Ayats Found (1)
Surah 33 : Ayat 53
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا تَدْخُلُواْ بُيُوتَ ٱلنَّبِىِّ إِلَّآ أَن يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَىٰ طَعَامٍ غَيْرَ نَـٰظِرِينَ إِنَـٰهُ وَلَـٰكِنْ إِذَا دُعِيتُمْ فَٱدْخُلُواْ فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَٱنتَشِرُواْ وَلَا مُسْتَــْٔنِسِينَ لِحَدِيثٍۚ إِنَّ ذَٲلِكُمْ كَانَ يُؤْذِى ٱلنَّبِىَّ فَيَسْتَحْىِۦ مِنكُمْۖ وَٱللَّهُ لَا يَسْتَحْىِۦ مِنَ ٱلْحَقِّۚ وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَـٰعًا فَسْــَٔلُوهُنَّ مِن وَرَآءِ حِجَابٍۚ ذَٲلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّۚ وَمَا كَانَ لَكُمْ أَن تُؤْذُواْ رَسُولَ ٱللَّهِ وَلَآ أَن تَنكِحُوٓاْ أَزْوَٲجَهُۥ مِنۢ بَعْدِهِۦٓ أَبَدًاۚ إِنَّ ذَٲلِكُمْ كَانَ عِندَ ٱللَّهِ عَظِيمًا
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، نبیؐ کے گھروں میں بلا اجازت نہ چلے آیا کرو1 نہ کھانے کا وقت تاکتے رہو ہاں اگر تمہیں کھانے پر بلایا جائے تو ضرور آؤ2 مگر جب کھانا کھالو تو منتشر ہو جاؤ، باتیں کرنے میں نہ لگے رہو3 تمہاری یہ حرکتیں نبیؐ کو تکلیف دیتی ہیں، مگر وہ شرم کی وجہ سے کچھ نہیں کہتے اور اللہ حق بات کہنے میں نہیں شرماتا نبیؐ کی بیویوں سے اگر تمہیں کچھ مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگا کرو، یہ تمہارے اور ان کے دلوں کی پاکیزگی کے لیے زیادہ مناسب طریقہ ہے4 تمہارے لیے یہ ہرگز جائز نہیں کہ اللہ کے رسولؐ کو تکلیف دو5، اور نہ یہ جائز ہے کہ ان کے بعد ان کی بیویوں سے نکاح کرو6، یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑا گناہ ہے
6 | یہ تشریح ہے اس ارشاد کی جو آغازِ سُورہ میں گزر چکا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بیویاں اہلِ ایمان کی مائیں ہیں۔ |
5 | یہ الزام ہے اُن الزام تراشیوں کی طرف جو اُس زمانے میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف کی جا رہی تھیں اور کفار و منافقین کے ساتھ بعض ضعیف الایمان مسلمان بھی ان میں حصہ لینے لگے تھے۔ |
4 | یہی آیت ہے جس کو آیت حجاب کہا جاتا ہے۔ بخاری میں حضرت انس بن مالکؓ کی روایت ہے کہ حضرت عمرؓ اس آیت کے نزول سے پہلے متعدد مرتبہ حضورؐ سے عرض کر چکے تھے کہ یا رسول اللہ، آپؐ کے ہاں بھلے اور بُرے سب ہی قسم کے لوگ آتے ہیں۔ کاش آپ اپنی ازواج مطہرات کو پردہ کرنے کا حکم دے دیتے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمرؓ نے ازواج رسولؐ سے کہا کہ ’’اگر آپ کے حق میں میری بات مانی جائے تو کبھی میری نگاہیں آپ کو نہ دیکھیں۔‘‘لیکن حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم چونکہ قانون سازی میں خود مختار نہ تھے، اس لیے آپ اشارۂ الٰہی کے منتظر رہے۔ آخر یہ حکم آگیا کہ محرم مردوں کے سوا (جیسا کہ آگے آیت ۵۵ میں آ رہا ہے) کوئی مرد حضورؐ کے گھر میں نہ آئے، اور جس کو بھی خواتین سے کوئی کام ہو وہ پردے کے پیچھے سے بات کرے۔ اِس حکم کے بعد ازواج مطہرات کے گھروں میں دروازوں پر پردے لٹکا دیے گئے، اور چوں کہ حضورؐ کا گھر تمام مسلمانوں کے لیے نمونے کا گھر تھا، اس لیے تمام مسلمانوں کے گھروں پر بھی پردے لٹک گئے۔ آیت کا آخری فقرہ خود اس بات کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ جو لوگ بھی مردوں اور عورتوں کے دِل پاک رکھنا چاہیں انہیں یہ طریقہ اختیار کرنا چاہئے۔ اب جس شخص کو بھی خدا نے بینائی عطا کی ہے وہ خود دیکھ سکتا ہے کہ جو کتاب مردوں کو عورتوں سے رُو در رُو بات کرنے سے روکتی ہے، اور پردے کے پیچھے سے بات کرنے کی مصلحت یہ بتاتی ہے کہ ’’تمہارے اور ان کے دلوں کی پاکیزگی کے لیے یہ طریقہ زیادہ مناسب ہے‘‘ اُس میں سے آخر یہ نرالی روح کیسے کشید کی جا سکتی ہے کہ مخلوط مجالس اور مخلوط تعلیم اور جمہوری ادارات اور دفاتر میں مردوں اور عورتوں کا بے تکلف میل جول بالکل جائز ہے اور اس سے دِلوں کی پاکیزگی میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کسی کو قرآن کی پیروی نہ کرنی ہو تو اس کے لیے زیادہ معقول طریقہ یہ ہے کہ وہ خلاف ورزی کرے اور صاف صاف کہے کہ میں اس کی پیروی نہیں کرنا چاہتا۔ لیکن یہ تو بڑی ہی ذلیل حرکت ہے کہ وہ قرآن کے صریح احکام کی خلاف ورزی بھی کرے اور پھر ڈھٹائی کے ساتھ یہ بھی کہے کہ یہ اسلام کی ’’روح‘‘ ہے جو میں نے نکال لی ہے۔ آخر وہ اسلام کی کونسی روح ہے جو قرآن و سُنت کے باہر کسی جگہ ان لوگوں کو مِل جاتی ہے؟ |
