Ayats Found (8)
Surah 10 : Ayat 4
إِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًاۖ وَعْدَ ٱللَّهِ حَقًّاۚ إِنَّهُۥ يَبْدَؤُاْ ٱلْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُۥ لِيَجْزِىَ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ بِٱلْقِسْطِۚ وَٱلَّذِينَ كَفَرُواْ لَهُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِيمٍ وَعَذَابٌ أَلِيمُۢ بِمَا كَانُواْ يَكْفُرُونَ
اسی کی طرف تم سب کو پلٹ کر جانا ہے1، یہ اللہ کا پکا وعدہ ہے بے شک پیدائش کی ابتدا وہی کرتا ہے، پھر وہی دوبارہ پیدا کرے گا2، تاکہ جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے ان کو پورے انصاف کے ساتھ جزا دے، اور جنہوں نے کفر کا طریقہ اختیار کیا وہ کھولتا ہوا پانی پییں اور دردناک سزا بھگتیں اُس انکار حق کی پاداش میں جو وہ کرتے رہے3
3 | یہ وہ ضرورت ہے جس کی بنا پراللہ تعالٰی انسان کو دوبارہ پیدا کرے گا۔ اوپر جو دلیل دی گئی ہے وہ یہ بات ثابت کرنے کے لیے کافی تھی کہ خلق کا اعادہ ممکن ہے اور اسے مُستبعَد سمجھنا درست نہیں ہے۔ اب یہ بتایا جا رہا ہے کہ یہ اعادۂ خلق، عقل وانصاف کی روسے ضروری ہے اور یہ ضرورت تخلیقِ ثانیہ کے سوا کسی دوسرے طریقے سے پوری نہیں ہو سکتی۔ خدا کو اپنا واحد رب مان کر جو لوگ صحیح بندگی کا رویہ اختیار کریں وہ اس کے مستحق ہیں کہ انہیں اپنے اس بجا طرزِ عمل کی پوری پوری جزا ملے۔ اور جولو گ حقیقت سے انکار کر کے اس کے خلاف زندگی بسر کریں وہ بھی اس کے مستحق ہیں کہ وہ اپنے اس بےجا طرزِعمل کا برا نتیجہ دیکھیں۔ یہ ضرورت اگر موجودہ دنیوی زندگی میں پوری نہیں ہو رہی ہے (اور ہر شخص جوہٹ دھرم نہیں ہے جانتا ہے کہ نہیں ہو رہی ہے) تو اسے پورا کرنے کے لیے یقینًا دوبارہ زندگی ناگزیر ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ اعراف، حاشیہ نمبر ۳۰ و سورۂ ہود، حاشیہ نمبر ۱۰۵) |
2 | یہ فقرہ دعوے اور دلیل دونوں کا مجموعہ ہے۔ دعویٰ یہ ہے کہ خدا دوبارہ انسان کو پیدا کرے گا اور اس پر دلیل یہ دی گئی ہے کہ اسی نے پہلی مرتبہ انسان کو پیدا کیا۔ جو شخص یہ تسلیم کرتا ہو کہ خدا نے خلق کی ابتدا کی ہے (اوراس سے بجز اُن دہریوں کے جو محض پادریوں کے مذہب سے بھاگنے کے لیے خلقِ بے خالق جیسے احمقانہ نظریے کو اوڑھنے پر آمادہ ہو گئے اورکون انکارکرسکتا ہے) وہ اس بات کو ناممکن یا بعد از فہم قرار نہیں دے سکتا کہ وہی خدا اس خلق کا پھر اعادہ کرے گا۔ |
1 | یہ نبی کی تعلیم کا دوسرا بنیادی اصول ہے۔ اصلِ اوّل یہ تمہارا رب صرف اللہ ہے لہٰذا اسی کی عبادت کرو۔ اوراصلِ دوم یہ کہ تمہیں اس دنیا سے واپس جا کر اپنے رب کو حساب دینا ہے۔ |
Surah 10 : Ayat 34
قُلْ هَلْ مِن شُرَكَآئِكُم مَّن يَبْدَؤُاْ ٱلْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُۥۚ قُلِ ٱللَّهُ يَبْدَؤُاْ ٱلْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُۥۖ فَأَنَّىٰ تُؤْفَكُونَ
