Ayats Found (6)
Surah 3 : Ayat 47
قَالَتْ رَبِّ أَنَّىٰ يَكُونُ لِى وَلَدٌ وَلَمْ يَمْسَسْنِى بَشَرٌۖ قَالَ كَذَٲلِكِ ٱللَّهُ يَخْلُقُ مَا يَشَآءُۚ إِذَا قَضَىٰٓ أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُۥ كُن فَيَكُونُ
یہ سن کر مریمؑ بولی، 1"پروردگار! میرے ہاں بچہ کہاں سے ہوگا، مجھے تو کسی شخص نے ہاتھ تک نہیں لگایا" جواب ملا، "ایسا ہی ہوگا، اللہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے وہ جب کسی کام کے کرنے کا فیصلہ فرماتا ہے تو بس کہتا ہے کہ ہو جا اور وہ ہو جاتا ہے"
1 | یعنی باوجود اس کے کہ کسی مرد نے تجھے ہاتھ نہیں لگایا ، تیرے ہاں بچّہ پیدا ہو گا۔ یہی لفظ کَذٰلِکَ (ایسا ہی ہو گا) حضرت زکریّا کے جواب میں بھی کہا گیا تھا۔ اس کا جو مفہُوم وہاں ہے وہی یہاں بھی ہونا چاہیے۔ نیز بعد کا فقرہ بلکہ پچھلا اور اگلا سارا بیان اِسی معنی کی تائید کر تا ہے کہ حضرت مریم ؑ کو صِنفی مواصلت کے بغیر بچہ پیدا ہونے کی بشارت دی گئی تھی اور فی الواقع اِسی صورت سے حضرت عیسیٰ ؑ کی پیدائش ہوئی۔ ورنہ اگر بات یہی تھی کہ حضرت مریم ؑ کے ہاں اُسی معروف فطری طریقہ سے بچہ پیدا ہونے والا تھا جس طرح دنیا میں عورتوں کے ہاں ہوا کرتا ہے ، اور اگر حضرت عیٰسی کی پیدائش فی الواقع اُسی طرح ہوئی ہوتی تو یہ سارا بیان قطعی مہمل ٹھیرتا ہے جو چوتھے رکوع سے چھٹے رکوع تک چلا جا رہا ہے، اور وہ تمام بیانات بھی بے معنی قرار پاتے ہیں جو ولادتِ مسیح ؑ کے باب میں قرآن کے دُوسرے مقامات پر ہمیں ملتے ہیں۔ عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ ؑ کو الٰہ اور ابن اللہ اسی وجہ سے سمجھا تھا کہ ان کی پیدائش غیر فطری طور پر بغیر باپ کے ہوئی تھی، اور یہُودیوں نے حضرت مریم ؑ پر الزام بھی اسی وجہ سے لگایا کہ سب کے سامنے یہ واقعہ پیش آیا تھا کہ ایک لڑکی غیر شادی شدہ تھی اور اس کے ہاں بچہ پیدا ہوا۔ اگر یہ سرے سے واقعہ ہی نہ تھا تب ان دونوں گروہوں کے خیالات کی تردید میں بس اتنا کہہ دینا بالکل کافی تھا کہ تم لوگ غلط کہتے ہو، وہ لڑکی شادی شدہ تھی ، فلاں شخص اس کا شوہر تھا، اور اسی کی نطفے سے عیسیٰ ؑ پیدا ہوئے تھے۔ یہ مختصر سی دو ٹوک بات کہنے کے بجائے آخر اتنی لمبی تمہید اُٹھانے اور پیچ در پیچ باتیں کرنے اور صاف صاف مسیح بن فلاں کہنے کے بجائے مسیح بن مریم کہنے کی آخر کیا ضرورت تھی جس سے بات سلجھنے کے بجائے اور اُلجھ جائے۔ پس جو لوگ قرآن کو کلام اللہ مانتے ہیں اور پھر مسیح علیہ السّلام کے متعلق یہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کی ولادت حسبِ معمُول باپ اور ماں کے اتصال سے ہوئی تھی وہ دراصل ثابت یہ کرتے ہیں کہ اللہ تعالٰی اظہار ما فی الضمیر اور بیانِ مدّعا کی اُتنی قدرت بھی نہیں رکھتا جتنی خود یہ حضرات رکھتے ہیں (معاذاللہ) |
Surah 5 : Ayat 7
وَٱذْكُرُواْ نِعْمَةَ ٱللَّهِ عَلَيْكُمْ وَمِيثَـٰقَهُ ٱلَّذِى وَاثَقَكُم بِهِۦٓ إِذْ قُلْتُمْ سَمِعْنَا وَأَطَعْنَاۖ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَۚ إِنَّ ٱللَّهَ عَلِيمُۢ بِذَاتِ ٱلصُّدُورِ
اللہ نے تم کو جو نعمت عطا کی ہے1 اس کا خیال رکھو اور اُس پختہ عہد و پیمان کو نہ بھولو جو اُس نے تم سے لیا ہے، یعنی تمہارا یہ قول کہ، "ہم نے سنا اور اطاعت قبول کی" اللہ سے ڈرو، اللہ دلوں کے راز تک جانتا ہے
1 | یعنی یہ نعمت کہ زندگی کی شاہ راہِ مستقیم تمہارے لیے روشن کر دی اور دُنیا کی ہدایت و رہنمائی کی منصب پر تمہیں سرفراز کیا |
Surah 42 : Ayat 49