3 | یہ ایک اور بیہودہ عادت کی اصلاح ہے۔ بعض لوگ کھانے کی دعوت میں بلائے جاتے ہیں تو کھانے سے فارغ ہو جانے کے بعد دھرنا مار کر بیٹھ جاتے ہیں اور آپس میں گفتگو کا ایسا سلسلہ چھیڑ دیتے ہیں جو کسی طرح ختم ہونے میں نہیں آتا۔ انہیں اس بات کی پروا نہیں ہوتی کہ صاحبِ خانہ اور گھر کے لوگوں کو اس سے کیا زحمت ہوتی ہے۔ ناشائستہ لوگ اپنی اس عادت سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو بھی تنگ کرتے رہتے تھے اور آپؐ اپنے اخلاقِ کریمانہ کی وجہ سے اس کو برداشت کرتے تھے۔ آخر کار حضرت زینبؓ کے ولیمے کے روز یہ حرکت اذیّت رسانی کی حد سے گزر گئی۔ حضورؐ کے خادمِ خاص حضرت انس بن مالکؓ کی روایت ہے کہ رات کے وقت ولیمے کی دعوت تھی۔ عام لوگ تو کھانے سے فارغ ہو کر رخصت ہو گئے، مگر دو تین حضرات بیٹھ کر باتیں کرنے میں لگ گئے۔ تنگ آ کر حضورؐ اُٹھے اور ازواج مطہرات کے ہاں ایک چکر لگایا۔ واپس تشریف لائے تو دیکھا کہ وہ حضرات بیٹھے ہوئے ہیں۔ آپؐ پھر پلٹ گئے اور حضرت عائشہ ؓ کے حجرے میں جا بیٹھے۔ اچھی خاصی رات گزر جانے پر جب آپ کو معلوم ہوا کہ وہ چلے گئے ہیں تب آپؐ حضرت زینب ؓ کے مکان میں تشریف لائے۔ اس کے بعد ناگزیر ہو گیا کہ اللہ تعالٰی خود ان بُری عادات پر لوگوں کو متنبہ فرمائے۔ حضرت انس ؓ کی روایت کے مطابق یہ آیات اسی موقع پر نازل ہوئی تھیں۔(مسلم۔ نَسائی۔ ابنِ جریر)۔ |
2 | یہ اس سلسلے کا دوسرا حکم ہے۔ جو غیر مہذب عادات اہلِ عرب میں پھیلی ہوئی تھیں اُن میں سے ایک یہ بھی تھی کہ کسی دوست یا ملاقاتی کے گھر کھانے کا وقت تاک کر پہنچ جاتے۔ یا اس کے گھر آ کر بیٹھے رہتے یہاں تک کہ کھانے کا وقت ہو جائے۔ اس حرکت کی وجہ سے صاحب خانہ اکثر عجیب مشکل میں پڑ جاتا تھا۔ منہ پھوڑ کر کہے کہ میرے کھانے کا وقت ہے، آپ تشریف لے جایئے، تو بے مروّتی ہے۔ کھلائے تو آخر اچانک آئے ہوئے کتنے آدمیوں کو کھلائے۔ ہر وقت ہر آدمی کے بس میں یہ نہیں ہوتا کہ جب جتنے آدمی بھی اس کے ہاں آجائیں، ان کے کھانے کا انتظام فوراً کر لے۔ اللہ تعالٰی نے اس بیہودہ عادت سے منع فرمایا اور حکم دے دیا کہ کسی شخص کے گھر کھانے کے لیے اُس وقت جانا چاہیے جب کہ گھر والا کھانے کی دعوت دے۔ یہ حکم صرف نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے گھر کے لیے خاص نہ تھا بلکہ اُس نمونے کے گھر میں یہ قواعد اسی لیے جاری کیے گئے تھے کہ وہ مسلمانوں کے ہاں عام تہذیب کے ضابطے بن جائیں۔ |
1 | یہ اُس حکم عام کی تمہید ہے جو تقریباً ایک سال کے بعد سُورۂ نور کی آیت ۲۷ میں دیا گیا۔ قدیم زمانے میں اہل عرب بے تکلف ایک دوسرے کے گھروں میں چلے جاتے تھے۔ کسی شخص کو کسی دوسرے شخص سے ملنا ہوتا تو وہ دروازے پر کھڑے ہو کر پکارنے اور اجازت لے کر اندر جانے کا پابند نہ تھا۔ بلکہ اندر جا کر عورتوں اور بچوں سے پوچھ لیتا تھا کہ صاحبِ خانہ گھر میں ہے یا نہیں۔ یہ جاہلانہ طریقہ بہت سی خرابیوں کا موجب تھا۔ اور بسا اوقات اس سے بہت گھناؤنے اخلاقی مفاسد کا بھی آغاز ہو جاتا تھا۔ اس لیے پہلے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے گھروں میں یہ قاعدہ مقرر کیا گیا کہ کوئی شخص، خواہ وہ قریبی دوست یا دور پرے کا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو، آپؐ کے گھروں میں اجازت کے بغیر داخل نہ ہو۔ پھر سُورۂ نور میں اس قاعدے کو تمام مسلمانوں کے گھروں میں رائج کرنے کا عام حکم دیدیا گیا۔ |