اِن سے پُوچھو، تمہارے ٹھیرائے ہوئے شریکوں میں کوئی ہے جو تخلیق کی ابتدا بھی کرتا ہو اور پھر اس کا اعادہ بھی کرے؟ کہو وہ صرف اللہ ہے جو تخلیق کی ابتدا بھی کرتا ہے اور اس کا اعادہ بھی1، پھر تم یہ کس اُلٹی راہ پر چلائے جا رہے ہو؟2
2 | یعنی جب تمہاری ابتدا کا سرا بھی اللہ کے ہاتھ میں ہے اور انتہا کا سرا بھی اسی کے ہاتھ میں، تو خود اپنے خیرخواہ بن کر ذرا سوچو کہ آخر تمہیں یہ کیا باور کرایا جا رہا ہے کہ ان دونوں سروں کے بیچ میں اللہ کے سوا کسی اور کو تمہاری بندگیوں اور نیاز مندیوں کا حق پہنچ گیا ہے۔ |
1 | تخلیق کی ابتدا کے متعلق تو مشرکین مانتے ہی تھے کہ یہ صرف اللہ کا کام ہے، ان کے شریکوں میں سے کسی کا اِس کام میں کوئی حصہ نہیں۔ رہا تخلیق کا اعادہ تو ظاہر ہے کہ جو ابتداءً پیدا کرنے والا ہے وہی اس عملِ پیدائش کا اعادہ بھی کر سکتا ہے، مگر جو ابتداءً ہی پیدا کرنے پر قادر نہ ہو وہ کسطرح اعادۂ پیدائش پر قادر ہو سکتا ہے۔ یہ بات اگرچہ صریحًا ایک معقول بات ہے، اور خود مشرکین کے دل بھی اندر سے اس کی گواہی دیتے تھے کہ بات بالکل ٹھکانے کی ہے، لیکن انہیں اس کا اقرار کرنے میں اس بنا پر تامل تھا کہ اسے مان لینے کے بعد انکار آخرت مشکل ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اوپر کے سوالات پر تو اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ وہ خود کہیں گے کہ یہ کام اللہ کے ہیں، مگر یہاں اس کے بجائے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ارشاد ہوتا ہے کہ تم ڈنکے کی چوٹ پر کہو کہ یہ ابتدائے خلق اور اعادۂ خلق کا کام بھی اللہ ہی کا ہے۔ |
Surah 21 : Ayat 104
يَوْمَ نَطْوِى ٱلسَّمَآءَ كَطَىِّ ٱلسِّجِلِّ لِلْكُتُبِۚ كَمَا بَدَأْنَآ أَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِيدُهُۥۚ وَعْدًا عَلَيْنَآۚ إِنَّا كُنَّا فَـٰعِلِينَ
وہ دن جبکہ آسمان کو ہم یوں لپیٹ کر رکھ دیں گے جیسے طومار میں اوراق لپیٹ دیے جاتے ہیں جس طرح پہلے ہم نے تخلیق کی ابتدا کی تھی اُسی طرح ہم پھر اُس کا اعادہ کریں گے یہ ایک وعدہ ہے ہمارے ذمے، اور یہ کام ہمیں بہرحال کرنا ہے
Surah 27 : Ayat 64
أَمَّن يَبْدَؤُاْ ٱلْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُۥ وَمَن يَرْزُقُكُم مِّنَ ٱلسَّمَآءِ وَٱلْأَرْضِۗ أَءِلَـٰهٌ مَّعَ ٱللَّهِۚ قُلْ هَاتُواْ بُرْهَـٰنَكُمْ إِن كُنتُمْ صَـٰدِقِينَ
اور کون ہے جو خلق کی ابتدا کرتا اور پھر اس کا اعادہ کرتا ہے؟1 اور کون تم کو آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے؟2 کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور خدا بھی (اِن کاموں میں حصہ دار) ہے؟ کہو کہ لاؤ اپنی دلیل اگر تم سچے ہو3
