Ayats Found (13)
Surah 6 : Ayat 101
بَدِيعُ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضِۖ أَنَّىٰ يَكُونُ لَهُۥ وَلَدٌ وَلَمْ تَكُن لَّهُۥ صَـٰحِبَةٌۖ وَخَلَقَ كُلَّ شَىْءٍۖ وَهُوَ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيمٌ
وہ تو آسمانوں اور زمین کا موجد ہے اس کا کوئی بیٹا کیسے ہوسکتا ہے جبکہ کوئی اس کی شریک زندگی ہی نہیں ہے اس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے اور وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے
Surah 13 : Ayat 16
قُلْ مَن رَّبُّ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضِ قُلِ ٱللَّهُۚ قُلْ أَفَٱتَّخَذْتُم مِّن دُونِهِۦٓ أَوْلِيَآءَ لَا يَمْلِكُونَ لِأَنفُسِهِمْ نَفْعًا وَلَا ضَرًّاۚ قُلْ هَلْ يَسْتَوِى ٱلْأَعْمَىٰ وَٱلْبَصِيرُ أَمْ هَلْ تَسْتَوِى ٱلظُّلُمَـٰتُ وَٱلنُّورُۗ أَمْ جَعَلُواْ لِلَّهِ شُرَكَآءَ خَلَقُواْ كَخَلْقِهِۦ فَتَشَـٰبَهَ ٱلْخَلْقُ عَلَيْهِمْۚ قُلِ ٱللَّهُ خَـٰلِقُ كُلِّ شَىْءٍ وَهُوَ ٱلْوَٲحِدُ ٱلْقَهَّـٰرُ
اِن سے پوچھو، آسمان و زمین کا رب کون ہے؟ کہو، اللہ1 پھر ان سے کہو کہ جب حقیقت یہ ہے تو کیا تم نے اُسے چھوڑ کر ایسے معبودوں کو اپنا کارساز ٹھیرا لیا جو خود اپنے لیے بھی کسی نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتے؟ کہو، کیا اندھا اور آنکھوں والا برابر ہوا کرتا ہے؟2 کیا روشنی اور تاریکیاں یکساں ہوتی ہیں؟ 3اور اگر ایسا نہیں تو کیا اِن ٹھیرائے ہوئے شریکوں نے بھی اللہ کی طرح کچھ پیدا کیا ہے کہ اُس کی وجہ سے اِن پر تخلیق کا معاملہ مشتبہ ہو گیا؟4 کہو، ہر چیز کا خالق صرف اللہ ہے اور وہ یکتا ہے، سب پر غالب!5
5 | اصل میں لفظ قھّار استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں”وہ ہستی جو اپنے زور سے سب پر حکم چلائے اور سب کو مغلوب کر کے رکھے“۔ یہ بات کہ” اللہ ہی ہر چیز کا خالق ہے“، مشرکین کی اپنی تسلیم کردہ حقیقت ہے جس سے انہیں کبھی انکار نہ تھا۔ اور یہ بات کہ”وہ یکتا اور قہار ہے“ ا س تسلیم شدہ حقیقت کا لازمی نتیجہ ہے جس سے انکار کرنا ، پہلی حقیقت کو مان لینے کے بعد ، کسی صاحب عقل کے لیے ممکن نہیں ہے۔ اِس لیے کہ جو ہر چیز کا خالق ہے ، وہ لامحالہ یکتا و یگانہ ہے ، کیونکہ دوسری جو چیز بھی ہے وہ اسی کی مخلوق ہے ، پھر بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی مخلو ق اپنے خالق کی ذات ، یا صفات ، یا اختیارات، یا حقوق میں اس کی شریک ہو؟ اسی طرح وہ لامحالہ قہّار بھی ہے ، کیونکہ مخلوق کا اپنے خالق سے مغلوب ہو کر رہنا عین تصوّرِ مخلوقیت میں شامل ہے ۔ غلبۂ کامل اگر خالق کو حاصل نہ ہو تو وہ خلق ہی کیسے کر سکتا ہے ۔ پس جو شخص اللہ کو خالق مانتا ہے اس کے لیے ان دو خالص عقلی و منطقی نتیجوں سے انکار کرنا ممکن نہیں رہتا، اور اس کے بعد یہ بات سراسر غیر معقول ٹھہرتی ہے کہ کوئی شخص خالق کو چھوڑ کر مخلوق کی بندگی کرے اور غالب کو چھوڑ کر مغلوب کو مشکل کشائی کے لیے پکارے |
