Ayats Found (7)
Surah 7 : Ayat 54
إِنَّ رَبَّكُمُ ٱللَّهُ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضَ فِى سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِ يُغْشِى ٱلَّيْلَ ٱلنَّهَارَ يَطْلُبُهُۥ حَثِيثًا وَٱلشَّمْسَ وَٱلْقَمَرَ وَٱلنُّجُومَ مُسَخَّرَٲتِۭ بِأَمْرِهِۦٓۗ أَلَا لَهُ ٱلْخَلْقُ وَٱلْأَمْرُۗ تَبَارَكَ ٱللَّهُ رَبُّ ٱلْعَـٰلَمِينَ
در حقیقت تمہارا رب اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا1، پھر اپنے تخت سلطنت پر جلوہ فرما ہوا2 جو رات کو دن پر ڈھانک دیتا ہے اور پھر دن رات کے پیچھے دوڑا چلا آتا ہے جس نے سورج اور چاند اور تارے پیدا کیے سب اس کے فرمان کے تابع ہیں خبردار رہو! اُسی کی خلق ہے اور اسی کا امر ہے3 بڑا با برکت ہے اللہ4، سارے جہانوں کا مالک و پروردگار
4 | برکت کے اصل معنی ہیں نمو، افزائش اور بڑھوتری کے ، اور اسی کے ساتھ اس لفظ میں رفعت و عظمت کا مفہوم بھی ہے اور ثبات اور جماؤ کا بھی۔ پھر ان سب مفہومات کے ساتھ خیر اور بھلائی کا تصورّ لازماً شامل ہے۔ پس اللہ کے نہایت با برکت ہونے کا مطلب یہ ہوا کہ اس کی خوبیوں اور بھلائیوں کی کوئی حد نہیں ہے، بے حدوحساب خیرات اس کی ذات سے پھیل رہی ہیں، اور وہ بہت بلند و بر تر ہستی ہے ، کہیں جا کر اس کی بلندی ختم نہیں ہوتی ، اور اس کی یہ بھلائی اور رفعت مستقل ہے، عارضی نہیں ہے کہ کبھی اس کو زوال ہو۔(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو، الفرقان، حواشی۔١۔١۹) |
3 | یہ اُسی مضمون کی مزید تشریح ہے جو”استواء علی العرش“ کے الفاظ میں مجملاً بیان کیا گیا تھا۔ یعنی یہ کہ خدا محض خالق ہی نہیں آمر اور حا کم بھی ہے۔ اس نے اپنی خلق کو پیدا کر کے نہ تو دوسروں کے حوالے کر دیا کہ وہ اس میں حکم چلائیں، اور نہ پوری خلق کو یا اس کے کسی حصّے کو خود مختار بنا دیا ہے کہ جس طرح چاہے خود کام کرے۔ بلکہ عملاً تمام کائنات کی تدبیر خدا کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ لیل ونہار کی گردش آپ سے آپ نہیں ہو رہی ہے بلکہ خدا کے حکم سے ہو رہی ہے، جب چاہے اسے روک دے اور جب چاہے اس کے نظام کو تبدیل کر دے۔سورج اور چاند اور تارے خود کسی طاقت کے مالک نہیں ہیں بلکہ خدا کے ہاتھ میں بالکل مسخّر ہیں اور مجبور غلاموں کی طرح بس وہی کام کیے جا رہے ہیں جو خدا ان سے لے رہا ہے |
2 | خد ا کے استواءعلی العرش(تخت سلطنت پر جلوہ فرماہونے )کی تفصیلی کیفیت کو سمجھنا ہمارے لیے مشکل ہے۔ بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کی تخلیق کے بعد کسی مقام کو اپنی اس لا محدود سلطنت کا مرکز قرار دے کر اپنی تجلیات کو وہاں مرتکز فرمادیا ہو اور اسی کا نام عرش ہو جہاں سے سارے عالم پر موجود اور قوت کا فیضان بھی ہو رہا ہے اور تدبیر امر بھی فرمائی جا رہی ہے ۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ عرش سے مراد اقتدار فرماں روائی ہو اور ا س پر جلوہ فرما ہوے سے مراد یہ ہو کہ اللہ نے کا ئنات کو پیدا کر کے اس کی زمامِ سلطنت اپنے ہاتھ میں لی۔ بہر حال استواء علی العرش کا تفصیلی مفہوم خواہ کچھ بھی ہو، قرآن میں اس کے ذکر کا اصل مقصد یہ ذہن نشین کر نا ہے کہ اللہ تعالیٰ محض خالقِ کا ئنات ہی نہیں ہے بلکہ مدبّر ِ کائنات بھی ہے۔ وہ دنیا کو وجود میں لانے کے بعد اس سے بے تعلق ہو کر کہیں بیٹھ نہیں گیا ہے بلکہ عملاً وہی سارے جہان کے جزو کل پر فرماں روائی کر رہا ہے۔ سلطانی و حکمرانی کے تمام اختیارات بالفعل اس کے ہاتھ میں ہیں،ہر چیز اس کے امر کی تابع ہے، ذرّہ ذرّہ اس کے فرمان کا مطیع ہے اور موجودات کی قسمتیں دائماً اس کے حکم سے وابستہ ہیں۔ اس طرح قرآن اُ س کی بنیادی غلط فہمی کی جڑ کاٹنا چاہتا ہے جس کی وجہ سے انسان کبھی شرک کی گمراہی میں مبتلا ہوا ہے اور کبھی خود مختیاری و خود سری کی ضلالت میں۔ خدا کو کائنات کے انتظام سے عملاً بے تعلق سمجھ لینے کا لازمی نتیجہ یہ ہےکہ آدمی یا تو اپنی قسمت کو دوسرں سےوابستہ سمجھے اور ان کے آگے سر جھکادے ، یا بھر اپنی قسمت کا مالک خود اپنے آپ کو سمجھے اور خود مختار بن بیٹھے۔ یہاں ایک اور بات اور قابل توجہ ہے۔ قرآن مجید میں خدا اور خلق کے تعلق کو واضح کرنے کے لیے انسانی زبان میں سے زیادہ تر وہ الفاظ، مصطلحات، استعارے اور انداز بیان انتخاب کیے گئے ہیں جو سلطنت و بادشاہی سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ طرز بیان قرآن میں اس قدر نمایاں ہے کہ کوئی شخص جو سمجھ کر قرآن کو پڑھتا ہوا سے محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ بعض کم فہم ناقدین کے معکوس دماغوں نے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ یہ کتاب جس عہد کی ”تصنیف “ہے اس زمانہ میں انسان کے ذہن پر شاہی نظام کا تسلط تھا اس لیے مصنف نے(جس سے مراد ان ظالموں کے نزدیک محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں) خدا کو بادشاہ کے رنگ میں پیش کیا۔ حالانکہ دراصل قرآن فس دائمی و ابدی حقیقت کو پیش کر رہا ہے وہ اس کے بر عکس ہے۔ وہ حقیقت یہ ہے کہ زمین اور آسمانوں میں پادشاہی صرف ایک ذات کی ہے، اور حاکمیت (Sovereignity ) جس شے کا نام ہے وہ اسی ذات کے لیے خاص ہے، اور یہ نظامِ کائنات ایک کامل مرکزی نظام ہے جس میں تمام اختیارات کو وہی ایک ذات استعمال کر رہی ہے، لہذا اس نظام میں جو شخص یا گروہ اپنی یا کسی اور کی جزوی یا کُلّی حاکمیت کا مدعی ہے وہ محض فریب میں مبتلا ہے۔ نیز یہ کہ اس نظام کے اندر رہتے ہوئے انسان کے لیے اِس کے سوا کوئی دوسرا رویہ صحیح نہیں ہو سکتا کہ اُسی ایک ذات کو مذہبی معنوں میں واحد معبود بھی مانے اور سیاسی و تمدنی معنوں میں واحد سلطان (Sovereign )بھی تسلیم کرے |
