Ayats Found (1)
Surah 24 : Ayat 59
وَإِذَا بَلَغَ ٱلْأَطْفَـٰلُ مِنكُمُ ٱلْحُلُمَ فَلْيَسْتَــْٔذِنُواْ كَمَا ٱسْتَــْٔذَنَ ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْۚ كَذَٲلِكَ يُبَيِّنُ ٱللَّهُ لَكُمْ ءَايَـٰتِهِۦۗ وَٱللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
اور جب تمہارے بچے عقل کی حد کو پہنچ جائیں1 تو چاہے کہ اُسی طرح اجازت لیکر آیا کریں جس طرح اُن کے بڑے اجازت لیتے رہے ہیں اِس طرح اللہ اپنی آیات تمہارے سامنے کھولتا ہے، اور وہ علیم و حکیم ہے
1 | یعنی بالغ ہو جائیں۔ جیسا کہ اوپر حاشیہ نمبر 87 میں بیان کیا جا چکا ہے لڑکوں کے معاملے میں احتلام اور لڑکیوں کے معاملے میں ایام ماہواری کا آغاز علامت بلوغ ہے۔ لیکن جو لڑکے اور لڑکیاں کسی وجہ سے دیر تک ان جسمانی تغیرات سے خالی رہ جائی ان کے معاملہ میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ امام شافعی ، امام باویوسف ، امام محمد، اور امام احمد کے نزدیک اس صورت میں 15 برس کے لڑکے اور لڑکی کو بالغ سمجھا جاۓ گا، اور امام ابو حنیفہ کا بھی ایک قول اس کی تائید میں ہے۔ لیکن امام اعظم کا مشہور قول یہ ہے کہ اس صورت میں 17 برس کی لڑکی اور 18 برس کے لڑکے کو بالغ قرار دیا جاۓ گا۔ یہ دونوں قول کسی نص پر نہیں بلیہ فقیہانہ اجتہاد پر مبنی ہیں ، لہٰذا ضروری نہیں ہے کہ تمام دنیا میں ہمیشہ 15 یا 18 برس کی عمر ہی کو غیر محتلم لڑکوں اور غیر حائضہ لڑکیوں کے معاملے میں حد بلوغ مانا جاۓ۔ دنیا کے مختلف ملکوں میں ، اور مختلف زمانوں میں جسمانی نشو نما کے حالات مختلف ہوا کرتے ہیں۔ اصل چیز یہ ہے کہ عموماً کسی ملک میں جن عمروں کے لڑکوں اور لڑکیوں کو احتلام اور ایام ماہواری ہونے شروع ہوتے ہوں ان کا اوسط فرق نکال لیا جاۓ ، اور پھر جن لڑکوں اور لڑکیوں میں کسی غیر معمولی وجہ سے یہ علامات اپنے مُعتاد وقت پر نہ ظاہر ہوں ان کے لیے زیادہ سے زیادہ معتاد عمر پر اس اوسط کا اضافہ کر کے اسے بلوغ کی عمر قرار دے دیا جاۓ۔ مثلاً کسی ملک میں بالعموم کم سے کم 12 اور زیادہ سے زیادہ 15 برس کے لڑکے کو احتلام ہوا کرتا ہو، تو اوسط فرق ڈیڑھ سال ہو گا، اور غیر معمولی قسم کے لڑکوں کے یے ہم ساڑھے سولہ برس کی عمر کو سن بلوغ قرار دے سکیں گے۔ اسی قاعدے پر مختلف ممالک کے اہل قانون اپنے ہاں کے حالات کا لحاظ کرتے ہوۓ ایک حد مقرر کر سکتے ہیں۔ 15 برس کی حد کے حق میں ایک حدیث پیش کی جاتی ہے ، اور وہ ابن عمر کی یہ روایت ہے کہ میں 14 سال کا تھا جب غزوۂ خندق کے موقع پر ، جبکہ میں 15 سال کا تھا ، مجھے دوبارہ پیش کیا گیا اور آپ نے مجھ کو اجازت دے دی (صحاح ستہ و مسند احمد)۔ لیکن یہ روایت دو وجوہ سے قابل استدلال نہیں ہے۔ اول یہ کہ غزوہ قحد شوال 3 ھ کا واقعہ ہے اور غزوہ خندق بقول محمد بن اسحاق شوال 5 ھ میں اور بقول ابن سعد ذی اسعدہ 5 میں پیش آیا۔ دونوں واقعات کے درمیان پورے دو سال یا اس سے زیادہ کا فرق ہے۔ اب اگر غزوہ احد کے زمانے میں ابن عمر 14 سال کے تھے تو کس طرح ممکن ہے کہ غزوہ خندق کے زمانے میں وہ صرف 15 سال کے ہوں ؟ ہو سکتا ہے کہ انہوں نے 12 سال 11 مہینے کی عمر کو 14 سال، اور 15 برس 11 مہینے کی عمر کا 15 سال کہ ہ دیا ہو۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ لڑائی کے لیے بالغ ہونا اور چیز ہے اور معاشرتی معاملات میں قانوناً نا بالغ ہونا اور چیز۔ ان دونوں میں کوئی لازمی تعلق نہیں ہے کہ ایک کو دوسرے کے لیے دلیل بنایا جا سکتے۔ لہٰذا صحیح یہ ہے کہ غیر محتلم لڑکے کے لیے 15 برس کی عمر مقرر کرنا ایک قیاسی و اجتہادی حکم ہے ، کوئی منصوص حکم نہیں ہے |