4 | اس سوال کا مطلب یہ ہے کہ اگر دنیا میں کچھ چیزیں اللہ تعالیٰ نے پید ا کی ہوتیں اور کچھ دوسروں نے، اور یہ معلوم کرنا مشکل ہوتا کہ خدا کا تخلیقی کام کونسا ہے اور دوسروں کا کونسا، تب تو واقعی شرک کے لیے کوئی معقول بنیاد ہو سکتی تھی۔ لیکن جب یہ مشرکین خود مانتے ہیں کہ ان کے معبودوں میں سے کسی نے ایک تنکا اور ایک بال تک پیدا نہیں کیا ہے، اور جب انہیں خود تسلیم ہے کہ خلق میں ان جعلی خداؤں کا ذرہ برابر بھی کوئی حصہ نہیں ہے ، تو پھر یہ جعلی معبود خالق کے اختیارات اور اس کے حقوق میں آخر کس بنا پر شریک ٹھیرا لیے گئے؟ |
3 | روشنی سے مراد علمِ حق کی وہ روشنی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے متبعین کو حاصل تھی۔ اور تاریکیوں سے مراد جہالت کی وہ تاریکیاں ہیں جن میں منکرین بھٹک رہے تھے۔ سوال کا مطلب یہ ہے کہ جس کو روشنی مل چکی ہے وہ کس طرح اپنی شمع بجھا کر اندھیروں میں ٹھوکریں کھانا قبول کر سکتا ہے؟ تم اگر نُور کے قدر شناس نہیں ہو تو نہ سہی۔ لیکن جس نے اُسے پالیا ہے ، جو نُور و ظلمت کے فرق کو جان چکا ہے، جو دن کے اجالے میں سیدھا راستہ صاف دیکھ رہا ہے، وہ روشنی کو چھوڑ کر تاریکیوں میں بھٹکتے پھرنے کے لیے کیسے آمادہ ہو سکتا ہے؟ |
2 | اندھے سے مراد وہ شخص ہے جس کے آگے کائنات میں ہر طرف اللہ کی وحدانیت کے آثار و شواہد پھیلے ہوئے ہیں مگر وہ اُن میں سے کسی چیز کو بھی نہیں دیکھ رہا ہے ۔ اور آنکھوں والے سے مراد وہ ہے جس کے لیے کائنات کے ذرّے ذرّے اور پتّے پتّے میں معرفتِ کردگار کے دفتر کھلے ہوئے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے اِس سوال کا مطلب یہ ہے کہ عقل کے اندھو ! اگر تمہیں کچھ نہیں سوجھتا تو آخر چشم بینا رکھنے والا اپنی آنکھیں کیسے پھوڑے؟ جو شخص حقیقت کو آشکار دیکھ رہا ہے اس کے لیے کس طرح ممکن ہے کہ وہ تم بے بصیرت لوگوں کی طرح ٹھوکریں کھاتا پھرے؟ |
1 | واضح رہے کہ وہ لوگ خود اس بات کے قائل تھے کہ زمین و آسمان کا رب اللہ ہے ۔ وہ اس سوال کا جواب انکار کی صورت میں نہیں دے سکتے تھے ، کیونکہ یہ انکار خود اُن کے اپنے عقیدے کے خلا ف تھا۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پوچھنے پر وہ اقرار کی صورت میں بھی اس جواب دینے سے کتراتے تھے، کیونکہ اقرار کے بعد توحید کا ماننا لازم آجاتا تھا اور شرک کے لیے کوئی معقول بنیاد با قی نہیں رہتی تھی۔ اس لیے اپنے موقف کی کمزوری محسوس کر کے وہ اس سوال کے جواب میں چپ سادھ جاتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن میں جگہ جگہ اللہ تعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ ان سے پوچھو زمین و آسمان کا خالق کون ہے؟ کائنات کا ربّ کون ہے؟ تم کو رزق دینے والا کون ہے؟ پھر حکم دیتا ہے کہ تم خود کہو کہ اللہ ، اور اِس کے بعد یوں استدلال کرتا ہے کہ جب یہ سارے کام اللہ کے ہیں تو آخر یہ دوسرے کون ہیں جن کی تم بندگی کیے جا رہے ہو؟ |