1 | یہاں دن کا لفظ یا تو اسی چوبیس گھنٹے کے دن کا ہم معنی ہے جسے دنیا کے لوگ دن کہتے ہیں، یا پھر یہ لفظ دور ( Period ) کے معنی میں استعمال ہوا ہے، جیسا کہ سورة الحج آیت نمبر ۴۷ میں فرمایا وَاِنَّ یَوْمًاعِنْدَرَبِّکِ کَاَلْفِ سَنَةٍمِمَّاتَعُدُّوْنَ(اور حقیقت یہ ہے کہ تیرے رب کے ہاں ایک دن ہزار سال کے برابر ہے اُس حساب سے جو تم لوگ لگاتے ہو)، اور سورة مارج کی آیت ۴ میں فرمایا کہ تَعْرُجُ الْمَلٰئِکَةُوَالرُّوْحُ اِلَیْہِ فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٗ خَمْسِیْنَ اَلْفَ سَنَةٍ(فرشتے اور جبرائیل اس کی طرف ایک دن میں چڑھتے ہیں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہے)۔اس کا صحیح مفہوم اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔(مزید تشریح کے لیے ملا حظہ ہو حٰم السجدہ حواشی ١١ تا ١۵) |
Surah 10 : Ayat 3
إِنَّ رَبَّكُمُ ٱللَّهُ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضَ فِى سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِۖ يُدَبِّرُ ٱلْأَمْرَۖ مَا مِن شَفِيعٍ إِلَّا مِنۢ بَعْدِ إِذْنِهِۦۚ ذَٲلِكُمُ ٱللَّهُ رَبُّكُمْ فَٱعْبُدُوهُۚ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ
حقیقت یہ ہے کہ تمہارا رب وہی خدا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا، پھر تخت حکومت پر جلوہ گر ہوا اور کائنات کا انتظام چلا رہا ہے1 کوئی شفاعت (سفارش) کرنے والا نہیں اِلّا یہ کہ اس کی اجازت کے بعد شفاعت کرے2 یہی اللہ تمہارا رب ہے لہٰذا تم اُسی کی عبادت کرو3 پھر کیا تم ہوش میں نہ آؤ گے؟4
4 | یعنی جب یہ حقیقت تمہارے سامنے کھول دی گئی ہے اور تم کو صاف صاف بتا دیا گیا ہے کہ اس حقیقت کی موجودگی میں تمہارے لیے صحیح طرزِعمل کیا ہے تو کیا اب بھی تمہاری آنکھیں نہ کھلیں گی اور اُنہی غلط فہمیوں میں پڑے رہو گے جن کی بنا پر تمہاری زندگی کا پورا رویہ اب تک حقیقت کے خلاف رہا ہے؟ |
3 | اوپر کےتین فقروں میں حقیقتِ نفس الامری کا بیان تھا کہ فی الواقع خدا ہی تمہارا رب ہے۔ اب یہ بتایا جا رہا ہے کہ اِس امر واقعی کی موجودگی میں تمہارا طرزِعمل کیا ہونا چاہیے۔ جب واقعہ یہ ہے کہ ربوبیت بالکلیہ خدا کی ہے تو اس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ تم صرف اُسی کی عبادت کرو۔ پھر جس طرح ربوبیت کا لفظ تین مفہومات پر مشتمل ہے، یعنی پروردگاری، مالی و آقائی، اور فرماں روائی، اسی طرح اس کے بالمقابل عبادت کا لفظ بھی تین مفہومات پر مشتمل ہے۔ یعنی پرستش، غلامی اور اطاعت۔ خدا کے واحد پروردگار ہونے سے لازم آتا ہے کہ انسان اسی کا شکر گزار ہو، اسی سے دعائیں مانگے اور اسی کے آگے محبت و عقیدت سے سر جھکائے۔ یہ عبادت کا پہلا مفہوم ہے۔ خدا کے واحد مالک و آقا ہونے سے لازم آتا ہے کہ انسان اس کا بندہ و غلام بن کر رہے اور اُس کے مقابلہ میں خود مختارانہ رویّہ نہ اختیار کرے اوراس کے سوا کسی اور کی ذہنی یا عملی غلامی قبول نہ کرے۔ یہ عبادت کا دوسرا مفہوم ہے۔ خدا کے واحد مالک و آقا ہونے سے لازم آتا ہے کہ انسان اس کے حکم کی اطاعت اور اس کے قانون کی پیروی کرے نہ خود اپناحکمران بنے اور نہ اس کے سوا کسی دوسرے کی حاکمیت تسلیم کرے۔ یہ عبادت کا تیسرا مفہوم ہے۔ |
2 | یعنی دنیا کی تدبیر وانتظام میں کسی دوسرے کا دخیل ہونا تو درکنار کوئی اتنا اختیار بھی نہیں رکھتا کہ خدا سے سفارش کر کے اس کا کوئی فیصلہ بدلوا دے یا کسی کی قسمت بنوا دے یا بگڑوا دے۔ زیادہ سے زیادہ کوئی جو کچھ کر سکتا ہے وہ بس اتنا ہے کہ خدا سے دعا کرے، مگراس کی دعا کا قبول ہونا یا نہ ہونا بالکل خدا کی مرضی پر منحصر ہے۔ خدا کی خدائی میں اتنا زوردار کوئی نہیں ہے کہ اس کی بات چل کر رہے اور اس کی سفارش ٹل نہ سکے اور وہ عرش کا پایہ پکڑ کر بیٹھ جائے اور اپنی بات منوا کر ہی رہے۔ |
1 | یعنی پیدا کرکے وہ معطل نہیں ہو گیا بلکہ اپنی پیدا کی ہوئی کائنات کے تخت سلطنت پر وہ خود جلوہ فرما ہوا اور اب سارے جہان کا انتظام عملًا اُسی کے ہاتھ میں ہے۔ نادان لوگ سمجھتے ہیں خدا نے کائنات کو پیدا کر کے یونہی چھوڑ دیا ہے کہ خود جس طرح چاہے چلتی رہے، یا دوسروں کے حوالے کر دیا ہے کہ وہ اس میں جیسا چاہیں تصرف کریں۔ قرآن اس کے برعکس یہ حقیقت پیش کرتا ہے کہ اللہ تعالٰی اپنی تخلیق کی اس پوری کار گاہ پرآپ ہی حکمرانی کر رہا ہے، تمام اختیارات اس کے اپنے ہاتھ میں ہیں، ساری زمامِ اقتدار پر وہ خود قابض ہے، کائنات کے گوشے گوشے میں ہر وقت ہر آن جو کچھ ہو رہا ہے براہِ راست اس کے حکم یا اذن سے ہو رہا ہے، اِس جہانِ ہستی کے ساتھ اس کا تعلق صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ وہ کبھی اسے وجود میں لایا تھا، بلکہ ہمہ وقت وہی اس کا مدبر و منتظم ہے، اسی کے قائم رکھنے سے یہ قائم ہے اور اسی کے چلانے سے یہ چل رہا ہے۔ (ملاحظہ ہو سورۂ اعراف، حاشیہ نمبر۴۰، ۴۱) |
Surah 11 : Ayat 7
وَهُوَ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضَ فِى سِتَّةِ أَيَّامٍ وَكَانَ عَرْشُهُۥ عَلَى ٱلْمَآءِ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلاًۗ وَلَئِن قُلْتَ إِنَّكُم مَّبْعُوثُونَ مِنۢ بَعْدِ ٱلْمَوْتِ لَيَقُولَنَّ ٱلَّذِينَ كَفَرُوٓاْ إِنْ هَـٰذَآ إِلَّا سِحْرٌ مُّبِينٌ
اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا جبکہ اس سے پہلے اس کا عرش پانی پر تھا1 تاکہ تم کو آزما کر دیکھے تم میں کون بہتر عمل کرنے والا ہے2 اب اگر اے محمدؐ، تم کہتے ہو کہ لوگو، مرنے کے بعد تم دوبارہ اٹھائے جاؤ گے، تو منکرین فوراً بول اٹھتے ہیں کہ یہ تو صریح جادو گری ہے3