لِّلَّهِ مُلْكُ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضِۚ يَخْلُقُ مَا يَشَآءُۚ يَهَبُ لِمَن يَشَآءُ إِنَـٰثًا وَيَهَبُ لِمَن يَشَآءُ ٱلذُّكُورَ
اللہ زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے1، جو کچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، جسے چاہتا ہے لڑکیاں دیتا ہے، جسے چاہتا ہے لڑکے دیتا ہے
1 | یعنی کفر و شرک کی حماقت میں جو لوگ مبتلا ہیں وہ اگر سمجھانے سے نہیں مانتے تو نہ مانیں ، حقیقت اپنی جگہ حقیقت ہے۔ زمین و آسمان کی بادشاہی دنیا کے نام نہاد بادشاہوں اور جباروں اور سرداروں کے حوالے نہیں کر دی گئی ہے ، نہ کسی نبی یا ولی یا دیوی اور دیوتا کا اس میں کوئی حصہ ہے ، بلکہ اس کا مالک اکیلا اللہ تعالیٰ ہے۔ اس سے بغاوت کرنے والا نہ اپنے بل بوتے پر جیت سکتا ہے ، نہ ان ہستیوں میں سے کوئی آ کر اسے بچا سکتی ہے جنہیں لوگوں نے اپنی حماقت سے خدائی اختیارات کا مالک سمجھ رکھا ہے |
Surah 28 : Ayat 68
وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَآءُ وَيَخْتَارُۗ مَا كَانَ لَهُمُ ٱلْخِيَرَةُۚ سُبْحَـٰنَ ٱللَّهِ وَتَعَـٰلَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ
تیرا رب پیدا کرتا ہے جو کچھ چاہتا ہے اور (وہ خود ہی اپنے کام کے لیے جسے چاہتا ہے) منتخب کر لیتا ہے، یہ انتخاب اِن لوگوں کے کرنے کا کام نہیں ہے1، اللہ پاک ہے اور بہت بالاتر ہے اُس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں
1 | یہ ارشاد دراصل شرک کی تردید میں ہے۔ مشرکین نے اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میںسے جوبےشمار معبود اپنے لیےبنالیےہیں، اوران کو اپنی اوصاف، مراتب اورمناصب سونپ رکھے ہیں، اس پراعتراض کرتےہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہےکہ اپنے پیدا کیے ہوئے انسانوں،فرشتوں، جنوں اوردوسرے بندوں میں سے ہم خود جس کوجیسے چاہتے ہیں اوصاف، صلاحیتیں اورطاقتیں بخشے ہیں اورجوکام جس سے لینا چاہتے ہیں، لیتے ہیں۔یہ اختیارات آخر ان مشرکین کوکیسے اورکہاں سے مل گئے کہ میرے بندوں میںسے جس کوچاہیں مشکل کشاجسے چاہیں گنج بخش اورجسے چاہیں فریادرس قراردےلیں؟ جسے چاہیں بارش برسابے کامختار، جسے چاہیں روزگار یااولاد بخشنے والا،جسے چاہیں بیماری وصحت کامالک بنادیں؟ جسے چاہیں میری خدائی کے کسی حصے کافرماں رواٹھیرالیں؟ اورمیرے اختیارات میںسے جوکچھ جس کوچاہیں سونپ دیں؟ کوئی فرشتہ ہویاجن یانبی یاولی، بہرحال جوبھی ہے ہماراپیدا کیاہوا ہے۔ جوکمالات بھی کسی کوملے ہیں ہماری عطا وبخش سےملے ہیں۔ اورجوخدمات بھی ہم نے جس سے لینی چاہی ہے لی ہے۔اس برگزیدگی کے یہ معنی کیسے ہوگئے کہ یہ بندے بندگی کے مقامات سے اٹھا کرخدائی کےمرتبے پرپہنچادیے جائیں اورخدا کوچھوڑ کران کے آگے سرنیازجھکادیاجائے، ان کومدد کےلیے پکارا جانے لگے، ان سے حاجتیں طلب کی جانے لگیں، انہیں قسمتوں کابنانے اوربگاڑنے والا سمجھ لیاجائے، اورانہیں خدائی صفات واختیارات کاحامل قراردے دیاجائے؟ |
Surah 30 : Ayat 54
۞ ٱللَّهُ ٱلَّذِى خَلَقَكُم مِّن ضَعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنۢ بَعْدِ ضَعْفٍ قُوَّةً ثُمَّ جَعَلَ مِنۢ بَعْدِ قُوَّةٍ ضَعْفًا وَشَيْبَةًۚ يَخْلُقُ مَا يَشَآءُۖ وَهُوَ ٱلْعَلِيمُ ٱلْقَدِيرُ
اللہ ہی تو ہے جس نے ضعف کی حالت میں تمہاری پیدائش کی ابتدا کی، پھر اس ضعف کے بعد تمہیں قوت بخشی، پھر اس قوت کے بعد تمہیں ضعیف اور بوڑھا کر دیا وہ جو کچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے1 اور وہ سب کچھ جاننے والا، ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے
1 | یعنی بچپن،جوانی اوربڑھاپا،یہ ساری حالتیں اسی کی پیداکردہ ہیں۔یہ اسی کی مشیت پرموقوف ہے کہ جسے چاہےکمزورپیداکرےاورجس کوچاہےطاقت وربنائے،جسےچاہے بچپن سے جوانی تک نہ پہنچنےدےاورجس کوچاہےجوان مرگ کردے،جسےچاہے لمبی عمردےکربھی تندرست وتوانارکھے اورجس کو چاہےشاندار جوانی کےبعد بڑھاپے میں اس طرح ایڑیاں رگڑوائےکہ دنیااسے دیکھ کرعبرت کرنے لگے۔انسان اپنی جگہ جس گھمنڈ میں چاہے مبتلا ہوتارہےمگرخداکےقبضہٴ قدرت میں وہ اِس طرح بے بس ہے کہ جوحالت بھی خدااس پرطاری کردےاسے وہ اپنی کسی تدبیرسےنہیں بدل سکتا۔ |
Surah 35 : Ayat 1
ٱلْحَمْدُ لِلَّهِ فَاطِرِ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضِ جَاعِلِ ٱلْمَلَـٰٓئِكَةِ رُسُلاً أُوْلِىٓ أَجْنِحَةٍ مَّثْنَىٰ وَثُلَـٰثَ وَرُبَـٰعَۚ يَزِيدُ فِى ٱلْخَلْقِ مَا يَشَآءُۚ إِنَّ ٱللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ
تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جو آسمانوں اور زمین کا بنانے والا اور فرشتوں کو پیغام رساں مقرر کر نے والا ہے1، (ایسے فرشتے) جن کے دو دو اور تین تین اور چار چار بازو ہیں2 وہ اپنی مخلوق کی ساخت میں جیسا چاہتا ہے اضافہ کرتا ہے3 یقیناً اللہ ہر چیز پر قادر ہے
3 | ان الفاظ سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ فرشتوں کی بازوؤں کی انتہائی تعداد چار ہی تک محدود نہیں ہے بلکہ اللہ تعالٰی نے بعض فرشتوں کو اس سے بھی زیادہ بازو عطا فرمائے ہیں۔ حدیث حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے جبریل علیہ السلام کو ایک مرتبہ اس شکل میں دیکھا کہ ان کے چھ سو بازو تھے (بخاری۔مسلم۔ ترمذی)۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ حضور نے جبریل کو دو مرتبہ ان کی اصلی شکل میں دیکھا ہے، ان کے چھ سو بازو تھے اُفق پر چھائے ہوئے تھے، (ترمذی)۔ |
2 | ہمارے پاس یہ جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ ان فرشتوں کے بازوؤں اور پروں کی کیفیت کیا ہے۔ مگر جب اللہ تعالٰی نے اس کیفیت کو بیان کرنے کے لیے دوسرے الفاظ کے بجائے وہ لفظ استعمال فرمایا ہے جو انسانی زبان میں پرندوں کے بازوؤں کے لیے استعمال ہوتا ہے تو یہ تصور ضرور کیا جا سکتا ہے کہ ہماری زبان کا یہی لفظ اصل کیفیت سے قریب تر ہے۔ دو دو اور تین تین اور چار چار بازوؤں کے ذکر سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مختلف فرشتوں کو اللہ تعالٰی نے مختلف درجہ کی طاقتیں عطا فرمائی ہیں اور جس سے جیسی خدمت یعنی مطلوب ہے اس کو ویسی ہی زبردست سرعتِ رفتار اور قوت کار سے آراستہ فرمایا گیا ہے۔ |
1 | اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ فرشتے اللہ تعالٰی اور اس کے انبیاء علیہم السلام کے درمیان پیغام رسانی کی خدمت انجام دیتے ہیں، اور یہ بھی کہ تمام کائنات میں اللہ جل شانہ کے احکام لے جانا اور ان کو نافذ کرنا انہی فرشتوں کا کام ہے۔ ذکر کا مقصود یہ حقیقت ذہن نشین کرنا ہے کہ فرشتے جن کو مشرکین دیوی اور دیوتا بنائے بیٹھے ہیں، ان کی حیثیت اللہ وحدہٗ لا شریک کے فرماں بردار خادموں سے زائد کچھ نہیں ہے۔ جس طرح کسی بادشاہ کے خدام اس کے احکام کی تعمیل کے لیے دوڑے پھرتے ہیں اسے طرح یہ فرشتے کائنات کے فرمانروائے حقیقی کی خدمت بجا لانے کے لیے اُڑے پھرتے ہیں۔ ان خادموں کے اختیار میں کچھ نہیں ہے۔ سارے اختیارات اصل فرمانروا کے ہاتھ میں ہیں۔ |