3 | یعنی یا تو اس بات پردلیل لاؤ کہ ان کاموں میں واقعی کوئی اوربھی شریک ہے، یا نہیں تو پھر کسی معقول دلیل سے یہی بات سمجھا دوکہ یہ سارے کام توہوں صرف ایک اللہ کے مگر بندگی وعبادت کا حق پہنچے اُس کے سوا کسی اورکو، یا اس کے ساتھ کسی اور کوبھی۰ |
2 | رزق دینے کامعاملہ بھی اُتنا سادہ نہیں ہے جتنا سرسری طور پران مختصر سے الفاظ کو پڑھ کر کوئی شخص محسوس کرتا ہے۔ اس زمین پر لاکھوں انواع حیوانات کی اور لاکھوں ہی نباتات کی پائی جاتی ہیں جن میں سے ہرایک کے اربوں افراد موجود ہیں، اور ہرایک کی غزائی ضروریات الگ ہیں۔ خالق نے ان میں سےہر نوع کی غزا کا سامان اس کثرت سے اورہرایک کی دست رسی کےاس قدر قریب فراہم کیا ہے کہ کسی نوع کے افراد بھی یہاں غزا پانے سے محروم نہیں رہ جاتے۔ پھر اس انتظام میں زمین اورآسمان کی اتنی مختلف قوتیں مل جل کرکام کرتی ہیں جن کاشمار مشکل ہے۔ گرمی،روشنی، ہوا، پانی اورزمین کے مختلف الاقسام مادوں کے درمیان اگر ٹھیک تناسب کے ساتھ تعاون نہ ہو تو غزا کا ایک زرہ بھی وجود میں نہیں آسکتا ۔ کون شخص تصور کرسکتا ہے کہ یہ حکیمانہ انتظام ایک مدبر کی تدبیر اورسوچے سمجھے منصوبے کے بغیر یونہی اتفاقاََ ہوسکتا تھا؟ اورکون اپنے ہوش وحواس میں رہتے ہوئے یہ خیال کرسکتا ہے کہ اس انتظام میں کسی جن یا فرشتے یاکسی بزرگ کی روح کا کوئی دخل ہے؟ |
1 | یہ سادہ سی بات جس کوایک جملے میں بیان کردیا گیا ہے اپنے ایسی تفصیلات رکھتی ہے کہ آدمی ان کی گہرائی میں جتنی دور تک اُترتاجاتا ہے اتنے ہی وجودِالٰہ اوروحدتِ الٰہ کے شواہدا سےملتے چلے جاتے ہیں۔ پہلے تو بجائے خود تخلیق ہی کودیکھیے۔ انسان کاعلم آج تک یہ راز نہیں پاسکا ہے کہ زندگی کیسے اورکہاں سے آتی ہے۔اس وقت تک مسلم سائنٹفک حقیقت یہی ہے کہ بےجان مادے کی محض ترکیب سے خود بخود پیدانہیں ہوسکتی۔ حیات کی پیدائش کےلیے جتنے عوامل درکار ہیں ان سب کاٹھیک تناسب کے ساتھ اتفاقاََ جمع ہوکر زندگی کاآپ سے آپ وجود میں آجانا دہریوں کا ایک غیر علمی مفروضہ تو ضرور ہے، لیکن اگر ریاضی کے قانون بخت واتفاق(Law of chance) کع اس پر منطبق کیا جائے تو اس کے وقوع کا امکان صفر سےزیادہ نہیں نکلتا۔ اب تک تجربی طریقے پر سائنس کے معمولی (Labo ratories) میں بےجان مادّے سے جاندار مادّ پیدا کرنے کی جتنی کوششیں بھی کی گئی ہیں، تمام ممکن تدابیراستعمال کرنے کے باوجود وہ سب قطعی ناکام ہوچکی ہیں۔ زیادہ سےزیادہ جو چیز پیدا کی جاسکی ہے وہ صرف وہ مادّہ ہے جسے اصطلاحی میں(D.N.A) کہا جاتا ہے۔ یہ وہ مادہ ہے جوزندہ خلیوں میں پایا جاتا ہے۔ یہ جو ہر حیات تو ضرور ہے مگر خود جاندار نہیں ہے۔ زندگی اب بھی بجائے خود ایک معجزہ ہی ہے جس کی کوئی علمی توجیہ اس کے سوا نہیں کی جاسکی ہے کہ یہ ایک خالق کے امروارادہ اورمنصوبے کانتیجہ ہے۔ اس کے ّآگے دیکھیے ۔ زندگی محض ایک مجرد صورت میں نہیں بلکہ بےشمار متنوع صورتوں میں پائی جاتی ہے۔ اس وقت روئے زمین پرحیوانات کی تقریبََا ۱۰ لاکھ اورنباتات کی تقریبادولاکھ انواع کا پتہ چلا ہے۔ یہ لکھوکھا انواع اپنی ساخت اورنوعی خصوصیات میں ایک دوسرے سے ایسا واضح اورقطعی امتیاز رکھتی ہیں ، اورقدیم ترین معلوم زمانے سےاپنی اپنی صورت نوعیہ کو اس طرح مسلسل برقرار رکھتی چلی آرہی ہیں کہ ایک خدا کے تخلیق منصوبے(Design) کے سوا زندگی کے اس عظیم تنوع کی کوئی اورمعقول توجیہ کردنیا کسی ڈارون کے بس کی بات نہیں ہے۔ آج تک کہیں بھی دونوں کےدرمیان کی کوئی ایک کڑی بھی نہیں مل سکی ہے جوایک نوع کی ساخت اورخصوصیات کا ڈھانچہ توڑ کر نکل آئی ہواور ابھی دوسری نوع کی ساخت اورخصوصیات تک پہنچنے کےلیے ہاتھ پاؤں ماررہی ہو۔ متحجرات(Fossils) کا پورا ریکارڈ اس کی نظیر سے خالی ہے اور موجودہ حیوانات میں بھی یہ خنثیٰ مشکل کہیں نہیں ملا ہے۔ آج تک کسی نوع کا جو فرد بھی ملا ہے، اپنی پوری صورتِ نوعیہ کے ساتھ ہی ملا ہے ، اور ہر وہ افسانہ جو کسی مفقود کڑی کے بہم پہنچ جانےکا وقتاََ فوقتاََ سنادیا جاتا ہے، تھوڑی مدت بعد حقائق اس کی ساری پھونک نکال دیتے ہیں۔ اس وقت تک یہ حقیقت اپنی جگہ بالکل اٹل ہے کہ ایک صانع حکیم، ایک خالق الباری المصورہی نے زندگی کویہ لاکھوں متنوع صورتیں عطا کی ہیں یہ توابتدائے خلق کا معاملہ۔ اعادہ خلق پر غور کیجیے۔ خالق نے ہرنوع حیوانی اورنباتی کی ساخت وترکیب میں وہ حیرت انگیز نظام العمل (Mechanism) رکھ دیا ہے جواس کے بے شمار افراد مین سے ب حدوحساب نسل ٹھیک اسی کی صورت نوعیہ اورمزاج وخصوصیات کے ساتھ نکالتا چلاجاتا ہے اور کبھی جھوٹوں بھی ان کروڑ ہاکروڑ چھوٹے چھوٹے کارخانوں میں یہ بھول چوک نہیں ہوتی کہ ایک نوع کا کوئی کارخانہء تناسُل کسی دوسری نوع کا ایک نمونہ نکال کرپھینک دے۔ جدید علم تناسُل (Genetics) کے مشاہدات اس معاملے میں حیرت انگیز حقائق پیش کرتے ہیں۔ ہرپودے یہ صلاحیت رکھی گئی ہے کہ اپنی نوع کا سلسلہ آگے کی نسلوں تک جاری رکھنے کا ایسا مکمل انتظام کرے جس سے آنے والی نسل اس کی نوع کی تمام امتیازی خصوصیات کی حامل ہواوراس کا ہر فرد دوسری تمام انواع کے افرادسے اپنی صورت نوعیہ میںممیز ہو۔ یہ بقائے نوع اورتناسُل کا سامان ہرپودے کے ایک خلیے (Cell) کے ایک حصہ میں ہوتا ہے جسے مشکل انتہائی طاقت ور خورد بین سے دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ چھوٹا سا انجینیر پوری صحت کے ساتھ پودے کے سارے نشونما کو حتماََ اُسی راستے پرڈالتا ہے جو اس کی اپنی صورت نوعیہ کا راستہ ہے۔ اسی کی بدولت گیہوں کے ایک دانہ سے آج تک جتنے پودے بھی دنیا میں کہیں پیدا ہوئے ہیں انہوں نے کیہوں ہی پیدا کیا ہے، کسی آب وہوا اورکسی ماحول میں یہ حادثہ کبھی رونما نہیں ہوا کہ دانہء گندم کی نسل سے کوئی ایک ہی دانہء جو پیدا ہوجاتا۔ ایسا ہی معاملہ حیوانات اورانسان کا بھی ہے کہ ان میں سے کسی کہ تخلیق بھی بس ایک دفعہ ہو کر نہیں رہ گئی ہے بلکہ ناقابل تصور وسیع پیمانے پر ہرطرف اعادہ خلق کا ایک عظیم کارخانہ چل رہا ہے جو ہرنوع کے افراد سے پہیم اُسی نو کے بے شمار افراد وجود میں لاتا جارہا ہے۔ اگر کوئی شخص تو الدُد تناسُل کے اُس خوردبینی تخم کودیکھے جوتمام نوعی امتیازات اورموروثی خصوصیات کو اپنے زراسے وجود کے بھی محض ایک حصے میں لیے ہوئے ہوتا ہے، اورپھر اس انتہائی نازک اورپیچیدہ عضوی نظام اوربے انتہا لطیف و پر پیچ عملیات(Progresses) کودیکھیے جن کی مدد سے ہرنوع کے ہر فرد کاتخم تناسُل اُسی نوع کا فرد وجود میں لاتا ہے، تو وہ ایک لمحہ کےلیے بھی یہ تصور نہیں کرسکتا کہ ایسا نازک اورپیچیدہ نظام العمل کبھی خود بخود بن سکتا ہے اور پھر مختلف انواع کے اربوں ملین افراد میں آپ سے آپ ٹھیک چلتا بھی رہ سکتا ہے۔ یہ چیز نہ صرف اپنی ابتداکےلیے ایک صانع حکیم چاہتی ہے، بلکہ ہرآن اپنے درست طریقہ پرچلتے رہنے کےلیے بھی ایک ناظم ع مدبر اورایک حی وقیوم کی طالب ہے جو ایک لحظہ کے لیے بھی ان کارخانوں کی نگرانی ورہنمائی سے غافال نہ ہو۔ یہ حقائق ایک دہریے کے انکار خدا کی بھی اسی طرح جڑکاٹ دیتے ہیں جس طرح ایک مشرک کے شرک کی ۔ کون احمق یہ گمان کر سکتا ہے کہ خدائی کے اس کام میں کوئی فرشتہ یا جن یا نبی یا ولی زرہ برابر بھی کوئی حصہ رکھتا ہے۔ اورکون صاحب عقل آدمی تعصب سے پاک ہوکریہ کہہ سکتا ہے کہ یہ سارا کارخانہ خلق واعادہ خلق اس کمال حکمت و نظم کے ساتھ اتفاقاََ شروع ہوااور آپ سے آپ چلے جارہاہے |
Surah 29 : Ayat 19
أَوَلَمْ يَرَوْاْ كَيْفَ يُبْدِئُ ٱللَّهُ ٱلْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُۥٓۚ إِنَّ ذَٲلِكَ عَلَى ٱللَّهِ يَسِيرٌ
کیا1 اِن لوگوں نے کبھی دیکھا ہی نہیں ہے کہ اللہ کس طرح خلق کی ابتدا کرتا ہے، پھر اُس کا اعادہ کرتا ہے؟ یقیناً یہ (اعادہ تو) اللہ کے لیے آسان تر ہے2
2 | یعنی ایک طرف بے شمار اشیاء عدم سے وجود میں آتی ہیں اور دوسری طرف ہر نوع کے افراد کے منٹے کے ساتھ پھرویسے ہی افراد وجود میں آتے چلے جاتے ہیں۔ مشرکین اس بات کو مانتے تھے کہ یہ سب کچھ اللہ کی صفت خلق وایجا کا نتیجہ ہے۔ انہیں اللہ کے خالق ہونے سے انکار نہ تھا۔ جس طرح آج کے مشرکین کو نہیں ہے۔ اس لیے ان کی اپنی مانی ہوئی بات پر یہ دلیل قائم کی گئی ہے کہ جو خدا تمہارے نزدیک اشیا کو عدم سے وجود میں لاتا ہے، اور پھر ایک یہ دفعہ تخلیق کر کے نہیں رہ جاتا بلکہ تمہاری آنکھوں کے سامنے مٹ جانے واکی اشیاء کی جگہ پھر ویسی ہی اشیاء پے در پے عجود میں لاتا چلا جاتا ہے، اس کے بارے میں آخر تم نے یہ کیوں سمجھ رکھا ہے کہ تمہارے مر جانے کے بعد وہ پھر تمہیں دوبارہ زندہ کرکے اٹھا نہیں کرسکتا (مزید تشریح کے لیے ملاحظۃ ہو سورہ نمل حاشیہ نمبر ۸۰) |