3 | یعنی ان لوگوں کی نادانی کا یہ حال ہے کہ کائنات کو ایک کھلنڈرے کا گھروند ا اور اپنے آپ کو اس کے جی بہلانے کا کھلونا سمجھے بیٹھے ہیں اور اس احمقانہ تصور میں اتنے مگن ہیں کہ جب تم انہیں اس کارگاہِ حیات کا سنجیدہ مقصر، اور خود ان کے وجود کی معقول غرض و غایت سمجھاتے ہو تو قہقہہ لگاتے ہیں اور تم پر پھبتی کستے ہیں کہ یہ شخص تو جادو کی سی باتیں کرتا ہے |
2 | اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو اس لیے پیدا کیا کہ تم کو(یعنی انسان کو ) پیدا کرنا مقصود تھا، اور تمہیں اس لیے پیدا کیا کہ تم پر اخلاقی ذمہ داری کا بار ڈالا جائے ، تم کو خلافت کے اختیارات سپرد کیے جائیں اور پھر دیکھا جائے کہ تم میں سے کون ان اختیارات کو اور اس اخلاقی ذمہ داری کے بوجھ کو کس طرح سنبھالتا ہے۔ اگر اس تخلیق کی تہ میں یہ مقصد نہ ہوتا ، اگر اختیارات کو تفویض کے باوجود کسی امتحان کا ، کسی محاسبہ اور باز پرس کا اور کسی جزا و سزا کا کوئی سوال نہ ہوتا ، اور اگر انسان کو اخلاقی ذمہ داری کا حامل ہونے کے باوجود یونہی بے نتیجہ مر کر مٹی ہو جانا ہی ہوتا ، تو پھر یہ سارا کار ِتخلیق بالکل ایک مہمل کھیل تھا اور اس تمام ہنگامۂ وجود کی کوئی حیثیت ایک فعل عبث کے سوا نہ تھی |
1 | جملہ ٔ معترضہ ہے جو غالبًا لوگوں کے اس سوال کےجواب میں فرمایا گیا ہے کہ آسمان و زمین اگر پہلے نہ تھے اور بعد میں پیدا کیے گئے تو پہلے کیا تھا؟ اس سوال کو یہاں نقل کیے بغیر اس کا جواب مختصر سے فقرے میں دے دیا گیا ہے کہ پہلے پانی تھا۔ ہم نہیں کہہ سکتے کہ اس پانی سے مراد کیا ہے۔ یہی پانی جسے ہم اس نام سے جانتے ہیں؟ یا یہ لفظ محض استعارے کے طور پر مادّے کی اس مائع () حالت کے لیے استعمال کیا گیا ہے جو موجودہ صورت میں ڈھالے جانے سے پہلے تھی؟ رہا یہ ارشاد کہ خدا کا عرش پہلے پانی پر تھا، تو اس کا مفہوم ہماری سمجھ میں یہ آتا ہے کہ خدا کی سلطنت پانی پر تھی |
Surah 25 : Ayat 59
ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِى سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِۚ ٱلرَّحْمَـٰنُ فَسْــَٔلْ بِهِۦ خَبِيرًا
وہ جس نے چھ دنوں میں زمین اور آسمان کو اور اُن ساری چیزوں کو بنا کر رکھ دیا جو آسمان و زمین کے درمیان ہیں، پھر آپ ہی (کائنات کے تخت سلطنت) 1"عرش" پر جلوہ فرما ہوا رحمٰن، اس کی شان بس کسی جاننے والے سے پوچھو
1 | اللہ تعالیٰ کے عرش پر جلوہ گر ہونے کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم، الاعراف، حواشی 41 ۔42 ، یونس، حاشیہ 4، ھود ، حاشیہ 7 ۔ زمین و آسمان کو چھ دنوں میں پیدا کرنے کا مضمون متشابہات کے قبیل سے ہے جس کا مفہوم متعین کرنا مشکل ہے ۔ ممکن ہے کہ ایک دن سے مراد ایک دَور ہو۔ اور ممکن ہے کہ اس سے مراد وقت کی اتنی ہی مقدار ہو جس پر ہم دنیا میں لفظ دن کا اطلاق کرتے ہیں ۔ (مفصل تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، حٰم السجدہ، حواشی 11 تا 15 ) |