Surah 15 : Ayat 86
إِنَّ رَبَّكَ هُوَ ٱلْخَلَّـٰقُ ٱلْعَلِيمُ
یقیناً تمہارا رب سب کا خالق ہے اور سب کچھ جانتا ہے1
1 | یعنی خالق ہونے کی حیثیت سے وہ اپنی مخلوق پر کامل غلبہ و تسلط رکھتا ہے ، کسی مخلوق کی یہ طاقت نہیں ہے کہ اس کی گرفت سے بچ سکے ۔ اور اِس کے ساتھ وہ پوری طرح باخبر بھی ہے ، جو کچھ اِن لوگوں کی اصلاح کے لیے تم کر رہے ہو اسے بھی وہ جانتا ہے اور جن ہتھکنڈوں سے یہ تمہاری سعیِ اصلاح کو ناکام کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں اُن کا بھی اسے علم ہے۔ لہٰذا تمہیں گھبرانے اور بے صبر ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ مطمئن رہو کہ وقت آنے پر ٹھیک ٹھیک انصاف کے مطابق فیصلہ چکا دیا جائے گا |
Surah 20 : Ayat 50
قَالَ رَبُّنَا ٱلَّذِىٓ أَعْطَىٰ كُلَّ شَىْءٍ خَلْقَهُۥ ثُمَّ هَدَىٰ
موسیٰؑ نے جواب دیا 1"ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اُس کی ساخت بخشی، پھر اس کو راستہ بتایا2"
2 | یعنی دنیا کی ہر شے جیسی کچھ بھی بنی ہوئی ہے، اسی کے بنانے سے بنی ہے۔ ہر چیز کو جو بناوٹ، جو شکل و صورت، جو قوت و صلاحیت، اور جو صفت و خاصیت حاصل ہے، اسی کے عطیے اور بخشش کی بدولت حاصل ہے۔ ہاتھ کو دنیا میں اپنا کام کرنے کے لیے جس ساخت کی ضرورت تھی وہ اس کو دی، اور پاؤں کو جو مناسب ترین ساخت درکار تھی وہ اس کو بخشی۔ انسان، حیوان، نباتات، جمادات، ہوا، پانی، روشنی، ہر ایک چیز کو اس نے وہ صورت خاص عطا کی ہے جو اسے کائنات میں اپنے حصے کا کام ٹھیک ٹھیک انجام دینے کے لیے مطلوب ہے۔ پھر اس نے ایسا نہیں کیا کہ ہر چیز کو اس کی مخصوص بناوٹ دے کر یونہی چھوڑ دیا ہو۔ بلکہ اس کے بعد وہی ان سب چیزوں کی رہنمائی بھی کرتا ہے۔ دنیا کی کوئی چیز ایسی نہیں ہے جسے اپنی ساخت سے کام لینے اور اپنے مقصد تخلیق کو پورا کرنے کا طریقہ اس نے نہ سکھایا ہو۔ کان کو سننا اور آنکھ کو دیکھنا اسی نے سکھایا ہے۔ مچھلی کو تیرنا اور چڑیا کو اُڑنا اسی کی تعلیم سے آیا ہے۔ درخت کو پھل پھول دینے اور زمین کو نباتات اگانے کی ہدایت اسی نے دی ہے۔ غرض وہ ساری کائنات اور اس کی ہر چیز کا صرف خالق ہی نہیں، ہادی اور معلم بھی ہے۔ اس بے نظیر جامع و مختصر جملے میں حضرت موسیٰ نے صرف یہی نہیں بتایا کہ ان کا رب کون ہے، بلکہ یہ بھی بتا دیا کہ وہ کیوں رب ہے اور کس لیے اس کے سوا کسی اور کو رب نہیں مانا جا سکتا۔ دعوے کے ساتھ اس کی دلیل بھی اسی چھوٹے سے فقرے میں آ گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ جب فرعون اور اس کی رعایا کا ہر فرد اپنے وجود خاص کے لیے اللہ کا ممنون احسن ہے، اور جب ان میں سے کوئی ایک لمحہ کے لیے زندہ تک نہیں رہ سکتا جب تک اس کا دل اور اس کے پھیپھڑے اور اس کا معدہ و جگر اللہ کی دی ہوئی ہدایت سے اپنا کام نہ کیے چلے جائیں، تو فرعون کا یہ دعویٰ کہ وہ لوگوں کا رب ہے، اور لوگوں کا یہ ماننا کہ وہ واقعی ان کا رب ہے، ایک حماقت اور ایک مذاق کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا۔ مزید براں، اسی ذرا سے فقرے میں حضرت موسیٰ نے اشارۃً رسالت کی دلیل بھی پیش کر دی جس کے ماننے سے فرعون کو انکار تھا۔ ان کی دلیل میں یہ اشارہ پایا جاتا ہے کہ خدا جو تمام کائنات کا ہادی ہے، اور جو ہر چیز کو اس کی حالت اور ضرورت کے مطابق ہدایت دے رہا ہے، اس کے عالمگیر منصبِ ہدایت کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ وہ انسان کی شعوری زندگی کے لیے بھی رہنمائی کا انتظام کرے۔ اور انسان کی شعوری زندگی کے لیے رہنمائی کی وہ شکل موزوں نہیں ہو سکتی جو مچھلی اور مرغی کی رہنمائی کے لیے موزوں ہے۔ اس کی موزوں ترین شکل یہ ہے کہ ایک ذی شعور انسان اس کی طرف سے انسانوں کی ہدایت پر مامور ہو اور وہ ان کی عقل و شعور کو اپیل کر کے انہیں سیدھا راستہ بتاۓ۔ |
1 | یعنی ہم ہر معنی میں صرف اس کو رب مانتے ہیں۔ پروردگار، آقا، مالک،حاکم، سب کچھ ہمارے نزدیک وہی ہے۔ کسی معنی میں بھی اس کے سوا کوئی دوسرا رب ہمیں تسلیم نہیں ہے۔ |
Surah 23 : Ayat 14
ثُمَّ خَلَقْنَا ٱلنُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا ٱلْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا ٱلْمُضْغَةَ عِظَـٰمًا فَكَسَوْنَا ٱلْعِظَـٰمَ لَحْمًا ثُمَّ أَنشَأْنَـٰهُ خَلْقًا ءَاخَرَۚ فَتَبَارَكَ ٱللَّهُ أَحْسَنُ ٱلْخَـٰلِقِينَ
پھر اس بوند کو لوتھڑے کی شکل دی، پھر لوتھڑے کو بوٹی بنا دیا، پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں، پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا1، پھر اسے ایک دوسری ہی مخلوق بنا کھڑا کیا2
2 | یعنی کوئی خالی الذہن آدمی بچے کو ماں کے رحم میں پرورش پاتے تدیکھ کر یہ تصور بھی نہیں کر سکتا کہ یہاں وہ انسان تیار ہو رہا ہے جو باہر جا کر عقل اور دانائی اور صنعت کے یہ کچھ کمالات دکھاۓ گا اور ایسی ایسی حیرت انگیز قوتیں اور صلاحیتیں اس سے ظاہر ہوں گی۔ وہاں وہ ہڈیوں اور گوشت پوت کا ایک پلندا سا ہوتا ہے جس میں وضع حمل کے آغاز تک زندگی کی ابتدائی خصوصیات کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ نہ سماعت، نہ بصارت ، نہ گویائی، نہ عقل و خرد، نہ اور کوئی خوبی۔ مگر باہر آ کر وہ چیز ہی کچھ اور بن جاتا ہے جس کو پیٹ والے جنین سے کوئی مناسبت نہیں ہوتی۔ اب وہ ایک سمیع و بصیر اور ناطق وجود ہوتا ہے۔ اب وہ تجربے اور مشاہدے سے علم حاصل کرتا ہے۔ اب اس کے اندر ایک ایسی خودی ابھرنی شروع ہوتی ہے جو بیداری کے پہلے ہی لمحہ سے اپنی دسترس کی ہر چیز پر تحکم جتاتی اور اپنا زور منوانے کی کوشش کرتی ہے۔ پھر وہ جوں جوں بڑھتا جاتا ہے ، اس کی ذات میں یہ ’’چیزے دیگر ‘‘ ہونے کی کیفیت نمایاں تر اور افزوں تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ جوان ہوتا ہے تو بچپن کی بہ نسبت کچھ اور ہوتا ہے۔ ادھیڑ ہوتا ہے تو جوانی کے مقابلے میں کوئی اور چیز ثابت ہوتا ہے۔ بڑھاپے کو پہنچتا ہے تو نئی نسلوں کے لیے یہ اندازہ کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے کہ اس کا بچپن کیا تھا اور جوانی کیسی تھی۔ اتنا بڑا تغیر کم از کم اس دنیا کی کسی دوسری مخلوق میں واقع نہیں ہوتا۔ کوئی شخص ایک طرف کسی پختہ عمر کے انسان کی طاقتیں اور قابلیتیں اور کام دیکھے ، اور دوسری طرف یہ تصور کرے کہ پچاس ساٹھ برس پہلے ایک روز جو بوند ٹپک کر رحم مادر میں گری تھی اس کے اندر یہ کچھ بھرا ہوا تھا، تو بے اختیار اس کی زبان سے وہی بات نکلے گی جو آگے کے فقرے میں آ رہی ہے |
1 | تشریح کے لیے ملاحظہ ہوں سورہ حج کے حواشی 5۔ 6۔9 |
Surah 32 : Ayat 7
ٱلَّذِىٓ أَحْسَنَ كُلَّ شَىْءٍ خَلَقَهُۥۖ وَبَدَأَ خَلْقَ ٱلْإِنسَـٰنِ مِن طِينٍ
جو چیز بھی اس نے بنائی خوب ہی بنائی1 اُ س نے انسان کی تخلیق کی ابتدا گارے سے کی
1 | یعنی اس عظیم الشان کائنات میں اس نے بے حد و حساب چیزیں بنائی ہیں، مگر کوئی ایک چیز بھی ایسی نہیں ہے جو بے ڈھنگی اور بے تُکی ہو۔ ہر شے اپنا ایک الگ حسن رکھتی ہے۔ ہر شے اپنی جگہ متناسب اور موزوں ہے۔ جو چیز جس کام کے لیے بھی اُس نے بنائی ہے اس کے لیے موزوں ترین ہے۔ جو چیز جس کام کے لیے بھی اس نے بنائی ہے اُس کے لیے موزوں ترین شکل پر، مناسب ترین صفات کے ساتھ بنائی ہے۔ دیکھنے کے لیے آنکھ اور سننے کے لیے کان کی ساخت سے زیادہ موزوں کسی ساخت کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا۔ ہوا اور پانی جن مقاصد کے لیے بنائے گئے ہیں ان کے لئے ہوا ٹھیک ویسی ہی ہے جیسی ہونی چاہیے،اور پانی وہی اوصاف رکھتا ہے جیسے ہونے چاہییں۔ تم خدا کی بنائی ہوئی کسی چیز کے نقشے میں کسی کوتاہی کی نشاندہی نہیں کر سکتے ہو۔ |
Surah 35 : Ayat 3
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ ٱذْكُرُواْ نِعْمَتَ ٱللَّهِ عَلَيْكُمْۚ هَلْ مِنْ خَـٰلِقٍ غَيْرُ ٱللَّهِ يَرْزُقُكُم مِّنَ ٱلسَّمَآءِ وَٱلْأَرْضِۚ لَآ إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَۖ فَأَنَّىٰ تُؤْفَكُونَ
لوگو، تم پر اللہ کے جو احسانات ہیں انہیں یاد رکھو1 کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق بھی ہے جو تمہیں آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہو؟ کوئی معبود اُس کے سوا نہیں، آخر تم کہاں سے دھوکا کھا رہے ہو؟2
