ہونے کی صُورت میں ماں کا حصّہ 1/3 کے بجائے 1/6 کر دیا گیا ہے۔ اس طرح ماں کے حصّہ میں سے جو1/6 لیا گیا ہے وہ باپ کے حصّہ میں ڈالا جائے گا کیونکہ اس صُورت میں باپ کی ذمّہ داریاں بڑھ جاتی ہیں ۔ یہ واضح رہے کہ میّت کے والدین اگر زندہ ہوں تو اس کے بہن بھائیوں کو حصّہ نہیں پہنچتا |
4 | ماں باپ کے سوا کوئی اور وارث نہ ہو تو باقی 2/3 باپ کو ملے گا۔ ورنہ2/3 میں باپ اور دُوسرے وارث شریک ہوں گے |
3 | یعنی میّت کے صاحبِ اولاد ہونے کی صُورت میں بہرحال میّت کے والدین میں سے ہر ایک 1/6 کا حق دار ہوگا خواہ میّت کی وارث صرف بیٹیاں ہوں، یا صرف بیٹے ہوں، یا بیٹے اور بیٹیاں ہوں، یا ایک بیٹا ہو، یا ایک بیٹی ۔ رہے باقی 2/3 تو اُن میں دُوسرے وارث شریک ہوں گے |
2 | ﴿میّت کی وارث﴾ دو سے زائد لڑکیاں ہو ں تو انہیں ترکے کا دو تہائی دیا جائے |
1 | میراث کے معاملہ میں یہ اوّلین اُصُولی ہدایت ہے کہ مرد کا حصّہ عورت سے دوگنا ہے ۔ چونکہ شریعت نے خاندانی زندگی میں مرد پر زیادہ معاشی ذمّہ داریوں کا بوجھ ڈالا ہے اور عورت کو بہت سی معاشی ذمّہ داریوں کے بار سے سبکدوش رکھا ہے، لہٰذا انصاف کا تقاضا یہی تھا کہ میراث میں عورت کا حصّہ مرد کی بہ نسبت کم رکھا جاتا |