Surah 32 : Ayat 4
ٱللَّهُ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِى سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِۖ مَا لَكُم مِّن دُونِهِۦ مِن وَلِىٍّ وَلَا شَفِيعٍۚ أَفَلَا تَتَذَكَّرُونَ
وہ اللہ ہی ہے 1جس نے آسمانوں اور زمین کو اور اُن ساری چیزوں کو جو ان کے درمیان ہیں چھ دنوں میں پیدا کیا اور اس کے بعد عرش پر جلوہ فرما ہوا2، اُس کے سوا نہ تمہارا کوئی حامی و مدد گار ہے اور نہ کوئی اُس کے آگے سفارش کرنے والا، پھر کیا تم ہوش میں نہ آؤ گے؟3
3 | یعنی تمہارا اصل خدا تو خالق زمین و آسمان ہے۔ تم کس خیالِ خام میں مبتلا ہو کہ کائنات کی اس عظیم الشان سلطنت میں اُس کے سوا دوسروں کو کار ساز سمجھ بیٹھے ہو۔ اس پوری کائنات کا اور اس کی ہر چیز کا پیدا کرنے والا اللہ ہے۔ اس کی ذات کے سوا ہر دوسری چیز جو یہاں پائی جاتی ہے، مخلوق ہے۔ اور اللہ اس دُنیا کو بنا دینے کے بعد کہیں جا کر سو بھی نہیں گیا ہے، بلکہ اپنی اِس سلطنت کا تخت نشین اور حاکم و فرما روا بھی وہ آپ ہی ہے۔ پھر تمہاری عقل آخر کہاں چرنے چلے گئی ہے کہ تم مخلوقات میں سے چند ہستیوں کو اپنی قسمتوں کا مالک قرار دے رہے ہو؟ اگر اللہ تمہاری مدد نہ کرے تو ان میں سے کس کی یہ طاقت ہے کہ تمہاری مدد کر سکے؟ اگر اللہ تمہیں پکڑے تو ان میں سے کس کا یہ زور ہے کہ تمہیں چھڑا سکے؟اگر اللہ سفارش نہ سنے تو ان میں سے کون یہ بل بوتا رکھتا ہے کہ اس سے اپنی سفارش منوا لے؟ |
2 | تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم ص ۳۶۔۲۶۱۔۲۶۲۔۴۴۱۔۴۴۲ |
1 | اب مشرکین کے دوسرے اعتراض کو لیا جاتا ہے جو وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوتِ توحید پر کرتے تھے۔ ان کو اس بات پر سخت اعتراض تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم ان کے دیوتاؤں،اور بزرگوں کی معبودیت سے انکار کرتے ہیں اور ہانکے پکارے یہ دعوت دیتے ہیں کہ ایک اللہ کے سوا کوئی معبود کوئی کار ساز، کوئی حاجت روا، کوئی دعائیں سننے والا، اور بگڑی بنانے والا، اور کوئی حاکمِ ذی اختیار نہیں ہے۔ |
Surah 50 : Ayat 38
وَلَقَدْ خَلَقْنَا ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِى سِتَّةِ أَيَّامٍ وَمَا مَسَّنَا مِن لُّغُوبٍ
ہم نے زمین اور آسمانوں کو اور اُن کے درمیان کی ساری چیزوں کو چھ دنوں میں پیدا کر دیا 1اور ہمیں کوئی تکان لاحق نہ ہوئی
1 | تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، تفسیر سورہ حٰم السجدہ، حواشی نمبر 11 تا 15 |
Surah 57 : Ayat 4