1 | یہاں سے لَھُم عَذَابُ الیِم (ان کے لیے درد ناک سزا ہے) تک ایک جملہ معرتضہ جو حضرت ابراہیمؑ کے قصے کا سلسلہ توڑ کر اللہ تعالی نے کفار مکہ کو خطاب کرکے ارشاد فرمایا ہے۔ اس اعتراضی تقریر کی بناسبت یہ ہے کہ کفار مکہ جنہیں سبق دینے کے لیے یہ قصہ سنایا جا رہا ہے، دو بنیادی گمراہیوں میں متبلا تھے۔ ایک شرک و بت پرستی۔ دوسرے انکار آخرت۔ ان میں سے پہلی گمراہی کا رد حضرت ابراہیم ؑ کی اس تقریر میں آچکا ہے جو اوپر نقل کی گئی ہے۔ اب دوسری گمراہہی کے رد میں یہ فقرے اللہ تعالی اپنی طرف سے ارشاد فرما رہا ہے تاکہ دونوں کی تردید ایک ہی سلسہ کلام میں ہو جائے |
Surah 29 : Ayat 20
قُلْ سِيرُواْ فِى ٱلْأَرْضِ فَٱنظُرُواْ كَيْفَ بَدَأَ ٱلْخَلْقَۚ ثُمَّ ٱللَّهُ يُنشِئُ ٱلنَّشْأَةَ ٱلْأَخِرَةَۚ إِنَّ ٱللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ
ان سے کہو کہ زمین میں چلو پھرو اور دیکھو کہ اُس نے کس طرح خلق کی ابتدا کی ہے، پھر اللہ بار دیگر بھی زندگی بخشے گا یقیناً اللہ ہر چیز پر قادر ہے1
1 | یعنی جب خدا کی کاریگری سے بار اول کی تخلیق کا تم خود مشاہدہ کر رہے ہو تو تمہیں سمجھنا چاہیے کہ اسی خدا کی کاریگری سے بارد دیگر بھی تخلیق ہوگی۔ ایسا کرنا اس کی قدرت سے باہر نہیں ہے اور نہ ہو سکتا ہے |
Surah 30 : Ayat 11
ٱللَّهُ يَبْدَؤُاْ ٱلْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُۥ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ
اللہ ہی خلق کی ابتدا کرتا ہے، پھر وہی اس کا اعادہ کرے گا1، پھر اسی کی طرف تم پلٹائے جاؤ گے
1 | یہ بات اگرچہ دعوے کے انداز میں بیان فرمائی گئی ہے مگراس میں خود دلیلِ دعوٰی بھی موجود ہے۔صریح عقل اس بات پرشہادت دیتی ہے کہ جس کے لیے خلق کی ابتدا کرنا ممکن ہواس کے لیے اسی خلق کا اعادہ کرنا بدرجہ اولٰی ممکن ہے۔خلق کی ابتدا تو ایک امرواقعہ ہے جو سب کے سامنے موجود ہے۔اور کفارومشرکین بھی مانتے ہیں کہ یہ اللہ تعالٰی ہی کا فعل ہے۔اس کے بعد ان کا یہ خیال کرنا سراسر نامعقول بات ہے کہ وہی خدا جس نے اس خلق کی ابتدا کی ہے،اس کا اعادہ نہیں کرسکتا۔ |
Surah 30 : Ayat 27
وَهُوَ ٱلَّذِى يَبْدَؤُاْ ٱلْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُۥ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِۚ وَلَهُ ٱلْمَثَلُ ٱلْأَعْلَىٰ فِى ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضِۚ وَهُوَ ٱلْعَزِيزُ ٱلْحَكِيمُ
وہی ہے جو تخلیق کی ابتدا کرتا ہے، پھر وہی اس کا اعادہ کرے گا اور یہ اس کے لیے آسان تر ہے1 آسمانوں اور زمین میں اس کی صفت سب سے برتر ہے اور وہ زبردست اور حکیم ہے
1 | یعنی پہلی مرتبہ پیداکرنااگراُس کے لیے مشکل نہ تھا،توآخرتم نے یہ کیسے سمجھ لیا کہ دوبارہ پیداکرنااس کے لیے مشکل ہوجائے گا؟پہلی مرتبہ کی پیدائش میں تو تم خود جیتےجاگتےموجود ہو۔اس لیے اس کامشکل نہ ہوناتو ظاہرہے۔اب یہ بالکل سیدھی سادھی عقل کی بات ہے کہ ایک دفعہ جس نے کسی چیز کو بنایاہواس کے لیے وہی چیزدوبارہ بنانانسبتًہ زیادہ ہی آسان ہوناچاہیے۔ |