2 | پہلے فقرے اور دوسرے فقرے کے درمیان ایک لطیف خلا ہے جسے کلام کا موقع و محل خود بھر رہا ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے یہ نقشہ چشم تصور کے سامنے لایئے کہ تقریر مشرکین کے سامنے ہو رہی ہے۔ مقرر حاضرین سے پوچھتا ہے کہ کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق بھی ہے جس نے تم کو پیدا کیا ہو اور جو زمین و آسمان سے تمہاری رزق رسانی کا سامان کررہا ہو؟ یہ سوال اٹھا کر مقرر چند لمحے جواب کا انتظار کرتا ہے۔ مگر دیکھتا ہے کہ سارا مجمع خاموش ہے۔ کوئی نہیں کہتا کہ اللہ کے سوا کوئی اور بھی خالق و رازق ہے۔ اس سے خود بخود یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ حاضرین کو بھی اس امر کا اقرار ہے کہ خالق و رازق اللہ کے سوا کوئی نہیں ہے۔ تب مقرر کہتا ہے کہ معبود بھی پھر اس کے سوا کوئی نہیں ہو سکتا۔ آخر تمہیں یہ دھوکا کہاں سے لگ گیا کہ خالق و رازق تو ہو صرف اللہ، مگر معبود بن جائیں اس کے سوا دوسرے۔ |
1 | یعنی احسان فراموش نہ بنو۔ نمک حرامی نہ اختیار کرو۔ اس حقیقت کو نہ بھول جاؤ کہ تمہیں جو کچھ بھی حاصل ہے اللہ کا دیا ہوا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ فقرہ اس بات پر متنبہ کر رہا ہے کہ جو شخص بھی اللہ کے سوا کسی کی بندگی و پرستش کرتا ہے، یا کسی نعمت کو اللہ کے سوا کسی دوسری ہستی کی عطا بخشش سمجھتا ہے، یا کوی نعمت کے ملنے پر اللہ کے سوا کسی اور کا شکر بجا لاتا ہے، یا کوئی نعمت مانگنے کے لیے اللہ کے سوا کسی اور سے دعا کرتا ہے، وہ بہت بڑا احسان فراموش ہے |
Surah 36 : Ayat 81
أَوَلَيْسَ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضَ بِقَـٰدِرٍ عَلَىٰٓ أَن يَخْلُقَ مِثْلَهُمۚ بَلَىٰ وَهُوَ ٱلْخَلَّـٰقُ ٱلْعَلِيمُ
کیا وہ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اِس پر قادر نہیں ہے کہ اِن جیسوں کو پیدا کر سکے؟ کیوں نہیں، جبکہ وہ ماہر خلاق ہے
Surah 37 : Ayat 125
أَتَدْعُونَ بَعْلاً وَتَذَرُونَ أَحْسَنَ ٱلْخَـٰلِقِينَ
کیا تم بعل کو پکارتے ہو اور احسن الخالقین کو چھوڑ دیتے ہو
Surah 23 : Ayat 62
وَلَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَاۖ وَلَدَيْنَا كِتَـٰبٌ يَنطِقُ بِٱلْحَقِّۚ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ
ہم کسی شخص کو1 اس کی مقدرت سے زیادہ کی تکلیف نہیں دیتے2 اور ہمارے پاس ایک کتاب ہے جو (ہر ایک کا حال) ٹھیک ٹھیک بتا دینے والی ہے3، اور لوگوں پر ظلم بہرحال نہیں کیا جائے گا4
4 | یعنی نہ تو کسی کے ذمے کوئی ایسا الزام تھوپا جائے گا جس کا وہ در حقیقت قصور وار نہ ہو، نہ کسی کی کوئی ایسی نیکی ماری جائے گی جسکے صلے کا وہ فی الواقع مستحق ہو، نہ کسی کو بیجا سزا دی جائے گی اور نہ کسی کو حق کے مطابق بجا انعام سے محروم رکھا جائے گا |