هُوَ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضَ فِى سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِۚ يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِى ٱلْأَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنزِلُ مِنَ ٱلسَّمَآءِ وَمَا يَعْرُجُ فِيهَاۖ وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْۚ وَٱللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا اور پھر عرش پر جلوہ فرما ہوا1 اُس کے علم میں ہے جو کچھ زمین میں جاتا ہے اور جو کچھ اس سے نکلتا ہے اور جو کچھ آسمان سے اترتا ہے اور جو کچھ اُس میں چڑھتا ہے2 وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں بھی تم ہو3 جو کام بھی کرتے ہو اسے وہ دیکھ رہا ہے
3 | یعنی کسی جگہ بھی تم اس کے علم، اس کی قدرت، اس کی فرمانروائی اور اس کی تدبیر و انتظام سے باہر نہیں ہو۔ زمین میں ، ہوا میں ، پانی میں ، یا کسی گوشہ تنہائی میں ، جہاں بھی تم ہو، اللہ کو معلوم ہے کہ تم کہاں ہو۔ وہاں تمہاری ہونا بجاۓ خود اس کی علامت ہے کہ اللہ اسی جگہ تمہاری زندگی کا سامان کر رہا ہے ۔ تمہارا دل اگر دھڑک رہا ہے ۔ تمہارے پھیپھڑے اگر سانس لے رہے ہیں ، تمہاری سماعت اور بینائی اگر کام کر رہی ہے تو یہ سب کچھ اسی وجہ سے ہے کہ اللہ کے انتظام سے تمہارے جسم کے سب کُل پرزے چل رہے ہیں ۔ اور اگر کسی جگہ بھی تمہیں موت آتی ہے کہ اللہ تعالٰی کی طرف سے تمہارے بقا کا انتظام ختم کر کے تمہیں واپس بلا لینے کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے |
2 | بالفاظ دیگر وہ محض کلیات ہی کا عالم نہیں ہے بلکہ جزئیات کا علم بھی رکھتا ہے ۔ ایک ایک دانہ جو زمین کی تہوں میں جاتا ہے ، ایک ایک پتی اور کونپل جو زمین سے پھوٹتی ہے ، بارش کا ایک ایک قطرہ جو آسمان سے گرتا ہے ، اور بخارات کی ہر مقدر جو سمندروں اور جھیلوں سے اٹھ کر آسمان کی طرف جاتی ہے ، اس کی نگاہ میں ہے اس کو معلوم ہے کہ کونسا دانہ زمین میں کس جگہ پڑا ہے ، تبھی تو وہ اسے پھاڑ کر اس میں سے کونپل نکالتا ہے اور اسے پرورش کر کے بڑھاتا ہے ۔ اس کو معلوم ہے کہ بخارات کی کتنی کتنی مقدار کہاں کہاں سے اٹھی ہے اور کہاں پہنچی ہے ، تبھی تو وہ ان س کو جمع کر کے بادل بناتا ہے اور زمین کے مختلف حصوں پر بانٹ کر ہر جگہ ایک حساب سے بارش برساتا ہے ۔اسی پر ان دوسری تمام چیزوں کی تفصیلات کو قیاس کیا جا سکتا ہے جو زمین میں جاتی اور اس سے نکلتی ہیں اور آسمان کی طرف چڑھتی اور اس سے نازل ہوتی ہیں ۔ ان سب پر اللہ کا علم حاوی نہ ہو تو ہر چیز کی علیٰحدہ علیٰحدہ تدبیر اور ہر ایک کا انتہائی حکیمانہ طریقہ سے انتظام کیسے ممکن ہے |
1 | یعنی کائنات کا خالق بھی وہی ہے اور فرمانروا بھی وہی (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، الاعراف، حواشی 41۔ 42 یونس، حاشیہ 4۔ الرعد، حواشی 2 تا 5۔ جلد چہارم، حٰم السجدہ، حواشی 11 تا 15) |