3 | کتاب سے مراد ہے نامہ اعمال جو ہر ایک شخص کا الگ الگ مرتب ہو رہا ہے ، جس میں اس کی ایک ایک بات ، ایک ایک حرکت، حتیٰ کہ خیالات اور ارادوں تک کی ایک ایک حالت ثبت کی جا رہی ہے۔ اسی کے متعلق سورہ کہف میں فرمایا گیا ہے کہ : وَوُضِعَ الْکِتٰبُ فَتَرَی الْمُجْرِمِیْنَ مُشْفِقِیْنَ مِمَّا فِیْہِ وَیَقُولُوْنَ یٰوَیْلَتَناً مَلِ ھٰذا لْکِتٰبِ لَا یُغَا دِرُصَغِیْرَ ۃً وَّلَا کَبِیْرِۃً اِلَّآ اَحْصٰ ھَا ۔ وَوَجَدُوْ امَا عَمِلُوْ ا حَاضِراً ؕطوَلَا یَظُلِمُ رَبُّکَ اَحَداً۔O، ’’ اور نامہ اعمال سامنے رکھ دیا جائے گا، پھر تم دیکھو گے کہ مجرم لوگ اس کے اندراجات سے ڈر رہے ہوں گے اور کہہ رہے ہونگے کہ ہائے ہماری کم بختی ، یہ کیسی کتاب ہے کہ ہماری کوئی چھوٹی یا بڑی حرکت ایسی نہیں رہ گئی جو اس میں درج نہ ہو۔ جو جو کچھ انہوں نے کیا تھا وہ سب اپنے سامنے حاضر پائیں گے ، اور تمہارا رب کسی پر ظلم کرنے والا نہیں ہے ‘‘۔ (آیت 49)۔ بعض لوگوں نے یہاں کتاب سے مراد قرآن لے کر آیت کا مطلب خبط کر دیا ہے |
2 | اس سیاق و سباق میں یہ فقرہ اپنے اندر بڑی گہری معنویت رکھتا ہے جسے اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ پچھلی آیتوں میں بتایا گیا ہے کہ بھلائیاں لوٹنے والے اور سبقت کر کے انہیں پا لینے والے در اصل کون لوگ ہیں اور ان کی صفات کیا ہیں۔ اس مضمون کے بعد فوراً ہی یہ فرمایا کہ ہم کسی کو اس کی مقدرت سے زیادہ کی تکلیف نہیں دیتے ، یہ معنی رکھتا ہے کہ یہ سیرت، یہ اخلاق ور یہ کردار کوئی فوق البشری چیز نہیں ہے۔ تم ہی جیسے گوشت پوست کے انسان اس روش پر چل کر دکھا رہے ہیں۔ لہٰذا تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ تم سے کسی ایسی چیز کا مطالبہ کیا جا رہا ہے جو انسانی مقدرت سے باہر ہے۔ انسان کو تو مقدرت اس رویے کی بھی حاصل ہے جس پر تم چل رہے ہو، اور اس کی بھی حاصل ہے جس پر تمہاری اپنی قوم کے چند اہل ایمان چل رہے ہیں۔ اب فیصلہ جس چیز پر ہے وہ صرف یہ ہے ہ ان دونوں امکانی رویوں میں سے کون کس کا انتخاب کرتا ہے۔ اس انتخاب میں غلطی کر کے اگر آج تم اپنی ساری محنتیں اور کوششیں برائیاں سمیٹنے میں صرف کر دیتے ہو اور بھلائیوں سے محروم رہ جاتے ہو، توکل اپنی اس حماقت کا خمیازہ بھگتنے سے تم کو یہ جھوٹی معذرت نہیں بچا سکے گی کہ بھلائیوں تک پہنچنے کا راستہ ہماری مقدرت سے باہر تھا۔ اس وقت یہ عذر پیش کرو گے تو تم سے پوچھا جاۓ گا کہ اگر یہ راستہ انسانی مقدرت سے باہر تھا تو تم ہی جیسے بہت سے انسان اس پر چلنے میں کیسے کامیاب ہو گۓ |
1 | واضح رہے کہ آیت ۶۱ کا ترجمہ آیات ۵۷ سے پہلے کیا جاچکا ہے یہاں سے آیت ۶۲ کا ترجمہ شروع ہوتا ہے |